سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات
علی محمد الصلابیسیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات
سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا بیمار پڑیں اور 9ھ میں وفات پائی۔ رسول اللہﷺ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور تدفین کے وقت ان کی قبر کے پاس بیٹھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کی قبر کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا، آپﷺ کی دونوں آنکھیں اشک بار تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا: تم میں کون ہے جس نے آج رات بیوی سے مباشرت نہ کی ہو؟ سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں۔ آپﷺ نے فرمایا: تم ان کی قبر میں اترو۔
(صحیح البخاری: کتاب الجنائز: صفحہ، 1342)
سیدہ لیلیٰؓ بنتِ قانف ثقفیہ بیان کرتی ہیں کہ میں ان خواتین میں شامل تھی جنہوں نے سیدہ امِ کلثوم بنتِ رسول اللہﷺ کی وفات کے وقت ان کو غسل دلایا۔ اس وقت رسول اللہﷺ نے ازار دی، پھر قمیص، پھر دوپٹہ، پھر چادر دی، پھر دوسرے کپڑے میں لپیٹ دی گئیں۔ رسول اللہﷺ دروازے پر کھڑے ہوئے ایک ایک کپڑا پکڑا رہے تھے۔ (سنن ابی داود: صفحہ، 3157)
اور طبقاتِ ابنِ سعد میں ہے کہ سیدنا ابو طلحہؓ کے ساتھ سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا فضل بن عباس، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم ان کی قبر میں اترے، اور سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ اور سیدہ صفیہؓ بنتِ عبدالمطلب نے انہیں غسل دیا۔
(الطبقات، ابنِ سعد: جلد، 8 صفحہ، 39 الدوحۃ النبویۃ: صفحہ، 48)
حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کی جدائی سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بے حد متاثر ہوئے اور بڑے ہی حزن و ملال کا شکار ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے انہیں دیکھا کہ غم میں نڈھال سر جھکائے جا رہے ہیں، آپﷺ ان سے قریب ہوئے اور فرمایا: اے سیدنا عثمانؓ! اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو تم سے شادی کر دیتا۔
(مجمع الزوائد، الہیثمی: جلد، 9 صفحہ، 83 شواہد کی بناء پر اس کی سند درجہ حسن کو پہنچتی ہے۔)
یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ کی محبت کی دلیل ہے، اور نبی کریمﷺ کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی وفاداری اور توقیر کی دلیل ہے۔ نبی کریمﷺ کے اس ارشاد سے اس بدشگونی کی نفی ہوتی ہے جو ہمارے معاشرہ میں ایسے موقع پر پائی جاتی ہے۔ اللہ کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں اس کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے، تقدیرِ الہٰی ہرگز نہیں ٹلتی۔
(الخلفاء الراشدون اعمال و احداث، د۔ امین القضاۃ: صفحہ، 73)