Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

عدالت کی طلاق کا حکم


عدالت کی طلاق کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: میری بیٹی ریشما بانو کی شادی تقریباً 13 سال قبل عاشق علی ساکن شاہ جہان پور مقیم حال دہلی سے ہوئی تھی، شادی کے تقریباً 5 سال تک لڑکی و شوہر کے تعلقات ٹھیک رہے اس کے بعد کچھ تعلقات خراب ہونے لگے، تعلقات خراب ہونے پر عدالت سے رجوع ہونا پڑا، جب پھر بھی معاملہ صیح نہ ہوا تو مجبوراً عدالت سے یک طرفہ طلاق دلوا دی، طلاق کے تقریباً 3 برس کے بعد عدالت کے باہر آپس میں تحریری صلح کر لی، اس شرط کے ساتھ کہ اب ہم لڑکی کو اپنے ساتھ رکھیں گے اور کوئی تکلیف وغیرہ نہیں دیں گے تو پھر ہم لوگوں نے لڑکی کو سسرال بھیج دیا لیکن پھر کچھ ہی دن بعد تعلقات خراب ہو گئے، پھر لڑکے نے لڑکی کو ہمارے گھر بھیج دیا، اس وقت سے آج تک لڑکی گھر پر ہیں لڑکی کے ایک لڑکا اور لڑکی بھی ہے لڑکا باپ کے پاس اور لڑکی ماں کے پاس ہے، جب کافی انتظار کے بعد لڑکے سے اس بارے میں بات کی گئی تو اس نے جواب دیا کہ میری طلاق تو عدالت میں ہو چکی ہے، ایسی صورت میں شرعی حکم کیا ہے؟ کیا عدالت کے ذریعہ طلاق ہوئی یا نہیں؟ اگر نہیں ہوئی تو اس کی طلاق کی کیا صورت ہو گی؟ تاکہ وہ اپنی بیٹی کی دوسری جگہ شادی کر سکیں اور لڑکے والے اگر کوئی قانونی کاروائی کریں، تو ہم لوگوں کو کوئی دشواری نہ ہو، دوسری جگہ شادی کرنے میں، اور اگر عدالت کے ذریعہ طلاق کو شرعی حیثیت حاصل نہیں ہے تو کوئی شرعی حکم تحریر فرما دیں۔

جواب: طلاق کے سلسلہ میں عدالت کا فیصلہ معتبر ہونے اور نہ ہونے کی دو شکلیں ہیں:

(1) کسی مسلمان اور عادل جج نے حدود شرع کی رعایت کرتے ہوئے طلاق کا فیصلہ بصورتِ مجبوری نافذ کیا تو ایسی صورت میں اس کا فیصلہ طلاق صحیح ہو گا اور عورت پر طلاق واقع ہو جائے گی۔

(2) طلاق کا فیصلہ کرنے والا اگر غیر مسلم شخص تھا تو ایسی صورت میں اس کا فیصلہ معتبر نہ ہو گا اور عورت پر طلاق واقع نہ ہو گی، اس بارے میں صاحب معاملہ خود دیکھ لے کہ عدالت سے جو طلاق حاصل ہوئی تھی، اس طلاق کا فیصلہ مسلم جج نے حدود شرع کی رعایت کرتے ہوئے کیا تھا یا غیر مسلم جج کا فیصلہ تھا، اگر مسلم جج کا فیصلہ تھا تو تفریق صحیح ہو گئی تھی، لہٰذا عورت کیلئے عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنا صحیح ہے، مگر ایسی صورت میں شوہر نے جو دوبارہ اپنے ساتھ رکھا تھا وہ ناجائز ہو گا، اور اگر مسلم جج نہیں تھا بلکہ غیر مسلم جج نے فیصلہ صادر کیا تھا تو طلاق واقع نہیں ہوئی تھی، اس کا بعد میں شوہر کے ساتھ رہنا درست ہوا، اب شوہر سے طلاق یا شرعی تفریق حاصل کئے بغیر اس لڑکی کا نکاح درست نہ ہو گا۔

:قال اللّٰه تبارك وتعالى: وَلَنۡ يَّجۡعَلَ اللّٰهُ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ سَبِيۡلًا : الشامي: لم ينفذ حكم الكافر على المسلم، وينفذ للمسلم على الذمي:

(فتاویٰ قاسمیه:جلد:14:صفحہ: 105)