آیت استخلاف اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ قسط 1
علامہ علی شیر رحمانیآیت استخلاف اور سیدنا علیؓ قسط 1
بسم الله الرحمن الرحيم
قد افلح سورہ النور : آیت 55
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۵﴾
ترجمہ! اللہ تعالی نے (ازل میں ہی) وعدہ کیا ہے کہ تم میں سے جو ایمان لائے ہیں اور عمل صالح کیے ہیں تو ضرور بالضرور انکو زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے (کمزور جماعت) والوں کو خلافت دی تھی اور ضرور بالضرور ان کے دین ( عقائد و اعمال) جو ان کے لیے پسند فرمائے مضبوط بنائے گا اور ضرور بالضرور ان کے خوف کو (جو نزول آیت کے وقت تھا) امن میں تبدیل کرے گا۔ وہ اس وقت ( بھی) میری ہی عبادت کریں گے اور کسی کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو اس (موعود من اللہ ) خلافت کے بعد ناشکری (خلافت کی ناقدری ) کریں گے وہی نافرمان ہیں۔(سورة النور آیت ۵۵)
نوٹ! اس آیت کریمہ کا شان نزول یہ بتایا گیا ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اس وقت ہر طرف سے ہمارے دشمن ، جماعت صحابہ کو ختم کرنے کی سوچ میں ہیں، حتی کہ ہم نماز پڑھنے کے وقت بھی دشمن کے خوف سے پہریدار مقرر کرتے ہیں۔ آیا یہ خوف کبھی ختم بھی ہو گا یا نہیں؟ تو اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی جس میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے ایمان لانے والے اور اعمال صالح کرنے والوں کو زمین میں خلیفہ بنانے کا اللہ تعالی نے ازل سے ہی وعدہ کر رکھا ہے کہ اللہ تعالی تم میں سے ضرور بالضرور خلیفہ بنائے گا اور اپنی غیبی مدد سے ان خلفاء کے ذریعے ان کے دین کو قوت عطا فرمائے گا اور نزول آیت کے وقت کافروں کی دشمنی کی وجہ سے جو خوف موجود ہے اس کو امن سے بدل دے گا اور وہ خلفاء میری ہی عبادت کا رواج ڈالیں گے اور کسی قسم کا بھی میرے ساتھ شریک بنانے کو برداشت نہیں کریں گے۔
(تفسیر نمونه مترجم اردو، ج ۸، ص ۲۹۰۔ تفسیر مجمع البیان ، ج ۷، ص ۱۵۲۔)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے کسی کا نام لئے بغیر خلیفہ کے اوصاف اور خلافت کی نشانیاں اور اس کا نتیجہ بتایا اور خلیفہ کی دو وصف بیان فرمائی ہیں۔
(۱) ایمان
(۲) عمل صالح
اور خلافت کی نشانیوں میں ایک نشانی ان کے ساتھ اللہ تعالی کی غیبی مد د کا شامل ہونا، دوسری نشانی اس غیبی مدد کی وجہ سے ان خلفاء کے دین کا اللہ تعالی کو پسند ہونا اور اس پسندیدہ دین کا مضبوط ہونا اور تیسری نشانی نزول آیت کے وقت جو کفار کا خوف تھا اس کا ختم ہونا اور اس کے بدلے میں امن کا قائم ہونا اور نتیجے میں خالص اللہ تعالی کی ہی عبادت کا رائج ہونا اور ان کی خلافت کی حدود میں کسی بھی قسم کے شرک کا ظاہری طور پر ختم ہونا بتایا گیا ہے۔
اس آیت کریمہ کو سامنے رکھ کر امت مسلمہ نے خلفاء راشدین یعنی حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان ذوالنورینؓ اور حضرت علی المرتضی رضوان اللہ علیھم اجمعین کی خلافت کو اس کا مصداق سمجھا ہے اور اللہ تعالی کے کیئے ہوئے وعدے کو ان حضرات کی خلافت کے متعلق پورا ہونے کا اعتقاد رکھا ہے اور ان ہی حضرات کی خلافت کو خلافت راشدہ اور موعود من اللہ خلافت تسلیم کیا ہے اور یہی حقیقت حضرت علی المرتضیؓ کے اس خطبے سے بھی معلوم ہوتی ہے جو آپ نے حضرت عمر بن الخطابؓ کو مشورہ کے طور پر کہا تھا جو شیعہ مذہب کی مشہور کتاب ’’نہج البلاغہ“ میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔
"ان هذ الامرلم يكن نصره ها ولا خذلانه بكثرة ولاقلة و هو دين الله الذي اظهره و جنده الذي اعده و امده حتى بلغ ما بلغ و طلع حيث ما طلع و نحن على موعود من اللہ واللہ منجز وعده و ناصر جنده”
حضرت علی المرتضیؓ نے حضرت عمر فاروق ؓ کو جنگ (ایران) کے موقع پر تسلی دیتے ہوۓ مشورہ دیا کہ اس امر (جنگ) میں کامیابی و ناکامی کا دارومدار فوج کی کمی اور زیادتی پر نہیں ہے۔ یہ ( آپ کا منشور ) تو اللہ تعالی کا دین ہے جسے اس نے تمام ادیان پر غالب کیا ہے اور (یہ آپ کا لشکر تو) اس اللہ کا لشکر ہے جسے اس نے خود تیار کیا ہے اور اس کی ( آپ کی اور آپ کے لشکر کی اس نے ایسی نصرت کی ہے کہ وہ بڑھکر وہاں تک پہنچا جہاں تک پہنچ گیا ہے اور وہاں تک پھیلا جہاں تک پھیل گیا ہے اور ہم اللہ کے وعدہ پر ہیں (حضرت علی المرتضیٰ ؓ کا اشارہ آیت استخلاف کی طرف ہے جس میں مؤمنین کو خلافت دینا اور غیبی مدد سے خلافت کو مضبوط کرنا اور کفار کا خوف ختم ہونا اور ایمان والوں کو ہر طرح کا امن ہونا اور دین کا غالب ہونا اور دین والوں کا سرخرو ہونا مذکور ہے اور اللہ اپنا وعدہ ضرور ضرور پورا کرنے والا ہے اور وہ ہی اپنے لشکر (یعنی آپ کا اور آپ کی جماعت ) کا مددگار ہے۔
(نہج البلاغه عربی اردوترجمہ، علامه مر زا یوسف حسین لکھنوی، خطبه نمبر ۱۴۶، صفحه ۴۵۰، ناشر : شیعہ جنرل بک ایجنسی انصاف پریس لاہور)
مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ فاروق اعظم کی خلافت وہ ہے جسکا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وعدہ کیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی المرتضی کی نظر میں حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت موعود من اللہ تھی جس کے بارے میں حضرت حیدر کرارؓ فرمارہے ہیں
” نحن على موعود من اللہ واللہ منجزوعدہ‘‘
یعنی ہم اللہ کے وعدہ پر ہیں اور ہم سے جو اللہ کا وعدہ ہے تو اللہ اپنے وعدے کو ضرور پورا فرمائے گا اور حضرت عمر فاروقؓ اور ان کی پوری رعایا حضرت علیؓ کی نظر میں اللہ تعالی کا لشکر تھا اس لئے فرما رہے ہیں
’’ناصر جندہ‘‘
یعنی اللہ تعالی اپنے لشکر کی مدد فرمائے گا
اور حضرت علی المرتضیؓ کا یہ ارشاد اسی ہی آیت کریمہ یعنی آیت استخلاف کی طرف مشیر (اشارہ) ہے کیونکہ اس میں ہی خلافت دینے کا وعدہ ہے اور ان خلفاء کی مدد کر کے ان کی حکومت کو مضبوط بنانے اور خوف کو امن میں تبدیل کرنے کا ذکر ہے۔
اعتراض:
خلفاء راشدین کے مخالفین کی طرف سے عموماً ایک فضول اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی کی طرف سے خلیفہ بنانے کا وعدہ ہے جبکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت عثمان ذوالنورینؓ اور حضرت علی المرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ تعالی نے نہیں بلکہ لوگوں نے خلیفہ بنایا تھا۔ اس لیے وہ اس آیت کے مصداق نہیں بن سکتے ۔
جواب:
اس فضول اعتراض کا جواب ہم اپنی طرف سے نہیں دیتے بلکہ شیعہ مذہب کی معتبر ترین کتاب نہج البلاغہ کے صفحہ ۴۵۰ پر خود حضرت علی المرتضیؓ کے مذکورہ خطبے میں موجود ہے کہ حضرت فاروق اعظمؓ کا سپاہ اللہ کا لشکر ہے اور یہ خلافت موعود من اللہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ’’مافوق الاسباب ‘‘ اللہ تعالی کے ارادے اور اس کی مشیت سے اس کے وعدے کے مطابق چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافت قائم ہوئی باقی ’’ماتحت الاسباب ‘‘ان کو لوگوں نے بھی اپنا امام بناکر ان کی قیادت تسلیم کر لی، یہ بھی خود اللہ تعالی کی مشیت سے ہی تھا کہ ان کی مشاورت سے خلیفہ مقرر ہونے کی وجہ سے ان کا آپس میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے۔ ہماری اس وضاحت کی تائید اس ”نہج البلاغہ” میں خود علی المرتضیؓ کے مکتوبات میں سے اس مکتوب میں موجود ہے جو انہوں نے حضرت امیر معاویہ کی طرف لکھا تھا:
’’انہ بایعنی القوم الذين بايعوا أبابکر و عمر و عثمان علی ما بایعوهم علیہ ، فلم يكن للشاهد ان يختار ولا للغائب ان يرد، وانما الشوري للمهاجرين و الانصار فان اجتمعوا على رجل و سموه اماماكان ذالك الله رضی‘‘۔
تحقیق میری بیعت ان ہی لوگوں نے کی ہے جن لوگوں نے ابو بکرؓ ، عمرؓ اور عثمانؓ کی بیعت کی تھی اور انہی اصولوں پر کی ہے جن پر ان کی بیعت کی تھی۔ پس نہ تو موجود کو کسی نئے چناؤ کا اختیار ہے اور نہ ہی غیر حاضر کو رد کرنے کا حق ہے اور (ماتحت الاسباب) شوری کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے سو وہ اگر کسی ایک شخص پر متفق ہو جائیں اور اس کو امام تسلیم کریں تو اس کاروائی سے اللہ راضی ہے۔
(نہج البلاغه ، حصہ دوئم ، مکتوبات امیر المومنین، مکتوب نمبر ۶، ص ۹۸۴ ، ناشر : شیعہ جنرل یک ایجنسی انصاف پریس لاہور۔)
اس سے معلوم ہوا مہاجرین و انصار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شوری کے ذریعے سے کسی خلیفے کاماتحت الاسباب مقرر ہونا اللہ تعالی کے راضی ہونے کا سبب ہے اور ویسے بھی مہاجرین و انصار کی تابعداری کرنے والوں سے اللہ تعالی کا راضی ہونا خود قرآن مجید میں بھی موجود ہے:
والسابقون الاولون من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان رضي الله عنهم ... الآية
” ایمان میں سبقت کرنے والے ( فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے اور انفاق فی سبیل اللہ اور جہاد کرنے والے) یعنی مہاجرین اور انصار (صحابہ) اور اخلاص سے ان کی تابعداری کرنے والے ان ( تین جماعتوں) سے اللہ راضی ہے “۔ (سورۃ التوبہ آیت 100)
اللہ تعالی نے نام کسی کا نہیں لیا صرف نشانی بتلائی کہ صحابہ کرام میں سے مہاجرین ہوں یا انصار اور مہاجرین و انصار کے علاوہ اگر کوئی ان کی اخلاص سے اتباع کرنے والا ہوگا تو اللہ تعالی اس سے راضی ہو گا، یقینی بات ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ ؓ کا ارشاد بھی اس بناء پر ہو کہ مہاجرین وانصار کے اتفاق سے جو خلیفہ مقرر ہوا وہ اللہ تعالی کی رضا سے ہی ہوا ہے۔ جس کا واضح طور پر مطلب ہوا کہ ظاہری سبب کے طور پر جس کو مہاجرین و انصار نے خلیفہ بنایا “مافوق الاسباب‘‘ وہی اللہ تعالی کی طرف سے بنایا ہوا خلیفہ ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھنے کے بعد پوری امت مسلمہ خلفائے راشدین کی خلافت کو برحق خلافت اور موعود من اللہ خلافت تسلیم کرتی ہے اور خلفائے راشدین کو خلیفہ بنانے کی صورت میں اللہ تعالی کو اپنا وعدہ پورا کرنے والا سمجھتی ہے اور یہ ہی بات حضرت علیؓ کے خطبہ اور مکتوب سے ناظرین نے ملاحظہ فرمائی اور اگر بالفرض خلافت اس ترتیب سے نہ ہوتی بلکہ کسی اور ترتیب سے ہوتی مثلا حضرت ابو بکر صدیقؓ کے علاوہ پہلا خلیفہ کوئی دوسرا یعنی حضرت علیؓ یا اس کا بھائی حضرت عقیلؓ یا حضرت عمر ؓ یا حضرت عثمانؓ میں سے کوئی بھی ہوتا جب بھی امت مسلمہ کا کوئی طبقہ اس پر اعتراض نہ کرتا کیونکہ اللہ تعالی نے خلیفہ بنانے کا وعدہ کیا تھا اس میں نام کسی کا بھی نہیں لیا تھا آیت کریمہ میں صرف ایمان اور عمل صالح کی شرط تھی یعنی آیت کریمہ کے نزول کے وقت جو مومن صالح تھے وہ سارے حضرات خلافت کے قابل تھے۔ ان میں سے جو خلیفہ ہوا وہ اللہ تعالی کے وعدہ کے مطابق ہوا۔ اسی طرح اللہ تعالی کا وعدہ پورا ہوا۔
فکر شیعت:
جب کہ شیعہ مذہب کے مصنفین کی فکر اس کے بر عکس (خلاف) ہے وہ نہ ہی ماتحت الاسباب مہاجرین و انصار کے بنائے ہوئے خلیفے کو خلیفہ برحق سمجھتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالی کو وعدہ پورا کرنے والا مانتے ہیں ان کی بس ایک ہی رٹ ہے کہ خلافت صرف جناب علی المرتضیؓ کا حق تھا اور ان کے بعد قیامت تک ان کی اولاد میں سے صرف گیارہ حضرات کی خلافت ہوئی تھی ، ان کی سوچ میں اللہ تعالی کا یہی وعدہ تھا جو بقول ان کے بدقسمتی سے پورا نہ ہو سکا جس کی وجہ سے پورا اسلام بگڑ گیا۔ اب اسلام کا پروگرام قابل مسرت نہیں بلکہ قابل افسوس ہے اس پر رونا چاہیے۔ جیسا کہ شیعہ صدر المحقق محمد حسین ڈھکو نے صاف لکھا ہے:
’’فليبك على الاسلام من کان باکیا‘‘
رونے والوں کو اسلام پر رونا چاہیے۔
(تجلیات صداقت بجواب آفتاب ھدایت ج۱ ص۲۰)
اس لیے شیعہ مصنفین نے اپنے مذہب کی بنیاد ہی مسئلہ خلافت (منصوص من اللہ ہے) پر قائم کر کے پوری امت مسلمہ سے علیحدگی اختیار کی ہے ، انہوں نے کہا کہ خلیفہ منصوص من اللہ ہو گا اور لوگوں کو خلیفہ بنانے میں کوئی دخل نہیں ہو گا اور اپنے مذہب کے اس بنیادی مسئلے کو ثابت کرنے کے لیے ہر دور اور ہر ملک کے بڑے بڑے علماء نے بہت ساری کتابیں تصنیف کی ہیں اور یہ ان پر حق بھی تھا کہ اپنے مذہب کے بنیادی مسئلے کو مضبوط بنائیں لیکن جتنا زیادہ لکھا اتنا زیادہ الجھے ، جتنی ہی زیادہ دلیلیں پیش کر نے کی کوشش کی اتنا ہی یہ مسئلہ زیادہ تر تضاد کا شکار ہوتا گیا۔ ظاہر ہے کہ کسی جھوٹے مقدمے کو کتنا ہی مضبوط بنانے کی کوشش کی جائے تو بجائے مضبوط ہونے کے کمزور ہی ہوتا چلا جاتا ہے، لہذا یہی صورت حال شیعہ مذہب میں مسئلہ خلافت کی ہے، ہم نے جب اس پر کچھ غور کیا تو ہمیں کچھ یوں نظر آیا کہ شیعہ مجتہدین نے مسئلہ خلافت کو ثابت کرنے کے لئے جو جو دلائل پیش کیے ہیں وہ بجائے ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کے، اس مسئلے کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔
خلافت کے متعلق ہمارے سامنے شیعت کے پیش کر دہ تقریباً آٹھ رخ موجود ہیں جن میں سے ہر ایک رخ کا نتیجہ جدا جدا ہے اور وہ سارے ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ وہ آٹھ رخ ہم ان شاءاللہ آپ کے سامنے باحوالہ پیش کرتے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ مذہب شیعہ میں مسئلہ خلافت کی حقیقت اور اسکے دلائل کیا ہیں ؟ اور ان کا آپس میں ربط کیا ہے ؟ چونکہ مسئلہ ایک ہے تو نتیجہ بھی ایک ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے ۔