بیعت کی حقیقت ، اہمیت اور مقاصد
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند"بیعت کے لغوی اور اصطلاحی معنی"
بیعت کرنا: کسی پیر کا مرید ہونا.
بیعت لینا: اطاعت اور فرمان برداری، عہد و پیمان لینا.
ڈاکٹر محمد اللطیف ایم اے پی ایچ ڈی نے اپنی لغات فارسی میں لکھا ہے.
بیعت کردن: کسی مذہبی پیشوا کا مرید ہونا.
(فرہنگ فارسی: صفحہ: ۱۵۰)
لغت میں بیعت، عقد و معاہدہ اور اتفاق کو کہتے ہیں.
اجتماعی زندگی میں انسان ایک دوسرے کے ساتھ معاملات طے کرتا ہے مثلا: ایک شخص کوئی چیز کسی دوسرے شخص کو دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے چاہے وہ چیز مادی ہو یا معنوی اس کے اس ردوبدل کے عمل پر متفق ہونے کو عقد کہتے ہیں. اگر کوئی معین رقم دے کر کسی مال کی کوئی معینہ مقدار خریدی جائے تو اسے عقد بیع کہیں گے. اگر رقم دے کر کسی چیز کو استعمال کرنے کا حق حاصل کرنے کے لئے کسی سے معاہدہ کیا جائے............مثلا ایک ہزار روپے کے عوض کوئی شخص کسی کے گھر میں رہنے کا حق حاصل کرنے کا معاہدہ کرتا ہے تو اس کو عقد اجارہ کہتے ہیں. کبھی معاہدے کے تحت ردوبدل کی جانے والی اشیاء مادی نہیں ہوتیں بلکہ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائگی کا عہد کرتے ہیں تو اس عمل کو عقد نکاح کہتے ہیں.
اگر کسی سربراہ مملکت اور اس کی رعایا یا امت کے درمیان ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا معاہدہ طے ہوجائے. یعنی سربراہ مملکت اپنی رعایا کو وہ حقوق جو اس (سربراہ) کے ذمہ ہیں ادا کرے اور رعایا بھی سربراہ مملکت کو وہ حقوق جو رعایا کے ذمہ ہیں ادا کرنے کا عہد کرے تو اس عمل توافق کو جو حاکم اور رعایا کے درمیان طے پاتا ہے "عقد بیعت" کہتے ہیں.
مثلا: رعایا حاکم سے یہ عہد کرتی ہے کہ وہ حاکم کی سرگردگی میں مملکت کی ترقی اور تحفظ میں تعاون کرے گی. دشمن سے جنگ کی صورت میں جنگ میں حصہ لیگی وغیرہ. اور اسی طرح حاکم رعایا سے یہ عہد کرتا ہے کہ وہ مملکت کے لئے کام کرےگا. امت کی خوشحالی کے لئے کوشش کرےگا. انہیں فقرہ و فاقہ سے محفوظ رکھنے کا انتظام کرےگا ان کی تعلیم و تربیت اور علاج و معالجہ اور ان کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لےگا. تو حاکم اور رعایا کے درمیان یہ ایک معاہدہ ہے جسے "عقد بیعت" کہتے ہیں.
(تفسیر سیاسی قیام امام حسین علیہ السلام: صفحہ: ۱۱۰)
---------
"بیعت کی تعریف"
------
علامہ عبدالرحمان ابن خلدون نے بیعت کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے:
"بیعت ایک قسم کا پیمان اطاعت ہے. بیعت کرنے والا بیعت کرکے نہ صرف اپنے کاموں بلکہ مسلمانوں کے تمام کاموں میں اپنے امیر کی بالادستی تسلیم کرتا ہے اور یہ بھی کہ وہ اس کی بات کے خلاف نہیں کرےگا اور اسے جو حکم ملےگا اسے بلا چوں و چرا بجا لائےگا خواہ اس سے خوش ہو یا ناخوش"
.............
"بیعت کی وجہ تسمیہ":
...........
جب امام سے بیعت یا پیمان اطاعت کا معاہدہ کیا جائے تو عہد کو مظبوط بنانے کے لئے بیعت کرنے والا اپنا ہاتھ امیر کے ہاتھ میں دےدے تا ہے گویا بیعت مصافحہ کی ایک قسم ہے، چونکہ بیعت کا فعل لین دین والوں کے فعل کے مشابہ ہوتا ہے اس لئے بیعت کو بیعت کہا جاتا ہے بیعتہ باع یبیع کا مصدر ہے جس کے معنی بیچنے کے ہیں یا بیعت کرنے والے نے اپنے اختیارات اس کے ہاتھ بیچ ڈالے جس سے بیعت کرلی.
بیعت کی لغوی اور شرعی معنی یہی ہیں.
(مقدمہ ابن خلدون جلد دوئم صفحہ ۲۵. ترجمہ مولانا راغب رحمانی دہلوی. نفیس اکیڈمی کراچی)
..........
"بیعت اور آزادی"
........
شریعت نے ایک طرح خلفاء کی معزولی پر ایک شرط بھی لگادی اور وہ یہ ہے کہ جس کی بیعت کی جائے وہ احکام الہی پر پورا کاربند رہےگا. جس کے یہ معنی ہیں کہ صاحب حکمران احکام الہی پر قائم نہ رہے تو بیعت کرنے والے بھی پابندی سے آزاد ہوجائین گے.
جیسا کہ خلیفہ اول نے خطبہ خلافت میں فرمایا تھا کہ:
"جب تک میں اللہ اور رسول (ص) کی اطاعت کروں تم پر میری اطاعت فرض ہے"
(اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۵ صفحہ ۲۹۳)
کتاب:
واقعہ کربلا کتب آسمانی اور ہندو دانشوروں کی نظر میں: صفحہ ۱۹-۲۰-۲۱
بیعت کے لغوی و اصطلاحی معنی
بیعت کے لغوی معنی میں سودا کرنا، یہ سودا چاہے مال کا ہو یا کسی اور ذمہ داری کا ، ارشاد باری تعالی ہے:
سورہ التوبہ : آیت 111
اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ وَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۱۱﴾
ترجمہ :
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی ۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔
اصطلاحی طور پر بیعت اس معاہدے کو کہتے ہیں جو امیر کی اطاعت کے لیے کیا جاتا ہے۔
جو شخص کسی کی بیعت کرتا ہے، وہ درحقیقت اسے اطاعت کا حلف دیتا ہے اور اس سے عطیہ لیتا ہے، چنانچہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص سامان فروخت کر کے اس کی قیمت وصول کرتا ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ خرید و فروخت کے معاملات میں اہل عرب کا طریق کار یہ تھا کہ جب بات طے ہو جاتی تھی تو ( بائع اور مشتری ) ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر سودا پکا کرتے تھے۔ اسی طرح جب وہ ایک دوسرے سے معاہدہ کرتے ، تب بھی ایسا ہی کرتے تھے، چنانچہ جب وہ حکمرانوں یا امراء کے ساتھ معاہدہ کرتے تو اس معاہدے میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کو بھی بیعت کا نام دیتے تھے۔۔ (فتح الباري : 89/13)
-مجبوری کی بیعت کی گنجائش ہوتی تو امام حسین یزید کی بیعت کرتے... کیوں کہ امام حسین علیہ السلام کو ما کان و ما یکون کا علم تھا (اصول کافی) ضرور آپکو یہ بھی علم تھا کہ میرے بچے شہید کردیے جائیں گے تو جان بچانے کے لیے آپ مجبوری میں بیعت کرتے لیکن آپ نے بیعت نہیں کی مولا علی کو پتا تھا کہ یہ لوگ مجھے شہید نہیں کر سکتے تو مولا علی کو چاہیے تھا کہ بیعت نہ کرتے،لیکن مولا نے بیعت کرلی جب مولا علی نے (معاذ اللہ) ظالموں کی بیعت کرلی تو امام حسین نے اپنے والد اور ایک معصوم امام کی مخالفت کیسے کی؟
- خلفاء ثلاثہ نے باغ فدک غصب کیا، خلافت غصب کی، سیدہ فاطمہ کی پسلی توڑی، حضرت محسن کو شہید کیا، قرآن جلا دیا، قرآن میں تحریف کی، آذان تبدیل کی، متعہ جیسی عظیم عبادت کو حرام کردیا، دین کو پارہ پارہ کردیا، پھر بھی مولا علی نے بیعت کرلی؟؟
یزید نے مندرجہ بالا کاموں میں سے کوئی کام نہیں کیا پھر بھی امام حسین بیعت نہیں کرتے؟؟
- نہج البلاغہ خطبہ نمبر 8
مولا علی فرماتے ہیں دل سے بیعت کی ہو یا نہ کی ہو، ھاتھ سے بیعت کرنا ہی کافی ہوتا ہے
ھاتھ سے بیعت کرنا اور دل میں کراہت اور ناگواری محسوس کرنا یہ جہنمیوں کا کام ہے
نہج البلاغہ