Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فتح مکہ میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بن سعد بن ابی سرح کے سلسلہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سفارش

  علی محمد الصلابی

فتح مکہ میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بن سعد بن ابی سرح کے سلسلہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سفارش

فتح موقع پر سیدنا عبداللہؓ بن سعد بن ابی سرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر چھپ گیا آپؓ نے اس کو لے کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! عبداللہ سے بیعت لے لیجیے، آپﷺ نے سر مبارک اٹھایا اور اس کو تین مرتبہ انکار کی نگاہوں سے دیکھا اور پھر اس سے بیعت لے لی پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص نہیں تھا کہ مجھے بیعت سے ہاتھ کھینچتے ہوئے دیکھا ہوتا اور اس کی گردن قلم کر دیتا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! ہمیں نہیں معلوم کہ آپﷺ کے جی میں کیا ہے آپﷺ نے کیوں نہیں اپنی آنکھوں سے اشارہ فرما دیا؟ آپﷺ نے فرمایا نبی کے لیے آنکھوں کی خیانت مناسب نہیں۔

(الصارم المسلول علی شاتم الرسولﷺ: صفحہ، 109)

اور ایک روایت میں ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہﷺ نے صرف چار اشخاص کے علاوہ سب کو امان دے دی، اور ان چار اشخاص کے سلسلہ میں فرمایا انہیں جہاں کہیں پاؤ قتل کر دو اگرچہ وہ خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر لٹکے ہوئے ہوں: عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن حبابہ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح۔

(اضواء البیان فی تاریخ القرآن، صابر بن ابی سلیمان: صفحہ، 79)

عبداللہ بن خطل خانہ کعبہ کا پردہ تھامے ہوئے پکڑا گیا، سیدنا سعید بن حارثؓ اور سیدنا عمار بن یاسرؓ دونوں اس کی طرف لپکے اور سیدنا سعیدؓ نے آگے بڑھ کر قتل کر دیا۔ اور عکرمہ بن ابی جہل بھاگ کھڑے ہوئے اور جا کر کشتی پر سوار ہو کر فرار اختیار کرنا چاہا، تیز و تند آندھی چلی، کشتی والوں نے کہا: صرف اللہ کو پکارو، یہاں تمہارے معبود کام آنے والے نہیں۔ عکرمہ نے کہا اللہ کی قسم! اگر سمندر میں اللہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا، اور دعا کی: اے اللہ! اگر تو نے مجھے بچا لیا تو میں محمدﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا، اور میں آپﷺ کو ضرور عفو و درگزر کرنے والا، کرم نواز پاؤں گا۔ پھر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا۔ اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر چھپ گئے اور جب رسول اللہﷺ نے لوگوں کو بیعت کی اور دعوت دی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں لا کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس روایت میں باقی حصہ گزشتہ روایت کی طرح ہے۔

(اضواء البیان فی تاریخ القرآن: صفحہ، 80)

سیدنا عبداللہؓ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہؓ بن سعد بن ابی سرح رسول اللہﷺ کے پاس کتابت کرتا تھا، لیکن شیطان نے اس کو بہکایا اور کفار سے جا ملا۔ رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر اس کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ لیکن جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے پناہ طلب کی تو رسول اللہﷺ نے پناہ دے دی۔

(اضواء البیان فی تاریخ القرآن: صفحہ، 80)

سیدنا ابنِ اسحاق سیدنا عبداللہؓ بن سعد بن ابی سرح کے قتل سے متعلق فرمانِ نبویﷺ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سفارش کا سبب بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: رسول اللہﷺ نے قتل کا فرمان اس لیے جاری کیا تھا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور رسول اللہﷺ کے پاس وحی لکھنے پر مامور تھا پھر یہ مرتد ہو کر قریش کے پاس واپس چلا گیا، اور چوں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کے رضاعی بھائی لگتے تھے اس لیے فتح مکہ کے موقع پر ان کے پاس جا کر چھپ گیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے پاس رکھا اور جب مکہ میں امن و امان بحال ہو گیا تو رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کر کے اس کے لیے امان طلب کی۔

سیدنا ابنِ ہشام کا بیان ہے کہ پھر اس کے بعد یہ دوبارہ اسلام لے آئے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اپنے بعض عمال پر انہیں والی مقرر کیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمانؓ نے بھی انہیں والی مقرر فرمایا۔

(السیرۃ النبویۃ، ابنِ ہشام: جلد، 4 صفحہ، 57۔ 58)