Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت علی رضی اللہ عنہ کووصی کہنا ابن سبا کی اختراع

  امام ابن تیمیہ

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کووصی کہنا ابن سبا کی اختراع

[اشکال] :

شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ ان دلائل میں سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ذکر کردہ یہ روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے سلمان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیجیے کہ آپ کا وصّی کون ہے؟ جب سلمان نے یہ سوال کیا تو آپ نے جواباً فرمایا:’’ اے سلمان! حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصّی کون تھا؟‘‘ کہا ’’یوشع بن نون ‘‘ فرمایا :’’میرا وصی اور وارث علی بن ابی طالب  ہے؛ جو میرا قرض ادا کرے گا اور میرے وعدے پورے کرے گا ۔‘‘

[انتہی کلام الرافضی] 


مشہور شیعہ المامقانی نے اپنی کتاب

’’ تنقیح المقال‘‘(۲؍۱۸۴)

پر جرح و تعدیل کے ماہر شیعہ عالم محمد بن عمر الکشی سے روایت کیا جس نے سب سے پہلے اس فن میں کتاب تصنیف کی۔ محمد بن عمر کی تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ بقول اہل علم عبد اﷲ بن سبا یہودی تھا۔ اسلام ظاہر کرکے اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے دوستانہ مراسم قائم کیے۔ ابن سبا جب یہودی تھا تو کہا کرتا تھا کہ یوشع بن نون سیدنا موسیٰ کے وصی تھے۔ اسلام لانے کے بعد وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصّی بتایا کرتا تھا۔‘‘

مشہور شیعہ عالم کا یہ بیان اس باب میں نص صریح کا حکم رکھتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے وصی کا لقب ابن سبا نے اختراع کیا۔ چونکہ سابقاً ذکر کردہ سیدنا انس کی روایت بے بنیاد ہے اس لیے اس باب میں یقینی بات یہی ہے جو المامقانی نے الکشی سے نقل کی کہ اس لقب کا واضع ابن سبا یہودی تھا۔

اس روایت کے راوی جب شیعہ خود ہوئے تو اب یا تو وہ اپنے علماء کو جھوٹا کہیں یا یہ کہیں کہ الکشی نے علماء سے یہ روایت نقل کرنے میں دروغ گوئی سے کام لیا ہے۔ ہمیں اس ضمن میں مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں اور یہی بات کافی ہے کہ یہ روایت شیعہ علماء کی زبانی نقل ہوتے ہوتے ابن سبا سے الکشی تک پہنچی اور پھر المامقانی کے ذریعہ شیعہ جرح و تعدیل کی عظیم و جدید ترین کتاب میں مندرج ہوئی۔ یہ اسی روایت کا ثمرہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ انس و سلمان کا دامن اس تہمت سے پاک کردیا۔ بلکہ یوں کہیے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغام کو ایسے عیب سے داغ دار ہونے سے بچا لیا جس کی وجہ سے امت بنی نوع آدم میں سے ہونے والے اوصیاء کے زیر اثر سب تصرفات سے محروم ہوجاتی، اس پر طرہ یہ کہ ان میں سے آخری وصی ہنوز

’’ لَم یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ‘‘

کا مصداق ہے، حالانکہ پیام اسلام دنیائے انسانیت کو حریت فکر و نظر کا عطیہ دینے کے لیے آیا تھا اور اس کا اوّلین مقصد یہ تھا کہ عقل انسانی اسلام کے اس چشمۂ صافی سے بکمال آزادی اور بدوں جبرو اکراہ ہدایت عظمی کا آب حیات پیئے جس پر اس عالمی شریعت کے سوا کسی کو نگران یا وصی مقرر نہیں کیا گیا۔


[جواب ] :

ہم کہتے ہیں :یہ روایت باتفاق محدثین کذب و دروغ اور موضوع ہے

[ذکر الحدِیث ابن الجوزِیِ فِی الموضوعاتِ:۱؍۳۷۴، مِن أربعۃِ طرقِ، کلہا غیر صحِیح و موضوع، وتابعہ السیوطِی فِی اللآلیِئِ المصنوعۃِ: ۱؍۳۵۸۔]

اور مسند احمدبن حنبل میں موجود نہیں ۔ امام احمد نے فضائل صحابہ میں ایک کتاب تصنیف کی تھی اس میں خلفاء اربعہ اور دیگر صحابہ کے فضائل و مناقب بیان کیے ہیں ۔ اس کتاب میں صحیح و ضعیف روایات سب جمع کردی ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ اس کتاب میں جو حدیث بھی ہو وہ صحیح ہو۔ مزید برآں ا س کتاب میں امام احمد رحمہ اللہ کے بیٹے عبد اﷲ رحمہ اللہ نے اپنی روایات کا اضافہ بھی کیا ہے۔

٭ قَطِیْعی [بغداد کے گرد و نواح میں اراضی کے کچھ قطعات بے آباد پڑے تھے۔ عباسی امراء و حکام نے زمین کے وہ ٹکڑے بعض لوگوں کو جاگیر کے طور پر دے دیے تھے۔ زمین کے ہر ٹکڑے کو قطیعہ کہتے تھے اور اہل علم جن کو وہ جاگیریں ملی تھیں قَطِیعی کہلاتے تھے۔ امام احمد کی کتاب فضائل صحابہ پر جس نے اضافہ کیا ہے ممکن ہے وہ احمد بن جعفر بن ہمدان القطیعی المتوفی(۲۷۳۔۳۶۸) ہو۔ احمد بن جعفر نواح بغداد کی آبادی قطیعۃ الرقیق میں بودو باش رکھتے تھے۔] نے اپنے شیوخ کی روایات سے بھی امام احمد کی کتاب فضائل صحابہ پر اضافہ کیا ہے۔ قطیعی کا اضافہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔جیسا کہ آگے اس کا بیان آئے گا۔

قطیعی کے شیوخ زیادہ تر امام احمد کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شیعہ کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ اس کتاب میں جب بھی کوئی حدیث دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ:’’ یہ امام احمد کی روایت کردہ ہے‘حالانکہ اس کا قائل قطیعی ہوتا ہے جس کے اساتذہ امام موصوف کے ہم طبقہ لوگوں سے روایات اخذ کرتے ہیں ۔ مسند امام احمد میں بھی آپ کے بیٹے عبد اﷲنے زیادات کی ہیں ۔ مسند احمد میں جہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرویّات ذکر کی گئی ہیں ، وہاں عبد اﷲ نے خصوصی طور پر اضافہ کیا ہے۔ [حافظ ابن کثیر مقدمہ ابن الصلاح کے خلاصہ میں جس کا نام’’ الباعث الحثیث فی اختصار علوم الحدیث‘‘ ہے لکھتے ہیں :’’حافظ ابوموسیٰ محمد بن ابی بکر مدینی کا مسند امام احمد کے بارے میں یہ ارشاد کہ ’’اَنَّہٗ صَحِیْحٌ‘‘ ضعیف قول ہے اس لیے کہ مسند احمد میں نہ صرف ضعاف بلکہ موضوعات بھی ہیں ، مثلاً وہ احادیث جن میں مرو عسقلان نیز حمص کے نواحی شہر ’’ البرث الاحمر‘‘ کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ۔ محدثین نے اس پر روشنی ڈالی ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں فضائل پر مشتمل احادیث اگرچہ بخاری و مسلم کی روایت کردہ احادیث کی طرح صحیح نہ بھی ہوں تاہم لوگ ازراہ تساہل ان کو قبول کرلیتے ہیں جس طرح ترغیب و ترہیب پر مشتمل ضعیف احادیث کو بھی قبول کرلیا جاتاہے۔‘‘]

خلاصہ یہ کہ یہ حدیث کسی دجال کا کذب و دروغ ہے اور اﷲکی قسم یہ امام احمد کی بیان کردہ نہیں ، انھوں نے یہ حدیث اپنی مسند میں ذکر کی نہ فضائل صحابہ میں۔