کفریہ عقائد رکھنے والوں کی نماز جنازہ کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک بستی کی محلہ کی مسجد میں زید عرصہ پندرہ سال سے امامت کر رہا ہے، اسی محلہ میں ایک ایسے فرقے نے جنم لیا ہے جو کہ نعوذ باللّٰہ یہ کہتا ہے کہ نماز، روزہ کوئی چیز نہیں، نماز کے بارے میں حکم ہے کہ نماز قائم کرو، جس طرح تم نماز پڑھتے ہو، اس طرح نماز قائم نہیں ہوتی، بلکہ نماز قائم کرنے والے ہم لوگ ہیں۔ اور روزہ کا مطلب ہے رکنا، یہ نہیں کہ کھانے پینے سے رک جاؤ، بلکہ رکنا وہ ہے جو حالت ہم کو ہر وقت حاصل ہے۔
اور قرآن ایک مثال ہے کہ اس میں ابابیلوں اور ہاتھی وغیرہ کا ذکر ہے اور کوسنا کاٹنا ہے، جیسا کہ :تبت يداء: میں ہے اور ایسا نماز میں کرنا یعنی نماز میں چرندوں، پرندوں کا ذکر اور کسی کو بد دعا کرنا کہاں درست ہے یہ کوئی نماز ہے؟
اور روزہ ضروری نہیں اس کا فدیہ دے دو ادا ہو جائے گا، اسے تو بھوکا مارنا کہتے ہیں، اسی طرح کی اور بہت سی نازیبا و غلطیاں یہ لوگ کرتے ہیں، اگر منع کیا جائے تو رکتے نہیں۔
اس فرقہ کے لوگ اپنے پیر کے قدموں پر ماتھا رکھتے ہیں اور سر کو اُس وقت تک نہیں اُٹھاتے، جب تک پیر صاحب اپنا ہاتھ سر پر نہ رکھیں گے، پیر صاحب کے ہاتھوں کا دھون آپس میں بہت بڑا جام حیات سمجھ کر استعمال کرتے ہیں، یہ تبلیغ ان لوگوں کی عرصہ میں سال سے چل رہی ہے اور امام زید کو ان کے ہر کام کا علم بخوبی ہے۔
اور یہ فرقہ کہتا ہے کہ قرآن چالیس پارے ہیں، اس کے دس پارے ہمارے پاس ہیں، جو سینہ در سینہ چلے آرہے ہیں ، ان مولویوں کو ان کا علم نہیں ہے، جس کو وہ حاصل نہ ہوں ہم جیسا ہو جائے۔
اس فرقہ کے ایک فرد کا انتقال ہو گیا تو زید نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دی، اس کے بعد پھر ایک فرد کا اسی فرقہ کے انتقال ہو گیا، اس کی بھی زید نے بلا سوچے سمجھے نمازِ جنازہ پڑھا دی۔ تو اس فرقہ کے کسی فرد کی نمازِ جنازہ زید کو پڑھانا درست ہے یا نہیں؟ ازروئے شرع اس فرقہ کی نمازِ جنازہ جو زید نے پڑھائی کیسا ہے؟
جواب: سوال نامہ میں مذکور فرقہ کے عقائد مؤجب کفر ہیں، ایسے عقائد رکھنے والے کی نمازِ جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔ جو شخص ان کے عقائد معلوم ہونے کے باوجود ان کی میت کی نمازِ جنازہ پڑھائے، وہ عاصی اور فاسق ہے، ایسا شخص جب تک توبہ نہ کرے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، اور جب توبہ کرے گا اور آئندہ اس میں شرکت نہ کرے گا تو نماز بلا کراہت درست ہو گی۔
(فتاویٰ قاسمیه: جلد، 9 صفحہ، 728)