Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فرضی امام مہدی کا خوف قتل، جان بچا کر غائب ہونا اور خیر طلب کے دلائل کا رد

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

فرضی امام مہدی کا خوف قتل، جان بچا کر غائب ہونا اور خیر طلب کے دلائل کا رد

سب سے پہلے رافضی خیرطلب کی پوسٹ پڑھتے ہیں۔

×امام مھدی علیہ السلام کا خوف قتل ہونا×

ناظرین ہم نے جنگ بدر میں بعض صحابہ کا قتال سے خوف نقل کیا تھا اور چونکہ قتال میں خوف اس نوعیت کوہونا کہ وہ جنگ کرنے میں مانع ہو تو اس صورت میں یہ چیز قابل مدح نہیں درحالآنکہ وہ خوف جو جان کی حفاظتکا پیش خیمہ بنے وہ خوف یقینا قابل مدح ہے (بشرط یہ کہ اس سے جان سے بڑھ کر کسی مھم چیز کا ضیاع نہ ہو)۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ

اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

(بقرہ ١٩٥)

لہذا اپنی جان کو ہلاکت سے بچانا ضروری ہے، اب فخرالزماں صاحب ایک جواب دیتے ہوئے لکھتے ہے:

(فخر: ۳، شیعہ محدث اور مجتھد ابو جعفر طوسی اپنی ’’کتاب الغیبہ‘‘ میں اپنے امام غائب کے بارے میں لکھتا ھےکہ

لا علۃ تمنع من ظہورہ الا خوفہ علی نفسہ من القتل۔

یعنی امام غائب اس لیے ظاہر نہیں ہوتے کہ ان کو اپنے قتل ہونے کاخوف ہے۔

ان پر بھی کوئی شیعہ خصوصا خیر طلب صاحب پوسٹ بنا کر کچھ تنقید کریں تاکہ پتا چلے کہ یہ اسلام کےساتھ کتنے سچے ہیں۔)

  ناظرین دیکھئے کہا میدان جنگ میں خوف ہونا اور کہا میدان جنگ سے باہر اپنی جان کی حفاظت کرنا اور اس کےضیاع کا خوف ہونا۔ ان دونوں کو ملا کر فخرالزماں صاحب نے قیاس باطل سے پورا کام لیا ہے۔

دیکھئے سورہ قصص پڑھئے جس میں حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ موجود ہے اور اس میں حضرت موسی عکے خوف کا بھی ذکر آیا ہے تو کیا یہ پھبکیاں ادھر بھی محترم فخرالزماں صاحب کریں گے۔

قرآن کی آیت ملاحظہ ہو:

فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ ۖ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

(ترجمہ جالندھری): موسٰی وہاں سے ڈرتے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں (کیا ہوتا ہے) اور دعا کرنے لگے کہ اےپروردگار مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔

(قصص ٢١)

اس میں واضح طور پر حضرت موسیٰ ع کا خوفزدہ ہونا لکھا ہے۔

مفسر طبری اس کے ذیل میں لکھتے ہے:

يقول تعالى ذكره: فخرج موسى من مدينة فرعون خائفا من قتله النفس أن يقتل به (يَتَرَقَّبُ) يقول: ينتظر الطلب أن يدركه فيأخذه

اللہ تعالی فرماتا ہے: کہ موسیٰ ع فرعون کے شہر سے نکلے درحالآنکہ وہ خوفزدہ تھے کہی انہیں قتل نہ کردیا جائے اس بدلہ جو انہوں نے ایک شخص (قبطی) کو مارا تھا، (آیت کا حصہ یترقب): یعنی وہ اس کے منتظر تھے کہ ان کو ڈھونڈ کر پکڑا جائے اور پھر مواخذہ لیا جائے۔

اب اس ذیل میں مفسر طبری نے کچھ مفسرین کی آراء کو نقل کیا جو پیش خدمت ہے:

حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قَتادة: (فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ) خائفًا من قتله النفس يترقب الطلب (قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ) .

قتادہ اس آیت (فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ) کے بارے میں کہتے ہے کہ جو انہوں نے قتل کیا تھا ایک شخص کا اس کے پکڑے جانے کے خوف میں مبتلا تھے اور پھر موسی ع نے دعا کی رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

اس بات کو پھر سے مفسر طبری نے مفسر قتادہ سے اس سند سے بھی نقل کیا:

حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثني أبو سفيان، عن معمر، عن قَتادة (فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ) قال: خائفا من قتل النفس، يترقب أن يأخذه الطلب.

مفسر طبری پھر ابن اسحاق سے منسوب ایک اثر کو نقل کرتے ہے:

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، عن ابن إسحاق، قال: ذُكر لي أنه خرج على وجهه خائفا يترقب ما يدري أي وجه يسلك، وهو يقول: (رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ) .

ابن اسحاق کہتے ہے کہ مجھے ذکر کیا گیا کہ جب موسیٰ ع نکلےتو وہ خوفزدہ تھے کہ دیکھیں (کیا ہوتا ہے) اور وہ نہیں جانتے تھے کہ کون سے راستہ کی طرف جائیں پس انہوں نے دعا کی

(رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ)

مفسر طبری پھر ابن زید کا قول نقل کرتے ہے:

حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: قال ابن زيد، في قوله: (فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ) قال: يترقب مخافة الطلب

ابن زید آیت

(فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ)

کی تفسیر میں کہتے ہے کہ موسیٰ کو ڈرتا تھا کہ کہیں پکڑے نہ جائیں۔

حوالہ:

تفسیر طبری جلد ١٨ ص ٢٠١-٢٠٢ طبع دار الھجر۔

کمنٹ: ناظرین ہم تو امام زمانہ ع کو اس سنت موسوی ص کی پیروی والا بتاتے ہیں۔

اب اس ہی سورہ قصص میں آگے چلیں تو آیت ملاحظہ کیجئے:

قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ

(ترجمہ جالندھری) موسٰی نے کہا اے پروردگار اُن میں کا ایک شخص میرے ہاتھ سے قتل ہوچکا ہے سو مجھے خوفہے کہ وہ (کہیں) مجھ کو مار نہ ڈالیں

(قصص ٣٣)

تبصرہ: ناظرین اس آیت میں تو موسیٰ ع کا قتل کے خوف کا واضح پیغام ہے۔ تو کیا ادھر بھی کوئی کمنٹفخرالزماں صاحب کرنا چاہیں گے۔

علامہ مکی بن ابی طالب مفسر رقم طراز ہے:

قال تعالى ذكره: {قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْساً فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ}، أي إني أخاف إن آتيتهم فلم أين عن نفسي أن يقتلون بالنفس التي قتلت،

قرآن مجید میں آیت {قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْساً فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ} کے معنی یہ کہ موسی کہتے کہ مجھے خوف ہے کہ میں ان کے پاس جاؤں تو کہی میں اس قتل کے بدلہ جو میں نے اس شخص کا کیا تھا فرعون والے مجھے ہی نہ مار دیں

حوالہ:

الهداية الى بلوغ النهاية ص ٥٥٣١ طبع جامعة الشارقة – كلية الدراسات العليا والبحث العلمي

علامہ ابن کثیر لکھتے ہے:

لَمَّا أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِالذَّهَابِ إِلَى فِرْعَوْنَ، الَّذِي إِنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيَارِ مِصْرَ فِرَارًا مِنْهُ وَخَوْفًا مِنْ سَطْوَتِهِ، {قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُمِنْهُمْ نَفْسًا} يَعْنِي: ذَلِكَ الْقِبْطِيَّ، {فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ} أَيْ: إِذَا رَأَوْنِي.

جب اللہ نے موسیٰ ع کو حکم دیا کہ وہ فرعون کے پاس جائیں جس سے بھاگتے ہوئے موسیٰ مصر سے آئے تھے اوراس کی حکومت سے خوفزدہ تھے تو اس وقت موسی نے کہ اے پروردگار اُن میں کا ایک شخص میرے ہاتھ سے قتلہوچکا ہے یعنی وہ قبطی اور آیت: سو مجھے خوف ہے کہ وہ (کہیں) مجھ کو مار نہ ڈالیں یعنی جب وہ مجھےدیکھیں۔

حوالہ:

تفسیر ابن کثیر، جلد ٦ ص ٢٣٦ طبع دار الطیبہ۔

ناظرین یہ دو آیات اس ذیل میں کافی ہے۔ اور امام زمانہ ع کا قتل کے خوف سے نہ آنا ان کی ہرگز توہین نہیں بلکہتوہین جب ہوتی جب تقاضہ شرع یہ ہوتا کہ آپ آئیں اور جنگ کیجئے اور پھر وہ خوفزدہ ہوتے جیسے کہ بدر میںبعض صحابہ خوفزدہ تھے اور احد میں کافی صحابہ رسول ص کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔

ناظرین خود فخرالزماں صاحب کے امام ابو حنیفہ نے ایک دفعہ کسی بری کاروائی سے بچنے کے لئے ایک حیلہ کیا، وہ بھی پیش خدمت کئے دیتا ہوں:

عبداللہ بن احمد بن حنبل نقل کرتے ہے:

حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حَنِيفَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي حَمَّادُ بْنُ أَبِي حَنِيفَةَ، قَالَ: أَرْسَلَابْنُ أَبِي لَيْلَى إِلَى أَبِي فَقَالَ لَهُ: تُبْ مِمَّا تَقُولُ فِي الْقُرْآنِ أَنَّهُ مَخْلُوقٌ وَإِلَّا أَقْدَمْتُ عَلَيْكَ بِمَا تَكْرَهُ، قَالَ: فَتَابَعَهُ قُلْتُ: يَا أَبَهْكَيْفَ فَعَلْتَ ذَا؟ قَالَ: «يَا بُنَيَّ خِفْتُ أَنْ يَقْدُمَ عَلَيَّ فَأَعْطَيْتُ تَقِيَّةً»

حماد بن ابی حنیفہ کہتے ہے کہ ابن ابی لیلی نے میرے ابا (ابوحنیفہ) کے پاس ایک پروانہ بھیجا جس میں تھا کہ تماپنی بات سے توبہ کرو جو تم قرآن کو مخلوق کہتے ہو ورنہ میں وہ چیز کروں گا تمہارے ساتھ جو تمہیں بری لگےگی، تو ابوحنیفہ نے اپنے اس قول سے توبہ کرلی، تو میں نے اپنے باپ سے کہا یہ آپ کس طرح کرسکتے ہے، توابوحنیفہ نے جواب دیا بیٹا میں ڈر گیا تھا کہ وہ میرے ساتھ کیا کرتا ہے پس میں نے تقیہ سے کام لیا۔

حوالہ:

السنة جلد ١ ص ١٨٣ رقم ٢٣٨ طبع دار ابن القیم۔

اس روایت کے شواھد اور بھی موجود ہیں تو یہ ایک الزامی جواب قبول کیجئے۔

فائنل کمنٹ: ناظرین میدان جنگ میں دشمنوں کے خوف سے جنگ کی طرف نہ جانا ایک بات ہے اور نارمل حالات میںجب حکومت خلاف ہو اور وہ قتل کے درپے ہو اس صورت میں تحفظ جان کرنا اور اس کے ضیاع کا خوف ہونا بالکلمختلف ہے۔ دونوں کو ملانا ہی غلط ہے۔

خیر طلب۔


الجواب:

ناظرین۔۔۔ آپ نے خیر طلب کا جواب پڑھا۔

یاد رہے کہ انہیں جنگ بدر والی پوسٹ کا مدلل جواب دیا جاچکا ہے۔

انہوں نے دو اہم اعتراض کئے تھے۔

1️⃣ صحابہ کرام کو مال کی لالچ تھی۔

2️⃣ صحابہ کرام جنگ سے خوفزدہ تھے۔

دونوں کا رد اس طرح کیا گیا کہ

مال غنیمت اللہ عزوجل اور نبی کریم کا بھی اصل مقصد تھا یہ اگر لالچ ہے تو الزام براہ راست اللہ عزوجل اور نبی کریم پر عائد ہوتا ہے۔

غزوہ بدر کوئی باقائدہ جنگی تیاریوں اور پلاننگ کے بعد نہیں لڑی گئی تھی بلکہ مدینہ سے نکلتے وقت مدنی لشکر کااصل ٹارگیٹ وہ تجارتی قافلہ تھا جو شام سے واپس آ رہا تھا۔ صحابہ کرام جنگی تیاریوں سے نہیں نکلے تھے اور کئی صحابہ تو مدینہ میں رہ گئے تھے کہ تجارتی قافلہ صرف چالیس افراد پر مشتمل تھا۔

جب راستے میں صورتحال تبدیل ہوئی اور مکی لشکر جو ایک ہزار کے قریب تھا وہ پوری جنگی تیاری سے سامنے آیا تو صحابہ کرام کو اپنی انتہائی مختصر تعداد اور بے سر و سامانی کی وجہ سے مایوسی اور خوف ہوا جو کہ عین فطرت انسانی ہے، لیکن یہ خوف عارضی تھا  اس کے بعد اسی تین سو تیرا کے لشکر نے بغیر ساز و سامان اور جنگی تیاری کے جس بہادری سے کفار مکہ سے جنگ کی وہ تاریخ اسلام میں اظہر من الشمس ہے۔

اس اعتراض کا تفصیلی رد اس پوسٹ سے پڑھ کر خود نتیجہ نکالیں کہ رافضیوں کے دونوں اعتراض باطل اور بغض صحابہ کا شاخسانہ ہیں۔

اعتراض غزوہ بدر میں صحابہ کا خوف اور شیعہ رافضی خیر طلب کے دلائل

اب آتے ہیں ، خیر طلب کے موجودہ جواب پر۔

پہلی بات یہ سراسر جھوٹ ہے کہ صحابہ کرام کو قتال کا خوف تھا اور وہ جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے۔

کسی صحابی نے جنگ سے منع نہیں کیا اور نہ میدان جنگ سے بھاگ کر جان بچائی۔

دوسری بات انسان کی فطرت کے مطابق سب سے عزیز قیمتی چیز اس کی جان ہے، اور ڈروخوف سے اپنی جان بچانا واقعی جائز ہے لیکن یہ عمل انفرادی نوعیت کا ہو تو قابل قبول ہےاگر سردار، لیڈر جان کے خوف سے بھاگ جائے یا ڈر کر چھپ جائے تو یہ عمل قابل مذمتہے نہ کہ قابل تحسین۔

فرضی امام مہدی شیعہ عقائد کے مطابق زمین پر اللہ عزوجل کی حجت ہے، منصوص مناللہ ہے اور اصل حاکم و خلیفہ ہے، اس کا جان بچا کرچودہ صدیوں سے غائب ہوجانادرحقیقت اللہ عزوجل کی قدرت کاملہ پر سوالیہ نشان ہے جوکہ قطعی طور پر درست  نہیںہے۔

خیر طلب نے سورت البقرہ آیت 195 پیش کرتے ہوئے اپنے فرضی امام مہدی کا دفاع کیا ہے کہ اس کا جان بچا کر غار میں چھپ جانا اور قتل ہوجانے کا ڈر عین قرآنی تعلیمات کےمطابق ہے۔

سیقول : سورۃ البقرة : آیت 195

وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ

﴿۱۹۵﴾

اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو   اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالیٰ احسانکرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

یہ آیت اس لئے نازل نہیں ہوئی کہ حق کے سامنے جان زیادہ اہمیت کی حامل ہے یا انسانمشکل حالات میں ایمان کا سودہ کرلے اور جان بچالے تو یہ عمل باعث تحسین ہے۔

تقریباً تمام سنی و شیعہ مفسرین نے  یہی لکھا ہے کہ اس آیت میں راہ خدا میں خرچ نہ کرنے والوں کو اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالنے کی نصیحت کی گئی ہے۔

آیت کریمہ کا شان نزول بھی یہی ہے۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے ایک موقعہ پر اس آیت سے جان کو ہلاکت میں نہ ڈالنے کی وضاحت بھی کردی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ خیر طلب کا استدلال اس آیت کے مفہوم کے برخلاف ہے۔

اسباب نزول قرآن :

قول خداوندی۔

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ۔

اور خدا کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔







 

ہمیں سعید بن محمد الزاہد نے اسے ابوعلی بن ابوبکر الفقیہ نے اسے احمد بن الحسین بن الجنید نے، اسے عبداللہ بن ایوب نے اور ہشیم نے بحوالہ داؤد اس نے بحوالہ الشعبی خبردی الشعبی نے کہا کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ سے ہاتھ روک لیے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

ہشیم نے ان ہی اسناد کے ساتھ اسماعیل بن ابی خالد سے بحوالہ عکرمہ ہمیں یہ حدیث سنائی کہ یہ آیت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں ہے۔

ہمیں ابوبکر المہر جانی نے اسے ابوعبداللہ بن بطہ نے اسے ابوالقاسم البغوی نے اسے ھدبہ بن خالد نے، اسے حماد بن سلمہ نے بحوالہ داؤد الشعبی الضحاک بن ابی جبیرہ خبر دی۔ ابن ابی جبیرہ نے کہا کہ انصار خوب صدقہ دیتے تھے اور دوسروں کو خوب کھلاتے تھے ان کے ہاں ایک سال قحط پڑگیا تو انہوں نے خرچ کرنے سے ہاتھ روک لیا اس پر اللہ نے یہ آیت نازل کی۔

ابومنصور البغدادی نے اسے ابوالحسن السراج نے اسے محمد بن عبداللہ نے اسے ھدبہ نے اسے حماد بن سلمہ نے سماک بن حرب سے اس نے نعمان بن بشیر سے اللہ کے اس قول ولاتلقوا بایدیکم کے بارے میں ہمیں خبر دی کہ ایک شخص کوئی گناہ کرتا اور کہتا کہ لایغفرلی یعنی اللہ مجھے معاف نہ کرے تو اللہ نے یہ آیت نازل کی۔

ہمیں ابوالقاسم بن عبدان نے اسے محمد بن حمدویہ نے اسے محمد بن صالح بن ہانی نے خبر دی اس نے کہا کہ ہم سے احمد بن محمد بن انس القریشی نے اسے عبداللہ بن یزید المقری نے اسے حیوۃ بن شریح نے حدیث بیان کی اس نے کہا کہ مجھے یزید بن ابی حبیب نے اسے اسلم ابوعمران نے خبر دی کہ ہم قسطنطنیہ میں تھے جب مصریوں پر عقبہ بن عامر الجہنی صحابی رسول امیر مقرر تھے اور اہل شام پر فضالہ بن عبید صحابی رسول امیر مقرر تھے تو روم سے ایک عظیم لشکر برآمد ہوا اور ہم مسلمانوں نے اس کے خلاف عظیم صف آرائی کی مسلمانوں میں سے ایک شخص نے رومی صف پر حملہ کیا یہاں تک کہ وہ ان کے اندر داخل ہوا پھر وہاں سے نکل کر ہمارے پاس آیا لوگوں نے بلند آواز سے کہا یا چیخ کر کہا کہ سبحان اللہ اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا اس پر صحابی رسول ابوایوب انصاری اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے لوگو تم اس آیت کی غلط تاویل کررہے ہو یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس کا شان نزول یہ ہے کہ جب اللہ نے اپنے دین کو عزت بخشی اور غلبہ دیا اور اس کے مددگاروں کی کثرت ہوگئی تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے کچھ لوگوں سے رسول اللہ سے پوشیدہ کہا کہ ہمارے مال تو ضائع ہوگئے اچھا ہوتا اگر ہم یہ مال سنبھالتے یعنی اس سے سرمایہ کاری کرتے اور ضائع شدہ مال کی کمی پوری کرتے تو اللہ نے اپنی کتاب میں یہ آیت نازل کی جس میں ہمارے ارادے کی تردید کی اللہ نے فرمایا

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ۔

اس میں اللہ نے ہمیں وہ اموال خرچ کرنے کو کہا جسے ہم نے سنبھالے رکھنے اور اس سے اپنے معاملات سدھارنے کا ارادہ کیا تھا اور ہمیں جہاد کرنے حکم دیا حضرت ابوایوب مسلسل جہاد کرتے رہے تاآنکہ اللہ نے ان کی جان قبض کرلی۔

سیقول : سورۃ البقرة : آیت 195

وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۹۵﴾

(تفسیر نمونہ (اہل تشیع :


 

تفسیر

جس طرح جہاد میں مخلص ‘ طاقتور اور تجربہ کار مردوں کی ضرورت ہے اسی طرح مال و دولت کی بھی احتیاج ہے کیونکہ جہاد میں روحانی و جسمانی آمادگی کی ضرورت ہے اور فوج کے لیے مناسب اسلحہ اور سامان جنگ کی بھی احتیاج ہے۔

یہ صحیح ہے کہ پہلے درجے کا عامل سر نوشت اور انجام جنگ کا تعین مجاہدوں اور جانبازوں ہی سے ہوتا ہے ۔ لیکن مجاہد کو وسائل کی بھی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت تاکید کررہی ہے کہ اس راہ میں خرچ نہ کرنا گویا اپنے تیئس ہلاکت و تباہی میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

خصوصاً اس زمانے میں تو بہت سے مسلمان جذبے اور عشق جہاد سے سرشار تھے لیکن فقیر و محتاج تھے اور اسباب جنگ مہیا کرنے کی سکت نہ رکھتے تھے جیسا کہ قرآن نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کرتے تھے کہ ہمارے لیے سامان جنگ مہیا فرمائیں اور ہمیں میدان جنگ میں بھیجیں چونکہ اسباب مہیا نہ تھے لہٰذا وہ افسردہ اور غم گین روتی ہوئی آنکھوں سے پلٹ آتے :

تولوا واعینھم تفیض من الدمع غزناً الا یجدوا ما ینفقون “

آنکھوں میں اشک رواں لیے ہوئے لوٹ جاتے اور غم زدہ ہوتے کہ ان کے پاس مال کیوں نہیں جس سے وہ اسباب جنگمہیاکریں اور میدان جنگ میں حاضر ہوں۔

(توبہ۔ ٩٢)

خرچ کرنا معاشرے کو ہلاکت سے بچتا ہے۔

یہ آیت اگرچہ آیات جہاد کے ذیل میں آئی ہے لیکن اس سے ایک کلی و اجتماعی حقیقت معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ خرچ کرنا افراد معاشرہ کو ہلاکت سے بچانے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے برعکس اگر انفاق اور خرچ کرنے کے عمل کو فراموش کردیا جائے اور دولت ایک ہی طبقے کے پاس جمع ہوجائے تو ایک محروم اور بےنوا اکثریت وجود میں آجائے گی۔ زیادہ دیر یہ حالت قائم نہیں رہے گی اور جلد ایک دھماکہ ہوگا جس کے نتیجہ میں انسان اور سرمایہ داروں کا مال جل کر خاکستر ہوجائے گا۔ اس سے خرچ کرنے اور ہلاکت سے بچنے کا باہمی رابطہ بھی واضح ہوجاتا ہے۔

اس بناء پر انفاق اور خرچ کرنا محروموں اور محتاجوں سے پہلے سرمایہ داروں کے لیے مفید ہے یعنی دولت و ثروت کا اعتدال دولت و ثروت کا محافظ ہے۔ چنانچہ حضرت علی (رض) اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں :

” حصنوا اموالکم بالذکوۃ “

” زکوۃ دے کر اپنے مال کی حفاظت کرو “

” واحسنوا ان اللہ یحب المحسنین “

آیت کے آخر میں احسان اور نیکی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس طرح جہاد وانفاق کے مرحلے سے احسان و نیکی کے مرحلے کی طرف راہنمائی کی گئی ہے کیونکہ اسلام کی نظر میں احسان انسانیت کے تکامل وار تقاء کے بلند ترین مرحلے کا نام ہے۔

آیت انفاق میں اس جملے کا آنا اس طرف اشارہ ہے کہ انفاق میں نیکی کی مکمل تصویر اور مہربانی کا پورا اظہار ہونا چاہیے اور ہر قسم کے احسان جتلانے اور جن امور سے اس شخص کو رنج پہنچے جس سے نیکی کی گئی ہے ‘ بچنا چاہیے۔

اس ذیل میں کئی تفاسیر سے یہی مطالب دکھائے جاسکتے ہیں ، اختصار کے پیش نظر صرف دو حوالے دئے گئےہیں۔

اس کے بعد خیر طلب نے خوف کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔

1️⃣ میدان جنگ میں خوف زدہ ہونا

2️⃣ میدان جنگ سے باہر اپنی جان کی حفاظت کرنا اور اس کے ضیاع کا خوف ہونا۔

1️⃣ میدان جنگ میں خوف زدہ ہونا

میدان جنگ میں اس وقت خوفزدہ ہونا یقیناً برا عمل ہے جب جنگ شروع ہوچکی ہو ، لیکن اگر حالات موافق نہ ہوں اور جنگ سے پہلے حقائق دیکھتے ہوئے اور نتیجہ کا سوچ کرکچھ دیر کے لئے کہ خوف آجائے تو یہ کوئی معیوب بات نہیں ہےا۔ جب سامنے یقینی موت ہو تو فطرت انسانی کے مطابق  خوف و ڈر آ سکتا ہے۔

اصل بات ہوتی ہے میدان جنگ میں موجود رہنا ، آخری گھڑی تک ثابت قدم رہنا ، جنگ لڑنا، اپنی بہادری کے جوہر دکھانا اور شہادت یا غازی کے مرتبہ پر فائز ہوجانا۔

♦️ باعث مذمت فعل یہ ہیں۔

1️⃣ آخری گھڑی تک جنگ میں موجود نہ رہنا

2️⃣ خوف زدہ ہوکر لڑائی سے پرہیز کرنا

3️⃣ میدان جنگ سے فرار

خیر طلب اگر واقعی اپنے اعتراض میں سچے ہیں تو انہیں ثابت کرنا پڑے گا کہ یہ تینوں قابل مذمت فعل صحابہ کرام سے سرزد ہوئے ہیں، بصورت دیگر شروع جنگ کے خوف سے اس کا نتیجہ نکالنا جہالت ہے اور اس قبیح فعل سے وہ  اپنے بغض صحابہ کو تو تسکین دے سکتے ہیں لیکن شان صحابہ میں کوئی کمی نہیں کر سکتے۔

2️⃣ میدان جنگ سے باہر اپنی جان کی حفاظت کرنا اور اس کے ضیاع کا خوف ہونا۔

اس معاملہ میں شریعت نے چھوٹ دی ہے کہ انسان چاہے تو بحالت مجبوری غیر شرعی، قبیح فعل یا برے قول وغیرہ کہہ کر اپنی جان کی حفاظت کرسکتا ہے ، لیکن افضل عمل اس معاملہ میں بھی یہ ہے کہ انسان حق پر ڈٹ جائے اور ذرا برابر بھی اس سے انحراف نہ کرے چاہے اس کی جان ہی چلی جائے، اگر وہ مارا گیا تو شہید کہلایا جائے گا اور اللہ رب العزت کے ہاں شہید کی قدر و مزلت سب کے ہاں مسلم ہے۔

  اگر کسی کو شک ہو تو شروع اسلام میں حضرت بلال کی تکالیف ، میدان کربلا اور موجودہ دور تک حق کی راہمیں تکالیف برداشت کرنے والوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کرسکتا ہے، وہ اگر چاہتے تو بظاہر حق سے ہاتھ اٹھاکردنیاوی تکالیف سے بچ سکتے تھے لیکن انہوں نے قربانیاں دینا ، اپنا مال، خاندان، اپنی جانیں دین کی راہ میںنچھاور کرنا زیادہ بہتر سمجھا اور یہی اصل حق ہے۔   

سورت القصص میں حضرت موسی کا خوف اور فرضی امام مہدی کے خوف کا تقابلی جائزہ

آگے خیر طلب نے سورت القصص سے حضرت موسی کے خوف کا ذکر کیا ہے تاکہ اپنے فرضی امام مہدی کے غائب ہونے کو درست قرار دے سکیں۔

پہلے حضرت موسی کے قصے کو مختصرآ سمجھتے ہیں۔

امن خلق سورہ القصص : آیت 21

فَخَرَجَ مِنۡہَا خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ ۫ قَالَ رَبِّ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۲۱﴾

پس موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے خوفزدہ ہو کر دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے کہنے لگے اے پروردگار! مجھےظالموں کے گروہ سے بچا لے۔

تفسیر: یہ خبر سنتے ہی موسیٰ (علیہ السلام) ڈرتے سہتے نکل کھڑے ہوئے ، اور انھوں نے دعا کی اے میرے رب مجھ کو ظالموں سے بچا لے ، اب قتل خطا تو کوئی بڑا جرم ہے نہیں ۔ بالکل simple سیدھی بات ہے کہ ایکسیڈنٹ ہوگیا ، اب ایکسڈنٹ میں تو کوئی کسی کو جیل میں نہیں ڈال دیتا یا سزا نہیں دیتا ، لیکن موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کو جانتے تھے ان کو فرعون سے کوئی امید نہیں تھی کہ وہ ان کی کوئی بات سنے گا ، وہ سمجھ گئے کہ اس نے فیصلہ پہلے کرلیا ہے ، اب وہ کوئی بات سننے والا نہیں، اور یہ ظالم حکمرانوں کا طریقہ ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ پہلے کرتے ہیں اور مقدمہ بعد میں قائم کرتے ہیں۔ پہلے decide کرلیا ہوتا ہے کہ کرنا کیا ہے پھر ایسے ہی لوگوں کو دکھانے کے لیے مقدمہ بھی چلا دیا جاتا ہے مقدمے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم کنکریٹ facts کو دیکھیں گے اور انصاف فراہم کریں گے ، مقدمے کا تو ایک بس ڈرامہ ہی ہوتا ہے تاکہ اپنا من پسند فیصلہ نافذ کیا جاسکے ، یہ فرعون کا بھی طریقہ تھا۔

اس آیت میں اسی واقعہ کا ذکر ہے، موسیٰ (علیہ السلام) کی داستان بیان کی جا رہی ہے ان سے ایک قتل ہوگیا قتل خطا۔

مصر میں فرعون کی سزا کی ان کو خبر ملی کہ فرعون ان کی جان کا دشمن ہوگیا ہے ان کو قتل کرنا چاہتا ہے تو موسیٰ چونکہ معصوم تھے بےقصور تھے ، کوئی جان بوجھ کر ان سے یہ خطا نہ ہوئی تھی لیکن فرعون کے پاس اگر جاتے تو فرعون بات نہ سنتا ، اس نے فیصلہ تو پہلے ہی کرلیا تھا کہ مجھ کو قتل تو کرنا ہی ہے موسیٰ (علیہ السلام) کو ، تو موسیٰ (علیہ السلام) اپنی جان بچانے کی خاطر مصر چھوڑ کر نکل پڑے ، اور انھوں نے مدین کا رخ کیا۔

مزید تفصیل مختلف تفاسیر میں موجود ہے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت موسی کا خوف قابل معیوب ہرگز نہیں ہے۔یہ بالکل وہی معاملہ ہے جب مکہ کے کفار نے نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے کیپلاننگ کی تھی تو اللہ عزوجل نے انہیں ہجرت کا حکم دیا تاکہ ان کی جان کاخطرہ ٹل جائے۔ اب اگر کوئی جاہل یہ کہے کہ نبی کریمﷺ نے معاذاللہ خوف زدہہوکر مکہ سے ہجرت کی انہیں جان جانے کا ڈر تھا تو یہ اس کے عقل و فہم کاقصور سمجھا جائے گا۔

جس طرح میدان جنگ میں فریق آگے بڑھ کر وار کرتا ہے تو کبھی پیچھے کی طرف بھی ہوجاتا ہے تاکہ حملہ کیڈائریکشن بدلی جاسکے یا حکمت عملی تبدیل کی جاسکے، کوئی بھی عقلمند اس پیچھے ہٹنے کو خوف، ڈر یابزدلی نہیں کہے گا۔ نتیجہ بیچ جنگ میں نہیں نکالا جاتا بلکہ آخر میں جب جنگ اختتام پذیر ہوجائے تب ہی نتیجہنکالا جاتا ہے۔

اسی طرح عملی زندگی میں مقاصد کے حصول کی خاطر جان کی حفاظت کرنا ایک ضروری امر ہے تاکہ بوقت ضرورت بہتر حکمت عملی سے مطلوبہ ہدف حاصل کیا جاسکے۔

حضرت موسی علیہ السلام کا خوف ہو یا نبی کریمﷺ کی ہجرت یہ معاملات باعث مذمت نہیں ہیں۔

دوسری طرف فرضی امام مہدی کا اس وجہ سے غائب ہوجانا اس لئے قابل مذمتہے کہ وہ چند دنوں، مہینوں یا سالوں کے لئے نہیں بلکہ صدیوں سے غائب ہیں!!

شیعہ عقائد کے مطابق ہر دور میں معصوم امام کی موجودگی لازم ہے لیکنفرضی امام مہدی چودہ صدیوں سے اپنی جان بچانے کے علاوہ امت مسلمہ کیکوئی مدد و رہنمائی نہیں کرسکے!

ایسے امام غائب کا امت کو کیا فائیدہ ؟؟ اور اس غیرحقیقی عقیدہ امامت سے دیناسلام کو کونسی تقویت ملی؟

اگر امام کو جان بچا کر غائب ہی رہنا تھا تو براہ راست نبی کریمﷺسے ہدایت لینے میں کیا خامی ہے۔؟

اہل سنت حیات النبیﷺ کے قائل ہیں۔ جس امت میں نبی کریمﷺ کی موجودگی ہو وہاں کسی اور غائب کیموجودگی کی ضرورت کیوں اور کس طرح ممکن ہے؟

اس کے بعد بھی خیر طلب نے مزید اسی نکتہ پرمختلف دلائل دئے ہیں ، لیکن کوئی نئی دلیل نہیں دی ۔

امام زمانہ کا قتل کے خوف سے نہ آنا اس لئے قابل مذمت ہے کہ یہ خوف چودہ صدیوں پر محیط ہے!!

کئی ادوار ایسے بھی آئے جب شیعہ برسر اقتدار آئے، ان کا غلبہ ہوا۔۔ لیکن فرضی امام غائب کا خوف پھر بھی کم نہ ہوا۔۔!!!

یہ خوف کس سے ہے؟ 

کیا چودہ صدیوں سے ان کا وہ دشمن بھی زندہ ہے اور ان کے انتظار میں ہے؟ 

یہ فلسفہ نہ سمجھ آسکتا ہے اور نہ سمجھایا جاسکتا ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جان بچانے کے لئے وقتی کوشش کرنا شریعت میں جائز ہونے کے باوجود حق کی راہمیں نکلنا اور جان قربان کردینا زیادہ فضیلت کا باعث ہے۔

آخر میں خیر طلب نے امام ابوحنیفہ کے خوف کو بھی بیان کرکے فرضی امام کے خوف کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس کا جواب بھی وہی ہے کہ  بحالت مجبوری عارضی طور پر جان بچانا جائز ہے، لیکن اس کے باوجود امام ابوحنیفہ نے حق کی بات بھی بتادی، وہ غائب نہیں ہوگئے۔ منظر عام پر موجود رہے جبکہ فرضی امام غائب کا معاملہ قطعی مختلف ہے۔

فائنل کمنٹ:

ناظرین میدان جنگ میں دشمن کے خوف کا ہونا فطرت انسانی ہے، لیکن اس کے باوجود جنگ میں شریک ہونا، آخریگھڑی تک میدان میں موجود رہنا، لڑنا، شہادت یا غازی کا رتبہ پانا باعث تحسین عمل ہے اس عارضی خوف کےباوجود صحابہ کرام نہ صرف جنگ میں شامل ہوئے بلکہ آخر تک لڑائی میں حصہ بھی لیا اور کئی شہادت کے رتبہ پر پہنچے۔

انفرادی طور پر جنگ کے علاوہ کسی اور موقعہ پر جان بچانا جائز ہونے کے باوجود افضل عمل جان کی پروا نہ کرنااور شہادت کا رتبہ پانا ہے۔

فرضی امام مہدی اگر اپنے دور کی حکومت کے ڈر سے غائب ہوگئے تھے تو بعد کی حکومتوں میں ان کا ظہور ہوجاناممکن تھا تاکہ اپنی امامت کے وہ فرائض سرانجام دیں جن کے لئے انہیں منتخب کیا گیا ہے، لیکن مقام حیرت ہے کہامت کی رہنمائی و اصلاح کرنے کے بجائے چودہ صدیوں سے ان پر جان کا خوف و ڈر حاوی ہے اور غار میں چھپ کرزندگی گذار رہے ہیں۔۔!!! یہ عمل کسی بھی طرح قابل تعریف قرار نہیں دیا جاسکتا!!