Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شہادت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق رسول اللہﷺ کی پیشین گوئیاں

  علی محمد الصلابی

شہادتِ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق رسول اللہﷺ کی پیشین گوئیاں:

1: من نجا من ثلاث فقد نجا

سیدنا عبداللہ بن بجالہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے تین مرتبہ فرمایا:

من نجا من ثلاث فقد نجا ثلاث مرات موتی، والدجال، و قتل خلیفۃ مصطبر بالحق معطیہ۔ 

(المسند: جلد، 4، 5 صفحہ، 419، 346 تحقیق احمد شاکر)

ترجمہ: ’’جو تین فتنوں سے بچ گیا اس نے نجات پا لی، میری موت، دجال، حق پر قائم خلیفہ کا مظلومانہ قتل۔‘‘

جس حق پر قائم خلیفہ کا مظلومانہ قتل ہوا وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہیں، کیوں کہ قرائن اسی پر دلالت کرتے ہیں اس حدیث میں خلیفہ سے مقصود سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔

اس حدیث میں (اللہ بہتر جانتا ہے) اس بات کی طرف عظیم اشارہ ہے کہ اس فتنہ کے سلسلہ میں حسی و معنوی ہر اعتبار سے اپنے دامن کو بچائے رکھنا چاہیے حسی کا تعلق اس فتنہ کے زمانہ سے ہے، یعنی قتل اور قتل پر ابھارنے اور اکسانے سے اجتناب کیا جائے اور معنوی کا تعلق یوں کہ دور فتنہ کے بعد اس سلسلہ میں باطل طرزِ فکر نہ اختیار کی جائے اور ناحق گفتگو کی جائے۔ اس طرح یہ تمام امت کے لیے عام ہو گا، فتنہ کے دور کے ساتھ خاص نہیں۔

(فتنہ مقتل عثمان، د۔ محمد عبداللہ الغبان: جلد، 1 صفحہ، 44)

2: یقتل فیہا ھذا المقنع یومئذ مظلوما۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہﷺ نے ایک فتنہ کا ذکر کیا، اتنے میں ایک شخص کا گزر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا:

یقتل فیہا ھذا المقنع یومئذ مظلوما۔

ترجمہ: ’’اس فتنہ میں اس وقت یہ سر چھپائے ہوئے شخص مظلومانہ طور سے قتل ہو گا۔‘‘

میں نے دیکھا وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔

(فضائل الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 551 إسنادہ حسن)

3: ھذا یومئذ علی الھدی

سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک فتنہ کا تذکرہ اس انداز سے کیا کہ گویا وہ قریب ہی ہے، اتنے میں ایک شخص اپنا سر چھپائے ہوئے ادھر سے گزرا تو آپﷺ نے فرمایا:

ھذا یومئذ علی الھدی

ترجمہ: ’’یہ شخص اس دن ہدایت پر قائم ہو گا۔‘‘

یہ سن کر میں کود پڑا، اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دونوں بازو پکڑ کر رسول اللہﷺ کے سامنے لا کر عرض کیا: یہ شخص؟ آپﷺ نے فرمایا: یہی شخص۔

(صحیح سنن ابنِ ماجہ: جلد، 1 صفحہ، 24)

4: تھیج فتنۃ کالصیاصی، فھذا و من معہ علی الحق۔

سیدنا مرہ بہزیؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھا رسول اللہﷺ نے فرمایا:

تھیج فتنۃ کالصیاصی، فھذا و من معہ علی الحق۔

ترجمہ: ’’فتنہ سینگ کی طرح ابھرے گا یہ اور اس کے ساتھی اس وقت حق پر ہوں گے۔‘‘

یہ سن کر میں گیا اور اس شخص کے کپڑے پکڑ لیے، دیکھا تو وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔

(المسند: جلد، 5 صفحہ، 33 متعدد طرق سے اس کو تقویت پہنچتی ہے۔)

5: ھذا یومئذ و اصحابہ علی الحق و الھدی۔

سیدنا ابو اشعثؓ سے روایت ہے: سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ امارت میں ایلیاء (بیت المقدس) میں خطباء جمع ہوئے اور لوگوں سے خطاب کیا، سب سے آخر میں سیدنا مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں نے اگر رسول اللہﷺ سے ایک حدیث نہ سنی ہوتی تو میں خطاب نہ کرتا، میں نے سنا رسول اللہﷺ نے ایک فتنہ کا ذکر فرمایا، اور اسے قریب کر کے پیش کیا، اتنے میں ایک شخص اپنا سر چھپائے ہوئے ادھر سے گزرا، تو آپﷺ نے فرمایا:

ھذا یومئذ و اصحابہ علی الحق و الھدی

ترجمہ: ’’یہ شخص اور اس کے ساتھی اس وقت حق و ہدایت پر قائم ہوں گے۔‘‘

میں نے عرض کیا، کیا یہی یا رسول اللہﷺ؟ میں نے ان کا چہرہ رسول اللہﷺ کی طرف کر دیا تو آپﷺ نے فرمایا: یہی۔ تو وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔

(فضائل الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 500 اسنادہ صحیح)

6: علیکم بالأمین و اصحابہ۔

سیدنا ابو حبیبہؓ سے روایت ہے کہ وہ اس گھر میں داخل ہوئے جہاں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے، انہوں نے سنا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپؓ سے کچھ کہنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں، آپؓ نے انہیں اجازت دے دی، سیدنا ابوہریرہ کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

انکم تلقون بعدی فتنۃ و اختلافا۔

ترجمہ: ’’تم میرے بعد فتنہ و اختلاف سے دو چار ہو گے۔‘‘

ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ہم کس کے ساتھ رہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:

علیکم بالامین و اصحابہ

ترجمہ: ’’تم لوگ امین اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ رہنا۔‘‘

یہ فرماتے ہوئے آپﷺ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ فرما رہے تھے۔

(فضائل الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 1550 اسنادہ صحیح)

7: فإن ارادك المنافقون علی خلعہ فلا تخلعہ

اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، جب وہ تشریف لائے تو آپﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے، جب ہم نے یہ دیکھا تو ہم خواتین ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو گئیں، ہم نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھوں کے درمیان دست مبارک رکھا اور آخری بات تین بار یہ فرمائی:

یا عثمان إن اللہ عزوجل عسی أن یلبسک قمیصا، فإن ارادک المنافقون علی خلعہ فلا تخلعہ حتیٰ تلقانی

ترجمہ: ’’اے سیدنا عثمان امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں قمیص (خلافت) پہنائے گا۔ پس اگر منافقین اسے تم سے اتروانا چاہیں تو مت اتارنا یہاں تک کہ مجھ سے (جنت میں) ملنا۔‘‘ 

(فضائل الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 631 اسنادہ صحیح)

8: إن رسول اللہﷺ عھد إلی عھدا و انی صابر نفسی علیہ

اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے بعض صحابہ کو بلاؤ میں نے عرض کیا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، میں نے کہا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: تم یہاں سے ہٹ جاؤ، پھر آپﷺ ان سے سر گوشیاں کرنے لگے، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا رنگ بدلنے لگا، جب آپؓ گھر میں محصور کر دیے گئے، ہم نے عرض کیا: یا امیر المومنینؓ! آپؓ ان سے قتال نہیں کریں گے؟ فرمایا: نہیں:

ان رسول اللهﷺ عھد إلی عھدا و انی صابر نفسی علیہ

(فضائل الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 605 اسنادہ صحیح)

ترجمہ: ’’رسول اللہﷺ نے مجھ سے ایک عہد لیا ہے میں اس پر ڈٹا رہوں گا۔‘‘

اس حدیث پاک سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہﷺ کی شدتِ محبت اور اپنے بعد مصالح امت کا حرص واضح ہوتا ہے، چنانچہ آپﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بعض ان چیزوں کی خبر دی جو اس فتنہ سے متعلق تھیں یعنی فتنہ آپؓ کے قتل پر منتہی ہو گا۔ رسول اللہﷺ نے مکمل طور پر اس کو راز میں رکھنے کا اہتمام فرمایا، ہم تک صرف اتنی ہی بات پہنچی جتنی فتنہ کے دوران میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ کیا آپؓ ان سے قتال نہیں کریں گے؟ تو آپؓ نے فرمایا:

’’رسول اللہﷺ نے مجھ سے ایک عہد لیا ہے میں اس پر ڈٹا رہوں گا۔‘‘

(فضائل الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 605 اسنادہ صحیح)

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اس قول سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں فتنہ بھڑکنے کے وقت صحیح موقف کی طرف رہنمائی فرمائی، اور یہ اس لیے تاکہ فتنہ بڑھنے نہ پائے۔

بعض روایات میں کچھ اضافہ ہے جس سے اس سر گوشی کے بعض پوشیدہ امور سے پردہ ہٹتا ہے، چنانچہ ان روایات میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان سے فرمایا:

وإن سالوك أن تنخلع من قمیص قمصک الله عزوجل فلا تفعل۔

(فضائل الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 613 إسنادہ صحیح، الطبقات، ابنِ سعد: جلد، 3 صفحہ، 66۔ 68)

ترجمہ: ’’اگر لوگ تم سے اس قمیص کو اتروانا چاہیں جسے اللہ نے تمہیں پہنایا ہو گا تو ایسا مت کرنا۔‘‘

اس عہد کا مضمون جسے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے، فتنہ اور صبر کی وصیت اور خلافت سے دست بردار نہ ہونے سے متعلق ہے۔ اگرچہ ان احادیث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپؓ ایک دن خلیفہ ہوں گے، اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس فتنہ سے متعلق دوسرے وصایا اور ارشادات بھی آپﷺ نے بہم پہنچائے ہوں گے جو صرف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہی جانتے تھے، کیوں کہ رسول اللہﷺ نے اس وصیت کو راز میں رکھنے کا بے حد اہتمام فرمایا، چنانچہ جس وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سرگوشی کرنا چاہی آپﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہاں سے چلے جانے کا حکم فرمایا، اور پھر وہاں کسی کے نہ ہونے کے باوجود ان سے سرگوشی کی، یہاں تک کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا رنگ متغیر ہو گیا، نیز جو باتیں ان سے سرگوشی میں کہی گئی ہیں ان کی عظمت کا پتہ چلتا ہے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس سرگوشی کو فتنہ سے مربوط کرنا واضح دلیل ہے کہ سرگوشی اسی فتنہ سے متعلق تھی جس میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا۔

اسی طرح یہ سرگوشی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے ارشادات و توصیات پر مشتمل تھی تاکہ جب خلافت سے دست برداری کا مطالبہ ہو تو صحیح موقف اختیار کریں۔ رسول اللہﷺ نے صرف فتنہ کے وقوع کی خبر دینے پر اکتفا نہ کیا، کیوں کہ اس کی خبر متعدد احادیث میں رسول اللہﷺ اعلانیہ طور پر دے چکے تھے، لہٰذا آپﷺ کی سرگوشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سرگوشی وقوعِ فتنہ کی خبر کے ساتھ دیگر اور امور پر مشتمل رہی ہو گی۔ رسول اللہﷺ نے اس کو کسی حکمت کے پیشِ نظر پوشیدہ رکھنا چاہا جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

یہ حدیث پاک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورانِ حصار میں قتال کی عدم اجازت کے اصرار کی تفسیر بیان کرتی ہے، اور اسی طرح خلافت سے عدم تنازل کی تفسیر پیش کرتی ہے۔

ان دونوں موقف کے سبب کے سلسلہ میں مؤرخین اور ریسرچ اسکالروں نے اکثر بحث و کرید کی ہے لیکن کسی حل تک نہ پہنچ سکے۔

(فتنۃ مقتل عثمان، محمد عبداللہ الغنان: جلد، 1 صفحہ، 48)

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا حادثہ، ان حادثات میں سے ہے جن سے متعلق رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی میں غیب سے بیان کیا ہے اور علمِ غیب، صفاتِ الہٰی میں سے ہے، کسی مخلوق کو یہ علم حاصل نہیں، رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس سے باخبر کیا تھا اور آپﷺ کو لوگوں کو اس سے مطلع کرنے کا حکم فرمایا تھا۔

(فتنۃ مقتل عثمان، محمد عبداللہ الغنان: جلد، 1 صفحہ، 48

ارشاد الہٰی ہے:

قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

(سورة الاعراف: آیت، 188)

ترجمہ: ’’آپ فرما دیجیے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو، اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا، میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘