اربعینِ حسینی کی حقیقت
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند✳️ اربعینِ حسینی کی حقیقت ✳️
*چند سال قبل ایجاد ہونے والی ایک نئی کفریہ بدعت*
(اربعین چالیس کو کہتے ہیں یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے 39 دن بعد یہ چالیسواں کرتے ہیں عرف میں جسے چہلم کہا جاتا ہے)
⬅️ اربعینِ حسینی جو بذاتِ خود اسلامی شریعت سے انحراف اور شیعہ مذہب کی پہچان ہے اس میں گزشتہ چند سالوں سے نئی جدت آئی ہے جو شیعہ مذہب کے مطابق بھی بدعت ہے۔ *اہلِ تشیع کے سرکردہ لوگ بھی اسے ایک بدعت قرار دے رہے ہیں۔*
⬅️ پہلے اربعینِ حسینی کا اختتام کربلا میں ہوتا تھا اور شیعہ کتب کے مطابق حضرت حسینؓ کی قبر کی زیارت کے لیے اٹھائے گئے ایک ایک قدم پر ایک ایک مقبول حج و عمرے کے ثواب ملتا ہے۔
♦️ شعائر اسلام کی اس سے بڑی بے توقیری کیا ہوگی کہ ایک قدم جو زیارتِ قبرِ حسینؓ (وہ بھی جس کے بارے میں کنفرم نہیں کہ یہاں سیدنا حسینؓ کا جسم مدفون بھی ہے یا نہیں) کیلئے اٹھایا جاتا ہے ایک مقبول حج (جو استطاعت کے باوجود حج نہ کرے وہ چاہے یہودی مرے یا نصرانی، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں) کے برابر ثواب رکھتا ہے۔
♦️ اب تو اس اربعین واک کو پاکستان کے ہر شہر میں رائج کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ اہلِ تشیع جلوس کی شکل میں شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جاتے ہیں۔ درمیان میں یا حسین کے نعرے لگاتے اور پیٹتے ہوئے اہلِ سنت کے نوجوانوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
اس قسم کی واک یہود و نصاری کے ہاں تو عام ہے لیکن اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ شیعیت کی خرافات میں بھی مزید اضافہ کرنے کی کوشش ہے۔
پہلے ہی اہلِ سنت اہلِ تشیع کا بہت سا گند برداشت کیے ہوئے ہیں، اس میں اضافہ مزید انتشار کا باعث بنے گا۔
⬅️ اس غیر شرعی واک اور جلوسوں سے نہ صرف عوام الناس پریشان ہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی اس طرح کی خرافات سے بہت نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔
⬅️ نہ صرف ان جلوسوں کی سیکورٹی کی خاطر کروڑوں روپے کے اخراجات ہوتے ہیں بلکہ فون سروسز بھی معطل کر دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے حادثاتی اور مہلک امراض کے حامل افراد کو ایمرجنسی سہولیات دینے میں دیر ہوجاتی ہے اور کئی معصوم جانیں ضائع ہوجاتی ہیں! ، مختلف کاروباروں کو الگ سے کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم کا حرج ہوتا ہے اور جلوس کے راستے میں آنے والی دکانوں کو بند کر دیا جاتا ہے ، اس کے علاوہ ایک دہاڑی دار مزدور کا بھی استحصال ہوتا ہے۔
♦️ اسلام سے تو ان کا تعلق نہیں مگر کیا حسینؓ کے نام پہ جان دینے کے دعوے کرنے والے یہ بتا سکتے ہیں کہ حضرت حسینؓ کی تعلیمات یہی ہیں؟ کیا حضرت حسینؓ نے حضرت علیؓ و حسنؓ کا چالیسواں اس طرح منایا یا ان کے کیلئے ایسے جلسے جلوس نکالے؟ یا سانحہ کربلا کے بعد کسی ایک امام نے شہادت حسین کا چالیسواں اس طرح منایا تھا؟ کیا شریعت اسلامی یہی ہے کہ عام مسکین لوگوں کو پریشان کر کے کربلا کے شہیدوں کی ارواح کو ایصالِ ثواب پہنچایا جائے؟؟
❎ *اپنے آپ کو حسینی کہنے والے اگر یہ اہل تشیع اتنے ہی سچے اور پکے حسینی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام لیوا ہیں تو اتنی سکیورٹی کی کیا ضرورت؟
پورے پاکستان کا نیٹ ورک بند کرنے کی کیا ضرورت؟
تمام شعبہ ہائے زندگی کو معطل کرنے کی کیا ضرورت؟
ایک طرف رو رو شہدائے کربلا کے قصے کہانیاں سناتے ہیں اور ان کی بہادری بیان کرتے ہیں اور اپنی ان اہل تشیع کی حالت یہ ہے دو قدم فاصلے سے گزرنے کے لیے مکمّل سکیورٹی، نیٹ ورک بند، ٹریفک بند ہونی چاہیئے!
♦️ *حقیقت میں شیعہ اپنے کفریہ عقائد کو اہلسنّت میں پھیلانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں کہ کسی طرح اہلسنّت کی سادہ لوح عوام کو کبھی حضرت علیؓ کے نام پر، کبھی سیدہ فاطمہؓ کے نام پر، کبھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر، جمع کر کے اپنے باطل عقائد و نظریات بتائیں جائیں*۔
تنبیہ:-
*یاد رہے شیعہ کی اس اربعین حسینی یعنی چہلم میں شریک ہونا حرام ہے* کیونکہ ان جلوسوں میں جو امور شیعہ سرانجام دیتے ہیں وہ حرام ہیں:
♦️ علم اٹھا کر اس طرح جلوسوں کی شکل میں چلنا،جس کی وجہ سے طرح طرح کا فسق و شرک صادر ہے صریح حرام ہے۔بعض جہلاء کا تو اعتقاد ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ اس میں حضرت غازی عباس رونق افروز ہیں اور اس وجہ سے اس کے آگے نذر و نیاز رکھتے ہیں۔جس کا
مَآ اْھِلَّ بِہٖ لِغَیرِ اللّٰہِ
(چڑھاوے کا کھانا جائز نہیں)
میں داخل ہو کر کھانا حرام ہے۔علم کے آگے دست بستہ تعظیم سے کھڑے ہوتے ہیں،اس پر عرضیاں لٹکاتے ہیں،اس کو زیارت کہتے ہیں،اور اس قسم کے واہی تباہی معاملات کرتے ہیں جو صریح شرک ہیں۔ان معاملات کے اعتبار سے علم اس آیت کے مضمون میں داخل ہیں:
{أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ}
(کیا ایسی چیز کو پوجتے ہو جس کو خود تراشتے ہو)
بعض نادان یوں کہتے ہیں کہ
صاحب اس کو حضرت غازی عباس کے ساتھ نسبت ہوگئی اور ان کا نام لگ گیا،اس لئے تعظیم کے قابل ہوگیا۔
جواب اس کا یہ ہے کہ نسبت کی تعظیم ہونے میں کوئی کلام نہیں مگر جب کہ نسبت واقعی ہو۔مثلا:حضرت امام حسین کا کوئی لباس ہو یا اور کوئی ان کا تبرک ہو، ہمارے نزدیک بھی وہ قابل تعظیم ہیں۔اور جو نسبت اپنی طرف سے تراشی ہوئی ہو وہ ہرگز اسباب تعظیم سے نہیں، ورنہ کل کو کوئی خود امام حسین رضی اللہ عنہ ہونے کا دعویٰ کرنے لگے تو چاہئے کہ اس کی اور زیادہ تعظیم کرنے لگو حالانکہ بالیقین اس کو گستاخ و بے ادب قرار دے کر اس کی سخت توہین کے درپے ہوجاؤ گے،اس سے معلوم ہوا کہ نسبت کاذبہ سے وہ شئے معظم نہیں ہوتی، بلکہ اس کذب کی وجہ سے زیادہ اہانت کے قابل ہوتی ہے اس بنا پر انصاف کرلو کہ یہ علم تعظیم کے قابل ہے یا اہانت کے۔
♦️ مجمع فساق وفجار کا جمع ہونا،جس میں وہ فحش واقعات ہوتے ہیں کہ ناگفتہ بہ ہیں۔
♦️ نوحہ کرنا جس کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لعنت فرمائی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والے اور اس کی طرف کان لگانے والے کو۔روایت کیا اس کو ابو داود نے۔
♦️ مرثیہ پڑھنا،جس کی نسبت حدیث میں صاف ممانعت آئی ہے۔ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا
♦️ کسی خاص لباس یا کسی خاص رنگ میں اظہار غم کرنا۔ابن ماجہ میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ایک قصے میں منقول ہے کہ ایک جنازہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دیکھا کہ غم میں چادر اتار کر صرف کرتہ پہنے ہیں،یہ وہاں غم کی اصطلاح تھی۔آپ نہایت نا خوش ہوئے اور فرمایا کہ کیا جاہلیت کے کام کرتے ہو یا جاہلیت کی رسم کی مشابہت کرتے ہو،میرا تو یہ ارادہ ہوگیا تھا کہ تم پر ایسی بد دعا کروں کہ تمہاری صورتیں مسخ ہوجائیں(٭)۔پس فوراً ان لوگوں نے اپنی چادریں اوڑھ لیں اور پھر کبھی ایسا نہیں کیا۔اس سے ثابت ہوا کہ کوئی خاص وضع وہیئت اظہار غم کے لئے بنانا بھی حرام ہے۔
♦️ بعض لوگ اپنے بچوں کو امام حسین رضی اللہ عنہ کا فقیر بناتے ہیں اور ان سے بعضے بھیک بھی منگواتے ہیں۔اس میں اعتقادی فساد تو یہ ہے کہ اس عمل کو اس کی طول حیات میں مؤثر جانتے ہیں۔یہ صریح شرک ہے اور بھیک مانگنا بلااضطرارحرام ہے۔
♦️ حضرات اہل بیت کی اہانت بر سر بازار کرتے ہیں۔اگر ایام غدر کے واقعات جس میں کسی خاندان کی عورتوں کا ہتک ہوا ہو،اس طرح علی الا علان گائے جائیں تو اس خاندان کے مردوں کو غیظ و غضب آئے گا۔پھر سخت افسوس ہے کہ حضرات اہل بیت کے حالات اعلان کرنے میں غیرت بھی نہ آئے اور اس طرح کے بہت سے امور قبیحہ ہیں جو ان جلوسوں میں کئے جاتے ہیں،ان کا اختیار کرنا اور ایسے مجمع میں جانا سب حرام ہے۔اور یہی تمام تر فضیحتیں ایام محرم کے بعد چہلم کو دہرائی جاتی ہیں۔
نوٹ:
بعض امور فی نفسہ مباح ہیں مگر بوجہ فساد عقیدہ یاعمل کے وہ بھی محرم اور اربعین کی وجہ سے ممنوع ہیں:
♦️ کھیرنی اور کچھ کھانا پکانا اوراحباب یا مساکین کو دینا اوراس کا ثواب حضرات امام حسین رضی اللہ عنہ کو بخش دینا اس کی اصل وہی حدیث ہے کہ جو شخص اس دن میں اپنے اہل و عیال پر وسعت دے اللہ تعالیٰ سال بھر تک اس پر وسعت فرماتے ہیں۔وسعت کی یہ بھی ایک صورت ہوسکتی ہے کہ بہت سے کھانے پکائے جائیں خواہ جدا جدا یا ملا کر۔
چنانچہ در مختار میں ہے ولا باس بالمعتاد خلطا بوجہ جب اہل و عیال کو دیا،کچھ غریب غرباء کو بھی دے دیا۔حضرت امامین رضی اللہ عنہما کو بھی ثواب بخش دیا۔مگر چونکہ لوگوں نے اس میں طرح طرح کی رسوم کی پابندی کرلی ہے گویا خود اس چہلم کو ایک تہوار قرار دے دیا ہے اس لئے رسم کے طور پر کرنے سے ممانعت کی جائے گی۔بلا پابندی اگر اس روز کچھ فراخی خرچ میں کھانے پینے میں کردے تو مضائقہ نہیں۔
♦️ شربت پلانا یہ بھی اپنی ذات میں مباح ہے، کیونکہ جب پانی پلانے میں ثواب ہے تو شربت پلانے کیا حرج ہے، مگر وہی ایام محرم اور اربعین حسینی کی رسم کی پابندی اس میں ہے،اور اس کے علاوہ اس میں اہل رفض کے ساتھ تشبیہ بھی ہے اس لئے یہ بھی قابل ترک ہے۔ تیسرے اس میں ایک مضمر خرابی یہ ہے کہ شربت اس مناسبت سے تجویز کیا گیا ہے کہ حضرات شہداء کربلا پیاسے شہید ہوئے تھے، اور شربت مسکّن عطش ہے اس لئے اس کو تجویز کیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عقیدہ میں شربت پہنچتا ہے جس کا باطل اور خلاف قرآن مجید ہونا ثابت ہے،اور اگر پلانے کا ثواب پہنچتا تو ثواب سب یکساں ہے نہ کہ صرف شربت میں کہ تسکین عطش کا خاصہ ہے۔پھر یہ بھی اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے زعم میں اب تک شہدائے کربلا نعوذ باللہ پیاسے ہیں، یہ کس قدر بے ادبی ہے، ان مفاسد کی وجہ سے اس سے بھی احتیاط لازم ہے۔