حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن و سنت کی نظر میں
جعفر صادقحضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن و سنت کی نظر میں:
خلاصہ کائنات، فخرِ موجودات، باعثِ کُن فکان، محبوبِ ربِ دو جہاں، سیدِ انس وجن، سرورِ کونین، تاجدارِ عرب و عجم حضرت محمد مصطفیٰﷺ درس گاہ کے بلاواسطہ اور براہِ راست شاگرد، مسجدِ نبوی کے تربیت یافتہ، وحی ربانی قرآن مقدس کے اولین مخاطب حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت وہ مقدس وپاکیزہ جماعت ہے جو اپنی بے شمار اور اَن گنت خصوصیات اور فضائل ومناقب میں تمام سابقہ ولاحقہ اقوام واُمم میں بے نظیر اور فقید المثال ہے نہ اولین میں اس برگزیدہ طبقہ کی نظیر و مثال ہے اور نہ آخرین میں کوئی قوم و امت اس جماعت کے ہم رُتبہ ہو سکتی ہے، یہی وہ طبقہ ہے جو زمانہ جاہلیت قبل ایمان میں اگرچہ معاصی اور گناہوں میں مبتلا تھے لیکن ایمان قبول کرنے اور ہدایت خداوندی سے مستفیض ہونے کے بعد رحمان و رحیم اور پروردگارِ عالم سے اتنے قریب ہوگئے کہ مردود شیطان دیکھتے ہی دُم دباکر بھاگ جاتا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا وہ مقدس گروہ قرآن و سنت، مذہب و شریعت اور تہذیب و تمدن کا رنگ قبول کرنے والا اور اپنی تمام تر سابقہ بے ڈھنگی روش اور طور طریقوں کو یکسر چھوڑ کر رحمانی زندگی اور سیرتِ نبوی کی ایسی جیتی جاگتی تصویر بن گیا کہ کہنے والا کہنے پر مجبور ہوگیا کہ:
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا
اور خود کائنات کا پالن ہار ان کی تعریف وتوصیف بیان کرتا ہے، دنیاوی زندگی اور حیاتِ فانی ہی میں اپنی رضامندی اوران کی مغفرت کا اعلان کرتا ہے۔ اپنے خاص مقامِ رحمت جنت کی بشارت وخوش خبری سُناتا ہے، ارشاد باری ہے:
1: رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ الخ۔
(سورۃ المائدہ: آیت، 119)
اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہو گیا اور وہ اللہ سے، دوسرے مقام پر ان کے ہدایت یافتہ اور بامراد ہونے کو یوں بیان فرماتا ہے:
2: اُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۞
(سورۃ البقرہ: آیت، 5)
ایک موقع پر حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کی قبولیت کو اور پھر ان کے ایمان کو معیار اور کسوٹی کا درجہ دیتے ہوئے ارشاد ہے:
3: اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ الخ
(سورۃ البقرہ: آیت، 13)
ایمان قبول کرو جیسا کہ لوگوں نے ایمان قبول کیا، اور کبھی حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی ربط وتعلق اور محبت والفت کا نقشہ کھینچتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
4: رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ الخ۔
(سورۃ الفتح: آیت، 48)
وہ باہم نہایت مہربان اور شفقت کرنے والے ہیں۔ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے قلوب تقوی وطہارت میں نہایت مزکّٰی و مصفّٰی تھے، اسی کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:
5: اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوۡبَهُمۡ لِلتَّقۡوٰى لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ عَظِيۡمٌ۞
(سورۃ الحجرات: آیت، 3)
وہی ہیں جن کے دلوں کو جانچ لیا ہے اللہ نے ادب کے واسطے ان کے لیے معافی ہے اور ثواب بڑا اور دشمنانِ اسلام اور کفار ومشرکین کے مقابلے میں ان کی مضبوطی اور طاقت کو قرآنِ کریم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
6: اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ الخ۔
(سورۃ الفتح: آیت، 48)
زور آور ہیں کافروں پر۔ معصیت وگناہ سے اس گروہ کی نفرت وکراہت کو کلام پاک ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
7: وَكَرَّهَ اِلَيۡكُمُ الۡكُفۡرَ وَالۡفُسُوۡقَ وَالۡعِصۡيَانَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوۡنَ۞
(سورۃ الحجرات: آیت، 7)
اور نفرت ڈال دی تمہارے دل میں کفر اور گناہ اور نافرمانی کی وہ لوگ وہی ہیں نیک راہ پر۔
اور شارحِ قرآن کریم، مبینِ مُرادِ خداوندی، مہبط وحی حضرت نبی پاکﷺ نے بھی صادق و مصدوق ارشادات اور فرمودات میں حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب اور ان ذواتِ قدسی صفات کی تعریف و توصیف خوب خوب بیان فرمائی ہے۔ خلیفہ ثانی فاروقِ اعظم عمرؓ سے روایت ہے:
8: قال رسول اللہﷺ أکرموا أصحابي فإنہم خیارکم ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم الخ۔
میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اعزاز واکرام کرو کیونکہ وہ تم سے بہتر ہیں پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔ دوسری روایت حضرت جابرؓ سے ہے۔
9: عَنْ جَابِرٍؓ عَنِ النَّبِیﷺ قال: لا تَمْسَ النَّارُ مُسْلِماً راٰنِی أو رأی من راٰنِی۔
آگ اس شخص کو نہ چھو پائے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے صحابی کو دیکھا ہوگا۔ ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے:
10: عن ابن عمرؓ قال قال رسول اللہﷺ إذا رأیتم الَّذِیْنَ یَسُبُّوْنَ أصْحَابِیْ فَقُوْلُوْا: لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی شَرِّکُمْ۔
جب ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے ساتھیوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوں تو یوں کہو کہ اللہ کی لعنت تمہارے شرپر۔ اسی طرح ایک روایت حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے۔
11: قال النَّبِیﷺ: لا تسبوا اَصْحَابِی فَلَوْ أنَّ أحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ أحُدٍ ذَہَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أحَدِہِمْ وَلاَ نَصِیْفَہٗ۔
تم لوگ میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا مت کہو کیونکہ وہ تم سے بہت افضل ہیں اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا راہِ خدا میں خرچ کرے گا تب بھی وہ ان کے ایک مُد یا نصف مُد کو نہیں پہنچ پائے گا۔ ایک روایت حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے۔
12: عَن عمران بن حصینؓ قال قال رسول اللہﷺ: خَیْرُ اُمَّتِی قَرْنِی ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ الخ۔
میری امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانے کے لوگ پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔
قارئین گرامی قدر! قرآن و سنت سے ثابت ان تمام فضائل ومناقب اور خصوصیات کے باوجود دشمنانِ خدا اسلام اور مسلمانوں سے حسد رکھنے والے بالخصوص یہود و نصاریٰ کو جب اسلام کی ہمہ جہت ترقی اور اہلِ اسلام کا عروج ہضم نہ ہوسکا اور ان شیطان کے چیلوں، خدائی دشمنوں کو سو فیصد یقین تھا کہ اسلام کی صداقت و حقانیت، عالم گیر حیثیت اور غلبہ کے سامنے باطل کے لیے ٹھہرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا مذہبِ اسلام اور مسلمانوں میں کم زوری اور ضعف پیدا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ان میں افتراق و تشتت پیدا کرنا ان میں غلط فہمیاں پیدا کر کے خلفشار و انتشار پیدا کرنا لہٰذا یہودی شاطروں نے مسلمانوں میں تفرقہ اندازی کرکے اپنے شیطانی مشن میں کامیابی حاصل کی اور اپنی مسلسل ناکامیوں اور شکستوں کا بدلہ بھی لے لیا کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ اور اہلِ بیتِ نبیﷺ کی حق تلفیوں، مظلومیت اور محرومیوں کی جھوٹی سچی داستانیں سنا سنا کر مسلمانوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کیے، مزید کام منافقین نے جھوٹے پروپیگنڈے کا وہ چکر چلایا کہ سادہ دل مسلمان بھی ان کے جال میں پھنس گئے یہیں سے افتراق و انتشار کے دہانے کھل گئے۔
چنانچہ مسلمانوں میں فرقے بننے لگے کوئی فرقہ محبتِ آلِ بیتؓ میں غلو کا مرتکب ہے تو کوئی حضراتِ صحابہ پر زبانِ لعن و طعن دراز کرتا نظر آتا ہے، کوئی حضراتِ شیخینؓ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو غاصب خلافت اور سیدنا علیؓ کو خلیفہ بلا فصل گردانتا ہے کوئی دوسرا سیدنا علیؓ کو خارج از اسلام قرار دیتا ہے اسی طرح ان کے باہمی مشاجرات اور اختلافات کے حوالے سے بھی بہت سے حضرات افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں کوئی سیدنا علیؓ کی حقانیت کو بیان کرتے کرتے سیدنا امیرِ معاویہؓ رضی اللہ عنہ کی تنقیص وتوہین پر اتر آتا ہے العیاذ باللہ، تو مدمقابل سیدنا امیرِ معاویہؓ کی براءت کرتے کرتے یزید بن معاویہ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر فضیلت دیتا نظر آتا ہے۔ العیاذ باللہ۔ وغیرہ وغیرہ جب کہ خود حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تمام کے تمام حسنِ سلوک، باہمی تعاون، خانگی مراسم، نسبی تعلقات اور امور خلافت میں بھرپور ایک دوسرے کے معاون ومددگار تھے۔
لہٰذا مذہبِ اسلام اور قرآن و سنت کے ماننے والوں کو اس حوالے سے قرآن و سنت ہی کو بڑی مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے کہ جو داستانیں اور موضوع روایات قرآن و سنت کے خلاف یا معارض سامنے آئیں ان کو رد کرنا چاہیئے اور جو روایات اور واقعات قرآن وسنت کے موافق ہوں ان کو لینا چاہیئے، قرآن و سنت سے حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے جو اوصاف ثابت ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
- حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معصوم تو نہیں ہیں لیکن محفوظ ضرور ہیں۔
- حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خوفِ خدا اور تقویٰ والے تھے۔
- حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامنے والے تھے۔
- حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دینی و دنیاوی امور میں امانت دار تھے، خیانت کا تصور بھی گناہ سمجھتے تھے۔
- حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باہم شیر و شکر رحماءُ بینہم کی واضح تصویر تھے۔
- دنیاوی نفع و نقصان سے قطعِ نظر عدل و انصاف کے خوگر تھے۔
- حضرت نبی پاک ﷺ اور آپﷺ کی آل و اولاد سے حد درجہ محبت والفت کو فلاحِ دارین تصور کرتے تھے جان ومال کی پرواہ کیے بغیر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کو اپنا فرضِ منصبی اورنصب العین سمجھتے تھے۔
- حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان آراء کا اختلاف اجتہادی شان و حیثیت کا تھا مخالفت و عداوت کی رسائی ان کے قلوب تک نہ تھی، 9: حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالاتفاق خلافت کی تقسیم من جانب اللہ تسلیم کرتے تھے اس میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا۔
- حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معیاغر حق تھے۔
محترم قارئین! حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مذکور بالا اوصاف قرآن و سنت سے ثابت ہیں، صراحتاً یا دلالۃً قرآن و سنت کا علم رکھنے والا کوئی شخص ان کا انکار نہیں کرسکتا لہٰذا جب بھی جو روایات یا واقعات ان ارواحِ مقدسہ کے حوالے سے سامنے آئیں اگر وہ درج بالا اوصاف سے ہم آہنگ ہوں گی تو تسلیم کی جائیں گی اوراگر ان اوصاف سے متصادم اورمخالف ہوں گی تو وہ دشمنوں کی شاطرانہ چال اور دجل و فریب کا شاخسانہ ہوں گی، پس ان سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے جو شہادتیں ان برگزیدہ شخصیات کے لیے دی ہیں وہ کسی صورت بھی جھوٹی نہیں ہوسکتیں بلکہ یقیناً ان مقابل آنے والے واقعات اور روایات ہی من گھڑت اور جھوٹی ہوں گی خود محبوب کبریا حضرت نبی دوجہاںﷺ نے اسی کا احساس کرتے ہوئے فرمایا تھا:
13: عن أبی ہریرۃؓ عن النَّبِیﷺ انہ قال: سَیَاتَیْکُمْ عَنِّی أحَادِیْثُ مُخْتَلِفَۃٌ فَمَا جَائَکُمْ مُوَافِقًا لِکِتَابِ اللّٰہِ وَسُنَّتِی فَہُوَ مِنِّی وَمَا جَائَکُمْ مُخَالِفًا لِکِتَابِ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی۔
ترجمہ: عنقریب تمہارے پاس میری جانب منسوب شدہ مختلف روایات پہنچیں گی جو کتاب اللہ اور میری سنت مشہورہ کے موافق اور مطابق ہوں تو وہ درست ہوں گی اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے معارض ہوں گی تو وہ صحیح نہیں ہوں گی۔
اسی اصل کو خلیفہ رابع حضرت شیرِ خدا علی المرتضیٰؓ نے بھی بیان فرمایا ہے۔
14: عَن أبی الطُّفَیْلِؓ عَنْ علیؓ قَالَ: حَدِّثُوْا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ وَدَعَوْا مَا یُنْکِرُونَ اَتُحِبُّوْنَ أنْ یُّکَذَّبَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ۔
ترجمہ: معروف مشہور چیزیں بیان کرو اور منکر یعنی مشہور ومعروف کے خلاف عوام میں ذکر نہ کرو! کیا تمہیں پسند ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے۔
امام ذہبیؒ مذکورہ اصول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
15: فَقَدْ زَجَرَ الْاِمَامُ علیؓ عَنْ روَایَۃِ الْمُنْکَرِ وَحَثَّ عَلَی التَّحْدِیْثِ بِالْمَشْہُوْرِ وَہٰذَا أصْلٌ کَبِیْرٌ فِی الْکَفِّ عَنْ بَثِّ الْأَشْیَائِ الوَاہِیَۃِ وَالْمُنْکَرَۃِ مِنَ الْأحَادِیْثِ فِی الْفَضَائِلِ وَالْعَقَائِدِ وَالرَّقَائِقِ۔
ترجمہ: ہمارے امام ومقتدی علی المرتضیٰؓ نے ہمیں شاذ و منکر روایات کے بیان کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے اور مشہور و معروف چیزوں کے بیان کرنے میں رغبت دلائی ہے اور بے سروپا اور بے اصل روایات کے پھیلانے اور تشہیر کرنے سے روکنے کے لیے یہ ایک اہم اصول ہے یہ روایات خواہ عقائد سے تعلق رکھتی ہوں یا فضائل و ترغیبات سے متعلق ہوں۔