Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مسئلہ خلافت میں اہل تشیع کا دوسرا مؤقف نبوت کے آخری سال آخری حکم حضرت علی کی خلافت کا اعلان کرنا تھا  یہ حکم  پہلے نہیں دیا گیا تھا!(قسط 3)

  علامہ علی شیر رحمانی

مسئلہ خلافت میں اہل تشیع کا دوسرا مؤقف 

نبوت کے آخری سال آخری حکم حضرت علی کی خلافت کا اعلان کرنا تھا  یہ حکم  پہلے نہیں دیا گیا تھا!

حضرت علی کی خلافت کا پیغام آخری حکم تھا جس کا پہلے حکم نہیں کیا گیا تھا، نبی کریم ﷺ لوگوں کے ڈر کی وجہ سے یہ پیغام نہیں پہنچا رہے تھے ، پھر اللہ تعالی نے ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیں دے کر نبی کریم ﷺ کو مجبور کیا، تب نبی کریم ﷺ نے

”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ”

مبہم الفاظ کی صورت میں یہ پیغام پہنچایا۔

[1] نور الثقلين : 

تالیف المحدث الجليل العلامه الخبير الشيخ عبد علی بن جمعة العروسی صحه وعلق علیہ الحاج السید ہاشم الرسولی (المتوفی ۱۱۱۲) المطبعۃ العلمیہ بقم (ایران)۔

قال ابو جعفر وكانت الفريضة تنزل بعد فريضة الاخرى وكانت الولاية آخر الفرائض و انزل اللہ عزوجل الیوم اکملت لکم دینکم ۔۔۔قال ابو جعفر یقول اللہ عزوجل لا انزل بعدها فريضة قد اكملت لكم الفرائض۔

 ابو جعفر ( امام باقر) نے فرمایا: ایک فرض کے بعد دوسرا فرض نازل ہوتا تھا اور ولایت آخری فرض نازل ہوا، اور اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی

"اليوم أكملت لكم دينكم ...... الآية۔

(نور الثقلین ، ج ۱، ص ۶۵۲ ، حدیث نمبر ۲۹۱۔)

(یعنی ولایت علی کا حکم آخر میں نازل ہوا)۔

شیخ صدوق نے ’’امالی الصدوق‘‘ میں اپنی مرفوع ( نبی کریم ﷺ تک) سند سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علی کو فرمایا کہ اللہ تعالی نے میری طرف یہ آیت

"يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك.... الآية،

نازل فرمائی ہے یعنی

”فی ولايتك‘‘

اے علی تیری ولایت کے بارے میں ہے ۔

”وإن لم تفعل فما بلغت رسالتہ” 

یعنی اگر آپ نے یہ عمل نہیں کیا تو رسالت کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا

”ولولم اہلغ ما امرت بہ ولايتك لحبط عملی‘‘

یعنی اگر میں نے تیری ولایت کی تبلیغ نہیں کی تو یقینا میرے عمل برباد کئے جائیں گے ۔  (نعوذ باللہ )

(نور الثقلین ، ج ۱، ص ۶۵۴ ، حدیث نمبر ۲۹۶۔) 

کتاب الاحتجاج طبرسی میں مصنف نے اپنی اسناد سے محمد بن علی امام باقر سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے۔

’’يقول فلما بلغ غدير خم قبل الجحفة بثلاثة اميال اتاه جبرئیل عہ علی خمس ساعات مضت من النهار بالزجر والانتهار والعصمت من الناس .. .. "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربک‘‘ ۔

یعنی امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ غدیر خم پر پہنچے جو مقام جحفہ سے تین میل پہلے ہے ، تو دن کے پانچ گھنٹے گزرنے کے وقت ( دن گرم ہو چکا تھا) جبرئیل ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکوں اور لوگوں سے بچانے کا ذمہ لے کر آئے اور یہ آیت کریمہ سنائی

يا أيها الرسول بلغ.... الآية

پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو جمع کروایا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے میرے اوپر علی کے بارے میں ایک آیت نازل فرمائی ہے اور اگر میں وہ حکم نہیں پہنچاتا

”فتحل لى قارعةلايدفعها عنى احد‘‘

اسکی طرف سے میری پکڑ ہوگی اور اس سے کوئی ایک مجھے نہیں بچا سکے گا....

لانہ قد اعلمنی انى لم ابلغ ما انزل الى فما بلغت رسالتہ و قد ضمن لی تبارک و تعالی العصمۃ وھو اللہ الكافي. . . . يعنى في الخلافة لعلی ابن ابی طالب... الخ

یعنی اللہ نے مجھے بتایا ہے کہ جو میرے اوپر نازل کیا گیا ہے وہ نہیں پہنچاؤں گا تو فرمایا تُو نے رسالت کا کوئی حکم نہیں پہنچایا اور حفاظت کی اس نے ضمانت لی ہے ، وہ اللہ کافی ہے۔ پھر جبرئیل نے یہ وحی بتائی اے رسول اللہ ﷺ جو تیرے اوپر یعنی علی بن ابی طالب کی خلافت کا حکم نازل کیا گیا ہے وہ پہنچاؤ، اگر نہیں پہنچایا تو رسالت نہیں پہنچائی اور اللہ لوگوں کے شر سے تیری حفاظت فرمائے گا۔

(نور ثقلین ، ج ۱، ص ۶۵۵ / ۶۵۴ ، حدیث ۲۹۸۔)

[۲] تفسیر انوار النجف: 

ہجرت کے دسویں سال جناب رسالتمآب ﷺ نے حج بیت اللہ کا قصد فرمایا تو لوگوں میں اعلان کر دیا گیا ...... ساتھ جانے والوں کی تعداد کم از کم نوے ہزار ” ۹۰۰۰۰‘‘ اور زیادہ سے زیادہ سوا لاکھ تھی اور یہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو مدینہ سے ہم رکاب ہو کر گئے تھے اور یمن ،طائف اور دیگر اطراف سے جو لوگ مکہ میں شریک حج ہوئے تھے وہ ان کے علاوہ تھے...... حج سے واپس ہو کر مقام غدیر پر پہنچے یہ جمعرات کا دن اور ۱۸ ذوالج کی تاریخ تھی پس جبرئیل امین خداوند کریم کی جانب سے

" يا أيها الرسول بلغ ...... الآیۃ،

کا پیغام لائے اور حکم سنایا کہ علی کو لوگوں کا امام و ہادی مقرر فرمائیں ...... نقل روایت کا غیر معمولی اہتمام صاف بتاتا ہے کہ اسلامی احکام و فرائض میں جو مقام اس حکم ( ولایت) کو حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں، کیوں نہ ہو جب صاف لفظوں میں کہا گیا کہ اگر یہ تبلیغ نہیں کی تو کوئی تبلیغ نہیں کی۔  یہی وجہ ہے کہ جب حضرت علی کی ولایت کے اعلان کا حکم پہنچا، تو حضور ﷺ چونکہ جانتے تھے کہ منافق لوگ باتیں بنائیں گے اور نہ مانیں گے اور ممکن ہے اختلاف کر کے علم بغاوت کھڑا کر دیں تو خداوند کریم نے اس امر کی ضمانت دی کہ ان کے فساد کا میں ضامن ہوں اور آپ کو محفوظ رکھوں گا ( آپ ﷺ کو جان کا خطرہ تھا) بہر کیف حضور ﷺ کو مسلمانوں کی چیرہ دستیوں کا خطرہ لاحق تھا لیکن خداوند کریم کی تاکیدی و تہدیدی ( جھڑک دینے والے) فرمان کے بعد حضور ﷺ نے مجمع عام میں امیر کی خلافت (فھذا علی مولاہ کہہ کر ) کا اعلان فرمایا۔

تفسیر انوار النجف في اسرار المصحف ، ج ۵، ص ۱۳۹ تا ۱۴۴،

مصنف علامه حسین بخش جاڑا۔

(یعنی ولایت علی کا حکم سب سے آخر میں نازل ہوا)۔

امام جعفر صادق نے فرمایا تھا کہ لوگوں کو دو گواہوں سے حق مل جاتا ہے لیکن حضرت علی کو ایک لاکھ چوبیسں ہزار گواہوں کے باوجود حق نہ مل سکا۔

(تفسیر انوار النجف في اسرار الصحف ، ج ۵، ص ۱۴۳۔)

( حق کس پر تھا؟ جبکہ شیعہ مذہب میں ہے کہ خلیفہ بنانا اللہ کے ذمے ہے لوگوں کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے)۔

[۳] القرآن المبین یعنی تفسیر المتقین:

از حضرت امدادالملت والدین العلامہ السید امداد الحسین الکاظمی المشہدی،

ناشر : شیعہ جنرل بک ایجنسی انصاف پریس لاہور ،

اس شیعہ مصنف نے تفسیر صافی کے حوالے سے لکھا ہے کہ تفسیر الصافی صفحہ ۱۲۹ پر بحوالہ کافی جناب امام محمد باقر سے ایک حدیث کے ضمن میں منقول ہے کہ حضرت علی کی ولایت کے اعلان کا حکم جمعہ کے دن اور عرفہ کے دن آیا تھا، آیت ولایت اسی دن نازل ہوئی تھی اور دین کی تکمیل بھی علی کے اعلان ولایت پر ہوئی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے عرض کی کہ میری امت ابھی ابھی کفر سے اسلام میں داخل ہوئی ہے اگر میں اپنے ابن عم کے بارے میں اطلاع دوں گا تو کوئی کچھ کہے گا تو کوئی کچھ ، آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ بات میں نے زبان سے کسی سے نہیں کی تھی صرف میرے دل میں ہی ایساخیال گزرا تھا کہ خدا کا دوسرا حکم پہنچا جس میں مجھے عذاب سے ڈرایا گیا تھا اگر میں نے اس حکم کو نہ پہنچایا چنانچہ یہ آیت

"يا أيها الرسول بلغ ..... الآية ،

پوری کی پوری نازل ہوئی .... ( جس میں ہے کہ علی کی خلافت کا اعلان نہیں کیا تو رسالت کا حق ادا نہیں کیا) چنانچہ امام باقر فرماتے ہیں کہ چونکہ جناب رسول خدا ﷺ خلق خدا پر ، خدا کے علم اور اس کے دین کے امین تھے جو اللہ تعالی نے پسند فرمایا تھا امانت کا حق ادا کر گئے۔ نیز حضرت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خدا نے اپنے رسول ﷺ کو ولایت علی کا حکم دیا اور ان پر آیت

إنما ولیکم اللہ ..... الآیۃ

نازل فرمائی اور اولو الامر کی اطاعت واجب کی مگر لوگ نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کیا چیز ہے بس اللہ تعالی نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ ولایت کی تفسیر ان کے لیے ایسے بیان کر دے جیسا کہ نماز ، روزہ، زکوۃ اور حج کی تفسیر کی تھی۔ جب خدا کا یہ حکم پہنچا تو آنحضرت ﷺ کو کسی قدر تردد (شک) ہوا، ڈر یہ تھا کہ لوگ مرتد نہ ہو جائیں اور میری تکذیب نہ کریں  پس اللہ کی طرف سے رجوع کیا...... ادھر سے وحی نازل ہوئی

"يا أيها الرسول بلغ.. ... الآية

(تفسیر المتقين، سورہ مائدہ آیت ۶۷ کی تفسیر ،ص ۱۵۳۔)

[۴] ترجمه و تفسیر مقبول احمد : 

مصنف دقیقه شناس رموز قرآنی متکلم و مناظر لاثانی جناب مولوی حکیم سید مقبول احمد دہلوی۔

الجوامع میں حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر بن عبد اللہ سے منقول ہے کہ خدا تعالی نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا کہ علی المرتضی کو اپنے کُل آدمیوں کا حاکم مقرر کر دیں اور لوگوں کو بھی اس عمل سے مطلع کر دیں پس آنحضرت کو یہ اندیشہ ہوا کہ یہ امر میرے صحابہ میں سے ایک گروہ کو ناگوار گزرے گا اور لوگ یہ کہیں گے کہ آنحضرت ﷺ اپنے ابن عم کے نفع کے لیے کہہ رہے ہیں، اس وقت یہ آیت

( يا أيها الرسول بلغ ..... الآية )

(سورۃ المائدہ آیت ۶۷۔)

نازل ہوئی اور بروز غدیر خم آنحضرت ﷺ علی المرتضی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر لوگوں کو دکھایا اور بتلایا

’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘

مصنف نے آگے اصول کافی کی وہی روایت نقل کی ہے جس میں ہے کہ ولایت جناب امیر المؤمنین کا حکم جمعہ کے دن یوم عرفہ کو آیا تھا اور خدا کا یہ حکم تھا کہ اکمال دین اور اتمام نعمت علی بن ابی طالب کی ولایت کا حکم دینے پر موقوف ہے۔ جناب رسالتمآب ﷺ نے عرض کیا کہ میری امت چونکہ ابھی ابھی کفر سے داخل اسلام ہوئی ہے تو اگر میں اپنے ابن عم کے بارے میں یہ اطلاع دوں گا تو کوئی کچھ کہے گا کوئی کچھ ... تو خدا کا دوسرا حکم تاکیدی پہنچا جس میں مجھے عذاب سے ڈرایا گیا تھا اگر میں اس حکم کو نہ پہنچاؤں ، چنانچہ پوری آیت

” يا أيها الرسول بلغ ...... الآیۃ

نازل ہوئی۔ (ترجمہ مقبول ص ۱۸۸، مذکورہ آیت کی تفسیر میں۔)

اور اس مصنف نے کافی کی روایت نقل کی ہے کہ جناب امام باقر  فرماتے ہیں کہ ایک فریضہ کے بعد دوسرا فریضہ برابر نازل ہوتا رہا تھا اور ولایت و امامت سب سے آخری فریضہ ہے اس کے نازل ہو چکنے کے بعد خدا تعالی نے یہ آیت نازل کی

اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي

(سورۃ المائدہ آیت نمبر ۳۳)

گویا کہ خدا تعالی فرماتا ہے کہ اب میں کوئی اور واجب نازل نہیں کروں گا۔

(ضمیمہ مقبول ، ص۱۰۰۔)

( یعنی حضرت محمد باقر صاف بتا رہے ہیں کہ ولایت علی کا حکم سب احکام سے آخر میں نازل ہوا)۔ 

احتجاج طبرسی میں انہی حضرت سے منقول ہے کہ جناب رسول خدا ﷺ مدینہ منورہ سے حج کرنے چلے اس حالت میں کہ اپنی قوم کو سوائے حج اور ولایت کے کُل احکام پہنچا چکے تھے۔ جبرئیل امین آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے تھے اور یہ پیغام لائے تھے کہ یارسول اللہ ﷺ خدا تعالی آپ کو سلام پہنچاتا ہے اور یہ فرماتا ہے کہ اب آپ پر دو واجب باقی ہیں جن کی ضرورت ہے کہ آپ اپنی قوم کو پہنچادیں ایک فریضہ حج اور دوسرا فریضہ ولایت و خلافت ( اس کے بعد مصنف نے ایک لمبی کہانی ذکر کی ہے جس میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حج کے لیے لوگوں میں اعلان کیا اور ستر ہزار یا ان سے بھی زیادہ لوگ حج پر آئے جب آنحضرت ﷺ نے موقف میں جاکر قیام فرمایا تو جبرئیل امین نے آکر اللہ کا حکم سنایا کہ اب اپنے وصی اور خلیفہ کا اعلان کر دیں ۔  پس جناب رسول خدا ﷺ اپنی قوم سے عموماً اور اہل نفاق و شقاق سے خصوصاً اندیشہ ناک (خوفناک) تھے کہ یہ پھوٹ ڈالیں گے اور کفر کی طرف عود کر یں گے اس لیے جبرئیل امین سے کہا کہ پروردگار عالم سے سوال کرو کہ لوگوں کے شر سے مجھے محفوظ رکھے (یعنی جان کا خطرہ تھا)

پھر جس وقت مسجد خیف میں پہنچے تو جبر ئیل پھر حکم لائے مگر منجانب اللہ حفاظت کا وعدہ نہیں آیا یہاں تک کہ مکہ اور مدینہ کے مابین ”کراع الغمیم“ تک پہنچے پھر جبرئیل امین وہی حکم لائے مگر حفاظت کا وعدہ اب بھی نہیں تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے جبرئیل! مجھے اپنی قوم سے اندیشہ (خوف) ہے ، پھر جب غدیر خم پر پہنچے تو اس وقت جبرئیل انتہائی تاکیدی حکم مع وعدہ حفاظت لے کر آۓ فرمایا

’’یا أيها الرسول بلغ ...... الآية،

اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو جمع کر کے ایک طویل خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ اللہ نے اس وقت مجھ پر جو حکم نازل کیا ہے اگر میں اسے نہ پہنچاؤں گا تو گویا میں نے اسکی رسالت ہی نہیں پہنچائی اور اس بات کی ضمانت فرمائی ہے کہ وہ مجھے آدمیوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ جبرئیل میرے پاس تین مرتبہ آئے کہ میں ہر گورے اور کالے کو یہ اطلاع دوں کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی اور میرے وصی ، میرے خلیفہ اور میرے بعد امام ہیں۔اے لوگو! میں نے جبرئیل امین سے خواہش کی کہ خدا تعالی مجھے اس حکم کو تم تک پہنچانے سے معافی دے اس لئے کہ میں جانتاہوں کہ متقی تم میں بہت کم ہیں اور منافق زیادہ ہیں مگر اللہ تعالی نے میرا یہ کوئی عذر قبول نہیں فرمایا۔

(ضمیمہ مقبول ، ص ۱۰۰ تا ۱۰۷۔)

نوٹ:

اس میں ہے کہ آپ لوگوں سے ڈر کی وجہ سے بار بار اللہ کا حکم پہنچانے سے انکار کر رہے تھے کہ اس حکم کے پہنچانے سے مجھے معافی دے، مگر اللہ تعالی نے کوئی عذر قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ ہر گورے اور کالے کو یہ اطلاع دو کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی، میرے وصی، میرے خلیفہ اور میرے بعد امام ہیں لیکن آپ نے ان میں سے کوئی ایک لفظ بھی نہیں فرمایا بلکہ

من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ  ،

مبہم الفاظ کہہ کر بات کو گول مول کر دیا۔ 

تفسیر عیاشی میں زید بن ارقم سے یہ روایت ہے کہ روح الامین عرفہ کی شام کو جناب رسول خداﷺ پر ولایت علی کا حکم لے کر نازل ہوئے اور جناب رسول خدا ﷺ نے منافقوں کی تکذیب کے خوف سے اس حکم کے پہنچانے میں مضائقہ ( تنگی محسوس) کی اور کچھ لوگوں کو جن میں سے میں بھی تھا، بلا کر اس بارے میں مشورہ کیا کہ آیا حج میں یہ احکام سنائے جائیں یا نہیں ؟ ہماری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا جواب دیں۔ جناب رسول خدا ﷺ نے گریہ فرمایا (رونے لگے ) تو جبرئیل امین نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ امر خدا کے پہنچانے سے تنگ دل ہوتے ہیں ؟ ( اور گریہ کرتے ہیں؟) آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے جبرئیل! یہ بات نہیں ہے بلکہ میرا پروردگار جانتا ہے کہ قریش کے ہاتھوں سے مجھے کتنی اذیتیں پہنچی ہیں جب کہ انہوں نے میری رسالت کا اقرار نہ کیا تو پروردگار عالم نے ان سے جہاد کا حکم دیا اور آسمان سے میری نصرت کے لئے لشکر بھیجے فرشتوں نے میری مدد کی پھر وہ میرے بعد علی کی ولایت کا اقرار کیونکر کر لیں گے ؟ یہ سن کر جبرئیل امین چلے گئے اور اس کے بعد پروردگار عالم نے یہ آیت نازل فرمائی

” فلعلك تارك بعض ما يوحي إليك وضائق به صدرك ...... الآية،

ترجمہ! پس کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری طرف جو وحی بھیجی جاتی ہے تم اس کے کسی حصے کو چھوڑ دو اور تمہارا دل اس بات سے تنگ ہو جائے کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان پر خزانہ کیوں نہ اتر ایا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا۔

(سورۃ ھود آیت نمبر ۱۲ ترجمه مقبول، ص ۳۵۴۔)

نوٹ:

اس میں بھی یہی ہے کہ خلافت علی کا حکم حج کے موقع پر نازل ہوا تھا، اس سے پہلے نہیں ہوا تھا اور آپ لوگوں کے ڈر کی وجہ سے رو رہے تھے  اور اللہ کا پیغام نہیں پہنچارہے تھے ۔

[۵] تفسیر المیزان: 

مؤلف علامہ فقیه سید محمد حسین طباطبائی ، مترجم فارسی سید محمد باقر موسوی ہمدانی ، دفتر انتشارات اسلامی جامعه مدرسین حوزہ علمیہ قم (ایران)۔

رسول اللہ ﷺ کفار قریش اور وہ عرب جو متعصب تھے ان کو توحید خالص کے ماننے اور بت پرستی کے ترک کرنے کی دعوت دی۔ مشرکین عرب کو جو اہل کتاب سے بڑھ کر خونریز اور خطرناک تھے آپ ﷺ نے ان کو اسلام اور توحید کی دعوت دی لیکن اس قسم کی تہدید اور حفاظت کا وعدہ جو آج کے دن اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو دیا ہے اس وقت نہ دیا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغام تازه خطرناک ترین ”موضوعاتی است که رسول اللہ صہ بتازگی مامور تبلیغ آن شده است، یعنی یہ نیا پیغام انتہائی خطرناک موضوع ہے جو رسول اللہ ﷺ کو اس کی تبلیغ کا حکم کیا گیا ہے ( کہ اس کے نہ پہنچانے پر سخت تہدید ہے اور لوگوں سے حفاظت کا وعدہ ہے )۔

تفسیر المیزان ج ۶ ، صفحہ ۶۱۔ سورۃ المائدہ آیت

۶۷ کی تفسیر میں

’’ولازمۃ این معنی اینست کہ مقصود از ((ما انزل)) آں حکم تازه و مقصود از ((رسالت)) مجموع دین باشد‘‘

یعنی اور اس کا لازمی معنی یہ ہوگا کہ ’’ما انزل‘‘ کا مقصد وہ تازہ حکم ہے (علی کی خلافت کا حکم ) اور اس کے پہنچانے کا مقصد مجموعہ دین کا (یعنی پورے دین کا) پہنچانا( مقصود) ہو گا۔

(تفسیر المیزان ج ۶، ص ۶۵۔) ۔

( اور المیزان کے مصنف نے تفسیر عیاشی کے حوالے سے جلد ا، اس آیت کی تفسیر میں ۱۵۲ روایت میں لکھا ہے کہ ) تفسیر عیاشی میں روایت ہے کہ خدا تعالی نے اپنے نبی محمد ﷺ کو مامور کیا کہ علی کو لوگوں کے درمیان بعنوان علمیت مقرر کرو۔

”مردم را بولایت وے آنگابی دهد و از ہمیں جھت رسول اللہ صہ تر سید مردم متھمش ساختہ و بزبان بہ طعنش گشود بگویند‘‘۔

یعنی لوگوں کو اس کی ولایت سے آگاہ کر دے اور رسول اللہ ﷺ لوگوں کے خوف سے کہ لوگ تہمت لگائیں گے اور یہ طعنہ دیں گے کہ تمام مسلمانوں میں علی کو نامزد کیا ہے ( پیغام نہیں پہنچایا) تو خدا نے یہ آیت

" يا أيها الرسول بلغ...... الآية

نازل فرمائی۔

’’ ناگزیر رسول اللہ صہ در روز غدیر خم بہ امر ولایت علی عہ قیام نمود۔ تو مجبورا رسول اللہ ﷺ نے غدیر خم کے دن علی کی ولایت کو مقرر کیا۔

(تفسیر المیزان ج ۶ ، صفحہ ۷۷۔)

اور اس کتاب میں امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ جس وقت جبرئیل" حجۃ الوداع کے موقع پر علی کی ولایت کے اعلان کے متعلق

"يا أيها الرسول بلغ...... الآية،

لے کر نازل ہوئے تو رسول اللہ ﷺ

’’سه روز در انجام آں مکث کں دتار سید بہ جحفہ و در ایں سہ روز از ترس مردم دست علی رانگرفت واورا بالاۓ دست خود بلند نہ کرد‘‘

یعنی تین دن تک رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ڈر سے علی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند نہیں کیا حتی کہ مقام ”جحفہ “ تک پہنچے تو غدیر کے دن جب اس جگہ پہنچے جس کو ”مھیعۃ“ کہتے ہیں تو آپ سلام پر انتہائی بوجھ رکھا گیا اور کوئی چارہ نہ رہا تو آپ نے اچانک نماز کا اعلان کروایا اور اس کے بعد علی کا ہاتھ پکڑ کر اعلان فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے۔

( تفسیر المیزان ج ۶ ، صفحہ ۷۷۔)

اور صاحب بصائر نے اپنی سند کے ساتھ ابو جعفر سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ( بلغ ما انزل) علی کی ولایت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، اور کلینی نے کافی میں بھی یہی روایت نقل کی ہے ۔

( تفسیر المیزان ج ۶ ، صفحہ ۷۸۔)

تفسیر مجمع البیان میں طبرسی نے امام جعفر صادق سے اپنے آباواجداد سے روایت ذکر کی ہے کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے روز غدیر خم علی کو خلیفہ مقرر کر کے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بن ابی طالب مولی ہے اور یہ بات مشہور ہو کر نعمان بن حارث فہری تک پہنچی تو حارث نے عرض کیا کہ آپ نے کلمہ لا الہ الا اللہ اور اپنی رسالت کا دستور دیا تو ہم نے اس کی گواہی دی اور آپ نے جہاد ، حج ، نماز ، روزہ اور زکوۃ کا حکم دیا (ہم نے عمل کیا) لیکن آپ نے اس تمام اطاعت پر اکتفاء نہیں کیا جب تک کہ اس بچے کو ہمارا سردار مقرر نہیں کیا اور کہا کہ جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے۔ ابھی بتاؤ کہ یہ حکم آپ کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے یہ حکم بھی اسی اللہ کی طرف سے ہے ، حارث بن نعمان فہری نے کہا

’’اللهم ان كان هذا هوالحق من عندك فامطر علينا حجارة من السماء‘

‘یہ کہہ کر رسول اللہ ﷺ کی مجلس سے اٹھ کر چلے گئے تو اللہ تعالی نے اس پر پتھر برساۓ اور اس کو ہلاک کر دیا۔ (تفسیر المیزان، جلد نمبر ۶ صفحه ،۸۴،۸۳۔)

اور تفسیر المیزان کے مصنف نے اس آیت کے بیان میں لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو ایک حکم دیا جس میں تاکید اور تہدید ( دب دینا ہے ) وہ یہ کہ

”پیغام تازه این را ببشر ابلاغ کند“

یعنی یہ تازہ پیغام لوگوں کو پہنچائیں اور ایک یہ کہ اس پیغام پہنچانے میں جو خطرہ ممکن تھا اللہ تعالی نے اس سے نگہبانی کا وعدہ دیا۔

(تفسیر المیزان، جلد نمبر ۶ صفحه ،۵۹۔)

اور آگے لکھا ہے کہ یہ آیت

’’جایش اینجا نیست“

یعنی یہ آیت ( قرآن میں جہاں موجود ہے) اس جگہ کی نہیں ہے”

آگے لکھتا ہے کہ

’’خدابہ رسول خود در صورتی کہ پیغام تازہ را بہ آناں بر ساند وعده حفظ و حر است از خطر د دشمنش رابدهد

یعنی اللہ تعالی نے اپنے رسول کا اس صورت میں کہ یہ تازہ پیغام ان کو پہنچائے تو دشمنوں کے خطرے سے اللہ تعالی حفاظت کا وعدہ دے ۔

(تفسیر المیزان، جلد نمبر ۶ صفحه ۶۷)

اور آگے لکھا ہے کہ

معلوم می شود پیغام تازه خطرناک ترین موضوعاتی است که رسول صہ بہ تازگی مامور آن شده است ‘‘

یعنی معلوم ہوا کہ یہ تازہ پیغام جس کی تبلیغ پر رسول ﷺ کو تازہ طور پر مامور کیا گیا ہے انتہائی خطرناک ہے۔

(تفسیر المیزان، جلد نمبر ۶ صفحه ۶۱)

اور آگے لکھا ہے کہ اس آیت کا رخ اور لہجہ بتا رہا ہے کہ یہ حکم تازہ نازل ہوا ہے۔

’’پس از همه این وجود بخوبی استفاده شد کہ آں چیزی را کہ بتازگی بہ رسول اللہ صہ نازل شدہ‘‘

یعنی ان وجوہات سے بخوبی معلوم ہوا کہ یہ چیز جو رسول اللہ ﷺ پر تازہ نازل کی گئی ہے ، جس کے ساتھ تاکید بھی ہے۔

(تفسیر المیزان، جلد نمبر ۶ صفحه ۶۵)

تبصرہ:

اس سے معلوم ہوا کہ علی کی ولایت کا حکم کلمہ شہادت ، نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ کے بعد نازل ہوا اور یہ خطر ناک موضوع تھا اور تازہ حکم تھا۔ اس کا مطلب کہ پہلے اس کا ذکر تک نہیں ہوا تھا، تب تو امام فرمارہے ہیں کہ یہ آخری حکم تھا اور اس حکم کو امت تک پہنچانے میں رسول اللہ ﷺ لوگوں سے ڈر رہے تھے ، تو اللہ تعالی کی طرف سے تہدید (دھمکیاں) آنے کے بعد بھی مبہم الفاظ میں یہ حکم پہنچایا۔ 

اس تمام تحقیق کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے علی کی خلافت کا کوئی نہ حکم آیا تھا اور نہ ہی اعلان ہوا تھا۔ اگر یہ سچ ہے تو پہلا مؤقف /  رخ جس میں ہے کہ نبوت کے تیسرے سال علی کی خلافت کا اعلان ہوا اور وہ مشہور بھی ہوا تھا اس کو کاری ضرب لگتی ہے اور پہلا رخ بالکل باطل ہو جاتا ہے ۔

[۶] البرہان فی تفسیر القرآن: 

مصنف علامة، الثقہ، الثبت، المحدث الخبير والناقد البصیر، السید ہاشم بن السید سلیمان بن السید اسماعیل بن السید عبد الجواد الحسینی البحرانی المتوفی ۱۱۰۷ھ۔

شیعہ مذہب کے اتنے بڑے محقق نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں اپنی سند سے آئمہ حضرات سے بارہ عدد روایات نقل کی ہیں ۔ ان تمام روایات کا خلاصہ وہی ہے جو دوسرے مفسرین نے بیان کیا ہے مثلاً رسول اللہ ﷺ پر پہلے نماز، زکوۃ، روزہ پھر حج کا حکم نازل ہوا، اس کے بعد ولایت علی کا حکم جمعہ کے دن جو عرفہ کا دن بھی تھا نازل ہوا، تو رسول اللہ ﷺ لوگوں کی چہ مگوئیوں اور ڈر کی وجہ سے یہ حکم نہیں سنا رہے تھے اس طرح تین دن گزر گئے تو اللہ تعالی نے تاکید کرتے ہوۓ غدیر خم کے مقام پر

“یا أيها الرسول بلغ‘‘

نازل فرمائی اور ساتھ تنبیہ بھی فرمائی کہ اگر آپ نے علی کی ولایت یعنی خلافت کا حکم نہیں پہنچا تو گویا کہ رسالت کا کوئی حکم نہیں پہنچایا۔

’’اتخشی الناس و اللہ یعصمک من الناس‘

کیا تو لوگوں سے ڈرتا ہے ؟ پس اللہ تجھے لوگوں سے بچاۓ گا نازل ہوا۔ 

(البرہان فی تفسیر القرآن ج ۱، ص ۴۸۶،۴۹۰۔)

نوٹ! اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ پر علی کی خلافت کے اعلان کا حکم تمام فرائض کے بعد حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے تین دن تک لوگوں کے ڈر کی وجہ سے خلافت کا اعلان نہیں فرمایا ، جب غدیر خم پر پہنچے تو یہ آیت کریمہ لے کر جبرئیل امین نازل ہوا جس میں ایک قسم کی دھمکی بھی ہے اور لوگوں سے حفاظت کی ضمانت بھی ، اس کے بعد آپ نے فرمایا میں جس کا مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے۔ 

[۷] تفسير التبيان: 

للشيخ طائف ابي جعفر محمد بن الحسن الطوسى المتوفی ۴۶۰ ہجری مکتب الامین نجف اشرف (عراق) شیعه مذہب کے اس بڑے محقق نے بھی امام باقر اور امام جعفر کا قول نقل کیا ہے ۔

ترجمہ: تحقیق اللہ تعالی نے جب نبی کی طرف علی کی خلافت کی وحی فرمائی تو آپ اس بات سے ڈر گئے کہ صحابہ کی ایک جماعت پر یہ اعلان شاق (گراں) گزرے گا، تو اللہ تعالی نے اس کو جرأت دلانے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی اس میں نبی کو خطاب ہے اور اس کی تبلیغ کا واجب کرنا ہے۔ ’’و تہدید آلہ ان لم یفعل‘‘ اور آپ کے لئے اس میں تہدید (دب دینا۔معاذاللہ)  ہے ، اگر یہ نہیں کیا یعنی علی کو خلیفہ نہیں بنایا تو  رسالت کی کوئی بات نہیں پہنچائی۔

تفسیر التبیان، ج ۳، ص۵۸۸۔

سورۃ المائدہ کی آیت ۶۷ کی تفسیر میں۔

نوٹ ! اس سے معلوم ہوا کہ خلافت علی کا حکم سب سے آخر میں آیا اور آپ ﷺ لوگوں سے ڈر کی وجہ سے اس حکم کو نہیں پہنچا رہے تھے تو اللہ تعالی نے دھمکی دے دی۔(معاذاللہ)

[۸] تفسیر کبیر منبج الصادقین فی الزام المخالفین: 

از تصنیفات عارف ربانی ملا فتح الله بن شکر اللہ کاشانی،

شیعہ مذہب کے اس کبیر مفسر نے اپنی تفسیر کبیر میں بھی یہی لکھا ہے کہ اس بات پر اہل بیت کا اجماع ہے کہ یہ آیت غدیر خم میں علی بن ابی طالب کے حق میں نازل ہوئی تھی اور مصنف نے حارث بن نعمان فہری کا واقعہ نقل کیا ہے جس میں ہے کہ ہم نے آپ کی کلمہ شہادت کی دعوت کو قبول کر لیا اور نماز ، ز کوۃ، روزہ ، حج اور جہاد ، یہ سارا کچھ ہم نے قبول کیا لیکن آپ اس پر راضی نہیں ہوئے بلکہ اب آپ نے اپنے چچا کے بیٹے کو تمام مسلمانوں پر امیر بنادیا۔ کیا یہ محض آپ کی رائے ہے یا اللہ کا حکم ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ یہ سن کر وہ اٹھا اور کہنے لگا کہ اے اللہ یہ اگر حق ہے جو محمد (ﷺ ) کہتا ہے تو ہمارے اوپر آسان سے پتھر برسا، تو اس پر پتھر برسے اور وہ ہلاک ہو گیا۔

 منہج الصادقین ، ج ۳، ص ۲۷۳ تا ۲۷۵۔

سورۃ المائدہ کی آیت ۶۷ کی تفسیر میں۔

اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے سامنے امیر المؤمنین کی ولایت دو بار پیش کی ایک بار نصاری کے سامنے مباہلہ کے وقت تو انھوں نے مباہلہ کرنا چھوڑ دیا اور دوسری بار یوم غدیر میں مسلمانوں کے سامنے پیش کی تو اکثر نے موافقت کر دی۔

منہج الصادقین ، ج ۳،، ج ۳، ص۲۷۹۔

سورۃ المائدہ کی آیت ۶۷ کی تفسیر میں۔

نوٹ! اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے سامنے خلافت حضرت علی کی بات ایک ہی بار غدیر خم کے دن کی تھی۔

[۹] تفسیر نمونه: 

یہ تفسیر دس علماء و مجتہدین کی باہمی کاوش و قلم کا نتیجہ ہے (ان کے نام قسط2 پر دیکھیں۔)

ترجمہ سید صفدر حسین نجفی زیر سرپرستی آیت اللہ العظمی الحاج سید علی رضا سیستانی، زیر نظر استاد محقق آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی، ناشر : مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور۔

(اس میں ہے کہ) انتخاب جانشین پیغمبر ہی آخری کار رسالت تھا (کیونکہ) اس آیت کا ایک مخصوص لب ولہجہ ہے جو اسے اس سے پہلی آیات اور اس کے بعد کی آیات سے ممتاز کرتا ہے ۔ اس آیت میں روۓ سخن صرف پیغمبر ﷺ کی طرف ہے اور انہی کی ذمہ داری کو بیان کرتی ہے۔ یہ آیت صراحت اور تاکید کے ساتھ پیغمبر ﷺ کو حکم دے رہی ہے کہ جو کچھ ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچادیں۔ اس کے بعد تاکید مزید کے طور پر اس خطرے سے متنبہ کرتا ہے کہ اگر تم نے یہ کام نہ کی تو گویا تم نے کوئی کار رسالت انجام ہی نہیں دیا اس کے بعد پیغمبر کے اضطراب اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ خدا تمہیں انکے خطرات سے محفوظ رکھے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آخر وہ کونسا ایسا اہم مقصد و مطلب تھا جس کے پہنچانے کے لئے خداوند تعالی اپنے پیغمبر ﷺ کو اتنی تاکید کے ساتھ حکم دے رہا ہے ؟

” در آں حالیکہ “ کہ جب ہم اس سورت کے نزول کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ یہ سورۃ پیغمبر ﷺ کی عمر کے آخری دنوں میں نازل ہوئی ہے ،  حقیقتا اب وہ کونسا اہم مسئلہ تھا جو پیغمبر اکرم ﷺ کی زندگی کے آخری دنوں میں باقی رہ گیا تھا کہ مذکورہ بالا آیت اس قسم کی تاکید کر رہی ہے؟ تو کیا پیغمبر ﷺ کے جانشین کے تعین کے سوا کوئی اور مسئلہ ایسا ہو سکتا ہے جس میں صفات پائی جاتی ہوں ؟ اب ہم ان مختلف روایات کی طرف لوٹتے ہیں جو اہل سنت اور اہل تشیع کے متعدد کتابوں میں آیت مذکورہ بالا کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ (مصنف نے اہلسنت علماء کے چودہ عدد نام لکھنے کے بعد لکھا ہے کہ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علماء اہلسنت نے آیت مذکورہ میں یہی شان نزول بیان کیا ہے (کہ یہ آیت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے اور آگے لکھتا ہے کہ ) اس سے یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ مذکورہ علماء و مفسرین نے اس آیت کے حضرت علی کی شان میں نزول کو قبول بھی کرلیا ہے بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں ان روایات کو (صرف) نقل کیا ہے اگر چہ انہوں نے کسی مشہور روایت کو نقل کرنے کے باوجود قبول نہیں کیا بلکہ ان میں سند کی کمزوریوں کی وجہ سے انہیں رد کیا ہے۔

واقعہ غدیر کا خلاصہ :

پیغمبر اکرم ﷺ کی زندگی کا آخری سال تھا حجۃ الوداع کے مراسم پیغمبر اکرم ﷺ کی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے۔ اصحاب پیغمبر کی تعداد 90 ہزار یا ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی ـ زوال کا وقت نزدیک تھا آہستہ آہستہ جحفہ کی سرزمین اور اس کے بعد خشک اور جلانے والے ”غدیر خم“ کے بیابان نظر آنے لگےـ دراصل یہاں پر ایک چوراہا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پر آخری مقصد اور عظیم سفر کا اہم ترین کام انجام پذیر ہونا تھا۔ 

جمعرات کا دن تھا اور ہجرت کا دسواں سال اچانک پیغمبر کی طرف سے ٹھہر جانے کا حکم دیا گیا۔ بہرحال ظہر کی نماز پڑھ لی گئی رسول اللہ ﷺ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ خداوند تعالی کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ہوں۔ جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جاۓ گا(اس کے بعد مصنف نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر

’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘

کی رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کی ہے۔ آگے لکھتا ہے کہ:

اعتراضات اور جوابات:

اہم ترین اعتراض جو حدیث غدیر کے سلسلے میں کیا جا تا ہے یہ ہے کہ ’’مولاہ‘‘ کی معانی میں سے ایک معنی دوست اور یار و مدد گار بھی ہے اور یہ معلوم نہیں کہ یہاں یہ معنی مراد نہ ہو۔

جواب:

اس بات کا جواب کوئی مشکل اور پیچیدہ نہیں ہے کیونکہ ہر غیر جانبدار جانتا ہے کہ علی کی دوستی کے ذکر کے لیے ان مقدمات و تشکیلات و خشک جلا دینے والے بیابان کے وسط میں خطبہ پڑھنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مسلمانوں کا ایک دوسرے سے دوستی رکھنا ایک بدیہی ترین مسئلہ تھا جو آغاز اسلام سے ہی موجود تھا۔ علاوہ ازیں یہ کوئی ایسا مطلب نہیں تھا جس کی پیغمبر نے اس وقت تک تبلیغ نہ کی ہو ، (یعنی یہ وہ حکم ہوگا جس کی اس سے پہلے پیغمبر نے تبلیغ نہیں کی تھی) بلکہ آپ ﷺ تو بارہا اس کی تبلیغ کر چکے تھے۔ اور یہ کوئی ایسی چیز بھی نہیں تھی جس کے اظہار سے آپ پریشان ہوں اور خدا کو اس کے لیے تسلی اور حفاظت کی ضمانت دینی پڑے، کیا مسلمانوں کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے دوستی کر نا کوئی نئی بات تھی جس کے لئے مبارکباد دینے کی ضرورت ہو اور وہ بھی رسول اللہ ﷺ کی عمر کے آخری سال میں۔

تفسیر نمونه جلد نمبر ۳ صفحه ۱۷۵ تا۱۸۶۔

سورۃ المائدہ کی آیت ۶۷ کی تفسیر میں ۔

نوٹ!

شیعہ مذہب کے ان بڑے بڑے آقائوں کی تحقیق کا نتیجہ بھی یہی ہوا کہ مذکورہ آیت کریمہ کا نزول آپ ﷺ کی عمر کے آخری سال میں ہوا اور آیت کریمہ کا انداز بیاں بھی انہوں نے یہ بتایا کہ کوئی ایک نیا پیغام بتایا جارہا ہے جو اس سے پہلے نہیں بتایا گیا دوسرے احکام کی تو آپ سے باربا تبلیغ کر چکے تھے یہ آخری نیا پیغام ایسا اہمیت والا اور مشکل تھا جو آپ ﷺ اس کے ظاہر کرنے سے پریشان ہوئے، جس کی وجہ سے اللہ تعالی کو تسلی اور حفاظت کی ضمانت دینی پڑی اور آیت کریمہ کا نزول بھی خاص علی المرتضی کے لئے تھا اور جو لوگ اس سے حضرت سے دوستی کرنا مراد لیتے ہیں تو شیعہ مصنفین نے ان کو جواب دیا کہ کیا مسلمانوں کی آپس میں ایک دوسرے سے دوستی کرنا کوئی نئی بات تھی؟ اس جواب کا واضح طور پر تقاضا یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں کسی نئی بات کا ذکر ہے اور شیعہ مصنفین کی نظر میں وہ حضرت علی کی خلافت کا حکم ہے۔

اس نتیجے کی بنا پر معلوم ہوا کہ اس (آیت کریمہ) سے پہلے حضرت علی کی خلافت کا ذکر تک نہیں ہوا تھاجب ہی تو یہ نیا حکم کہا گیا ہے۔ ایسی صورت میں شیعہ مصنفین کی وہ تمام روایات جو انہوں نے آیت کریمہ

’وأنذر عشيرتك الأقربين‘‘

کی تفسیر میں نقل کی ہیں کہ نبوت کے تیسرے سال دعوت ذوالعشیرہ میں حضرت علی کی خلافت کا اعلان ہو گیا تھا یہ تمام روایتیں من گھڑت اور بے بنیاد ثابت ہوئیں کیونکہ خلافت علی کا حکم رسول اللہ ﷺ کی آخری عمر میں تازہ حکم آیا تھا۔

[۱۰] تفسیر صافی : 

تالیف فیلسوف الفقہاء، وفقیہ الفلاسفة علامہ استاذ العصر ، ووحيد دھر ہ الولی محمد بن المرتضى الحسن الفیض الکاشانی الملقب ’’بالفیض‘‘ الکاشانی (المتوفی ۱۰۹۱ھ بیروت لبنان ).

شیعہ مذہب کے اس بڑے فلاسافر و محقق نے بھی اپنی تحقیق یہی لکھی ہے کہ یہ آیت حضرت علی کی ولایت کے متعلق نازل ہوئی اور آپ کو حکم ہوا

’ان ينصب عليا للناس وخبرهم بولاية فتخوف‘‘

یعنی حضرت علی کو لوگوں پر (حاکم) مقرر کرو اور ان کو اس کی ولایت کی خبر دے دو۔ پس رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب میں سے ایک جماعت سے ڈرتے تھے (اس لئے علی کو خلیفہ مقرر نہیں کر رہے تھے)۔

(تفسیر صافی، ج ۲، ص ۵۱۔)

اور حضرت امام باقر سے روایت ہے کہ ولایت علی کا حکم جمعہ کے دن جو عرفہ کا دن بھی تھا، نازل ہوا اور دین کا مکمل ہونا ولایت علی بن ابی طالب سے تھا تو رسول اللہ ﷺ نے امت کے خوف کی وجہ سے دل ہی دل میں ولایت علی کو نہ پہنچانے کا سوچا تو اللہ تعالی کی طرف سے دھمکی کے ساتھ حکم آیا

” ان لم ابلغ ان يعذ بنی‘‘

یعنی اگر میں ولایت علی کی تبلیغ نہ کروں گا تو اللہ تعالی مجھے عذاب کرے گا۔ امام باقر سے روایت ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو فرمایا کہ ولایت علی کی فرضیت کا اعلان کرو تو لوگوں نے نہیں سمجھا کہ یہ کیا ہے

’’ فامرالله محمداً ان يفسر لهم الولاية كما فسر لهم الصلواة والزكاة والصوم والحج فلما اتاه ذالك من الله ضاق بذالك صدر رسول اللہ و تخوف۔

تو اللہ تعالی نے محمد ﷺ کو حکم کیا کہ نماز ، ز کوۃ، روزہ اور حج کی طرح ولایت یعنی خلافت علی کو کھول کھول کر بیان کرو۔ جب یہ حکم آیا تو رسول اللہ ﷺ کا سینہ تنگ ہوا اور ڈرنے لگے کہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے اور پھر جائیں گے (یہ ہی ڈر تھا کہ غدیر پر بھی کھول کھول کر خلافت علی کا اعلان نہیں کیا) امام باقر نے فرمايا:

كانت الفريضة تنزل بعد الفريضة الاخرى وكانت الولاية آخر الفرائض۔۔۔۔قال يقول الله تعالى عزو جل لا انزل علیکم بعدها فريضاً۔

یعنی ایک فرض کے بعد دوسرا فرض نازل ہوتا رہا اور ولایت یعنی خلافت علی آخری فرض تھا۔۔۔امام نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس (یعنی خلافت علی کے بعد کوئی فرض نازل نہیں کروں گا۔ اور کتاب الاحتجاج میں امام باقر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ سے حج کے ارادے سے نکلے

’’وقد بلغ جميع الشرائع قومہ غیر الحج و الولایت فاتاہ جبرئیل عہ فقال لہ یا محمد ان اللہ عزوجل يقرئك السلام ويقول......وقد بقى عليك من ذالك فريضتان بما يحتاج ان تبلغهما قومك ’’فريضة الحج و فريضة الولايت والخلافت من بعدك ‘‘

 یعنی آپ ﷺ نے حج اور ولایت کے علاوہ تمام شرعی احکام کی تبلیغ فرمائی تھی تو جبرئیل نے آکر کہا یا محمد ﷺ اللہ تعالی آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں کسی نبی اور رسول کو دین مکمل ہونے سے پہلے نہیں اٹھاتا اور تحقیق آپ پر دو فرض باقی ہیں جو اپنی قوم کو پہنچانے کی ضرورت ہے ایک حج اور دوسرا آپ کے بعد ولایت اور خلافت کا فرض (اس کے بعد اس روایت میں ہے کہ ) آپ ﷺ نے جب موقف یعنی عرفہ پر قیام فرمایا تو جبرئیل نے آکر اللہ کا سلام دے کر پیغام دیا کے علی بن ابی طالب کو میرے بندوں پر اپنا خلیفہ مقرر کرو اور ان کو بتاؤ کہ جو اس کو پہچانے وہ مومن ہے اور جو اس کا انکار کرے وہ کافر اور جو اس کی بیعت میں کسی کو شریک کرے وہ مشرک ہے ۔

”فخشی رسول اللہ صہ قومہ ...... وسأل جبر ئیل ان يسال بہ العصمت من الناس...... فأخر ذالک الی ان بلغ مسجد الخیف فاتاه جبرئیل في مسجد الخیف فامره ...... حتى الى كراع الغمیم بین المکہ و المدینہ فأتاہ جبرئیل و امره فقال ياجبرئیل انی اخشی قومی ان يكذبوني ولا يقبل قولي في على فرحل فلما بلغ غدير خم قبل الجحفۃ ثلاثۃ امیال اتاہ جبر ئیل علی خمس ساعات من النهاه بالزجر والانتهاء والعصمت من الناس... ... يا ايها الرسول بلغ...... الآية۔

تو رسول ﷺ اپنی قوم سے ڈر رہے تھے اور جبرئیل امین سے کہا کہ وہ اللہ سے سوال کرے کہ وہ مجھے لوگوں سے بچائے ..... تو مسجد خیف تک علی کی خلافت کے اعلان کو مؤخر کر دیا (ٹال دیا) پھر مسجد خیف (منی ) میں جبرئیل نے آکر حکم کیا کہ علی کے خلافت کا اعلان کرو لیکن لوگوں سے بچانے کی اللہ کی طرف سے کوئی ضمانت نہیں لایا (پھر بھی آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا) حتی کہ مکہ اور مدینہ کے در میان ”کراع الغمیم” مقام پر پہنچے پھر جبرئیل نے آکر اللہ کا وہی حکم سنایا (کہ علی کی خلافت کا پیغام پہنچاؤ) لیکن لوگوں سے بچانے کی کوئی ضمانت نہیں آئی ( آپ ﷺ نے پھر بھی پیغام نہیں پہنچایا) پس جب خم غدیر جو جحفہ سے تین میل پہلے ہے پہنچے، جبرئیل دن چڑھے اللہ کی طرف سے ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیں لے کر آئے اور لوگوں سے بچانے کی ضمانت بھی لے آئے ...... اور یہ آیت سنائی

“یا ایها الرسول بلغ ..... الآیۃ۔”

پھر جب اللہ کی طرف سے یہ حکم آیا تو آپ نے ایک طویل خطبہ دیا جس میں آپ ﷺ نے یہ بتایا کہ اگر میں یہ پیغام نہیں پہنچاتا

’فیحلی منہ قارعة لايدفعها عنی احد“

تو میں عذاب کا مستحق ہو جاؤں گا اور مجھے اس سے کوئی نہیں بچا سکے گا (اور اس میں یہ بھی ہے کہ )

’’ان جبرئیل هبط الى مراراً يامرنی“

جبرئیل میرے پاس بار بار آکر حکم کرتا رہا (لیکن میں ٹالتا رہا) اور اس میں یہ بھی ہے کہ

”وسئلٹ جبرئیل عہ ان یستعفی لی عن تبلیغ ذالک الیکم‘‘

کہ میں نے جبرئیل سے سوال بھی کیا کہ وہ اس (یعنی خلافت) کی تبلیغ کی میرے لیے اللہ سے معافی طلب کرے......

و كل ذالک لایرضی اللہ منی الا ان ابلغ ما انزل الى ثم تلا يا ايها الرسول بلغ ...... الآیۃ

لیکن کسی صورت میں بھی اللہ میرے سے راضی نہیں ہوا سوائے اس کے جو اس نے نازل کیا وہ پہنچاؤں پھر آپ ﷺ نے یہ آیت

”یاایھاالرسول بلغ ..... الآية

تلاوت فرمائی۔

تفسیر صافی ، ج ۲، ص ۵۱ تا ۵۸ بیروت۔

سورۃ المائدہ کی آیت ۶۷ کی تفسیر میں ۔

نوٹ!

شیعہ مذہب کے اس بڑے محقق نے بھی صاف طور پر لکھا ہے کہ خلافت علی کا حکم تمام فرائض کے آخر میں نازل کیا گیا یعنی اس سے پہلے خلافت علی کا حکم نہیں آیا تھا اور یہ بھی وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ اللہ تعالی کا رسول اللہ ﷺ پر انتہائی زور تھا کہ علی کی خلافت کا اعلان فرمائیں کیونکہ علی کی خلافت سے ہی دین کی تکمیل ہونی ہے لیکن رسول اللہ ﷺ لوگوں کی مخالفت کا بہانہ بناتے ہوئے خلافت علی کا اعلان نہیں فرما رہے تھے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ حج کے موقع پر جو اجتماع ہوا ہے، جو دوسری جگہ ممکن نہیں اور اتنے بڑے اجتماع میں مقام عرفات پر بھی آپ ﷺ نے خلافت علی کا پیغام نہیں پہنچایا۔ پھر مسجد خیف میں بھی جبرئیل کے آنے کے باوجود پیغام نہیں پہنچایا اور پھر ”کراع الغمیم‘‘ کے مقام پر بھی اللہ تعالی نے جبرئیل کو بھیجا کہ اس مقام پر علی کی خلافت کا اعلان کرو تب بھی آپ نے اعلان خلافت نہیں فرمایا تو بالآخر غدیر خم کے مقام پر جہاں سے یہ اجتماع منتشر ہونا تھا، ہر ایک اپنے اپنے علاقے کی طرف جانے والا تھا تو اللہ تعالی نے ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیں دے کر پیغام بھیجا کہ اگر آپ نے اس مقام پر بھی علی کی خلافت کا اعلان کہ علی بن ابی طالب کو میرے بندوں پر اپنا خلیفہ مقرر کرو اور ان کو بتاؤ کہ جو اس کو پہچانے وہ مومن ، اور جو انکار کرے وہ کافر اور جو اس کی بیعت میں کسی کو شریک کرے وہ مشرک ہے ، اگر ان الفاظ میں اعلان نہیں کیا تو سمجھ لو کہ آپ نے رسالت کا کوئی حکم نہیں پہنچایا باقی رہا آپ کو لوگوں کا ڈر تو اس کی میں ضمانت لیتا ہوں کہ لوگ آپ کو کچھ نہ کر سکیں گے (لیکن پھر بھی آپ ﷺ نے اس طرح کہ علی میرا خلیفہ ہے جو اس کو پہچانے وہ مومن اور جو انکار کرے وہ کافر اور جو اس کی بیعت میں کسی کو شریک کرے وہ مشرک، ان الفاظ میں اعلان نہیں کیا)۔

[۱۱] ترجمه و تفسیر فرمان علی: 

از فاضل جلیل حجت الاسلام سید فرمان علی ، ناشر : چاند کمپنی کشمیری بازار لاہور۔

(اس حجۃ الاسلام نے بھی اپنی تحقیق یوں لکھی ہے کہ ) سچ یوں ہے کہ جناب رسالتمآب ﷺ ایک عرصہ سے چاہ رہے تھے کہ علی بن ابی طالب کو اپنا خلیفہ نامزد کر دیں، مگر کچھ ساتھیوں کی مخالفت کے خوف سے اس پر اقدام نہیں کرتے تھے۔ آخر خدا نے یہ تاکیدی حکم یعنی علی کو اپنا خلیفہ نامزد نہ کیا تو رسالت کا کوئی حق ہی ادانہ کیا ( یہ حکم ) نازل کیا تب تو حضرت مجبور ہو گئے اور ایک مقام پر جس کا نام غدیر خم تھا ایک لاکھ آدمیوں کے سامنے اپنا خلیفہ نامزد کیا (لیکن پھر بھی آپ ﷺ نے صاف لفظوں میں خلیفہ نامزد نہیں کیا)۔

ترجمہ و تفسیر فرمان علی شیعہ ، ص ۱۴۲۔

سورۃ المائدہ کی آیت ۶۷ کی تفسیر میں ۔

[۱۲] حق الیقین: 

از تالیفات علامه سید محمد باقر مجلسی، انتشارات علمیہ اسلامیہ بازار شیرازی ایران۔

حدیث غدیر خم امیر المومنین کی امامت کے لئے نص صریح اور متواتر ہے...... مکہ میں جبرئیل امین حجۃ الوداع کے موقع پر آئے اور رسول خدا ﷺ کو اللہ تعالی کی طرف سے سلام پہنچا کر حکم فرمایا کہ علی کو لوگوں کا ہادی اور پیشوا مقرر کرو یہ سن کر آنحضرت ﷺ اس قدر روئے کہ آپ ﷺ کی ریش مبارک تر ہو گئی اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے جبرئیل! میری قوم ابھی ابھی جاہلیت و کفر سے نکلی ہے پس اگر میں ان پر کسی اور کو مسلط کروں گا تو کیسے مان سکتے ہیں ؟ جبرئیل واپس چلا گیا۔...... پھر جبرئیل آیا اور کہا کہ

’’یا محمد تمام کن امر خلافت علی را‘‘

یعنی علی کی خلافت کا کام پورا کرو ، پھر آنحضرت ﷺ نے جبرئیل کو منافقوں کی تدبیر سے آگاہ کیا

’’پس جبرئیل بالا رفت‘‘ پھر جبرئیل اوپر گیا۔۔۔

آگے مصنف نے تفسیر صافی والی پوری روایت ذکر کی ہے جس میں ہے کہ آپ نے سارا دین پہنچایا ہے ، ابھی دو امر عظیم باقی ہیں جو لوگوں کو تم نے نہیں پہنچائے، ایک حج اور دوسرا خلافت (اور اس میں ہے کہ) بار بار جبرئیل امین آتا رہا اور ہر بار رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ڈر سے اللہ کے حکم کو ٹالتا رہا، عرفات میں حکم نہیں پہنچایا پھر مسجد خیف میں جبرئیل آیا آپ ﷺ نے پھر بھی حکم نہیں پہنچایا پھر ”کراع الغمیم ‘‘ پہنچے

“بعض بار جبرئیل آمد ومبالغۃ کرد آنجناب فرمود اے جبرئیل می ترسم ‘‘

یعنی’ کراع الغمیم“ پر جبرئیل نے آکر زور ڈالا (لیکن) آپ ﷺ نے فرمایا اے جبرئیل ! میں ڈرتا ہوں۔۔

جب غدیر خم پر پہنچے جو ”جحفہ“ کے قریب تھا تو جبرئیل دن چڑھے

’’باشدت و تندی و خطاب مقرون العتاب وضامن شدن عصمت او از شر منافقان اصحاب‘‘۔

یعنی سختی اور ڈانٹ ڈپٹ اور سزا آمیز خطاب اور منافقوں کے شر سے ضمانت کا پیغام

’’یا ایہا الرسول بلغ...... الآية

لے کر نازل ہوئے۔

(حق الیقین فارسی ص ۹۶ تا ۱۰۲۔ اردوس ۱۰۸ تا ۱۶۱۔) 

نوٹ!

(اس میں بھی ہے کہ خلافت کا حکم سب سے آخر میں آیا پہلے نہیں آیا تھا لیکن یہ آخری حکم آپ لوگوں کی ڈر کی وجہ سے نہیں پہنچا  رہے تھے بلکہ رورہے تھے بالآخر اللہ تعالی نے ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیں دیکر مجبور کیا تب جا کہ مبہم الفاظ

” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“

کہہ کر بات کو گول مول کر دیا، رحمانی)۔

[۱۳] اثبات الامامت: 

از افادات آیت الله الشيخ محمد حسین قبلہ النجفی مجتهد العصر والزمان صدر مؤتمر علماء شیعہ پاکستان ناشر : مکتبہ السبطین سرگودھا۔

عالم اسلام کے سب سے مستند و معتبر مفسرین اور محدثین اور مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت

” دا فی هدایة“ ۱۸ ذوالج، ۱۰ ہجری

کو بمقام غدیر خم ، سر کار سید المرسلین ﷺ پر جناب امیر المومنین کے بارے میں نازل ہوئی۔ جبکہ آنحضرت ﷺ آخری حج سے واپس تشریف لا رہے تھے ( نازل ہوئی) ۔۔۔ وہ رسول اکرم ﷺ جو واجب تو واجب استحبابی اوامر کے امتثال میں بھی ذرا بھی تقصیر و کوتاہی نہیں فرمایا کرتے تھے وہ ایسے تہدید آمیز وجوبی حکم کے امتثال ( عمل کرنے) میں کس طرح سہل انگیزی کر سکتے تھے ؟ جس کی عدم بجا آوری سے تمام کار رسالت کے ضائع ہونے کا فقط شدید خطرہ ہی نہیں بلکہ یقین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب مقام غدیر خم میں اس آیت مبارک کا نزول ہوا تو باوجود یہ کہ گرمی کی بڑی شدت تھی سایہ کا کوئی انتظام نہیں تھا عام لوگ ظاہری شدت گرما سے اور کچھ لوگ اس کے علاوہ اندرونی آتش حسد کی حدت (آگ) سے کباب ہوئے جاتے تھے لیکن آنحضرت ﷺ نے ان امور کی پرواہ نہ کی اور خود وہیں رحل اقامت ڈال دیا اور پالانوں کا ممبر تیار کر کے اس فریضہ کی تبلیغ شروع کی ..... اور فرمایا

" من كنت مولاه فعلى مولاه...... الخ

لفظ مولی :

واضح رہے کہ لفظ مولا کلام عرب میں چند معنوں میں استعمال ہوا ہے (یعنی متشابہ ہے) من جملہ ان کے آزاد کردہ غلام ، بیٹا، چچازاد بھائی ، مدد گار ، دوست ، سر دار و حاکم۔ یہاں تک کہ بعض محققین نے اسکی ستائیس معنی شمار کئے ہیں (لیکن ایک معنی بھی اس کا خلیفہ نہیں ہے ، رحمانی).... لیکن اس مقام پر اس سے قطعاً آخری معنی (اولی بالتصرف) یعنی سر دار و حاکم مراد ہیں کیونکہ یہاں پر ایسے قرائن و دلائل عقلیہ و نقلیہ موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ یہاں اس لفظ سے مراد فقط اولی بالتصرف ہی ہے نہ صرف محب اور نہ کوئی اور معنی ۔ جب ان قرائن کی روشنی میں اس لفظ کا بمعنی اولی بالتصرف ہونا ثابت ہو جائے گا تو اس کا خلافت و امامت حضرت امیر المومنین پر نص ہونا بھی واضح و آشکار ہو جائے گا (لیکن متشابہ الفاظ سے کوئی قطعی حکم ثابت نہیں ہوتا)۔

دوسرا قرینہ:

اس حدیث شریف میں حضرت ابن کی وہ خصوصیات بیان کی جارہی ہیں، جس میں اور کوئی شخص آپ کا سھیم و شریک نہیں اور نہ خود آپ کو آج سے پہلے یہ خصوصیت حاصل تھی اور یہ مطلب جب ہی متحقق ہو سکتا ہے کہ جب اس لفظ سے مراد اولی بالتصرف (خلیفه) مراد لیا جائے کیونکہ ناصر و محب ہونا ایسی عمومی صفات ہیں جن میں سب مومنین باہم شریک ہیں اور جناب امیر کو بھی آج سے پہلے یہ صفات حاصل تھیں۔

نوٹ:

( یعنی اس سے پہلے حضرت علی کو صرف خلیفہ نہیں کہا گیا تھا اور نہ ہی خود آپ کو آج سے پہلے یہ خصوصیت حاصل تھی۔ ماننا پڑیگا کہ آج ایک ایسی چیز اور اہم کام کے انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے جس میں کو تاہی کرنے سے سب کار رسالت ضایع ہورہا ہے اور وہ خلافت امیر المؤمنین ہی ہے )

تیسرا قرینہ:

اگر یہی عمومی معانی از قسم نصرت و محبت مراد ہوتی تو آنحضرت ﷺ کا اس قدر اہتمام و انتظام جس کا تذکرہ ابھی اوپر کیا جاچکا ہے بالکل لغو و بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس امر کی تبلیغ کرنا کہ جس کا میں ناصر و دوست ہوں اس کے علی بھی ناصر و دوست ہیں کوئی ایسا اہم کام نہیں جس کے انجام نہ دینے سے پوری رسالت پر پانی پھرتا ہو۔ علاوہ بریں ان معانی کی کئی دفعہ پہلے بھی تبلیغ ہو چکی تھی (یعنی صرف خلافت کی تبلیغ نہیں ہوئی تھی )۔ ملاحظہ ہو آیت مودۃ اور حدیث علی تیری محبت ایمان ہے اور تیرا بغض کفر و نفاق ہے اور دوسری حدیث جس نے علی سے محبت کی یقینا اس نے میرے سے محبت کی اور دوسری بھی بہت سی احادیث ایسی ہیں ( اس لیے ) ماننا پڑے گا کہ آج ایک ایسے نئے اور اہم کام کے انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے کہ جس میں کو تاہی کرنے سے سب کار رسالت ضائع ہو رہا ہے وہ کام عملی اعلان امامت و خلافت حضرت امیر المومنین ہی ہے۔

(اثبات امامت، ص ۱۶۱ تا ۱۶۶۔)

نوٹ:

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کی خلافت کا حکم ایسا اہم تھا کہ اس کی تبلیغ میں کوتاہی کرنے سے تمام کار رسالت کے ضائع ہونے کا فقط خطرہ ہی نہیں بلکہ یقین تھا اور مولا سے مراد خلیفہ ہی ہے کیونکہ محب اور دوست جیسے القاب تو آپ کو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے پہلے ہی مل چکے تھے۔ آج ایک نیا اور اہم لقب دینا تھا جو اس سے پہلے نہیں دیا گیا تھا اور وہ تھا خلافت کا اعلان ۔

نتیجہ:

اس آیت اللہ کی تحقیق کا نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت علی کا حکم سب سے آخر میں آیا اور انتہائی تاکید کے ساتھ آیا، اس سے پہلے خلافت علی کا کبھی بھی ذکر تک نہیں ہوا تھا۔ اگر یہ تحقیق حق ہے تو پہلے مؤقف/ رخ والی تحقیق کہ نبوت کے تیسرے سال علی کی خلافت کا اعلان ہو چکا تھا وہ باطل ہے اور اگر وہ تحقیق حق ہے تو یہ تحقیق باطل ہے ۔

 [۱۴] شیعت کا مقدمہ:

مصنف حسین الامینی شیعہ مذہب کا انعام یافتہ ہے۔

انتہائی قابل غور امر یہ ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ فرض ہو چکے تھے۔ اب وہ کونسا اہم کام باقی تھا کہ جس کے لئے خداوند متعال کی طرف سے اتنا تاکیدی حکم نازل ہوا، اور عوام الناس کو اس حکم کی اہمیت جتلانے کے لئے اللہ تعالی اپنے رسول ﷺ سے یہ فرمارہے ہیں کہ

”وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ“

یعنی اگر تم نے (اے رسول) یہ بات لوگوں تک نہ پہنچائی تو تم نے رسالت کا کوئی کام بھی سر انجام نہیں دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ

”والله يعصمك من الناس“

یعنی خدا تمہیں لوگوں کی مخالفت سے محفوظ رکھے گا۔ گویا یہ ایسا حکم تھا کہ جس کے سنانے سے لوگوں کی مخالفت کا بھی اندیشہ تھا۔ (شیعیت کا مقدمہ ، مصنف حسین الامینی ، صفحه ۱۶۵، اشاعت بار چهارم اگست ۲۰۰۴۔) اور اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۶۸ پر لکھا ہے کہ شیعہ اس حدیث میں لفظ مولا سے مراد حاکم و سر دار لیتے ہیں۔

ٹوٹ:

اس انعام یافتہ محقق کی تحقیق بھی یہ ہی ہے کہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ کا حکم پہلے نازل ہو چکا تھا، اس کے بعد بھی جو حکم باقی تھا وہ علی کی خلافت یعنی حاکمیت تھا یعنی یہ آخری حکم تھا۔

اس کے علاوہ یہی روایت:

[۱۵] تفسیر قمی: مصنف علی بن ابراہیم قمی، جلدا صفحہ ۱۶۲۔

[۱۶] تفسیر عیاشی: مصنف محمد بن مسعود ابن عیاش، جلد اصفحہ ۳۲۲۔

[۱۷] امالی شیخ صدوق: مصنف شیخ صدوق ، جلد ا صفحه ۳۵۵۔

[۱۸] احتجاج طبرسی: مصنف ابی منصور احمد بن علی بن ابی طالب الطبرسی ، جلد ا صفحہ ۷۰۔

[۱۹] جوامع: مصنف ابي على الفضل بن حسن الطبرسی ، جلد ۱ صفحہ ۳۱۲۔

[۲۰] مجمع البیان: مصنف ابي على الفضل بن حسن الطبرسی ، جلد ۳ صفحہ ۱۵۹۔

[۲۱] البحار الانوار: مصنف ملا باقر مجلسی، جلد ۹ صفحه ۳۰۶۔

[۲۲] بصائر : مصنف محمد بن حسن العطار ، جلد اصفحہ ا، میں بھی موجود ہے۔

خلاصہ:

شیعہ مذہب کے مطابق غدیر خم کے موقع پر حضرت علی کے خلافت کے متعلق متواتر احادیث جن پر تمام مفسرین و محدثین اور مؤرخین کا اتفاق بلکہ اجتماع ہے ان تمام عبارتوں کا مختصر خلاصہ یہ ہے:

ا۔ رسول اللہ ﷺ کو خلافت علی کے لیے ایسی تاکید کی گئی کہ اگر آپ نے اس حکم کی تبلیغ نہیں کی تو یقینا آپ نے دین کے کسی حکم کی تبلیغ نہیں کی ، ایسی تاکید دین کے کسی دوسرے حکم کو پہنچانے کے لیے نہیں کی گئی تھی۔

(نور الثقلین ، ج ۱، ص ۲۵۴۔) 

۲۔ آپ نے پورے دین کی تبلیغ فرمائی صرف دو فرض باقی رہ گئے تھے ایک حج اور دوسرا علی کو خلیفہ مقرر کرنا۔

۳۔ حج کے بعد آخری فرض تھا کہ علی کو خلیفہ مقرر کرو۔

۴۔ اس حکم کے پہنچانے میں یعنی علی کو خلیفہ مقرر کرنے سے رسول اللہ ﷺ تنگ دل ہو رہے تھے ، مضائقہ کا کر رہے تھے، گھبر ارہے تھے اور اتنے رو رہے تھے کہ داڑھی مبارک تر ہو گئی اور اپنے اصحاب سے ڈرتے تھے اس لئے پیغام نہیں پہنچا رہے تھے۔ پھر فرمایا کہ جبرئیل میرے پاس تین بار پیغام لے آئے کہ تمام لوگوں کو اطلاع دو کہ علی میرے وصی ، میرے خلیفہ اور میرے بعد امام ہیں (لیکن پھر بھی ان الفاظ میں اعلان نہیں کیا)۔

(ضمیمہ مقبول، ص ۱۰۰ تا ۱۰۷۔)

۵۔ لفظ مولی سے وہ ہی معنی مراد لی جاۓ گی جو اس میں حضرت علی کا کوئی شریک نہ ہو اور خود حضرت علی کو بھی اس دن سے پہلے وہ خصوصیت حاصل نہ ہو صرف اسی دن ایک اور اہم عہد ہ (یعنی خلافت ) معنی مراد ہو۔

۶- حارث بن نعمان فہری نے کہا ہم نے آپ کی دین کے تمام کاموں میں اطاعت کی لیکن تم نے ان امور پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اب علی بن ابی طالب کو ہمارے او پر حاکم بنادیا، کیا یہ آپ کی مرضی ہے یا اللہ کا حکم ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ اس نے انکار کیا تو اس پر اللہ کا عذاب آیا اور اللہ نے یہ آیت نازل کی

’’سال سائل بعذاب واقع.....۔

۷۔ حضرت علی کی خلافت کا حکم لے کر جبرئیل امین عرفات میں آیا اور رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ مجمع عام میں اس مقام پر علی کی خلافت کا اعلان فرمائیں آپ نے لوگوں کے ڈر سے اعلان نہیں کیا۔ پھر مسجد خیف کے مقام پر دوبارہ جبرئیل آیا کہ اس مقام پر خلافت علی کا اعلان کریں ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کے ڈر سے پھر بھی اعلان نہیں کیا۔ پھر ”کراع الغمیم “ کے مقام پر جبرئیل نے آکر کہا کہ اس مقام پر خلافت علی کا اعلان فرمائیں لیکن آپ ﷺ لوگوں سے ڈرتے ہوئے اس مقام پر بھی اعلان نہیں کیا حتی کہ اس چوراہے پر پہنچے جہاں سے پورا جمع ایک دوسرے سے جدا ہونا تھا، جس کا نام غدیر خم تھا اور اللہ تعالی نے بھی دیکھا کہ میرے علی کی خلافت کا اعلان نہیں ہو رہا بالآخر ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکوں کے ساتھ پیغام بھیجا کہ اگر اب بھی علی کی خلافت کا اعلان نہیں کیا تو آپ نے رسالت کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔ باقی آپ کو لوگوں سے جو اپنی جان کا ڈر ہے تو اسکی میں ضمانت لیتا ہوں کہ لوگوں سے میں آپ کو بچاؤں گا۔ تب آپ نے خلافت علی کا اعلان نہ کرنے کی وجہ سے کار رسالت کے ضائع ہونے کے ڈر سے شدید گرمی کے باوجود علی کی خلافت کا صاف لفظوں میں اعلان کرنے کے بجائے متشابہ یعنی گول مول لفظ ”مولی“ کہہ کر اور ”لفظ مولی“ کو محبت کی طرف موڑ کر کہ

’’اللهم وال من والاہ‘‘

یعنی اے میرے اللہ جو علی سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت کر۔ اللہ کا حکم بھی پورا کیا اور لوگوں کے نقصان دینے سے بھی بچ گئے۔

[۸] اللہ کی طرف سے تہدید عتاب اور جھڑکنے کے بعد مجبوراً رسول اللہ ﷺ نے

من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ

(مبہم) الفاظ سے خلافت علی کا اعلان فرمایا یعنی صاف لفظوں میں دعوت ذوالعشیرہ کی طرح نہیں فرمایا کہ میرے بعد یہ علی میرا خلیفہ ہے جبکہ آپ ﷺ کو حکم تھا کہ ہر گورے و کالے کو یہ اطلاع دو کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی، میرے وصی، میرے خلیفہ اور میرے بعد امام ہیں۔

(ضمیمہ مقبول ص ۱۰۷ بحوالہ احتجاج طبرسی۔)

نتیجہ:

شیعہ مذہب کے بڑے بڑے محققین اور مفسرین و محدثین و مورخین کی تحقیق جو اس دوسرے رخ میں انہوں نے صحیح صریح اور اجتماعی و متواتر احادیث سے نقل کر کے لکھا ہے ، اس کا واضح طور پر یہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ خلافت علی آخری فریضہ یعنی آخری حکم تھا اس سے پہلے اللہ تعالی کی طرف سے خلافت علی کے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی کبھی خلافت علی کی بات کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ اس لیے اللہ تعالی نے خلافت علی کے اہم کام کو بڑی شدت اور تاکید کے ساتھ نازل فرمایا تھا کہ اگر آپ نے اس ایک حکم یعنی خلافت علی کی تبلیغ نہیں فرمائی تو اتنا بڑا جرم سمجھو کہ آپ نے رسالت کا کوئی ایک حکم بھی نہیں پہنچایا، اس سے پہلے ایسا تاکیدی حکم نازل نہیں فرمایا تھا۔

اس رخ میں اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ ﷺ پر خلافت علی کے متعلق انتہائی زور ڈانٹ ڈپٹ تہدید وعید اور خلافت علی کا اعلان نہ کرنے کی صورت میں رسالت کے نہ پہنچانے کی دھمکی بتائی گئی ہے اور رسول اللہ ﷺ کا خلافت علی کے اعلان سے گھبرانا، تنگ دل ہونا، لوگوں سے ڈرنا، اور رونا بتایا گیا ہے۔ بالآخر رسول اللہ ﷺ کا مجبور ہو کر

’’من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ”

سے مبہم الفاظ میں خلافت علی کا اعلان ذکر کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ آخری فرض اور آخری اعلان تھا اس سے پہلے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ اگر یہ رخ اور یہ تحقیق حق ہے تو پہلا رخ اور وہ تحقیق کہ نبوت کے تیسرے سال خلافت علی کا اعلان ہو گیا تھا اور وہ اعلان والا قصہ مشہور بھی ہو گیا تھا وہ باطل ہے۔ اگر پہلا رخ اور وہ تحقیق حق ہے تو یہ دوسر ارخ اور تحقیق بالکل باطل ہے۔ محترم قارئین اب آگے دیکھتے ہیں کہ کیا ہے ؟

(جاری ہے)