سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور قرآن
علی محمد الصلابیسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور قرآن
جس تربیتی منہج پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تربیت پائی وہ رب العالمین کی جانب سے نازل شدہ قرآن کریم تھا۔ یہی تعلیم و تربیت کا واحد مصدر تھا اسی لیے رسول اللہﷺ نے جہاں ایک طرف مصدر تعلیم و تربیت کی توحید و تفرید کا اہتمام فرمایا وہیں دوسری طرف اس بات کا اہتمام فرمایا کہ قرآن کریم ہی وہ منہج ہو جس پر مسلم فرد و خاندان اور جماعت کی تربیت ہو۔ چنانچہ وہ آیات کریمہ جنہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے سنا اس کا آپؓ کی شخصیت سازی اور آپؓ کے قلب و نفس کی تطہیر و تزکیہ میں اثر رہا، آپؓ کی روح اس کے ساتھ اس طرح گھل مل گئی کہ آپؓ شعور و اہداف اور سلوک و افکار میں ایک جدید انسان بن کر اٹھے۔
(السیرۃ النبویۃ، الصلابی: جلد، 1 صفحہ، 145)
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کیا۔ چنانچہ سیدنا ابو عبدالرحمٰن السلمیؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح رسول اللہﷺ سے قرآن سیکھا تھا۔ آپؓ کے ایسے اقوال ہیں جو قرآن کے ساتھ والہانہ محبت پر دلالت کرتے ہیں۔ سیدنا ابوعبدالرحمٰن السلمیؓ سے روایت ہے: ہمیں جو لوگ قرآن پڑھاتے تھے جیسے سیدنا عثمان بن عفان اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما وغیرہم یہ حضرات جب رسول اللہﷺ سے دس آیات سیکھ لیتے تو اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک ان میں جو علم و عمل ہے اس کو سیکھ نہ لیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے قرآن اور علم و عمل سب ایک ساتھ سیکھا ہے اسی لیے سورت کو حفظ کرنے میں ایک مدت لگ جاتی تھی۔ (الفتاویٰ: جلد، 13 صفحہ، 177)
اور یہ طرزِ عمل اس لیے اختیار کیا گیا تھا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (سورة ص: آیت 29)
ترجمہ: ’’یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لیے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیات پر غور و فکر کریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے آپﷺ کا یہ ارشاد روایت کیا ہے:
خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ
(صحیح البخاری: فضائل القرآن: صفحہ، 5027)
ترجمہ: ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور قرآن سکھائیں۔‘‘
آپؓ نے قرآن کریم کو مکمل رسول اللہﷺ سے پڑھا، آپؓ کے مشہور تلامذہ میں سے سیدنا ابو عبدالرحمٰن السلمی، مغیرہ بن ابی شہاب، ابوالاسود، زر بن حبیش ہیں۔
(تاریخ الاسلام، عہدِ الخلفاء الراشدین، الذہبی: صفحہ، 467)
تاریخ نے قرآن کریم سے متعلق سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعض اقوال کو محفوظ کر رکھا ہے، مثال کے طور پر آپؓ فرماتے ہیں:
اگر ہمارے دل پاک ہوں تو اللہ کے کلام سے آسودہ نہیں ہو سکتے۔
(الفتاوی: جلد، 11 صفحہ، 122 البدایۃ والنہایۃ: جلد، 7 صفحہ، 225)
یقیناً میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی یوں ہی دن گزر جائے اور میں قرآن کریم کو نہ دیکھوں۔
(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 7 صفحہ، 225 فرائد الکلام: صفحہ، 275)
مجھے دنیا کی تین چیزیں محبوب ہیں: بھوکوں کو آسودہ کرنا، ننگوں کو کپڑے پہنانا اور قرآن کی تلاوت کرنا۔
(ارشاد العباد الاستعداد لیوم المعاد: صفحہ، 88)
چہار چیزیں ظاہر میں فضیلت ہیں لیکن باطن میں فریضہ ہیں۔ صالحین کی صحبت فضیلت ہے اور ان کی اقتداء فریضہ ہے۔ تلاوتِ قرآن فضیلت ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا فریضہ ہے۔ زیارتِ قبر فضیلت ہے اور موت کی تیاری فریضہ ہے۔ مریض کی عیادت فضیلت ہے اور اس سے نصیحت حاصل کرنا فریضہ ہے۔
(ارشاد العباد للإستعاد لیوم المعاد: صفحہ، 90 فرائد الکلام: صفحہ، 278)
سب سے زیادہ ضائع ہونے والی دس چیزیں ہیں:
1: عالم جس سے سوال نہ کیا جائے۔
2: علم جس پر علم نہ کیا جائے۔
3: صحیح رائے جسے قبول نہ کیا جائے۔
4: اسلحہ جسے استعمال نہ کیا جائے۔
5: مسجد جس میں نماز نہ ادا کی جائے۔
6: مصحف جس کو پڑھا نہ جائے۔
7: مال جس میں سے خرچ نہ کیا جائے۔
8: گھوڑا جس پر سواری نہ کی جائے۔
9: زہد کا علم اس شخص کے اندر جو دنیا دار ہو۔
10: طویل عمر جس میں انسان سفر آخرت کی تیاری نہ کرے۔
(ارشاد العباد للإستعداد لیوم المعاد: صفحہ، 91 فرائد الکلام: صفحہ، 778)
آپؓ قرآن کے حافظ تھے، آپؓ کی گود قرآن سے خالی نہیں رہتی تھی، اس سلسلہ میں آپؓ سے دریافت کیا گیا تو فرمایا یہ بابرکت کتاب ہے اور بابرکت ذات کی طرف سے آئی ہے۔
(البیان والتبیان فی مقتل الشہید عثمان: جلد، 3 صفحہ، 177 فرائد الکلام: صفحہ، 273)
کثرتِ تلاوت سے آپؓ کا مصحف آپ کی وفات سے قبل پھٹ چکا تھا۔ اور آپ کی زوجہ محترمہ نے محاصرہ کے دن بلوائیوں سے کہا تھا: خواہ انہیں قتل کر دو یا چھوڑ دو اللہ کی قسم یہ تورات کو ایک رکعت میں قرآن کے ذریعہ سے زندہ کرتے ہیں۔ (البدایۃ والنہایۃ: جلد، 7 صفحہ، 225)
یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایک رات ایک رکعت میں قرآن پڑھ لیا اور رکعتیں نہ پڑھیں۔
(الخلافۃ الراشدۃ والدولۃ الامویۃ: صفحہ، 397 ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھنے کے سلسلہ میں جو روایات بیان کی جاتی ہیں وہ غلو سے خالی نہیں ہیں۔ ایسی روایات صحیح نہیں ہیں، اور پھر رسول اللہﷺ نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے سے منع فرمایا لہٰذا سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی امرِ رسولﷺ کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ (مترجم)
آپؓ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد صادق آتا ہے:
أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (سورة الزمر: آیت، 9)
ترجمہ: ’’بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں؟) بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل مند ہوں (اپنے رب کی طرف سے)۔‘‘
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کو اپنے اندر جذب کر لیا تھا، اور رسول اللہﷺ کی شاگردی اختیار کر کے قرآن کریم سے یہ معرفت حاصل کر لی تھی کہ الٰہ واحد کون ہے جس کی عبادت ضروری ہے۔ اور نبی کریمﷺ نے ان کے نفس میں ان عظیم آیات کے معانی کو جاگزیں کر دیا تھا۔ نبی کریمﷺ اس بات کے انتہائی حریص تھے کہ خالق کائنات اور اس کے حقوق کے صحیح تصور پر اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تربیت کریں۔ اور آپ کو یہ بخوبی معلوم تھا کہ یہ تصور، جس وقت نفوس پاک ہوں گے اور فطرت سیدھی ہو گی تصدیق و یقین پیدا کرے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ، کائنات، جنت و جہنم، قضاء و قدر، انسان کی حقیقت اور شیطان کے ساتھ انسان کی جنگ سے متعلق سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا نظریہ قرآن و سنت سے ماخوذ تھا۔
اللہ تعالیٰ ہر طرح کے نقائص و عیوب سے منزہ ہے، اور لامتناہی کمالات سے موصوف ہے، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور نہ اس کے بیوی اور بچے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے توعبد اور عبودیت کے مضمون کو اچھی طرح قرآن میں بیان کر دیا ہے۔
(منہج الرسول فی غرس الروح الجہادیۃ: جلد، 10 صفحہ، 16)
اور کائنات سے متعلق آپ کا نظریہ ان ارشادات الٰہیہ سے ماخوذ تھا:
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (9) وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِی أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (10) ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (11) فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِی كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (12) (سورة حٰم السجدہ: آیت، 9۔ 12)
ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجیے کہ کیا تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کر دی سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔ اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اور اس میں برکت رکھ دی، اور اس میں (رہنے والوں کی) غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی (صرف) چار دن میں ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے، دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں، پس دو دن میں سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی۔ یہ تدبیر اللہ غالب اور دانا کی ہے۔‘‘
یہ زندگی کتنی ہی طویل ہو زوال پذیر ہے اور اس کا ساز و سامان کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو قلیل اور حقیر ہے۔
ارشاد الہٰی ہے:
إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّى إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (سورة یونس:آءت، 24)
ترجمہ: ’’پس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں خوب گنجان ہو کر نکلی، یہاں تک کہ جب وہ زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہو گئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہو چکے تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آ پڑا سو ہم نے اس کو ایسا صاف کر دیا کہ گویا کل وہ موجود ہی نہ تھی ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں۔‘‘
اور جنت سے متعلق آپ کا نظریہ آیات قرآنیہ سے مستفاد تھا۔ یہی تصور شریعتِ الٰہی سے انحراف کو روکنے کا سبب بنا، چنانچہ سیرتِ عثمانی کا مطالعہ کرنے والے کو آپ کی سیرت میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی کے فہم میں گہرا استیعاب اور عذابِ الٰہی کا شدید خوف نمایاں نظر آئے گا۔ آئندہ صفحات میں ان شاء اللہ یہ تفصیلات ہم ملاحظہ کریں گے۔قضاء و قدر کے مفہوم کو کتاب اللہ اور تعلیمِ نبوی سے حاصل کیا تھا آپ کے دل میں قضاء و قدر کا مفہوم راسخ ہو چکا تھا اور کتاب میں اس کے مراتب کا استیعاب کر رکھا تھا۔ انہیں اس بات کا پختہ یقین تھا کہ اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔
ارشاد الہٰی ہے:
وَمَا تَكُونُ فِی شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِی كِتَابٍ مُبِينٍ (سورة یونس: آیت، 61)
ترجمہ: ’’اور آپ کسی حال میں ہوں اور من جملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو۔ اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں، نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہر ہونے والی چیز کو لکھ رکھا ہے۔ ارشاد الہٰی ہے:
إِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَیْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِی إِمَامٍ مُبِينٍ (سورة یٰس: آیت، 12)
ترجمہ: ’’بے شک ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے۔‘‘
اللہ کی مشیت نافذ ہو کر رہتی ہے اور اس کی قدرت نام ہے۔
ارشاد الہٰی ہے:
أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِی الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَیْءٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا (سورة فاطر: آیت، 44)
ترجمہ: ’’اور کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں جس میں دیکھتے بھالتے کہ جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کا انجام کیا ہوا؟ حالاں کہ وہ قوت میں ان سے بڑھے ہوئے تھے اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کو عاجز کر دے، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، وہ بڑے علم والا بڑی قدرت والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔ ارشاد الہٰی ہے:
ذَلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ وَكِيلٌ (سورة الانعام: آیت، 102)
ترجمہ: ’’یہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارا رب، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، تو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز کا کارساز ہے۔‘‘
حقیقت میں قضاء و قدر کے فہم صحیح اور اعتقاد راسخ کے نافع اور مفید ثمرات آپؓ کی زندگی میں ظاہر ہوئے جس کا ہم اس کتاب میں مشاہدہ کریں گے۔
قرآن کریم کی روشنی میں آپ نے اپنی اور بنی نوع انسان کی حقیقت کو اچھی طرح پہچان لیا اور یہ حقیقت آشکارا ہو گئی کہ انسان کی تخلیق کی حقیقت دو اصلوں سے وابستہ ہے: ایک اصل بعید یعنی مٹی سے پہلی پیدائش جس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کا ناک و نقشہ درست کیا، اور اس میں روح پھونکی اور دوسری اصل: نطفے سے انسان کی تخلیق۔ارشاد الہٰی ہے:
الَّذِی أَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ (سورة السجدہ: آیت، 7۔ 9)
ترجمہ: ’’جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی۔ جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی اسی نے تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو۔‘‘
آپؓ کو یہ معرفت اچھی طرح حاصل تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور اچھی شکل و صورت اور معتدل قامت سے اسے شرف بخشا، عقل، گویائی اور تمیز عطا فرمائی، اور زمین و آسمان کی تمام اشیاء کو اس کے لیے مسخر کیا، اور بہت سی مخلوقات پر اس کو فضیلت بخشی اور رسولوں کو بھیج کر اسے شرف بخشا۔ اور انسان کی تکریم الٰہی کا حسین ترین مظہر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی محبت و رضا کا اہل قرار دیا اور یہ نبی کریمﷺ کی اتباع سے حاصل ہو گا جس نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تاکہ دنیا میں بہترین زندگی گزاریں اور آخرت کی نعمتوں سے ہمکنار ہوں۔
ارشاد الہٰی ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (سورة النحل: آیت، 97)
ترجمہ: ’’جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔‘‘
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کی روشنی میں انسان و شیطان کے مابین جنگ کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ یہ دشمن انسان کے پاس آگے پیچھے دائیں بائیں ہر چہار جانب سے آتا ہے، اور معصیت کے وسوسے پیدا کرتا ہے، اور اس کے اندر پوشیدہ شہوتوں کو برانگیختہ کرتا ہے۔ اس لیے آپ نے اپنے دشمن ابلیس کے خلاف اللہ رب العزت سے مدد طلب کی اور اپنی زندگی میں اس پر غالب رہے اور قرآن کریم میں مذکور حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے قصہ سے یہ سیکھا کہ حضرت آدم علیہ السلام بشریت کی اصل ہیں اور اسلام کا جوہر اللہ کی اطاعت مطلقہ ہے اور انسانی طبیعت میں گناہ کے وقوع کی صلاحیت ہے۔ اسی طرح آپؓ نے حضرت آدم علیہ السلام کی غلطی سے یہ سیکھا کہ انسان کے لیے اللہ پر توکل کی ضرورت ہے اور مومن کی زندگی میں توبہ و استغفار کی بڑی اہمیت ہے، حسد و کبر سے احتراز کی ضرورت، صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ اچھے طرزِ تخاطب کی اہمیت کو سیکھا۔
ارشاد الہٰی ہے:
وَقُلْ لِعِبَادِی يَقُولُوا الَّتِی هِیَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا (53) (سورة الاسراء: آیت، 53)
ترجمہ: ’’اور میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں کیوں کہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اسلام سے مکرم کیا تو آپؓ نے اس کے مطابق زندگی گزاری اور اس کی نشر و اشاعت کے لیے جہاد کیا، کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہﷺ سے اس کے اصول و فروع اخذ کیے۔ اور ان ائمہ ہدیٰ میں سے قرار پائے جو لوگوں کے لیے راستہ متعین کرتے ہیں اور لوگ اس زندگی میں ان کے اقوال و افعال کو نمونہ بناتے ہیں مزید ہم نہیں بھول سکتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
(السیاسۃ المالیۃ لعثمان: صفحہ، 22 التبیین فی انساب القرشیین: صفحہ، 94)