Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں احادیث نبویہ دوسروں کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل پر مشتمل احادیث

  علی محمد الصلابی

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں احادیثِ نبویہ

دوسروں کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل پر مشتمل احادیث:

1: افتح لہ و بشرہ بالجنۃ علی بلوی تصیبہ

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں رسول اللہﷺ کے ساتھ مدینہ کے ایک باغ میں تھا، اتنے میں ایک شخص آیا اور دروازہ کھلوانا چاہا، نبی کریمﷺ نے فرمایا: افتح لہ و بشرہ بالجنۃ۔

ترجمہ: ’’دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت دو۔‘‘ 

دروازہ کھولا تو دیکھتا ہوں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، میں نے انہیں جنت کی بشارت سنائی۔ انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھلوانا چاہا ، رسول اللہﷺ نے فرمایا: افتح لہ و بشرہ بالجنۃ

ترجمہ: ’’دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔‘‘ 

میں نے دروازہ کھولا تو دیکھتا ہوں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ نبی کریمﷺ نے جو فرمایا تھا میں نے انہیں اس سے آگاہ کیا تو انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر ایک شخص نے دروازہ کھلوانا چاہا، نبی کریمﷺ نے فرمایا: افتح لہ و بشرہ بالجنۃ علی بلوی تصیبہ۔

ترجمہ: ’’دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو ایک آزمائش سے دو چار ہوں گے۔‘‘ 

میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہیں، میں نے انہیں رسول اللہﷺ نے جو فرمایا تھا اس سے آگاہ کیا، آپؓ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا اللہ ہی مدد کرنے والا ہے۔

(صحیح البخاری: صفحہ: 3695)

یہ حدیث پاک ان تینوں حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر مشتمل ہے کہ یہ تینوں جنتی ہیں، اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں اس بات کی دلالت موجود ہے کہ اگر خود پسندی وغیرہ کے فتنے میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہیں تو منہ پر تعریف کی جا سکتی ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور ابتلاء و آزمائش کی آپﷺ نے انہیں جو خبر دی یہ واضح طور پر آپﷺ کا معجزہ ہے۔ اور اس حدیث میں اس بات کی دلالت ہے کہ یہ تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایمان و ہدایت پر قائم رہیں گے۔

(شرح النووی علی صحیح مسلم: جلد، 15 صفحہ، 170۔ 171)

2: اسکن احد فلیس علیک إلا نبی و صدیق و شہیدان

ترجمہ: ’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہﷺ احد پہاڑ پرچڑھے، آپﷺ کے ساتھ سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم تھے، احد ہلنے لگا، آپﷺ نے فرمایا: 

اسکن احد فلیس علیک الا نبی و صدیق و شہیدان۔

ترجمہ: ’’احد ٹھہر جا، تیرے اوپر تو صرف نبیﷺ، سیدنا صدیقؓ اور دو شہید ہیں۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپﷺ نے یہ فرماتے ہوئے اپنا قدم احد پہاڑ پر مارا۔(صحیح البخاری: صفحہ، 3697)

3: اھدأ فما علیک الا نبی او صدیق او شہید

 (صحیح مسلم: صفحہ، 2417)

ترجمہ: ’’پر سکون ہو ،جا تجھ پر یا تو نبیﷺ ہے یا سیدنا صدیقؓ یا شہید۔‘‘

4: ان عثمان رجل حییُّ

سیدنا یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ان کے والد سیدنا سعید بن العاصؓ نے انہیں خبر دی کہ اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی، آپﷺ نے انہیں اجازت دی، وہ آئے اور اپنی ضرورت پوری کر کے چلے گئے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، آپﷺ نے انہیں اجازت دی اور وہ اپنی ضرورت پوری کر کے چلے گئے، اور آپﷺ اسی حالت میں رہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: پھر میں نے اجازت طلب کی تو آپﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اپنا کپڑا سمیٹ لو، مجھے اجازت دی میں نے اپنی ضرورت پوری کی اور واپس ہو گیا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا بات ہے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو آپﷺ اس طرح اٹھ کر نہیں بیٹھے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی آمد پر بیٹھے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: 

إن عثمان رجل حییُّ و انی خشیت ان اذنت لہ علی تلک الحال أن لا یبلغ الی فی حاجتہ۔

(صحیح مسلم: صفحہ، 2402)

ترجمہ: ’’یقیناً حضرت عثمانؓ شرمیلے آدمی ہیں مجھے خوف ہوا کہ اگر اسی حالت میں انہیں آنے کی اجازت دے دوں تو وہ اپنی ضرورت مجھ سے نہ کہہ سکیں گے۔‘‘

5: الا استحی من رجل تستحی منہ الملائکۃ۔

سیدنا ابو سلمہ بن عبدالرحمٰنؓ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہﷺ میرے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپﷺ کی دونوں رانیں یا پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی، آپﷺ نے انہیں اجازت دے دی اور آپﷺ اسی حالت میں رہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے گفتگو کی اور چلے گئے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی، ان کو بھی آپﷺ نے اجازت دے دی اور آپﷺ اسی حالت میں رہے انہوں نے بھی آپﷺ سے گفتگو کی، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لیے۔ پھر آپﷺ نے اجازت دی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آئے اور آپﷺ سے گفتگو کی، جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ چلے گئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپﷺ نے پروا نہ کی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو آپﷺ نے پروا نہ کی، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لیے؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:

الا استحی من رجل تستحی منہ الملائکۃ

 (صحیح مسلم: صفحہ، 2401)

ترجمہ: ’’کیا میں ایسے شخص سے شرم نہ کروں جس سے فرشتے شرماتے ہیں۔‘‘

علامہ مناویؒ فرماتے ہیں: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا مقام حیا کا مقام ہے اور حیاء سامنے والے کے اجلال و تعظیم اور اپنے نفس میں نقص کے تصور سے پیدا ہوتا ہے، تو گویا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اوپر حق تعالیٰ کے اجلال کا غلبہ ہوا اور انہوں نے اپنے نفس میں نقص و تقصیر محسوس کیا، اور یہ دونوں چیزیں مقربینِ بارگاہِ الہٰی کی بڑی خصلتوں میں سے ہیں۔ اس طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بلند ہوا۔ (اور اللہ کی خاص مخلوق) ملائکہ ان سے حیاء کرنے لگے، جو اللہ سے محبت کرتا ہے اللہ کے اولیاء اس سے محبت کرتے ہیں اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اس سے ہر چیز ڈرتی ہے۔ 

(فیض القدیر، المناوی: جلد، 4 صفحہ، 302)

6: أصدقہا حیاء عثمان۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ارحم امتی ابوبکر، و اشدھا فی دین الله عمر و اصدقھا حیاء عثمان و اعلمھا بالحلال و الحرام معاذ بن جبل و أقرأھا لکتاب الله أُبیّ و أعلمھا بالفرائض زید بن ثابت و لکل أمۃ أمین و أمین ھذہ الأمۃ أبوعبیدۃ بن الجراح 

(فضائل الصحابۃ، امام احمد: جلد، 1 صفحہ، 604 اسنادہ صحیح)

ترجمہ: ’’میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل سیدنا ابوبکرؓ ہیں، اللہ کے دین کے لیے سب سے زیادہ سخت سیدنا عمرؓ ہیں، سب سے سچے حیا دار سیدنا عثمانؓ ہیں، حلال و حرام کے سب سے بڑے عالم سیدنا معاذ بن جبلؓ ہیں، اور کتابِ الہٰی کے سب سے بڑے حافظ و قاری سیدنا ابی بن کعبؓ ہیں، اور فرائض کے سب سے بڑے عالم سیدنا زید بن ثابتؓ ہیں، اور ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ ہیں۔‘‘