Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

غیر مسلم عدالت میں مسلم حج کے طلاق کے فیصلہ کا حکم


غیر مسلم عدالت میں مسلم حج کے طلاق کے فیصلہ کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ابرار خان بن تقدیر خان کی شادی ناصرینہ بنت ابراہیم خان سے ہوئے پانچ چھ سال ہو گئے، لڑکی تقریباً چھ ماہ شوہر کے ساتھ رہی اور کسی بات پر ناراض ہو کر میکے چلی گئی، اس کے بعد سے وہ آئی ہی نہیں، اسی درمیان اس نے عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا اور نفقه تعین کروا لیا جو ابرار خان ہر ماہ چار سو روپیہ کے حساب سے دے رہا ہے۔ اب پتہ چلا کہ لڑکی نے عدالت سے طلاق بھی لے لی ہے اور اب وہ مہر کا دعویٰ کر رہی ہے۔

اب جواب طلب امر یہ ہے کہ کیا لڑکی کے عدالت سے طلاق لے لینے سے طلاق واقع ہو جائے گی؟ جبکہ شوہر موجود ہے، اس کو بلایا بھی نہیں گیا ہے اور اس نے طلاق بھی نہیں دی ہے، بلکہ وہ تو اب بھی رکھنا چاہتا ہے۔

دوسری چیز جب تک اس کی دوسری جگہ شادی نہیں ہو جائے گی اُس وقت تک ابرار خان سے ماہانہ نفقہ لیتے رہنا، جبکہ وہ اپنے میکہ میں ہے، اس کے لئے جائز ہے یا نہیں؟

جواب: غیر مسلم عدالت میں مسلم حج کا طلاق کے معاملہ میں وہ فیصلہ معتبر ہوتا ہے جو شریعت کے مطابق ہو، اور شریعت کے مطابق فیصلے کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں شوہر کو بلا کر کے اس سے بھی بیان لیا جائے اور ضرورت پڑے تو اس سے طلاق دلائی جائے۔ اور غیر مسلم عدالت میں غیر مسلم جج کا طلاق کا فیصلہ دینا جبکہ شوہر نے خود طلاق نہ دی ہو شرعاً معتبر نہیں ہے، طلاق واقع ہونے کے لئے شوہر کا ازخود طلاق دینا لازم ہے اور جب شوہر نے خود طلاق نہیں دی، تو ایسی صورت میں بیوی پر کوئی طلاق نہیں ہوئی، وہ شرعی طور پر بدستور اسی شوہر کے نکاح میں باقی ہے۔

:قال اللّٰه تبارك وتعالىٰ: وَلَنۡ يَّجۡعَلَ اللّٰهُ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ سَبِيۡلًا: وفي الشامي: لم ينفذ حكم الكافر على المسلم، وينفذ للمسلم على الذمي:

نیز جو عورت شوہر کی مرضی کے بغیر میکہ جا کر بیٹھ جائے اور حقوق زوجیت ادا نہ کرے وہ شرعی طور پر نان و نفقہ کی مستحق نہیں ہوتی۔ اس لئے ایسی صورت میں شوہر پر نان و نفقہ لازم نہیں۔

(فتاویٰ قاسمیه:جلد:14:صفحہ:103)