مسئلہ خلافت میں اہل تشیع کا پہلا مؤقف (دعوت ذوالعشیرہ) نبوت کے تیسرے سال حضرت علی کی خلافت کا اعلان ہوگیا تھا اور وہ مشہور بھی ہو گیا۔(قسط 2)
علامہ علی شیر رحمانیمسئلہ خلافت میں اہل تشیع کا پہلا دعوی
نبوت کے تیسرے سال حضرت علی کی خلافت کا اعلان ہو گیا تھا اور وہ مشہور بھی ہو گیا۔
وأنذر عشيرتك الأقربين
’’اور تو اپنے سب سے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا۔
سورة الشعراء، آیت ۲۱۴
ترجمہ سید امداد حسین کا نظمی شیعہ۔
[1] القرآن المبين في تفسير المتقيين:
تفسیر صافی جلد ۵ صفحہ نمبر ۳۵۲/۳۵۳ پر بحوالہ تفسیر قمی لکھا ہے کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور جس وقت نازل ہوئی تو جناب رسول خدا ﷺ نے کل بنی ہاشم کو جمع کیا جو چالیس آدمی تھے اور ان میں سے ہر ایک پورا بکرا کھا جاتا تھا اور پوری پوری مشک پانی کی پی جاتا تھا، انکے لیے جو تھوڑا سا کھانا میسر ہوا تیار کیا اسی کو سب نے کھایا اور سیر ہوگئے پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کہ میرا وزیر ، میرا وصی اور میر اخلیفہ کون ہوگا؟ ابولہب نے کہا کہ محمد(ﷺ) نے تم پر یقیناً جادو کیا ہے اور سب وہاں سے چلے گئے، دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا ، تیسرے دن بھی دعوت کی اور رسول خدا ﷺ نے وہی سوال دہرایا تو علی المرتضی جن کی عمر سب سے کم اور پنڈلیاں سب سے پتلی اور مالی حیثیت بھی کم تھی ، کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے یارسول اللہ ﷺ میں حاضر ہوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا بے شک تم ہی ہو۔
تفسير القرآن المبين في تفسير التقين، ص۱۳۸۱،۴۸۷
از سید امداد حسین الکاظمی، ناشر شیعہ جنرل بک ایجنسی انصاف پریس لاہور۔
[۲] تفسیر قمی:
یہ تفسیر شیعہ مذہب کی تمام تفاسیر کی بنیاد ہے، شیعہ محققین اس کو تفسیر الصادقین یعنی آئمہ کی تفسیر کہتے ہیں۔ شیعہ مذہب کی اس بنیادی تفسیر میں یہ بتایا گیا ہے کہ مذکورہ آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی المرتضی کی خلافت کا اعلان کر دیا۔
(تفسیر قمی ج ۲ عربی ص ۴۸۱ (دعوت ذوالعشیرہ) مصنف ابو الحسن علی بن ابراہیم قمی المتوفی ۳۵۷ ھجری۔)
[۳] ترجمه مقبول :
شیعه محقق و مفسر مناظر لاثانی سید مقبول احمد دھلوی نے بھی تفسیر مجمع البیان کے حوالے سے دعوت ذوالعشیرہ کے متعلق مذکورہ بالا روایت نقل کر کے آگے لکھا ہے کہ یہ سن کر کہ حضرت علی نبی کریم ﷺ کا خلیفہ ہے سب لوگ کھڑے ہو گئے اور ابوطالب سے کہنے لگے ’’لو‘‘ اب اپنے بیٹے کی اطاعت کرو کہ تمہارے بھتیجے نے اس کو تم پر حاکم بنا دیا۔
ترجمه مقبول، ص ۴۵۰، سورۃ الشعراء
آیت نمبر ۲۱۷ کی تفسیر میں۔
( اس روایت میں خلیفہ بمعنی حاکم لکھا ہے )
[۴] تفسیر صافی:
شیعه محقق و مفسر محمد بن مرتضى الحسن الفیض کاشانی نے بھی مذکورہ آیت کی تفسیر میں یہی
روایت نقل کی ہے یعنی کہ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کی خلافت کا اعلان کردیا۔
(تفسیر صافی ج ۲ ، ص۲۲۷، سورۃ الشعراء، آیت ۲۱۴۔)
[۵] تفسیر نمونہ:
اس تفسیر میں ہے کہ تاریخ اسلام کی رو سے آنحضرت ﷺ کو بعثت کے تیسرے سال عام دعوت
(دعوت ذوالعشیرۃ) کا حکم ہوا، اب تک آپ کی دعوت مخفی طور پر جاری تھی اور اس مدت میں بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن جب یہ آیتیں
وأنذر عشيرتك الأقربين۔
(سورة الشعراء آیت نمبر ۲۱۴۔)
اور
قاصدع بما تؤمر وأغراض عن المشرکین۔
(سورة الحجر آیت نمبر ۹۴۔)
نازل ہوئیں تو آپ ﷺ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور ہو گئے۔اس کی ابتداء قریبی رشتے داروں سے کرنے کا حکم ہوا (پھر یہی روایت ذکر کی ہے جو دوسرے مفسرین نے بھی ذکر کی ہے اور اس کے آخر میں ہے) کہ آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ علی کی گردن پر رکھا اور فرمایا:
”ان هذا اخی و وصی وخلیفتی فیکم و اسمعوله و اطیعو‘‘۔
ترجمہ! بے شک یہ (علی) تمہارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین ہے، اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی اطاعت کرو۔ یہ سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور تمسخر آمیز مسکراہٹ انکے لبوں پر تھی اور ابوطالب سے کہنے لگے کہ اب تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنا کرو اور اس کے فرمان پر عمل کیا کرو۔
(تفسیر نمونه ج ۸، ص ۵۹۱ مترجم اردو۔)
( تفسیر نمونہ کی پہلی جلد میں لکھا ہے کہ) یہ تفسیر حسب ذیل علماء و مجتہدین کی باہمی کاوش قلم کا نتیجہ ہے۔
تفسیر نمونه مترجم اردو ج ۱ ،ص ۶ ، ناشر مصباح القرآن ٹرسٹ ۔
اور اس تفسیر کا اردو میں ترجمہ علامہ سید صفدر حسین نجفی نے کیا ہے۔
ا۔ حجة الاسلام والمسلمین آقائے محمد رضا آشتیانی
۲۔ حجة الاسلام والمسلمین آقائے محمد جعفر امامی
۳- حجة الاسلام والمسلمین آقائے داؤد الہامی
۴۔ حجة الاسلام والمسلمین آقائے اسد اللہ ایمانی
۵۔ حجة الاسلام والمسلمین آقائے عبد الرسول حسنی
۶-حجة الاسلام والمسلمین آقائے سید حسن شجاعی
۷۔ حجة الاسلام والمسلمین آقائے نوراللہ طباطبائی
8- حجة الاسلام والمسلمین آقائے محمود عبدالہی
9۔ حجة الاسلام والمسلمین آقائے محسن قرائتی
١٠۔ حجة الاسلام والمسلمین آقائے محمد محمدی
نوٹ! شیعہ مذہب کے ان دس علماء و مجتہدین اور آقاؤں کی بھی یہی تحقیق ہے کہ حضرت علی المرتضی کی خلافت کا اعلان بعثت کے تیسرے سال دعوت ذوالعشیرہ پر کیا گیا تھا اور اس پر لوگوں نے ابو طالب کو طعنہ دیتے ہوۓ کہا کہ اب تم اپنے بیٹے کی اطاعت کرو۔
[۲] تفسیر التبیان:
یہ تفسیر شیعہ مذہب کے بڑے محقق شیخ الطائفۃ کی لکھی ہوئی ہے۔ جس کا تعارف تفسیر التبیان کی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر ۶ پر یوں کرایا گیا ہے۔
شیخنا وشیخ الکل فی الکل العلامة الآفاق شیخ وطائفة ...... هوالشیخ ابو جعفر محمد بن الحسن بن علی بن الحسن طوسی المتوفی ۴۲۰ ھجری۔
اس شیخ الکل و شیخ الطائفۃ نے بھی دعوت ذوالعشیرہ کا یہی قصہ نقل کر کے آگے لکھا ہے۔“والقصة بذالك مشهورۃ‘‘ یعنی دعوت ذوالعشیرہ اور علی کے وصی اور خلیفہ ہونے کے اعلان کا قصہ مشہور ہو گیا۔
(تفسير التبیان، ج۸ ص ۶۱ ۔)
[۷] البرهان في تفسير القرآن :
مصنف علامة، الثقہ، الثبت، المحدث الخبير والناقد البصیر، السید ہاشم بن السید سلیمان بن السید اسماعیل بن السید عبد الجواد الحسینی البحرانی المتوفی ۱۱۰۷ھ۔
شیعہ مذہب کے اس محدث الخبیر نے بھی یہی قصہ نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"يا بني عبد المطلب اني انا نذیر الیکم من اللہ عزوجل و البشیر فاسلموا و اطیعون تهتد و اثم قال من یواخینی ویواز رنى على هذا الامر يكون ولی و وصی بعدی و خلیفتی فی اهلی و یقضی دینی“۔
یعنی اے بنی عبد المطلب! میں اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے پاس بشیر اور نذیر ہو کر آیا ہوں تم اسلام لاؤ اور میری اطاعت کرو تو ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے، پھر فرمایا کون ہے جو اس (دین کے) معاملے میں میرا بھائی اور میرا بازو بنے تو وہ میرے بعد میرا ولی اور میرا وصی اور میرے اہل میں میرا خلیفہ ہوگا؟ اور میرا قرض اتارے گا؟ تو پوری قوم خاموش رہی لیکن ہر بار حضرت علی نے ہی جواب دیا کہ میں آپ کا بازو بننے کے لئے تیار ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ میر اوصی اور خلیفہ ہے جس پر لوگوں نے ابو طالب کو کہا
’’اطع ابنک فقد امر علیک‘‘
کہ اپنے بیٹے کی اطاعت کر تحقیق تیرے اوپر بھی حاکم بنایا گیا۔
(البرهان فی تفسیر القرآن ، ج ۳ ، ص ۱۹۱۔ ۱۹۴۔)
[۸] تفسیر نور الثقلين :
مصنف الحدث الجليل العلامة الخبير الشيخ عبد على بن جمعه العروي المتوفی ۱۲!!، الطبعة الثانية، العلميه القم (ایران)۔
شیعہ مذہب کے اس محدث جلیل نے بھی دعوت ذوالعشیرۃ کے موقع پر علی کی خلافت کے تقرر کا ذکر کیا ہے اور آگے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علی کو اپنے قریب کیا اور ان کے منہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا تو ابولہب نے کہا ’’بئس ماحبوت به ابن عمك ان اجابك فملئت فاه ووجهه بزاقا‘‘ یعنی تو نے اپنے چچا کے بیٹے کو بری چیز دی (برا سلوک کیا) اس نے آپ کی بات کو مانا تو پھر آپ نے اس کے منہ اور چہرے کو تھوک سے بھر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ملئتہ حکمتا و علما‘‘ میں نے اس کو حکمت اور علم سے بھر دیا۔
(تفسیر نور الثقلین، ج ۴، ص ۲۷۔۲۸۔)
[۹] تفسیر کبیر منبج الصادقین فی الزام المخالفين:
از تصنیفات عارف ربانی ملا فتح الله بن شکر الله کاشانی با مقدمه و تصحیح کامل آقائے الحاج میر مرزا ابوالحسن شعرانی التوفی ۹۸۸ ھ ۔
شیعہ مذہب کے اس عارف ربانی نے بھی دعوت ذوالعشیرہ میں دوسرے مفسرین و محققین کی طرح حضرت علی کی خلافت کا اعلان ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:
وگفت بابوطالب از روئے استهزاء اطع ابنك فقد امر عليك؛
يعنی لوگوں نے ابو طالب کو شرم دلاتے ہوئے کہا کہ ”لو تو بھی اپنے بیٹے کی اطاعت کر تحقیق تیرے او پر (بھی) حاکم بنایا گیا (اس کے بعد فرمایا)
’’ادن منی‘‘ نزديك من آی پس علی نزديك وے رفت و آنحضرت دهن وی را گشوده و آب دهن خود را در دهن او کرد و بین هر دو دوش و هر دو دست او تفل فرموده؛ ابو لهب گفت ’’بئس ما حبوت به ابن عمك ان اجابك و ملئت فاه و وجهه بزاقا‘‘ بد چیزے بہ پسے عم خودبخشیدی که اجابت تو کرد تو دهن و روی او را باب دهن تر ساختی ! پیغمبر فرمود ’’ ملئتہ حکمتا و علما‘‘۔
یعنی آپ ﷺ نے فرمایا میرے قریب آؤ پس علی آپ ﷺ کے قریب آئے تو آنحضرت ﷺ نے ان کا منہ مبارک
کھول کر اپنا لعاب مبارک انکے منہ میں ڈالا اور دونوں شانوں کے درمیان اور دونوں ہاتھوں پر لگایا تو ابو لہب نے کہا کہ آپ نے اپنے چچا کے بیٹے کو بری چیز دے بخش دی کہ اس نے تیری بات کو قبول کیا اور تو نے اس کے منہ اور چہرے کو تھوک سے بھر دیا! پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اس کو علم و حکمت سے بھر دیا۔
(تفسیر منہج الصادقین فی الزام المخالفین ، ج ۶، ص ۴۸۸۔)
[۱۰] مجمع البيان في تفسير القرآن:
تالیف علامة المحقق قدوة المفسرین وامین اللہ والدین الشيخ ابن علی الفضل بن الحسن الطبرسی المتوفی ۵۴۸ھ ۔
شیعہ مذہب کے اتنے بڑے محقق اور امین الملۃ والدین نے بھی یہی روایت جو تفسیر منہج الصادقین میں ہے کہ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر علی کے وصی اور خلیفہ ہونے کا اعلان ہوا تو لوگوں نے ابو طالب کو شرم دلاتے ہوۓ کہا کہ ”لو“ تم بھی اپنے بیٹے کی اطاعت کرو تیرے بھتیجے نے اس کو تیرے اوپر بھی حاکم بنادیا ہے ، پھر آپ ﷺ نے علی کو قریب کر کے اس کا منہ کھول کر اپنا لعاب مبارک ڈالا تو ابو لہب نے کہا کے تو نے اپنے چچا کے بیٹے کو بری چیز دی یہ کہ اس نے تیری بات کو مان لیا اور تو نے اس کے منہ اور چہرے کو تھوک سے بھر دیا، تو پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اس کو علم و حکمت سے بھر دیا۔
( تفسیر مجمع البیان ، ج ۷، ص ۲۰۶، ناشر مکتبه علمیه اسلامیه تهران(ایران))
[۱۱] کتاب تلاش حق:
تالیف حضرت علامہ سید شرف الدین موسوی مترجم سید محمد نجفی، نظر ثانی سید محمد تقی نقی، ناشر : موسى امام المنتظر قم ایران، اشاعت جنوری ۲۰۰۳۔
اس کتاب کے صفحہ نمبر ۹۴ پر بھی یہی روایت ہے کہ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر حضرت علی کی خلافت کا اعلان کیا گیا اور اس دن سے علی نبی کریم ﷺ کے خلیفہ مقرر ہو گئے۔
[۱۲] ترجمه فرمان علی شیعہ۔
شیعه مترجم و مفسر السید فرمان علی نے بھی اس آیت کی تفسیر میں دعوت ذوالعشیرہ کا ذکر کرتے ہوئے یہی روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی کی خلافت کا اعلان دعوت ذوالعشیرہ میں کیا گیا۔
(ترجمہ فرمان علی شیعه ، ص۴۴۹،۴۵۰)
[۱۳] تفسیر المیزان:
مصنف علامہ فقید (یکتا موتی) سید محمد حسین طباطبائی مترجم فارسی سید محمد باقر موسوی ہمدانی، ناشر : حوزہ علمیہ قم (ایران)۔
شیعہ مذہب کے اس بڑے محقق و مفسر نے بھی تفسیر المیزان میں وہی روایت نقل کی ہے جو منہج الصادقین میں موجود ہے کہ علی کی خلافت کے اعلان پر لوگوں نے ابو طالب کو شرم دلاتے ہوۓ کہا کہ ”لو“ اب اپنے بیٹے کی اطاعت کرو، اس کے بعد علی کو قریب کر کے لعاب ڈالنے پر ابولہب کا اعتراض کہ تو نے اپنے چچا کے بیٹے کو بری چیز دے دی، یہ کہ اس نے تیری دعوت کو قبول کیا اور تو نے اس کے منہ اور چہرے کو تھوک سے بھر دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اس کو علم اور حکمت سے بھر دیا۔
(تفسیر المیزان، ج ۱۵، ص ۴۷۵-۴۷۶۔)
( تفصیل کے ساتھ یہ عبارت موجود ہے)۔
[۱۴] علل الشرائع:
مصنف شیخ الجليل الاقدم الصدوق ابي جعفر محمد بن علی بن حسن بابویہ القمی المتوفی ۱۳۸۱ ھ۔
اس میں بھی دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر علی کی خلافت کا اعلان کیا گیا... موجود ہے۔
(علل الشرائع ، ج ۱، ص ۱۷۰۔)
[۱۵] شیعیت کا مقدمہ:
مؤلف حسین الامینی اس کتاب کو اول انعام یافته ۲۰۰۳ کہتے ہیں، اس کتاب کی تقریظ شیعہ مذہب کے مفکر اسلام جناب ڈاکٹر کلب صادق لکھنو (انڈیا) نے لکھی ہے کہ شیعت کا مقدمہ شیعہ عقائد و نظریات کو سمجھنے کے لئے ایک دل موہ لینے والی چیز ہے...... شیعیت کا مقدمہ شیعہ لائبریری کے لئے ایک قابل قدر اور ایک عمدہ اشاعت ہے بالآخر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک مستند اور عمیق تحقیقی تالیف ہے جو مسلم ریڈرز کو شیعہ کے حقیقی عقائد کو سمجھنے میں مدد دے گی۔ شیعہ مذہب کے اتنے بڑے محقق نے بھی اپنی کتاب ”شیعیت کا مقدمہ” میں دعوت ذوالعشیرہ میں حضرت علی کی خلافت کے اعلان کا قصہ ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی خلافت و جانشینی کے بارے میں شیعہ
نقطہ نظر ( یہ ہے کہ ) پیغمبر اسلام نے اپنے خلیفہ اور وصی کا اعلان پہلی دعوت اسلام میں ہی کر دیا تھا۔
(شیعیت کا مقدمہ، ص ۱۶۲۔ ۱۶۳، اشاعت نمبر بار چهارم ۲۰۰۴)
اس کے علاوہ یہی روایت:
[۱۶] تفسیر فرات کوفی: جلد اصفحہ ۱۰۹۔
[۱۷] تفسیر جوامع الجامع: جلد ۲، صفحہ ۱۹۳ میں بھی موجود ہے ۔
خلاصہ:
شیعہ محققین و مفسرین کی ان تمام عبارات میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ بعثت نبوی ﷺ کے تیسرے سال
وأنذر عشيرتك الأقربين
(الشعراء آیت نمبر ۲۱۴۔)
نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے اپنے قریبی رشتے داروں کی دعوت فرمائی جن کی تعداد۴۰ بتائی جاتی ہے، اس موقع پر آپ ﷺ نے اعلان فرمایا کہ جو شخص بھی میرے اوپر ایمان لے آئے گا اور میرے کام میں میرا بازو یعنی مددگار بنے گا تو وہ میرا وزیر، وصی اور میرے اہل میں میرا خلیفہ ہوگا، تو تمام مجلس میں سب سے چھوٹے بچے، جو جسم میں بھی کمزور تھے یعنی علی نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور آپ کا وزیر، وصی اور خلیفہ ہونے کے لئے تیار ہوں (گویا کہ حضرت علی نے ایمان ہی وزارت اور خلافت کے لیے قبول کیا) تو اس پر اہل مجلس نے ابوطالب کو شرم دلاتے ہوئے اس پر استہزاء کرتے ہوئے کہا کہ ”لو“ اب تم بھی اپنے بیٹے کی اطاعت کرو یہ تیرے اوپر بھی حاکم بنایا گیا ہے اور تیرے بیٹے کو تیرے اوپر حاکم بھی تیرے بھتیجے نے ہی بنایا ہے...... اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو اپنے قریب کر کے اپنا لعاب مبارک اس کے منہ میں ڈال دیا تو اس پر ابولہب نے کہا کہ تو نے اپنے چچا کے بیٹے سے کیسا برا سلوک کیا یعنی کہ اس نے تو تیری دعوت کو قبول کیا اور تو نے اس کے منہ اور چہرے کو تھوک سے بھر دیا، تو اس کے جواب میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اس کو حکمت اور علم سے بھر دیا ہے۔
تبصرہ:
اس تحقیق سے ظاہر ہوا کہ حضرت علی دعوت ذوالشیرہ کے موقعہ پر مسلمان ہوئے اور یہ بات پورے مکہ میں پھیل گئی ہوگی کہ یہ دیکھو کہ علی نے محمد ﷺ کی دعوت کو قبول کیا اور محمد ﷺ نے اس کے چہرے اور منہ کو تھوک آلودہ کر دیا، تمام مخالفین اس چیز کو لوگوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہونگے تاکہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ سے نفرت کریں کہ یہی ان کا مقصود تھا لیکن دوسری طرف رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ماننے والے یعنی صحابہ کرام دفاع کرتے ہوۓ فرماتے ہوں گے کہ حضرت علی نبی کریم ﷺ کا وزیر اور خلیفہ ہے اس لئے آپ ﷺ نے علی کو علم وحکمت سے بھر دیا اور اسی طرح ابوطالب پر علی کو حاکم بنانے پر بھی طعنہ زنی ہوتی رہی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ جتنا اس پر اختلاف بڑھتا رہا اتنا ہی یہ قصہ مشہور ہوتا گیا ہوگا اور علی کی خلافت مشہور ہوتی رہی ہوگی، اس لئے شیعہ مصنفین نے لکھا
’’و القصة بذالک مشہورۃ‘‘
(تفسیر التبیان ، ج ۸، ص۲۱ ۔)
نتیجہ:
شیعہ مذہب کے ان بڑے بڑے محققین و مفسرین علامہ وفہامہ کی اجتماعی تحقیق کا نتیجہ واضح طور پر یہ ہوا کہ بعثت نبوی ﷺ کے تیسرے سال آیت کریمہ
’’وأنذر عشيرتك الأقربين‘‘
نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کی دعوت طعام کر کے اعلان فرمایا کہ میں تمہارے پاس بشیر و نذیر بن کر آیا ہوں تم میں سے جو میری بات کو مانے گا اور اس کام میں میرا بازو یعنی مددگار بنے گا تو وہ میرا وزیر ، وصی اور میرے اہل میں میرا خلیفہ ہوگا۔ آپ ﷺ نے تین دن ان کی دعوت طعام کر کے ایمان لانے اور خلیفہ ہونے کی دعوت دی لیکن دو دن تو کسی نے بھی اقرار نہیں کیا سارے چلے گئے، یہاں تیسرے دن علی نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں آپ نے تین بار اس جملے کو دہرایا ہر بار حضرت علی اٹھ کر عرض کرنے لگے کہ میں آپ ﷺ پر ایمان لانے اور خلیفہ بننے کے لئے حاضر ہوں جس کے نتیجے میں حضرت علی کی خلافت کا اعلان عام کیا گیا، اسی دن سے حضرت علی رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ مشہور ہونے لگا۔ جیسے جیسے دعوت ذوالعشیرہ کا قصہ مشہور ہو تا گیا تو ویسے ہی علی المرتضی کی خلافت کی شہرت عام ہوتی رہی اور جس طرح مصطفی کریم ﷺ کی رسالت کے مخالف طرح طرح کے اعتراضات کرتے رہے اور دوسری طرف مصطفی کریم ﷺ کی دعوت پر جو مسلمان ہوتے گئے مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے عقیدہ رسالت کے پیغام کو مضبوط کرتے رہے۔اسی طرح حضرت علی کی خلافت پر بھی مخالفین کے اعتراضات تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ ابو طالب کے چھوٹے بچے کو خود ابوطالب جیسے اپنے قبیلے کی معتبر شخصیت پر حاکم بنایا گیا، اور دوسرا یہ کہ محمد ﷺ نے علی کی کس طرح توہین کی کہ علی نے اسکی دعوت کو قبول کیا اور محمد ﷺ نے اس کو بجائے شاباش دینے کے اس کے منہ اور چہرے کو تھوک سے بھر دیا، تو ان اعتراضات کا جواب بھی مسلمانوں کی طرف سے مخالفین کو ملتا رہا کہ اللہ اور رسول ﷺ کی طرف سے جو ہوا وہ برحق ہے اور رسول اللہ ﷺ جو اپنا لعاب مبارک حضرت علی کے منہ میں ڈالا تو آپ ﷺ نے اس کو حکمت اور علم سے بھر دیا۔
اس نتیجے کی بنیاد پر مذہب شیعہ میں علی المرتضی کو خلیفہ بلا فصل مانا جاتا ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی نبوت کے تیسرے سال ایمان لائے تھے اور خلافت کے لئے ایمان لائے تھے۔ بہرحال نبوت کے تیسرے سال حضرت علی کی خلافت مشہور ہوئی۔
یہ تھا شیعہ محققین کی تحقیق کا پہلا رخ / مؤقف/ دعوی، جس کو ہم نے باحوالہ نقل کیا، اس کے بعد ہم دوسرے رخ کو دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا ہے ؟
(جاری ہے)