مختلف اسلامی فرقوں اور متعدد اھل فقہ کے درمیان قرب و اتحاد (محب الدین اخطیب)
مُحِبُ الدین اخطیبمختلف اسلامی فرقوں اور متعدد اھل فقہ
کے درمیان قرب و اتحاد
مسلمانو کے افکاروخیالات ومقاصد میں جوڑواتحاد پیدا کرنا اسلام کےاہم تقاضوں میں سےہے۔ نیزقوت ، ترقی اور اصلاح کے وسائل میں سے ہے۔ اور یہ قرب واتحاد اہل اسلام کے افراد اور جماعتوں کے لۓ ہرزمان ومکان میں بہترین خیر ہے۔
اور اس تقریب کی دعوت دوسرے اغراض سے پاک ہواورنیز اس کا نقصان جو اس کی تفاصیل کے بعد مرتب ہو اگر نفعہ سے بڑھ نہ جاۓ تو اس کا قبول کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔اور ساتھ ہیں اس اتفاق کے سلسلہ میں کامیابیوں کے لئے تعاون کرنا بھی ضروری ہے
پچھلے چند سالوں میں اس دعوت کاخوب چرچا ہونے لگا اور رفتہ رفتہ اسکا اثر بڑھنے لگا یہان تک کہ یہ بات ازہرشریف تک پہنچ گئی۔ جامعہ ازہراہل السنت والجماعت کی عظیم ترین اور مشہوردینی درسگاھ ہے جومذاہب اربعہ کے موافق اہل سنت کی تعلیم کا پرچار ہے۔
یوں تو صلاح الدین ایوبی مرحوم کے دور ہی سے مسلسل اتحاد وجوڑ کی کوشش ہو رہی تھی مگر اس کا دائرہ اب ازھرشریف نے مزید بڑھادیا اور اہل سنت کے علاوہ دیگر مذاہب کو سمجھنے کی کوشش شروع کی اور سب سے زیادہ توجہ مذہب شیعہ اثناعشریہ امامیہ پر مبذول کی گئی اور اب بھی اس راستے پر محنت ہو رہی ہے اسلئے یہ عظیم موضوع اس قابل ہے کہ اس کو پڑھا جائے اوراس پر بحث کی جائے اور اس کو ہر اس مسلمان پر پیش کیا جائے جس کو اس سلسلہ سے کوئی ادنےۤ سا تعلق و واقفیت ہے۔ اور اس موضوع کی مشکلات اور نتائج تک پہنچا چاہتا ہو جب کہ یہ دینی مسائل طبعاٗ مشکل بھی ہیں تو ضروری ہے کہ اس موضوع پر محنت نہایت ہی حکمت وبصیرت اور میانہ روی سے ہو۔ اس بحث کے علمی دلائل اس پر کھلے ہوئے ہوں اور اس کا قلب علم الہی کے نور سے منورہواور نیزوہ فیصلہ کرنے میں انصاف کا دامن چھوڑنے والا نہ ہو۔ تاکہ اس محنت کے مطلوبہ نتائج سامنے آسکیں۔
اہم نکتہ
پہلی بنیاد جس کو اس کام میں ہم ضروری سمجہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جن مسائل میں کئی ایک فریق ہوں تو ان میں تمام فریق رغبت رکھیں تو کامیابی کے امکانات روشن ہوتے ہیں اور اگر رغبت یکطرفہ ہو، فریق ثانی میں رغبت نہ ہو تو نتائج خاطرخواہ نہیں برآمد ہو سکتے۔
سنی شیعہ اتحاد پر ہم آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتے ہیں ۔"ایک حکومت نے جس کا سرکاری مذھب شیعہ ہے مصر میں ایک دفتر بنایا اور اس کا تمام تر خرچ برداشت کیا۔اس مہربان شیعہ حکومت نے اس سخا وجود کے ساتھ صرف ہم اہل سنت کع مخصوص کیا مگر اپنے اہل وطن وہم مذھب لوگوں کے ساتھ بخل کا مظاہرہ کیا۔ اس قسم کا کوئی ادارہ جو شیعہ و سنی اتحاد کے لئے کام کرنا۔ تہران،قم،نجف اشرف ، جبل عامل وغیرہ میں جو شیعہ مذہب کے نشرواشاعت کے مراکز ہین۔ ان میں قائم نہ کیا۔ بلکہ اسکے بر عکس ان پچھلے برسوں سے شیعہ مذاہب کے مراکز سے ایسی کتابیں شائع ہوتی رہی جن کی وجہ سے باہمی افہام وتفہیم مکدر ہوئی اور اتفاق واتحاد کی عمارت کی بنیادوں تک کو ہلا دیا۔ جن کے پڑھنے سے رونگٹے کھڑے ہوجاتےہیں ان میں سے صرف ایک کتاب "الزھرا" نامی جسے علماء نجف نے شائع کیا ہے جسے استاذ البشیرالابراہیمی شیخ الجزائر نے اپنے ایک سفر عراق میں دیکھا۔ اس کتاب میں انہو نے امیرالمومنین سیدنا عمربن الخطاب کے بارہ میں لکہا ہے کہ عمر ایسی بیماری میں مبتلا تہے جو صرف انسانوں کے پیشاب ہی سے شفا پاسکتی ہے۔
وہ ناپاک روحیں جن سے اس قسم کے مذہبی گناہ سرزر ہوں وہ ذیادہ مستحق اور ضرورت مند ہیں کہ ان کو رواداری کا سبق دیا جائے اور اتحاد واتفاق کی دعوت پیش کی جائے بہ نسبت اہل السنت وااجماعت کے جبکہ اہل سنت کو اہل بیت کیساتھ شیعہ سے زیادہ محبت ہے۔
افتراق کا بنیادی سبب
افتراق کا سبب ان کا یہ دعوئ ہے کہ اہل بیت کے محب صرف ہم ہی ہیں اور نیز اصحاب رسولﷺ کے ساتھ مخفی اور ظاہری کینہ اور بخض ہے۔ صحابہ کرام اسلام کی عمارت کی اساس و بنیاد ہیں۔ یہ عمارت ان کے مونڈھوں پر قائم ہے۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ جو لوگ امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی شخصیت کے بارے میں اس قسم کا ناپاک کلام کریں یہ لوگ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ انکے کینہ اور کھوٹ کو دور کیا جائے اور اہل سنت والجماعت کے اس پیارے موقف کا شکریہ ادا کریں کہ اہل بیت کی محبت سے ان کے دل سرشار ہیں اور ان کی تعظیم واکرام کے بارے میں کوئی تقصیر نھیں کرتے البتہ اگر اس کو تقصیر سمجھ کر ہم اہل السنت اہل بیت کو معبود نہیں سمجھتے اور ان کو خداوند تعالیٰ کے ساتھ کسی معاملہ میں بھی شریک نہیں سمجھتے جس کا مختلف مواقع میں فریق ثانی کی طرف سے مظاہرہ ہوتا ہے توہم کسی قیمت پر بھی اس اتحاد کو نھیں قبول کر سکتے جس میں ہمیں غیراللہ کی عبادت کرنی پڑے اور توحید خالص سے ہاتھ دھونے پڑیں
اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ طرفین میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب کرنے کا جزبہ کارفرما ہو اور جب تک سالبہ مو جبے سے نہ مل جائے نتیجہ نہیں بر آمد ہو سکتا یکطرفہ کوشش سعی لاحاصل ہے جس کا ابتک مظاہرہ ہو رہا ہے ۔
اتحادی ادارے
اہل سنت کے ایک مرکزی مقام مصر کے علاوہ شیعہ مذہب کی ریاستوں میں سے کسی شہرمیں بھی اس قسم کا کوی ادارا نہیں جہاں سے شیعہ سنی اتحاد کی آواز اٹھائی جاتی ہو اور نہ ہی کسی شیعہ درسگاھ میں اہل سنت کے موقف کو سمجھنے کی اور اتحاد کی تعلیم دی جاتی ہے تو اگر یہ کوشش صرف ایک فریق کے مرکز میں ہو جیسا کہ ازھرمیں ہو رہا ہے اور دوسرا فریق توجہ نہ دے تو اس کی کامیابی کی کوئی امید نہں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔
اسباب تعارف کے چند بنیادی مسائل
اسلامی فقہ- فقہ اسلامی کے اہل سنت و اہل شیعہ کے ہاں مصدر و مرجعہ ایک نۃیں، کے دونوں فریق اس کے اصول کو تسلیم کرتے ہوں۔
فقہ اسلامی کے شرعی بنیاد آئمہ واربعہ کے ہاں اور ہے اور اہل شیعہ کے ہاں اور ہے جب تک ان بنیادی اصولوں میں مفہامت ومقاربت نہیں ہوتی اور جب تک طرفین ان کے لیئے امادہ نہ ہوں اورفرقین کے دینی مدارس اور علمی معاضد میں کام شروع نہیں ہوتا، فروعات میں پڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف اضاعت وقت شمار ہوگا۔ اصول سے ہماری مراد اصول فقہ نہیں بلکہ اصول دین ہے جو بڑا اور بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مسئلہ تقیہ
پہلی بنیاد جو ہمارے اور ان کے درمیان مخلصانہ کوششوں میں رکاوٹ ہے وہ مسئلہ تقیہ ہے۔ یہ وہ دینی عقیدہ ہے جو اہل شیعہ کے لئے ان باتوں کے اظہار کو مباح قرار دیتا ہے جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں جس سے اہل سنت کے سلیم القلوب افراد دھوکا کہاتے ہیں کہ واقعی جس اتفاق واتحاد کی دعوت زبان سے دےرہے ہیں اس کو دل سے بہی چاہتے ہونگے حالانکہ شیعہ نہ اس کو چاہتے ہیں اور نہ ہی پسند کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے لئے کوئی کام کرتے ہیں اور یہ اتحاد خالصتا یکطرفہ ہوتا ہے۔ دوسرا فریق یعنی شیعہ ایک بال کے برابر بہی آگے نھیں بڑھتا اور اگر تقیہ کا چکر چلانیوالے ہیں مطمئن کرنے کہ لیئے چند قدم ہماری طرف بڑھیں تو بھی جمہور شیعہ کے خاص وعام ان ڈراما کھیلنے والوں سے بلکل الگ رہتے ہیں اور نہ ہی ان مصالحاتی کوششوں کرنے والوں کو حق دیتے ہیں کہ جمہور شیعہ ان کی کسی بات کو قبول کریں گے۔
قرآن کریم پر طعن
قرآن کریم ان کے اور ہمارے درمیاں وحدت واتحاد کے لئے ایک جامع مرجعہ تہا۔ مگر ان کے ہاں اصول دین میں سے ہے کہ تاویل آیات اور معانی ومقصود آیات میں صحابہ کرام نے رصول اللہ علیہ السلام سے جو کچھ سمجھا اور حاصل کیا ہے وہ قابل اعتبار نہیں اور نیز جس جماعت کے سامنے قرآن مجید نازل ہوا ہے ان سے جن ائمہ کرام نے علم قرآن پاک کو حاصل کیا ہے وہ بہی قبل اعتبار نہیں ہیں بلکہ علماء نجف میں سے شیعہ مذہب کے ایک بڑے عالم الحاج میرزا حسن بن محمد تقی النوری البطرسی نے جس کا مقام ان کے ہاں یہ ہے کہ سنہ1320ھ میں اس کی موت ہوئی تو ؔاسے مشہد مرتضوی کے قبلی دروازہ میں دفن کیا ہے جو انکے ہاں اقدس البقاع (نہایت مقدس ٹکڑا) شمار ہوتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب شہر نجف اشرف میں مذکورمجتہد میرزا نے سنہ1292 ھ میں کتاب لکہی ہے جس کا نام رکہا ہے
"فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب"
اس کتاب میں مئولف مذکور نے سینکڑوں عبارتیں مختلف صدیوں کے علما ومجتہدین شیعہ کی پیش کی ہیں جن سے استد لال کیا ہے کہ قرآن پاک میں کمی وبیشی کی گئی ہے طبرسی کی بھی کتاب ایران میں سنہ1289 ھ میں طبع ہوئی جس کے خلاف شیعہ کی طرف سے احتجاج کیا گیا۔ اس لئے کہ شیعہ علماٰء یہ چاہتے ہیں کہ قرآن مجید کے بارے میں شبہات صرف خواص تک ہی محدود رہیں اور ان کے متعد و معتبر سینکڑو کتابوں میں محفوظ رہیں اور ان تمام کو ایک کتاب میں اکٹھا نہ کیا جائے تاکہ مخالفین کو اس مخفی راز کی اطلاع نہ ہو اور ان کے ہاتھ ہمارے خلاف ایک قومی حجت نہ آجائے۔ جب ان کے سنجیدہ طبقے نے اس کتاب کے خلاف لکھا تو میرزا صاحب نے ان کے خلاف ایک اور کتاب لکہی اس کا نام رکھا "رد بعض الشبھات عن فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب" یہ دفاع مولف نے اپنی زندگی کی آخری لمحات میں کیا اور دوسال بعد موت واقع ہوئی تو اس محنت صلہ میں کہ (قرآن مجید کو محرف ثابت کرنے کی کوشش کی)کہ اسے ایک ممتاز مکاں مشھد علوی میں دفن کیا گیا۔
اس نجفی عالم نے قرآن مجید میں نقص ثابت کرنے کےلئے اپنی کتاب کے صفحہ 180 پر بطور استشہاد کے پیش کیا کہ قرآن میں ایک سورۃ ہے جسے شیعہ (سورۃ الولایۃ) کہتے ہیں، اس میں حضرت علی کی ولایت کا ذکر ہے
یاایھاالذین آمنو ابالنبی والولی الذین بعثنٰھما یھدیانکم الی الصراط المستقیم
مصری وزارت انصاف کے بڑے باخبر عالم ال استاذ محمد علی سعودی نے جو نہایت ثقہ اور امانت دار ہیں اور حضرت شیخ محمد عبدہ کے تلمیذ خاص ہیں ۔ انہوں نے ایک ایرانی مخطوط قرآن مستشرق برائن کے پاس دیکہا اور اس سےاس کا فوٹواسٹیٹ لیا ۔ عربی متن کے ساتھ فارسی زبان میں ترجمہ بہی تھا ۔ جیسا کہ تبرسی نے اپنی کتاب فصل الخطاب میں تحریف کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسی ہی ایک دوسری کتاب " بستان مذاہب" میں جو فارسی زبان میں ہے۔ اس کے مؔولف محسن فانی الکشمیری نے بھی تحریف فی القرآن کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ کتاب ایران میں متعدد بار طبع ہو چکی ہے۔ علامہ متشرق نولوکہ نے اس کتاب سے مذ کورہ جؔھوٹی سورۃ (الولایت) کو اپنی کتاب تاریخ المصاحف جلد2 ص102پر نقل کیا ہے جس کو روزنامہ اخبار الاَسویۃ فرانس نے سنہ 1842 ء کو ص439 سے431 پر درج کیا ہے۔
اور جیسا کہ نجفی عالم نے سورۃ الولایۃ سے اتشہاد کیا کہ قرآن محرف ہے۔ ایسا ہی اس نے کافی کا حوالہ دیا جبکہ کافی مذہب شیعہ میں وہ درجہ رکھتی ہے جو اہل سنت کے ہاں صحیح بخاری کا ہے۔ مطبوعہ ایران سنہ1278ھ ص289کی حسب ذیل نص کو پیش کیا ہمارے متعدد احباب نے سہل ابن زیاد سے انہوں نے محمد بن سلیمان سے انہوں نے ابوالحسن ثانی علی بن موسیٰ رضا(متوفی سنہ206ھ ) کے ساتھیوں سے نقل کیاہے۔ میں نے عرض کیا اے امام رضا ! میں آپ پر قربان ہوجاؤن ہم قرآن میں آیات کو سنتے ہیں وہ ہمارے پاس نہیں جیسے ہم سن رہے ہیں اور ہم پسند نہیں کرتے کہ ایسے پڑہیں اس لئے کہ یہ قرآن ویسا نہیں جیسا ہمیں آپ کی طرف سے پہنچا ہے تو کیا ہم گنہگار تو نہیں ہونگے؟ پس انہوں نے جواب میں فرمایا کہ نہیں۔ پڑہتے رہو جیسا کہ تم نےسیکہا ہے عنقریب تمہارے پاس آے گا جو تمہیں سکھائے گا۔" اقراوکما تعلمتم فسیجئکم من یعلمکم " اس میں کوئی شق نہیں کہ امام رضا کہ ذمہ من گھڑت بات لگائی ہے مگر اس کا مفھوم یہ نکلتا ہے کہ یہ فتوا امام کی طرف سے ہے جہ لوگ مصحف عثمانی کو پڑھتے ہیں وہ گنہگار نہیں ہیں البتہ شیعہ مزہب کے خواص بعض بعض کو وہ قرآن سکھاتے ہیں جو اس قرآن مصحف عثمانی کے خلاف ہے جو ان کے خیال کے مطابق انکے پاس موجود ہے یا وہ آئمہ اہل بیت کے پاس تھا وہ قرآن مزعوم جس کو چھپایا ہوا ہے اور تقیہ کے عقیدہ کی وجہ سے اپنے عوام پر ظاہر نہیں کرتے اس میں اور مصحف عثمانی میں یہی فرق ہے کہ مصحف عثمانی خواص وعوام سب کے لئے عام شایع ہے۔ اور اس قرآن مجید کے خلاف حسین بن محمد نقوی النوری طبرسی نے کتاب (فصل الخطاب فی الثبات تحریف کتاب رب الرباب ) تصنیف کی ہے جس نے اپنے علماء کی مستند کتابوں سے سینکڑوں حوالے پیش کئے ہیں ۔ اب اس کتاب کے خلاف جو شیعہ کی طرف سے مظاہرہ ہوا ہے اور اظہار براءۃ کیا گیا؟ یہ بہی عقیدہ تقیہ کا عملی مظاہرہ ہے ورنہ شیعہ مذہب کی کتابوں کے ہوالوں کی وجہ سے ان کا بہی یقین ہے کہ یہ قرآن محروف ہے ۔ وہ اس بات کو روکنا چاہتے ہیں کہ قرآن پاک کے بارے میں اس عقیدہ کی وجہ سے ہنگامہ نہ پیدا ہو۔ یہ بات اپنی جگہ باقی رہے گی کہ قرآن دو ہیں۔ ایک عام معلوم دوسرا خاص مکتوم(چھپایا ہوا)۔ اور سورۃ الولایت اسی مکتوم قرآن کی ہے۔ امام رضا پرجو افتراء باندھا ہے یہ عقیدہ اسی کی بنیاد پر ہے"اقرآُّوکما تعلمتم فسجیئکم من یعلکم" اور شیعہ مزعومات میں سے ہے کہ قرآن پاک کی کچھ آیات چھوڑ دی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ :- وَجَعَلّنا عَلِیًاصِھرک (ہم نے علی کو آپ کا داماد بنایا ہے)۔ یہ آیات سورۃ الم نشرح مکی ہے اور حضرت علی رضہ مکہ مکرمہ میں آپ کے داماد نہیں تھے۔ مکہ مکرمہ میں آپ کے داماد صرف عاص بن ربیع اموی تھے۔ جن کی تعریف جناب رسول اللہ علیہ السلام نے مسجد نبوی کی منبر پر فرمائی ۔ جب حضرت علی نے حضرت فاطمہ کے اوپر ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا اور حضرت فاتمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور علیہ السلام سے اس کی شکایت کی۔ حضرت علی حضورعلیہ السلام کے داماد ہیں۔ آپ کی ایک بیٹی ان کے نکاح میں تھی تو حضرت عثمان رضہ کو اللہ تعلیٰ نے حضور علیہ السلام کی دو بیٹیوں کی وجہ سے داماد بنایا اور جب دوسری بیٹی کا بہی انتقال ہو گیا، تو اس وقت آنحضرت علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔ لوکانت لنا ثالثۃ لزوجٰنکھا "اگر میری تیسری بیٹی ہوتی تو وہ بھی عثمان رضہ کے نکاح میں دیتا"۔
ان کے ایک عالم ابومنصور احمد بن ابی طالب طبرسی متوفی سنہ588ھ نے اپنی کتاب "الاحتجاج علی اھل اللجاج" میں لکھا ہے کہ حضرت علی نے ایک زندیق کو (جسکا نام نیں لیا) فرمایا تیرا میرے خلاف بولنا قرآن پاک کی اس آیات کے خلاف ہے (وان خفتم الا تقسطوافی الیتمیٰ فا نکحواما طاب لکم من النساء)۔
قسط کا لفظ یتیم عورتوں کے نکاح میں عام عورتوں کے مشابہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی تمام عورتیں یتیم ہوتی ہیں۔ اس کا ذکر پہلے چلا آتا تھا جس کو منافقین نے قرآن سے ساقط کردیا ۔ جوفی الیتیمی اور من النساء کے درمیاں ثلث قرآن سے بہی زیادہ قصص اور خطاب پر مشتمل تھا۔
حضرت علی پر جھوٹ
یہ حضرت علی کے اوپر ان کا صریح جھوٹ ہے کہ انہوں نے اپنی خلافت کے دوران بھی قرآن پاک کے اس ثلث متروک کا نہ اعلان کیا اور نہ ہی مسلمانوں کو اس کے رائج کرنے کا حکم دیا۔ اور نہ ہی اس سے ہدایت حاصل کرنے اور اس کے احکامات پہ عمل کرنے کوفرمایا۔
عیسائی مشنریوں کے لئے باعث خوشی
کتاب "فصل الخطاب فی الثبات تحریف کتاب رب الرباب" شایع ہونے اور ایران و نجف اور دیگر ممالک کے شیعہ عوام پھیلنے کے بعد جسے عرصہ اسی برس کے قریب کا ہو رہا ہے جس میں خداوند تعلیٰ اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سینکڑوں جھوٹ باندھے گئے ہیں دشمنان اسلام عیسائی مشن والوں نے خوب خشیاں منائیں اور مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے شایع کئے۔
اس کا ذکرمحمدی اصفہانی الکاظمی نے اپنی کتاب (احسن الودیعۃ) کے جزو ثانی کے صفحہ60 پر کیا ہے۔ یہ کتاب روضات الجنات کے حشیے (ذیل کے طور پرطج ہوئی؟)۔
کتاب الکافی کے دو صریح عبارتین۔ اس کتاب کا مقام ترتیب کے لحاظ سے شیعہ مذہب میں وہی ہے جو سنیوں کے ہاں بخاری شریف کا ہے۔
پہلی روایت:-
عن جابر الجعفی قال سمعت ابا جعفر علیہ جابر جعفی روایت کرتے ہیں میں نے سنا
اسلام یقول: ما ادعی احد من الناس انہ جمع ابو جعفر علیہ السلام سے فرماتے تھے
القرآن کلہ کما نزل الا کذاب وما جمعہ جو شخص دعوےٰ کرکے اس نے قرآن کو
وحفظہ کما انزلہ الاعلی بن ابی طالب والائمۃ جیسے نازل ہوا جمع کیا وہ بہت جھوٹا
بعدہ(کتاب الکافی طبع ایران سنہ1278ھ ص54- ہے سوائے علی بن ابی طالب اور ان کے
طبع ایران سنہ 1381ھ ص 228) بعد کے اماموں کسی نے نہ قرآن پاک کو جمع اور نہ محفوظ کیا ہے جیسا کہ وہ نازل ہوا ہے۔
اب جو شیعہ اس کو پڑھے گا قرآن کریم کے صحیح ہونے کا اس کو یقین وایمان ہوگا؟
رہے اہل سنت ! تو ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اہل شیعہ نے امام باقر ابو جعفر کے اوپر جھوٹ باندھا ہے۔ ہمارے دلیل یہ ہے کہ سیدنا علی رضہ اللہ عنہہ اپنی خلافت دوران صرف اسی قرآن پاک پر عمل کرتے تھے جو اس کو ان کے بھائی سیدنا عثمان رضہ نے جمع کیا اور ملکوں میں پھیلایا۔ ان کے زمانے سے لیکر آج تک وہ قرآن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ کارنامہ اللہ تعلیٰ کا عظیم احسان ہے جو حضرت عثمان کے حصہ میں آیا ہے اور اگرحضرت علی رضہ کے پاس کوئی اور قرآن ہوتا تو اپنی خودمختار حکومت میں اس قرآن کو نافذ کرتے اور مسلمانوں کو حکم کرتے کہ دنیا میں اس قرآن کو پھیلائو اور اس کے مطابق عمل کرو اور اگر مصحف عثمانی کہ علاوہ کوئی قرآن حضرت علی رضہ کے پاس تھا مگر انہوں نےاس کو چھپائے رکھا تو آپ نے خدا اور اس کے رسول اور دین اسلامی کے ساتھ خیانت ہے کہ اصلی قرآن سے انسانیت کو محروم کردیا۔
جابر جعفی جو اس مجرمانہ بات کے سننے کا دعویدار ہے اگر چہ اہل شیعہ کے ہاں ثقہ اور معتبر آدمی ہیں مگر اہل سنت کے ہاں جھوٹا ہونےمیں شہرت یا فتہ ہے۔
ابو یحےٰ الحمانی امام اعظم ابو حنیفہؒ کا قول نقل کرتے ہیں:-
کے میں نے جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں حضرت عطاؒ سے زیادہ بہتر آدمی نہیں دیکھا اور جعفی سےزیادہ جھوٹا کسی کو نہیں پایا۔
اسی سلسلہ میں مزید تفصیل کے لئے ملاخط ہو ہمارا مقالہ مجلۃ الازہر ص307 سنہ1372ھ
دوسری روایت :-
جعفی کی روایت سے بھی یہ دوسری روایت زیادہ جھوٹی ہے جسے امام باقر کے فرزند امام جعفر صادق پر ابو بصیرنے باندھا ہے۔ (کتاب الکافی ص57 مطبوع ایران سنہ1278ھ )۔
ابو بصیر کھتا ہے کہ میں ابو عبداللہ کے پاس حاضر ہوا تو اپ نے یعنی ابوعبداللہ جعفرصادقؒ نے فرمایا:-
وان عندنا المصحف فاطمۃ علیھا السلام ۔کہ ہمارے پاس فاطمہ علیہا السلام کا قرآن ہے
قال قلت وما مصحف فاطمہ قال مصحف میں نے عرض کیا کہ یہ فاطمہ کا قرآن کیا ہے
فیہ مثل قرآنکم ھذا ثلاث مرات واللہ ما فیہتو آپ نے فرمایا وہ قرآن تمہارے اس قرآن
من قرآنکم حرف واحد۔ کے تین گونا ہے (یہ قرآن 30پارے ہے تو وہ
قرآن 90پارے ہوا)اور خدا کی قسم اس قرآن
میں تمہارے اس قرآن کا ایک حرف بھی نہیں ہے
(کافی مطبوعہ ایران سنہ1381ھ کے صفحہ238 پر یہ روایت ہے۔)۔
آئمہ اہل بیت پر یہ شیعہ کی جھوٹی روایتیں پرانی ہیں۔ محمد بن یعقوب کلینی الرازی نے ایک ہزار برس پہلےان کو اپنے اسلاف سے جمع کیا ہے جو شیعہ مذہب کی عمارت کے مہندس نقشہ بنانے والے اور بنیاد رکھنے والے تھے۔ جن ایام میں اسپین پر عرب مسلمانوں کی حکومت تھی ، تو امام ابو محمد بن حزم عیسائی پادریوں سے ان کی مذہبی کتابوں کے بارے میں مناظرے کرتے تھے اور دلائل و براھین ان کی تحریف و تبدیلی کو پیش کرتے تو عیسائی مناظر مقابلے میں دلیل پیش کرتے کہ شیعہ علماء نے قرآن کو بھی تو محرف ثابت کیا ہے۔ تو علامہ ابن حزم نے جواب دیا کہ شیعہ کا یہ دعوےٰ نہ قرآن پر حجت ہے نہ اہل اسلام پر۔ اس لئے کہ جس شخص کا قرآن کی تحریف کا عقیدہ ہو وہ مسلمان نہیں کافر ہے۔ تو کافر کا قول قرآن پاک پر کیسے حجت ہو سکتا ہے۔ ملاخط کیجئے۔(کتاب الفصل فی الملل والخل لا بن حزم جلد 2 صفہ 78 نیز جلد 4 صفہ 182 الطبقہ الاولیٰ قاہرۃ)۔
حاکموں کے بارے میں انکی رائے
سب سے خطرناک حقیقت جس کی طرف ہم اسلامی حکومتوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مذہب شیعہ اثنا عشریہ کی بنیاد جس پر قائم ہے وہ یہ عقیدہ ہے کہ جناب رسول اللہ علیہ السلام کے دنیا سے کوچ فرمانے کے بعد سوائے حضرت علی کے دور کی تمام کی تمام شرعی حکومتیں ہیں اور کسی شیعہ کے لئے جائز نہیں کہ ان کو حکومتوں کی محبت سے تابعداری کرے اور صمیم قلب سے اسے انہیں تسلیم کرے بلکہ ملمع سازی کرتے ہوئے ان کو اندھیرے میں رکھے اور تقیہ سے کام لے۔ اس لئے جتنی حکومتیں گذرچکی ہیں یا اب ہیں یا آئندہ ہونگی وہ تمام کی تمام غاصب حکومتیں ہیں۔ شیعہ مذہب میں شرعی حکام جنہیں صمیم قلب سے تسلیم کرنا چاہیے وہ صرف بارہ امام ہیں خواہ ا نہیں حکومت کا موقع ہاتھ آیا ہو یا نہ آیا ہو ۔ اور ان کے علاوہ وحضرات بھی مسلمانوں کے مصالح کہ ذمہ دار بنے ہیں (سیدنا)ابو بکروعمر سے لیکر آجتک ہیں یا آئندہ ہونگے کتنی ہی انہوں نے اسلام کی خدمت کی ہو اور کتنی اسلام کی دعوت کے پھیلانے اور کلمہ حق زمین پر بلند کرنے کے لئے مسقتیں اٹھائی ہوں اور ان کی وجہ سے جس قدر زمین کے رقبول پر اسلام پہنچا ہو وہ سب کے سب فتنہ پردر اور غاصب ہیں۔
شیخیںؓ سے کینہ وعداوت
سیدنا ابوبکروعمروعثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اور تمام ان لوگوں پر جو حضرت علی رضہ کے علاوہ حاکم ہوئے ہیں ان پر شیعہ لعنت بھیجتے ہیں اور امام ابو الحسن علی بن محمد بن علی بن موسیٰ کے زمہ جھوٹ لگاتے ہیں کہ انہوں نے شیعہ کہ ذمہ ضروری کیا کہ وہ (ابوبکروعمر) کا نام الجبت والطاغوت رکھیں ۔
ان کے جرح وتعدیل میں سب سے بڑی اور مکمل کتاب (تنقیح المقال فی احوال الرجال) مؤلف شیخ الطائفہ جعفریہ علامہ آیت اللہ ما مقانی کے جزو اول صہ207 مطبوعہ ایران مطبع مرتضویہ نجف سنہ1352ھ میں تحریر ہےکہ محقق محمد بن ادریس نے کتاب السرائر کے آخر میں نقل کیا ہے کہ کتاب مسائل (مسائل الرجال ومکاتباتہم الیٰ مولانا ابی الحسن علی بن محمد بن موسیٰ علیہ السلام ) اس مجموعہ مسائل محمد بن علی بن عیسیٰ میں ہے کہ میں نے امام موصوف سے غاصب کے بارے پوچھا(جو اہل بیت سے عداوت رکھتا ہے) کیا اس کے امتحان کے لئے اس سے زیادہ کسی بات کی ضرورت ہے کہ وہ الجبت والطاغوت یعنی ابوبکروعمر کو (حضرت علی) سے مقدم سمجھتا ہے (جبکہ شیخیں حضور نبی علیہ السلام کے دوست اور وزیر تھے نیز قبر مبارک کے ساتھی ہیں) اور ان دونو کی امامت کا اعتقاد رکھتا ہو ؟ تو جواب آیا کہ جس کا عقیدہ یہ ہے وہ ناصبی ہے یعنی اہل بیت سے عداوت رکھنے والا ہے۔
اور جبت و طاغوت کے الفاظ کو شیعہ اپنی دعاؤں میں استمال کرتے ہیں اور نیز (صنمی قریشی ) قریش کے دو بت ۔ اور اس سے مراد لیتے ہیں ابو بکررضہ عمر رضہ کو یہ دعا،ان کی کتاب مفتاح الجنان صہ114 پر ہے ۔ یہ کتاب ان کے لئے ایسی ہے جیسے اہل سنت کے ہاں دلائل الخیرات ہے۔ اس کی عبارت حسب ذیل ہے ۔ اللہم صلی علی محمد وعلیٰ آل محمد العن صنمی قریش وجیتیھما وطاغوتیھما واہنتیھما۔۔۔۔۔ الخ
جبت و طاغوت کہۤ کرکے وہ شیخین پع لعنت کرتے ہیں اور ابنتیہما سے ان دونو ں کی صاحبزادیاں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضہ اور ام المومنین حفصہ رضہ کو قصد کرتے ہیں ۔
قاتلِ فاروقِ اعظم رضہ کی تعظیم
ان کی شقاوت انتہا کوپہنچی ہوئی ہے کہ ایران میں مجوسیت کی آگ کو بجھانے والے اور ایرانیوں کے اسلام میں داخل ہونے کے لئے جو شخصیت یعنی سیدنا فاروق اعظم ذریعہ بنے ہیں ان کے قاتل ابو لولو مجوسی کو وہ بابا شجاع الدین کے نام سے پکارتے ہیں۔ علی بن مظاہر نے احمد بن اسحٰق القمی الاحوص شیخ شیعہ سے نقل کیا ہے کہ عمر کے قتل کا دن عیٰدلاکبر بڑی عید اور فخر کا دن ہے جو خوشیاں منانے اور بڑی پاکیزگی برکت اور تسلی کا دن ہے۔
عجیب عدالت
سیدنا ابو بکررضہ وسیدناعمررضہ سے لیکر صلاح الدین ایوبی تک اور ان کے علاوہ وہ تمام مجاہدین جنہوں نے اسلام کے لئے ممالک کی سرزمین کوفتح کیا اور لوگوں کو خدا کے مبارک دین میں داخل کیا اور جو آج تک اسلامی حکومتوں میں حاکم ہیں ۔ یہ شیعہ عقائد میں غاصب، ظالم اور جہنمی ہیں اور شیعہ کی طرف سے دوستی محبت اور اطاعت کے مستحق نہیں۔ البتہ مالی تعاون اور عہدے حصل کرنے کے لئے عقیدہ تقیہ (نفاق) سے کام لے سکتے ہیں وہ ان کے بنیادی عقائد میں سے ہے کہ جب امام مہدی بارہویں امام کا ظہور ہوگا (جو ان کے عقیدہ کے مطابق زندہ غار میں مخفی ہے) اس کے انتظار میں ہیں کہ ان کے ساتھ مل کر ہم انقلاب برپا کریں۔ جب (اس امام ) کا ذکر اپنی کتابوں میں کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ عجل اللہ فرجہ خدا اس کو جلد بھیجے جب وہ امام مہدی طویل نیند سے بیدار ہوگا جس کو گیارہ سو سال سے زیادہ وقت ہو چکا ہے تو اللہ تعلیٰ اس کے لئے اور اس کے باپ دادوں کے لئے تمام گزرے ہوئے مسلمان حاکموں کے ساتھ اس دور کے حاکموں تک سب کو زندہ کرے گا۔ ان سب کی آگے جبت وطاغوت (ابو بکروعمر) ہوں گے تو امام ان سے اپنی اور گیارہ دیگر اماموں سے حکومت غصب کرنے کا فیصلہ کریں گے ۔ اس لئے کہ رسول اللہ علیہ السلام کی دنیا سے رحلت کے بعد قیامت تک حکومت کرنے کا حق صرف ان (آئمہ) کا ہے کسی اور کا نہیں۔ ان غاصبوں کے خلاف فیصلے کے بعد ان سے انتقام لیا جائے گا اور اکٹھے پانچصد کو تختہ دار پر لٹکایا جائیگا۔ یہاں تک کہ مختلف دوروں میں حکومت کرنے والے حکام کے تین ہزار مردوں کی تعداد کو قتل کیا جائے گا اور یہ قیامت کے وقوع سے پہلے ہوگا ۔ پھر ان کے قتل ہونے کے بعد محشر کی بڑی بعثت کا دن آئے گا پھر لوگ جنت یا جھنم کو جائینگے ۔ جنت اہل بیت کے لئے اور ان لوگوں کے لئے ہوگی جو یہ عقائد رکھتے ہیں اور شیعہ کے علاوہ بقیہ تمام کو جھنم میں ڈالا جائیگا ۔ شیعہ مذہب والے اس احیاء زندہ کرنے اور کورٹ اور قصاص کا نام (رجعت) کھتے ہیں ۔ اور یہ ان کے بنیادی عقائد میں سے ہے جس کے بارے میں کسی شیعہ کوکوئی شبہ نہیں۔ بعض نیک دل سادہ لوح سنیوں کو دیکھا ہے جو یہ کھتے ہیں کہ اس زمانے کے شیعہ ان عقائد کو چھوڑ چکے ہیں۔ یہ ان کی صریح غلطی اور واقعہ کے بلکل خلاف ہے (مزید تفصیل بمعہ حوالہ آگے آرہی ہے)۔
شیعہ سے کمیونزم کی طرف
صفوی حکومت سے لے کر آج تک شیعہ ان عقائد پر قائم ہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ سخت ہیں ۔ ہاں وہ شیعہ جو جدید تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان خرافات سے مخفر ہوکر کمیونزم کی طرف جا رہے ہیں۔ چناچہ عراق میں کمیونسٹ پارٹی اور ایران کی تورہ پارٹی کا اقوام ابنائے شیعہ ہی سے بنا ہے۔ جب ان پر ان خرافات کی حقیقت کھلی تو وہ سرے سے خدا کی ہے منکر ہوکر کمیونسٹ ہوگئے۔اور ان میں کوئی بھی حد اعتدال پر قائم نہں رہا۔ البتہ اپنی مذہبی اغراض کے لئے یا سیاسی چالوں کے لئے یا پارٹی مفاد کے لئے دوستی کا مظاہرہ کریں اور تقیہ کے بنیاد پر بغض کو مخفی رکھیں تو اور بات ہے۔ یہ عقیدہ (رجعۃ) ان کی معتبر کتابوں میں ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کے سامنے شیخ الشیعہ ابوعبداللہ محمد بن نعمان المعروف الشیخ المفید کا قول پیش کرتا ہوں جسے انہوں نے اپنی کتاب (الرشاد فی حجج اللہ علے العباد ) کے 402سے398 پر پیش کیا ہے۔ یہ کتاب ایران میں لیتھو پر چھپی ہے اس پر تاریخ طباعت درج نہیں ہے۔ اس کی کتاب محمد علی محمد حسن الکلبا بکاتی نے کی ہے۔
انتقام و تباھی کی خواہش
فضل بن شاذان نے محمد بن علی کوفی سے اس نے وہب بن حفص سے روایت کی ہے کہ ابوعبداللہ یعنی امام جعفر صادق نے فرمایا کہ (القائم ) کے نام کی منادی کی جائیگی (یاد رہے القائم وہ بارہویں امام ہیں جو گیارہ سو سال سے پیشتر پیدا ہوئے اور ان پر موت نہیں آئی وہ زندہ ہیں) وہ قائم ہوں گے اور فیصلہ کریں گے وہ یوم عاشور میں کھڑے ہونگے اور تیسویں کی رات کو امام القائم کے نام سے منادی کی جائے گی ۔ میں ان کے ساتھ رکن اور حجراسود کے درمیاں کھڑا ہوں گا جبرئیل ان کی دائیں طرف ہونگے اور آواز لگا رہے ہونگے (البعیۃ اللہ ) اللہ کے لئے بعیت کرو پس زمین کے کناروں سے شیعہ ان کی طرف چلیں گے اور زمین ان کے لئے سیکڑدی جائے گی۔ اور وہ تمام کے تمام بعیت کریںگے ۔ اور منقول ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے چل کر کوفہ آئیں گے اور ہمارے نجف میں آکر سکونت پذیر ہونگے اور پھریہاں سے ہر طرف شھروں میں لشکرروانہ کریں گے۔
اور روایت کیا حجال نے ثعلبہ سے اس نے ابوبکرحضرمی سے اس نے ابوجعفرعلیہالسلام سے یعنی امام محمد باقر سے انہوں نے فرمایا کہ میں امام القائم کے ساتھ نجف میں ہونگا۔ اور مکہ مکرمہ سے پانچ ہزار فرشتے ان کے ساتھ آئیں گے۔ جبرئیل القائم کے دائیں ہونگے اور میکائیل بائیں اور مومنین ان کے سامنے ہونگے اور یہاں سے وہ شہروں میں لشکر روانہ فرمائیں گے ۔ عبدالکریم جعفی روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفرصادق سے پوچھا کہ القائم علیہ السلام کی حکومت کتنا عرصہ رہے گی تو انہوں نے فرمایا سات سال ۔ اور دن طویل ہوجائیں گے۔ ایک سال تمھارے دس سالوں کے برابر ہوجائیگا۔ پس امام القائم کی حکومت تمھارے سالوں کی شمار سے ستر سال بنے گی۔ ابو بصیر نے دریافت کیا کہ میں آپ پر قربان ہوجاؤں اللہ تعلیٰ سالوں کو کیسے طویل کردے گا؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعلیٰ آسمان کو ٹھرجانے کا حکم دے گا اور تھوڑی حرکت کی اجازت دے گا تو دن طویل ہوجائیں گے تواسی نسبت سے سال بھی طویل ہوجائیں گے۔ جب اسکے آنے کا وقت قریب آئیگا تو پوری جمادی الثانی میں اور دس دن رجب کے بھی مسلسل بارشیں ہونگی۔ ایسی بارش مخلوق نے کبھی دیکھی نہیں ہوگی تو اللہ تعلےٰاہل ایمان کے بدنوں پر گوشت اگادینگے۔ گویا میں ان کے اٹھنے کو اور سروں سے مٹی جھاڑنے کو دیکھ رہا ہوں ۔
عبداللہ بن مغیرہ نے امام جعفرصادق سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا کہ جب آل رسول علیہ السلام میں امام القائم کھڑے ہونگے تو وہ قریش کے پانچصد کو کھڑا (زندہ) کریں گے اور ان کی گردنیں اڑا دیںگے ۔ پھراور پانسوکو یہاں تک کہ چھ مرتبہ ایسا کریںگے تو عبداللہ کھتے ہیں میں نے عرض کیا کہ کیا ان کی اتنی تعداد ہوجائیگی (یہ تعجب اس لئے تھا کہ خلفائے راشدین، بنی امیہ، بنی عباس اور تمام حکام مسلمین کی مجموعی تعداد امام جعفر تک اس عدد کے عشرعشیربھی نہیں ہو سکتی) تو امام جعفر نے فرمایا کہ ہاں ان سے اور ان کے ساتھ دوستی رکھنے والوں سے یہ تعداد پوری کی جائیگی۔
ایک روایت میں فرمایا کہ ہماری حکومت آخری حکموت ہوگی۔ تمام دنیا کے حکام ہم سے پھلے حکومتیں کر چکے ہونگے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ جب ہماری حکومت آئیگی تو ہم اہل بیت کی حکومت کا نمونہ اختیار کرینگے۔
جعفرجعفی ابوعبدللہ امام جعفر صادق سے روایت کرتے ہیں کہ جب امام القائم آل محمد آئیں گے تو وہ خیمے لگوائیں گے اور قرآن پاک کو اتارا گیا ہے اس کی تعلیم دیںگے پس بھت مشکل آے گی ان لوگوں پر جنہوں نے آج قرآن یاد کیا ہے (یعنی جس نے مصحف عثمانی کو یاد کیا ہوگا جو امام جعفر کے زمانہ میں تھا اس لئے کہ وہ قرآن جس کو امام القائم پڑھائیںگے وہ اس کے خلاف ہوگا)۔
اور عبداللہ بن عجلان نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ جب قائم آل محمدآئینگے تو لوگوں پر داؤد علیہ السلام والی حکومت کریںگے اور مفصل ابن عمرنے ابوعبداللہ سے روایت کی ہے کہ امام القائم کے ساتھ کوفہ میں ستائیس مرد موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ظاہر ہونگے اور سات اصحاب کہف کے اوریوشع بن نون و سلیمان ابودجانہ الانصاری مقداد اور مالک اشتر، پس یہ تمام لوگ امام القائم کے انصار اور انکے ماتحت حکام ہوںگے۔
یہ عبارتیں حرف بحرف پوری ایمانداری کے ساتھ شیعہ کے علماء میں سے ایک بڑے عالم کی کتاب سے نقل کی گئی ہیں ۔ ذہن نشین رہے کہ شیخ مفید کی روایات سندوں کے ساتھ جہوٹی اور بلاریب اہل بیت پر افتراءہیں اہل بیت پر جو مصیبتیں آئی ہیں ۔ ان میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس قسم کے شیعہ اہل بیت کے خواص میں سے ہیں ۔ شیخ مفید کی یہ کتاب ایران میں چھپی ہے اور اس کا نسخہ محفوظ اور موجود ہے۔
رجعت کا عقیدہ
اورجبکہ عقیدہ رجعت اور حکام اہل اسلام کے خلاف محاکمہ شیعہ کے اساسی عقائد میں سے ہے اسی عقیدہ کی وجہ سے ان کے ایک عالم سیدمرتضیٰ مؤلِف کتاب " امالی المرتضیٰ " (یہ شریف رضا شاعر کا بھائی ہے اور نہج البلاغہ میں جھوٹے اضافے کرنے اور صحابہ پر حملہ کرنے میں شریک ہے)
اس سید مرتضےٰ مذکور نے اپنی کتاب "المسائل" میں لکہا ہے کہ ابوبکررضہ وعمر رضہ اس محاکمہ کے دن امام مہدی کے دور میں ایک درخت پر لٹکا کر پھانسی دیئے جایئنگے۔ درخت پہلے ہرا ہوگا اور ان کے مصلوب ہونے کے بعد سوکھ جائے گا۔
ان کے افکار میں کوئی تبدیلی نہیں
شیعہ علماء اور مشائخ ہر دور میں شیخین رضہ رسول اللہ علیہ السلام کے ساتھیوں اور وزیروں کے اور اسلام کی معروف شخصیتوں ، خلفاء، حکام ، مجاہدیں کے بارے میں ان گھناؤنے اور رسواکن خیالات سے آگاہ ہیں ۔ ہم نے ایک اتفاق و اتحاد کے عظیم داعی کو سنا ہے کہ شیعہ کی طرف سے دارالتقریب کی زمدار شخصیت ہیں اور ادارے پر خرچ اٹھا رہے ہیں ہمارے ان احباب کو جن کے پاس ان کے مسائل کو پڑھنے کا وقت نہیں ہے انہیں باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ عقائد ماضی کی باتیں تھیں۔ اب حالات بدل چکے ہیں ۔ اب ان عقائد سے شیعہ کو کوئی سروکار نہیں حالانکہ یہ خیال سراسر جھوٹ اور دھوکا ہے۔ اس لئے کہ جو کتابیں ان کی درس گاہوں میں پڑھائی جاتی ہیں ۔ اور ان کی تعلیم کو ضروریاتِ مذہب اعتبار کیا جاتا ہے۔
اور وہ کتابیں ہیں جنہیں علماء نجف وایران اور جبل عامل وغیرہ ہمارے اس دور میں شایع کر رہے ہیں۔ ان قدیم کتابوں سے زیادہ شرانگیز اور مفاہمت اور اتفاق کی عمارت کو گرانے والی ہیں۔
ہم آپ کے سامنے ایک تازہ مثال ایسے شخص کی پیش کرتےہیں جو اتحاد کی دعوت میں بہت پیش پیش ہے۔ اور صبح و شام واحدت وتوافق کا درد کرنے والا ہے۔ یہ شیخ محمد بن محمد مہدی الخالصی ہے۔ جس کے مصر اوردیگر شہروں میں بہت دوست ہیں جو اس ادارے میں شریک ہیں اور اس شخص کی طرف سے اہل سنت میں کام کر رہے ہیں۔ اس اتحا د کے داعی کا یہ حال ہے کہ شیخین رضہ حضرت ابوبکررضہ اور حضرت عمر فاروق رضہ کو نعمت ایمان سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ اپنی تصنیف (احیاء الشرعیہ فی مذہب الشیعۃ) جزواول صہ23-24 میں لکھتا ہے:-
اور اگر یہ کہیں کہ ابو بکر رضہ وعمررضہ بعیت رضوان والوں میں سے ہیں جن سے اللہ کے راضی ہونے پر قرآنی نصف موجود ہے۔ "لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبا یعونک تحت الشجرۃ" تو ہم جواب میں کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہوتا "لقد رضی اللہ عن الذین یبایعونک "(بےشک اللہ راضی ہوا ان لوگوں سے جنھوں نے آپ سے بعیت کی درخت کے نیچے یا ان لوگوں سے جنھوں نے آپ کی بعیت کی لیکن جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا عن المومنین میں ایمان والوں سے راضی ہوا تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ صرف ان سے راضی ہے جن کا ایمان خالص ہے۔
تاریخ پر جھوٹ
تاریخ اسلامی پراس سے زیادہ اور جھوٹ کیا ہوسکتا ہے اسکا مطلب یہ ہوا کہ شیخین (حضرت ابوبکروعمر رضہ) خالص ایمان والے نہیں تھے۔ اس لئے وہ اللہ تعالیٰ رضا کے اعلان میں شامل نہیں ہوسکتے۔ یہ دونوں شیعہ عالم ہمارے ہمعصر ہیں اور اتفاق واتحاد کے لمبے چوڑے دعوے کرنے والے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کی اصلاح اور باہمی ایکا اور وحدت کے لئے فکرمند ہیں ان کا یہ حال ہے کہ اپنے اس دور کی تالیفات اور مطبوعات میں حضرات شیخین کے بارے میں کس عقیدے کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ شیخین تاریخ اسلام اور اہل اسلام کے رسول اللہ علیہ السلام کے بعد خیرالمسلمین شمار ہوتے ہیں۔ پس ہم لوگ ان حالات میں مختلف مذاہب کے درمیان مفاہمت اور اتحاد کے لئے ان لوگوں سے کیا امید رکھ سکتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے قلعہ میں(پانچویں ناقارہ) طابورخامس کا کام کررہے ہیں جو دشمن کو باخبر کرنے کےلئے جاسوسی کے طور پر نقارہ بجایا جاتا ہے۔
اور جب یہ لوگ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین محسنین اور تمام حکام مسلمین کو جو ان کے بعد ہوئے اس درجہ تک نیچا دکھانا چاہیں (ان کو بےایمان ثابت کریں) باوجود اس کے کہ یہی وہ حضرات ہیں جنہوں نے اسلام کے اس محل کو کھڑا کیا ہے اور آج ہم جیسے عالم اسلامی کہتے ہیں ۔ اس کو وجود میں لائے ہیں ۔
آئمہ پرالزام
اماموں کے ذمہ ان امور کو یہ لوگ لگا رہے ہیں جن سے انہوں نے برات کی۔ کلینی نے اپنی کتاب کافی میں بارہ اماموں کی نعت وتوصیف کی ہے جس سے ان کو مقامِ بشریت سے اونچا لےجا کر یونانی معبودوں کے بت پرستی کے دور تک پہنچایا ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ کافی اور دیگر شیعہ مذہب کی معتبرکتابوں کے حوالے نقل کریں تو یہ ایک نہایت ضخیم کتاب بن جائے گی ۔ اسلئے ہم صرف ابواب کے عنوان عبارت ہی کو بحرف کافی نقل کرتے ہیں۔
ب1۔ الائمتہ یعلمون جمیع العلوم التی خرجت الی الملائکۃ والانبیاء والرسول۔(الکافی صہ255)
امام ان تمام علوم کو جانتے ہیں جو ملائک انبیاءعلیہم السلام اور رسولوں کو دیئے گئے ہیں۔
ب2- ان الائمۃ یعلمون متی یموتون وانماھم یموتون باختیارھم۔ (الکافی صہ258)
امام جانتے ہیں کہ کب مریں گے اور وہ اپنے اختیار سے مرتے ہیں۔
پ3-وان الائمۃ یعلمون علم ماکان وما یکون وانہ لایخفیٰ علیھم شیئ۔(الکافی صہ260)
اور امام جو ہو چکا ہےاور جوآئندہ ہونے والا ہے اس سب کو جانتے ہیں ان پر کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔
پ4- ان الائمۃ عندھم جمیع الکتب یعرفونھا علی اختلافِ السنتھا (الکافی صہ227)
اماموں کے پاس تمام کتابیں ہیں ان کے باوجود زبانوں کے مختلف ہونیکے وہ جانتے ہیں۔
پ5-وانہ لم یجمع القرآن الا الائمۃ وانھم یعلمون علمہ کلہ۔(الکافی صہ228)
کسی نے جمع نہیں کیا اور وہی اس کے سارے علم کو جانتے ہیں۔
پ6- ما عند الائمۃ من آیات الانبیاء۔ (الکافی صہ231)
اماموں کے پاس نبیوں والے معجزات ہیں۔
ب7- وان الائمۃ اذا ظھر امرھم حکوابحکم داؤد وآلِ داؤد ولایسئلون البنیۃ۔ (الکافی صہ297)
امام جب غالب آئینگے تو داؤد اور آل داؤد کے حکم پر فیصلہ کریںگے اور وہ کسی سے گواہ کو نہیں پوچھیں گے۔
ب8- انہ لیس شیئ من الحق فی ایدی الناس الاماخرج من عند الائمۃ۔ (الکافی صہ399)
اور یہ لوگوں کے پاس کوئی چیز حق کی سوائے اس کے نہیں ہے جو اماموں سے نکلی ہے۔
ب9- وان کل شیئ لم یخرج من عندھم وھو باطل ان الارض کلھا المام۔ (الکافی صہ407)
اور جو چیز اماموں سے نہیں ظاہر ہوتی وہ باطل ہے۔ زمین ساری کی ساری امام کے لئے ہے۔
"""""""""شروعات حاشیہ از مترجم
مولانہ موصوف نے اختصار کی وجہ سے چند حوالے دیئے ہیں ورنہ اماموں کے بارے میں شعیہ کے عقائد عجیب و غریب ہیں چند حوالے مزید ملاخطہ فرمادیں جن پر تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ (1) ابوجعفر کہتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت علی رضہ نے فرمایا کہ:- میں ہی اللہ کا منہ ہوں۔ اور میں ہی اللہ کا پہلو اور میں ہی اللہ کا دل ہوں اور میں ہی ظاہر ہوں اور میں ہی باطن ہوں اور میں ہی ساری دنیا کا وارث ہوں۔ میں ہی سبیل اللہ ہوں(بحارالانوارج9 صہ506)۔
(2) آدم علہ سے لیکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تک سارے پیغمبر زندہ ہونگے اور سب کے سب امام صاحب کے دشمنوں سے جھاد کریں گے(حق الیقین مطبوعہ ایران صہ387 مصنفہ ملا باقر مجلسی)
3) (حضورعلیہ السلام اور سیدنا علی زندہ امام مہدی کے ہاتھ پر کریں گے۔ (حق الیقین صہ398)
ذرا اس ہستی کے چند کارنامے بہی سن لیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ جس کے ہاتھ پر حضورعلیہ السلام بعیت کریں گے اور تمام انبیاء علیہ السلام اس کے سامنے لڑئی کریں گے۔ فتح کے بعد کیا فیصلے کریں گے اور کس طرح جشن فتح منائیں گے۔ـــــــــــــ رجت ایام میں اہل بیت سے حقوق غصب کرنیوالوں کو درختوں پر لٹکا کر نیچے آک جلا کر ان کو جلایا جائے گا اور انکی خاکستر دریا میں اڑائی جائیگی(حق الیقین صہ415)ـــــــــــــــــ اہل بیت پر ظلم کرنیوالوں کو رات دن میں ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا(حق الیقین صہ415) اَھم کارنامہ :- فرعون- ہامان یعنی ابوبکروعمراور ان کے لشکر کو زندہ کرکے سزادیجائیگی (حق الیقین صہ393) سیدہ عائشہ صدیقہ کو سزا:- اسی کتاب حق الیقین کی سطررعہ1 صہ394 :-" چوں قائم ماظاہر شودعائشہ زندہ کنذتاکہ براوحد بیزنندوانتقام فاطمہ رابکشد"۔ــــــــــــــــــ (ترجمہ) امام مہدی ظاہر ہونگے۔ عائشہ صدیقہ کو زندہ کریں گے تاکہ ان پر حد جاری کریں اور فاطمہ کا انتقام لیں صہ 412 تا صہ 415 بحوالہ اہل سنت پاکٹ بک مؤلف علامہ دوست محمد قریشی مرحوم) ان کارناموں کیلئے امام کا انتظار ہے۔ حاشیہ ختم از مترجم""""""
اماموں کے غیب دان ہونیکا دعوےٰ
اور حضور علیہ السلام کی وحی کا انکار
اپنے بارہ اماموں کے بارے میں غیب دان اور فوق البشر ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں جبکہ ائمہ میں سے کوئی بھی اس کا مدعی نہ تھا اور جناب رسول اللہ علیہ السلام پر علوم غیبیہ میں سے جو وحی کیا گیا ہے اس تک کا انکار کرتے ہیں جیسے :- آسمانوں کو بنانا اور زمین بچھانا جنت اور جہنم کے حالات وغیرہ وغیرہ۔
ان کے ایک ماہنامہ میں جس نے دارالتقریب (یعنی شیعہ سنی مفاہمت کا ادارہ ) مصر قاہرہ سے شائع کرتا ہے ۔ سال چہارم کے چوتھے پرچہ کے صہ386 پر رئیس محکمہ شرعیہ شیعہ لبنان (جسے علماء مصر کی اوچی شخصیت سمجہتے ہیں) نے ایک مقالہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے:ـ
من اجتھادات الشیعۃ الامامیہ
اس میں مذہب شیعہ کے ایک مجتہد شیخ محمد حسن الاشتیانی کی کتاب بحرالفوائد جلد 1 صہ267 سے نقل کیا ہے۔
ان الرسول اذا اخبر عن الاحکامبے شک رسول جب خبر دے احکامِ شرعیہ
الشرعیۃ ای مثل نواقض الوضوءکے بارے میں مثل نواقض وضواورحیض ونفاک
واحکام الحیض والنفاس کے مسائل کے تو اس کی تصدیق واجب
یجب تصدیقہ والعمل بما ہے۔ اور جب نبی خبر دے
اخبریہ واذا خبرعن الامورمخفی امور کی جیسے آسمان وزمین کی پیدائش
الغیبیۃ مثل خلق السمٰوت و کے بارے میں اور جنت کی حوروں اور اس
الارض والاحور والقصور کے محلات کے بارے میں تو اس کے صحیح علم ہو
فلایجبٰ التدین بہِ بعد العلم بہِجانیکے باوجود اسکو ماننا اور تصدیق کرنا واجب نہیں ہے۔
کس قدر افسوسناک بات ہے ائمہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں کہ وہ غیب دان تھے اور اس سفید جھوٹ پر تو ایمان رکھتے ہیں ہالانکہ یہ نسبت بہی قطعی الثبوت نہیں۔ اور ان علوم غیبیہ کی وحی جو حضور علیہ السلام سے قطعی الدلالت کے طور پر ثابت ہوچکی جیسے وہ آیات اور احادیثِ صحیحہ جو آسمان اور زمین کی پیدائش اور جنت وجھنم، حورو قصور کے بارے میں صادر ہوئی ہیں ان پر ایمان شعیہ کے لئے کوئی ضروری نہیں حالانکہ جناب خاتم النبین علیہ السلام کی تو یہ شان ہے کہ کوئی بات بہی اپنی خواہش سے نہیں فرماتے ہیں وہ وحی ربانی ہوتی ہے وما ینطِقُ عَنِ الھوٰی اِن ھُوَاِلاوَحی یُوحیٰ ۔ جو شخص اس (بزرگی) کی نسبت کو نکالے جو وہ اپنے اماموں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور جو حضورعلیہ السلام کے لئے قرآن وحدیث میں ثابت ہے تو وہ اس کی بہت تھوڑی سی مقدار کو بھی نہیں پھنچ سکتی اس کے باوجود وہ اپنے اماموں کے لئے علم غیب ثابت کرتے ہیں جبکہ وحی الٰہی کی آمد زمین سے منقطع ہوچکی ہے۔
یاد رہے کہ تمام وہ اشخاص جو ائمہ سے غیب کی خبروں کی روایت کرنے والے ہیں وہ ائمہ جرح و تعدیل اہل سنت کے ہاں وہ جھوٹ میں معروف ہیں لیکن ان کے متبعین شیعہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کی کذب بیانی اور اختراعی روایات کے باوجود ان کو سچا سمجھتے ہیں اور عین اسی دوران ان ماہنامہ رسالہ السلام جسے دارالتقریب شائع کر رہا ہے ۔ اس میں محکمہ قضا علیہ شرعیہ شیعہ کا قاضی اور مجتہد محمد حسن الا شتیانی تالیوں کی گونج میں علانیہ کر رہاہے کہ امور غیبیہ کے بارے میں رسولاللہ علیہ السلام کی وحی کی تصدیق واجب نہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ رسول علیہ السلام کا مشن صرف اتنا ہو کہ وہ وضوء اور حیض و نفاس کے مسائل بتلائیں۔
اماموں کا مقام رسول علیہ السلام سے بڑھ کر ہے
ائمہ کا مقام رسول علیہ السلام سے اونچا بتلا رہے ہیں کہ اں حضرت پر بھیجی ہوئی وحی وضوء وغیرہ فقہی جزئیات کے علاوہ واجب التسلیم نہیں اور ائمہ نے کبھی بھی یہ دعوےٰ نہیں کیا کہ ہمارے اوپر وحی نازل ہوئی ہے اسکے باوجود انہیں رسول اللہ علیہ السلام سے زیادہ مقام دے رہے ہیں (جیسے پہلے ذکر ہو چکا ہے) اب ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اس کے بعد ہمارے اور ان کے درمیاں اتفاق واتحاد کا کونسا ذریعہ باقی ہے۔
اسلامی حکومتوں کے ساتھ ان کا موقف
تاریخ کے تمام ادوار میں یہ بات ملتی ہے کہ جمہور شیعہ کے خواص وعام کا اسلامی حکومتوں کے ساتھ یہ موقف رہا ہے کہ اگر حکومت مستحکم اور طاقتور ہے تو عقیدہ تقیہ پرعمل کرتے ہوئے زبانی تملق وچاپلوسی سے کام لیتے تاکہ اس مالی فائدے حاصل کئے جاسکیں ۔ اور اپنے مراکز قائم کئے جاسکیں اور اگر حکومت کمزور پڑگئی اور کس طرف سے اس پر دشمنوں کا حملہ ہوا تو یہ دشمنوں میں جاگھسے اور حکومت پر ٹوٹ پڑے ۔ یہی پوزیشن تھی ان کی اموری حکومت کے آخری دور میں ان کے خلافاء پر انکے چچازاد بھائیوں بنی عباس نے انقلاب بپا کیا۔ بلکہ یہ انقلاب شعیہ کی سازشوں اور دسیسہ کاریوں سے وجود میں آیا اور پہر یہی ان کی مجرمانہ پالیسی عباسیوں کے ساتھ بھی رہی۔
جب ھلاکو خان اور مغل بت پرست خلافت اسلامیہ کے اسلامی ثقافت وعلوم کے مرکز پر حملہ آور ہوئے تو شعیہ حکیم، عالم ، شاعر نصیر طوسی جو عباسی خلیفہ معتصم کی مدح سرائی میں قصیدہ لکھا کرتا تھا۔ سہ655ھ میں ھلاکو سفاح کی ظالمانہ کاروائیوں میں پیش ہیش تھا اور مسلمانوں کے مردوں، عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کے قتل عام سے مسرور تھا اور عالم اسلامی کی قیمتی متاع کتابوں کے دریائے دجلہ میں ڈبودینے پر رضامندی کا اظہار کر رہا تھا جس سے کئی دنوں تک قلمی مخطوط کتابوں کی سیاہی سے دجلہ کا پانی سیاہ رہا۔ جس سے تاریخ وادب لغت وشعر اور خاص طور پر اسلام کے پہلے قافلہ کی مصنفات ومؤلفات کا بیشتر حصہ ضائع ہوگیا ۔ اس حادثہ سے علوم و معارف کا وہ نقصان ہوا جس کی کوئی نطیر نہیں مل سکتی ۔
علقمی اور ابن حدید کی خیانت
شیخ الشیعہ نصیرطوسی کے ساتھ اس عظیم خیانت میںاس کے دو اور ساتھی تھے ایک شیعہ وزیر محمد بن احمد العلقمی اور دوسرا عبدالحمید بن ابی الحدید ہے جوعلقمی کا دوستِ راست تھا۔ یہ معتزلی مؤلف جو شیعوں سے بہی زیادہ شیعہ تھا۔ اس کی پوری زندگی اصحابِ رضہ رسول علیہ السلام کی دشمنی میں گزری ہے اس نے نہج البلاغہ کی شرح لکھی ہے جس کو تاریخ اسلام کو مسخ کرنے والی جھوٹی روایات سے بھردیا ہے ۔ چنانچہ اس سے ہمارے سنیوں کے بہت سارے ذھین وفاضل لوگ بہی دھوکا کھا جاتے ہیں اور ہمارے بعض مؤلفین بھی ان سے دھوکا کھا جاتے ہیں اسلام کی ماضی کے حقائق کھلے ہوئے ہیں اورطوسی نے کہا میں نے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا ہے ان کے حالات و فروعات سے واقفیت حاصل کی ہے تمام کو مسئلہ ایمان کے بارے میں مشترک پایا ہے ۔ اگر چہ ان میں ثبوت ونفی کی کچھ چیزوں میں اختلاف پایا جاتا ہے مگر سوائے فرقہ امامیہ کے تمام فرقوں میں ایمان کے بارے میں ایک ہی عقیدہ ہے فرقہ امامیہ کے سوا کوئی نجات یافتہ ہوسکے تو تمام فرقے نجات پاجائیں مگر ظاہر ہے کہ نجات پانے والا فرقہ صرف امامیہ شیعہ ہے اور کوئی نہیں۔
نجات کا دارومدا راہل بیت کی ولایت پر ہے
خونساری نے کہا ہے کہ سید نعمت اللہ موسوی نے اس عبارت کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ تمام فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ شہادتیں یعنی اشھد ان الاالٰہ الااللہ واشھد ان محمداعبدہ ورسولہُ۔ ان دونوں کے اقراروتصدیق پر نجات کا دارومدار ہے وہ حضور نبی علیہ السلام کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ من قال لاالہ الا اللہ (محمد رسول اللہ ) دخل الجنتہ ۔ :یعنی جو شخص کلمہ کا اقرار کرے وہ جنت میں داخل ہوگا۔
رہا فرقہ امامیہ توان کا اس پراجماع ہے کہ :ـ ان النجاۃ لاتکون الا بولایۃ اھل البیت ال الامام الثانی عشرووالبراءۃمن اعداھم ( ای من ابی بکروعمرالی اٰخر من ینتمی ال السلام من غیر الشعیۃحکاما ومحکومیں فھی مباینۃ الجمیع الفرق فی ھذا الاعتقاد الذی تدور علیہ النجاۃ ۔ کہ نجات نہیں ہوسکتی سوائے اہل بیت کے ولایت کے بارہویں امام تک اور براءت وتبرے کے ان کے دشمنوں سے ( یعنی ابوبکروعمر سے لیکر اس آخری شخص تک جو اسلام کی طرف منسوب ہوتا ہے سوائے شیعہ کے تمام حکام ومحکومیں اظہاربراءت کرے پس یہ ہے وہ مباینت تمام فرقوں سے اس عقیدے کے بارے میں جس پر نجات کا دارومدار ہے۔
تاریخ میں دخل اندازی
ابن علقمی جس نے خباثت وغدر کا مظاہرہ کیا جبکہ خلیفہ مستعصم بااللہ نے درگذر کرتے ہوئے اور مہربانی فرماتے ہوئے اس کو اپنا وزیر بنایا تو اس نے اپنی فطرتی خباثت سے کام لیتے ہوئے احسان کا یہ بدلہ دیا۔
اب اس پچھلے دور تک شیعہ حضرات ھلاکو کی ظالمانہ حرکتوں سے جو مسلمانوں کو تکالیف پہنچی ہے اس میں خوشی محسوس کرتے ہیں، جس کا جی چاہے وہ نصیر طوسی کی سوانح و حالات کی کتب کا مطالعہ کرے جس کی آخری کڑی (روضات الجنات ) خونساری کی مؤلف کتاب ہے۔ جا ھلاکو کی پارٹی کے سفاحوں اور خائنوں کی تعریف و مدح سے پُر ہے اور اس پر خوشی کا اظہار ہے کہ مسلمان مردوں عورتوں بچوں اور بوڑھوں کا قتل عام کیا گیا ۔ یہ ایسے مظالم تھے کہ ان پر خوشی کا اظہار اسلام کا بڑے سے بڑا دشمن اور انتھائی سنگدل وحشی کرتے ہوئے شرماتاہے ۔
یہ موضوع باوجود اس کوشش کے کہ مختصر ہے کچھ تویل ہوگیا ۔ اس میں ہم نے شیعہ مذہب کی مستند کتابوں کے حوالے پیش کئے ہیں۔ اب ہم اس کو ایک اور عبارت پر ختم کریں گے جس کا ہمارے موضوع اتحاد وتقریب سے بہت گہرا تعلق ہے۔ تاکہ ہر مسلمان پر دیگر مذاہب کے ساتھ تقریب و اتحاد کا مسئلہ واضح ہوجائے ۔ اور شیعہ مذہب کے ساتھ تقریب و اتحاد کا مسئلہ واضح ہوجائے۔ اور شیعہ مذہب کے ساتھ اتحاد و تقریب کا محال ونا ممکن ہونا آسکارا ہوجائے۔ جس کا انہوں نے برملا اعتراف کیا ہے جو آگے آرہا ہے۔ خونساری جو شیعہ مذہب کے مشہور مورخین میں سے ہیں اپنی کتاب روضات الجنات مطبوعہ تہران طبع ثانی سنہ 1367ھ کے صحفہ 579 میں نصیرطوسی کے مفصل حالات میں نقل کیا ہے کہ علامہ نصیر کے کلام میں بہترین قابلِ رشک کلام جو حق و تحقیق میں انتھائی باکمال ہے وہ فرقہ ناجیہ کے تعین کے بارے میں ہے کہ تہتر فرقوں میں نجات پانے والا فرقہ صرف امامیہ یعنی شیعہ ہے۔ وہ لکھتا ہے۔
شیعہ کا اھل اسلام سے فقط فروع ہی میں نہیں
بلکہ اُصول میں اختلاف ہے
طوسی موسوی خونساری نے سچ کہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جھوٹ کہا ہے ۔ سچ کہا ہے کہ تمام اسلامی فرقے اصول میں ایک دوسرے کے قریب ہیں اور دوسرے درجے کے مسائل میں مختلف ہیں۔ اس لئے ان کے درمیاں باہمی مفاہمت واتحاد اصول میں ہوسکتا ہے اور یہ اتحاد شیعہ امامیہ کے ساتھ محال وناممکن ہے اس لئے کہ انہیں تمام اہل اسلام سے اصولی اختلاف ہے اور مسلمانوں سے صرف اسی صورت میں راضی ہوسکتے ہیں کہ وہ شیخین ابوبکروعمررضہ سے لیکر ان کے بعد آجتک کے تمام مسلمانوں پر لعن طعن کریں اور یہانتک کہ اہل بیت رسول علیہ السلام سے جو شیعہ نہیں حضورنبی علیہ السلام کی صاحبزادیاں اور ان کے شوہر عثمان زوالنورین اور اموی عاص بن ربیع اور ان کے علاوہ امام زید بن علی زین العابدین اور ان اہل بیت پر بھی تبرا کریں جو رافضی جھنڈے کے نیچے نہیں آئے اور رافضی عقیدہ کے مظابق قرآن پاک کو محرف نہیں جانتے ۔ جیسے کہ شیعہ علماء کی ترجمانی کرتے ہوئے مرزاحسین بن محمد تقی نوری طبرسی نے اپنی کتاب " فصل الختاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب" میں لکھا ہے:
یہ ہے وہ شیعہ کی طرف سےاتفاق واتحاد کے لئے شرط کہ ہم اصحاب رسول علیہ السلام پر لعنت کریں اور ہر وہ شخص جو شیعہ کے دین پر نہیں ہے اس سے اظہار براءت کریں خواہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ہوں ، داماد ہوں یا سادات میں سے جو اُن کے ہمنوا نہ ہوں۔ یہ ہے وہ سچی بات جو نصیر طوسی سے منقول ہے۔ جس کی اتباع نعمت اللہ موسوی اور مرزا محمد باقرخونساری کرتے ہیں۔ اسمیں کوئی شیعہ ان کے خلاف نہیں ہے۔ رہی وہ بات جس میں انہوں نے جھوٹ کہا ہے وہ ہے ان کا وہ دعوےٰ کہ صرف شہادتیں کے اقرار پر غیر شیعہ مسلمانوں کے ہاں نجات کا دارومدار ہے۔ اگر انہوں نے عقل وخرد کا کوئی ادنیٰ حصہ ہوتا تو سمجھتے کہ شہادتیں کا اقرار ہمارے ہاں اسلام میں داخل ہونے کا عنوان اور دروازہ ہوتا ہے۔ کلمے کا اقرار کرنے والا کوئی کافر حربی جنگ لڑنے والا ہی کیوں نہ ہو دنیا میں کلمہ کے اقرار کے بعد اس کی جان و مال محفوظ ہوجائیںگے رہا آخرت میں نجات کا دارومدار تو ایمان پر موقف ہے۔ اور ایمان کیا ہے اسے امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز کی زبانی سنتے وہ فرماتے ہیں:ـ
"ایمان نام ہے فرائض حدود سنت رسول علیہ السلام اور تمام شریعت کی تصدیق کا جس نے اس کی تکمیل کی ایمان کو مکمل کر لیا اور جس نے اس کو نہیں اختیار کیا اس نے ایمان کو کامل ومکمل نہیں کیا۔"
اور اس ایمان میں بارہویں امام کی تصدیق شرط نہیں اس لئے کہ وہ ایک موہوم شخصیت ہے۔ حضرت حسن عسکری کی طرف جھوٹی نسبت ہے جو اس دنیا سے لاولدمرے ہیں ۔ اور ان کے بھائی جعفرنے ان کولاولد قرار دیا ہے۔ علوویوں کے پاس شجرہ نسب کے لئے ایک رجسٹر تھا جس میں پیدا ہونے والےبچے کا نام درج کرتے تھے اور اس میں امام حسن عسکری کے کسی بیٹے کا نام نہیں درج کیا گیا اور ان کے معاصر علوی حضرات اس بات کو نہیں تسلیم کرتے کہ امام حسن عسکری کسی بیٹے کو چھوڑ کر مرے ہیں۔ ہوا یہ کہ حضرت امام عسکری کے لاوارث فوت ہونے کی وجہ سے سلسلہ امامت ان ماننے والے امامیہ کے ہاں موقف ہوگیا تو اُن میں سے ایک نیا فرقہ نصیریہ پیدا ہوا۔
فرقہ نصیریہ کا وجود
ایک بڑے مکار نے جس کا نام محمد بن نصیر تھا بنی نمیر کے موالی میں سے تھا اس نے ایک شوشہ چھوڑا کہ حسن عسکری کا ایک بیٹا باپ کے گھر کے ایک غار میں چھپا ہوا ہے۔ تاکہ اس نام سے عوام شیعہ کو گمراہ کر سکیں اور ان سے زکواۃ ودیگر اموال وصول کر سکیں اور دعویٰ کر سکیں کہ مذہب امامیہ کا امام ، امام غائب ہے۔
اس ملعون شخص نے سوچا کہ میں امام اور عوام کے درمیاں غار کا دروازہ بن جاؤں۔ اس طرح ان میں ایک نیا فرقہ نصیریہ وجود میں آیا ۔ اب یہ اس انتظار میں ہیں کہ باروہیں امام غار سے نکلیں گے اور ان کی شادی ہوگی اور ان کے بیٹے ہونگے پوتے ہونگے اور وہ امامت کریں گے اور حاکم بنیں گے۔ اور مذہب امامیہ ہمیشہ باقی رہے گا ان سطور کے لکھتے وقت وہ امام غار میں چھپے بیٹھے ہیں ظاہر نہیں ہوئے۔
اس قسم کی کۃانیاں یونانیوں میں بھی نہیں سنی گئیں۔ اب یہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کی خرافات پر تمام اہل ایمان جنھیں اللہ تعالیٰ نے عقل سے نوازا ہےایمان لےآئیں گے اور ان کی تصدیق کریں تاکہ ان کے اور شیعہ کے درمیان اتفاق واتحاد ہوسکے یہ بات انتہائی ناممکن ہے۔ اس کی صرف ایک صورت ہوسکتی ہے کہ تمام عالم اسلام دماغی امراض میں مبتلا ہوجائے اور کسی ہسپتال میں اس جنون کے علاج کے لئے داخل ہوں(العیاذ باللہ)۔ (خدا کی پناھ) اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ا نے ہمیں عقل کی نعمت سے نوازا ہے۔ اس لئے کہ مکلف ہونے کے لئے عقل کا ہونا شرط ہے۔ ایمان کی دولت کے بعد کائنات میں سب سے بڑی نعمت عقل کی دولت ہے ۔
اہلِ اسلام کی دوستی
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہل اسلام ہراس شخص سے محبت رکھتے ہیں جو صحیح الایمان مومن ہواور اہل ایمان میں تمام اہل بیت رسول علیہ السلام سے بہی (پانچ یا بارہ )کا عدد مقرر کئے بغیر بہی شامل ہیں ۔ اور ان مومنین میں اول اولین طور پر وہ (عشرہ مبشرہ) دس صحابی رضہ ہیں جن کو حضور علیہ السلام نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی۔ ان کی تکفیر کے اسباب میں اتنی بات ہی کافی ہے کی حضورعلیہ السلام کے اس قول کی مخالفت کریں کہ یہ دس صحابہ رضہ جنتی نہیں اور ایسا ہی اہل اسلام تمام صحابہ سے محبت کرتے ہیں۔ جنکے کندھوں پر اسلام اورعالم اسلام قائم ہوا ہے۔ اور صحابہ کی جماعت کے بارہ میں شیعہ نے حضرت علی اور انکی بیٹوں پر جھوٹ باندھا ہے کہ یہ ان کے دشمن تھے حالانکہ صحابہ اکرام کی حضرت علی کے ساتھ معاشرت بھائیوں کی طرح تھی۔ ایک دوسرے سے محبت وتعاون کرنے والے اور اسی محبت ودوستی پر دنیا سے رخصت ہوئے۔ سب سے سچی ذات باری تعالےٰ نے ان کی تعریف اپنی کتاب کی سورۃ الفتح میں فرمائی۔ قرآن ایسی کتاب ہے کہ باطل اس کے پاس آگے اور پیچھے کسی طرف سے نہیں آسکتا۔”لاَیَاتیۃ ِ الباَطِلُ مِن بَینِ یدیہِ وَلامِن خلفہِالایۃ۔
اس پاک کلام میں صحابہ رضہ کے بارے میں ارشاد ہے :ـ
اشدآء علی الکفار رحماءُ بینھم۔کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں ۔
دوسرے مقام پر سورۃ الحدید میں فرمایا ہے۔
لایستوی منکم من انفق من نہیں برابر تم میں سے وہ شخص کہ جس نے خرچ کیا
قبل الفتح وقاتل اُولٰئک اعظمپہلے فتح مکہ سے اور لڑائی کی تھی۔ یہ لوگ بڑے میں
درجۃ من الذین انفقو من بعد درجوں میں ان لوگوں سے کہ خرچ کیا انہوں نے
وقاتلواوکلا وعداللہ الحسنیٰ۔پیچھے اس سے اور لڑائی کی اور ہر ایک کو وعدہ دیا ہے اللہ
نے اچھا۔
اور کیا اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کا خلاف کرے گا ؟ ہرگز نہیں۔
اور ایک مقام پر فرمایا :ـ
کنتم خیر امۃ اُخرجت للناس تم بہترین امت ہو تمہیں انسانوں کے نفع کے لئےنکالاگیا ہے۔
چاروں خلفائے راشدین کی باہمی محبت
حضرت علی رضہ کی اپنے تین بھائیوں خلفاء راشدین سے محبت کا بین ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے حسن رضہ وحسین رضہ اور ابن الخفیہ کے بعد والے بیٹوں کے نام ابوبکر، عمر اور عثمان رکھے اور اپنی بیٹی ام کلثوم الکبریٰ کو حضرت عمر رضہ کے نکاح میں دیا۔ حضرت عمر رضہ کی شہادت کے بعد اپنے چچازاد بھائی محمد ابن جعفر بن ابی طالب کے نکاح میں آئیں ۔ عبد اللہ بن جعفر ابن ابی طالب (ذوالجناحین) نے اپنے ایک بیٹے کا نام ابوبکر دوسرے کا نام معاویہ رکھا ۔ اور انہوں نے آگے اپنے بیٹے کا نام یزید رکھا۔ اس لئے بعض حضرات نے یہ کھا ہے کہ یزید اچھے اخلاق رکھتا تھا۔ یزید کے بارے میں محمد بن حنیفہ بن علی بن ابی طالب کی رائے آگے ملاحظہ فرمائیے۔
ہم کیوں اظہار برات کریں
اتفاق واتحاد کی قیمت ہم سے جا مذہب شیعہ وصول کرنا چاہتا ہے وہ ہے اصحاب نبی علیہ السلام سے اعلان برات اور ان کی شان میں وہی گستاخیاں جو وہ کر رہے ہیں ، تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں پہلے خطاوار بقول ان کے حضرت علی رضہ شمار ہونگے کہ انہوں نے خود اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر، عمر،عثمان رکھے۔ اور اس سے بہی بڑی غلطی اپنی بیٹی اُم کلثوم کو حضرت عمررضہ کے نکاح میں دینا ہے۔ اور پھر امام محمد بن حنفیہ بن علی رضہ نے یزید کے بارے میں جو شہادت دی ہے اس میں وہ جھوٹے ثابت ہونگے ۔ جب ان کے پاس عبداللہ بن زبیر کا قاصد عبداللہ بن مطیع یزید کے خلاف تعاون حاصل کرنے کے لئے آیا تو اس نے یزید کے بارے میں کہا کہ وہ شراب پیتا ہے اور نماز کو چھوڑدیتا ہے اور قرآن پاک کے حکم سے تجاوز کرتا ہے تو اس کے جواب میں محمد بن علی نے فرمایا جیسے کہ البدایہ والنہا جلد عہ8 صہ233 میں ہے ۔ جن چیزوں کا تذکرہ تم کر رہے ہو ان میں سے میں نے اسمیں کوئی بھی نہیں دیکھی میں اس کے پاس گیا اور اس کے پاس مقیم ہوا میں نے اسے ہمیشہ نماز کا پابند اور اچھائی کی تلاش کرنے والا پایا۔ مسائل فقہ کو پوچھتا تھا اور سنت رسول علیہ السلام کی تابعداری کرتا تھا ۔ ابن مطیع اور اس کے ساتھیوں نے عرض کیا۔ حضرت یہ سب کچھ اس کی ظاہرداری اور تصنع ہے۔ آپ نے جواب دیا اسے مجھ سے کیا خوف تھا اور کونسی لالچ تھی کہ وہ تصنع کا مظاہرہ کرتا۔ اور کیا اس نے تم سے شراب پینے کی بات کی ہے اور تمہیں مطلع کیا ہے تو پھرتم شراب پینے میں اس کے شریک کار ہو۔ اور اگر اس نے تمہیں کوئی اطلاع نہیں دی تو پہر تمہارے لئے حلال نہیں کہ اس بات کی شہادت جس کا تمہیں علم ہی نہیں تو انہوں نے عرض کیا اگرچہ ہم نے اس کو دیکھا تو نہیں مگر ہمارے نزدیک یہ بالکل حق ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے انکار فرماتے ہیں اور حکم دیتے ہیں :ـ " الا من شھد بالحق وھم یعلمون" "شہادت حق وہ ہے کہ اس کا علم ہو"۔ میں تمھارے ساتھ اس کام میں شریک نہیں ہوں ۔
جب حضرت علی رضہ کی اولاد کی یزید تک کے بارے میں یہ شہادت ہے تو ہم شیعہ کے کہنے سے حضرات صحابہ رضہ کرام (بستثنا، انبیا علیہ السلام ) اللہ تعالےٰ کی ساری مخلوق سے بہتر ہیں۔ حضرت ابوبکررضہ، عمررضہ ،عثمان رضہ ، طلحہ رضہ ، زبیررضہ ، عمروبن عاص رضہ اور دیگر تمام صحابہ رضہ جنہوں نے ہمارے تک اللہ تعالےٰ کی کتاب کو اور جناب رسول اللہ علیہ السلام کے مبارک طریقوں کو پہنچایا ہے اور ہمیں یہ عالمِ اسلامی دیا ہے جس میں رہ رہے ہیں ان حضرات کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ بلا شبہ قرب واتحاد کے لئے شیعہ جو ہم سے قیمت مانگتے ہیں اور سودا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ زبردست خسارہ کا سودا ہے ۔ اپنی تمام متاع ثمین دے کر صرف خسارہ ہی لینا ہے۔ تو اس قسم کا سودا کرنے والا احمق ہے۔ اس لئے کہ ولایت اور برات جن کی بنیاد پر مذہب شیعہ قائم ہے، جس کو نصیرطوسی نے ثابت کیا ہے اور نعمت اللہ اور خونساری نے اس کی تائید کی ہے۔ اس کا سوائے اس کے کوئی مقصد نہیں ہوسکتا کہ دین اسلام کو بدل دیا جائے اور جن حضرات کے کاندھوں پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے ان سے دشمنی کی جائے ۔ بلاشبہ انہوں نے جھوٹ کہا ہے کہ صرف ان کا فرقہ ہی نجات پانے والا ہے جو تمام اہل اسلام سے مخالف ہے۔
اسماعیلیہ فرقہ
اسمٰعیلی فرقہ بھی عقائد میں دوسرے شیعہ فرقوں کی طرح ہے اور اہل اسلام کی مخالفت میں دیگر شیعہ فرقوں کے برابر ہے ان میں فرق صرف آل بیت کی محبت میں بعض افراد کے تعین کا ہے۔ امام جعفر صادق تک تو دونوں مشترک ہیں۔ آگے امامیہ فرقہ والے موسیٰ بن جعفر اور ان کی نسل کی ولایت کے مدعی ہیں اور اسمٰعیلیہ فرقہ والے اسمٰعیل بن جعفر اور ان کی اولاد کی ولایت اور محبت کے دعویدار ہیں۔ اسمٰعیلیہ فرقہ والوں کو اماموں کے بارے میں انتہائی غلو نے اقلیت بنادیا ہے اور خاص طور پر صفوی حکومت کے دور میں امامیہ کے حسد کی وجہ سے نیز مجلسی اور ان کے معاونین کے ہاتھوں اور نقصان اٹھانا پڑا مگراب اس غلو میں اسمٰعیلیہ سب کے سب بلا استثناء برابر ہیں اور اس کا اعتراف ان کے ایک بڑے عالم آیت اللہ ما مقانی نے اپنی کتاب "الجرح والتعدیل" میں کیا ہے۔ جہان انہوں نے متقدین غالیوں کے عقائد کا ذکر کیا ہے وہیں انہیں یہ کہنا پڑا ہے کہ :ـ
"جوغلو اسمٰعیلیوں میں تھا وہ اب تمام شیعہ کی ضروریات مذہب میں شمار ہونے لگا ہے۔"
اب دونوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ صرف شخصیتوں کا فرق ہے۔ اماموں کو مقام الوہیت تک پہنچانے میں اور رسول اللہ علیہ السلام سے اونچا مرتبہ دینے میں بھی دونوں یکساں ہیں۔ جیسا کہ امامیہ کے شیخ محمد حسن اشتانی نے حضور علیہ السلام کی جنت دوزخ آسمان وزمین کی پیدائش کی خبروں کو سچا ماننے اور تصدیق کو ضروری نہیں قرار دیا ۔ اور اس کے مقابلہ میں اپنے اماموں کی طرف اور خاص طور پربارہویں مہروم امام کی طرف وہ باتیں منسوب کرتے ہیں اور انہیں یونانیوں کی طرح خدائی کے مقام تک پہنچاتے ہیں۔
اتفاق واتحاد کا شیعہ اور تمام اسلامی فرقوں کے درمیان غیر ممکن ہونے کا سبب اُن کا اہل اسلام سے اصول میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ نصیر الطوسی نے اعلان کیا ہے ۔ نعمت اللہ موسوی اور باقر خونساری نے اس کی تائید کی ہے ۔ اورہرشیعہ اس کا یقین رکھتا ہے۔ یہ تو باقر مجلسی کا دور تھا اب تو حالات پہلے سے بھی زیادہ سخت اور پریشان کن ہے۔
شیعہ خود ہی اتحاد کو نہیں چاہتے
بلکہ ان کا مقصد مذہب کی اشاعت ہے
بے کھٹکا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ شیعہ امامیہ ہی اتحاد واتفاق کو نہیں چاہتے ۔ اس کے لئے انہوں نے قربانی دی اور مال کو خرچ کیا۔ تاکہ اتفاق کی دعوت صرف ہمارے علاقوں (سنیوں) میں چلے ۔ اور شیعہ ریاستوں میں ادنیٰ سی آواز بھی اتفاق کی نہیں اٹھنے دی اور نہ ہی اس کی طرف کوئی قدم اٹھایا ۔ اوران کی درسگاہوں میں بھی اتفاق واتحاد کے کوئی نشانات نہیں پائے جاتے۔ اس لئے یہ دعوت یک طرفہ ہوکر رہ گئی ہے۔ جیسا کہ ہم نے مضمون کے آغاز میں زکر کیا۔ یہ دعوت اس طرح ہے کہ بجلی کے تاروں موجبہ کو سالبہ سے اور سالبہ کو موجبہ سے نہ ملایا جائے تو کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا۔ ایسے ہی اس محنت کا بھی کوئی نتیجہ نہیں۔ یہ بچوں کا کھیل اور بے مقصد محنت ہے۔
اس کا فائدہ جب بھی ہوسکتا ہے کہ شیعہ حضرات ابوبکر رضہ اور عمررضہ اور تمام صحابہ رضہ کرام پر لعن طعن کو ترک کردیں اور صحابہ رضہ بہ سمیت دیگر اہل ایمان سے برات وتبرے سے باز آجائیں اور اہل بیت کے بزرگ اماموں کو بشریت کے مقام سے بڑھا کر خدائی کے مرتبہ تک یونانیوں کی طرح پہنچانے کو چھوڑ دیں۔ اس لئے کہ ان کے اس قسم کے (افکار) اسلام پر ظلم و عدوان ہے اور دین اسلام کو جس نہج پر رسول اللہ علیہ السلام اور صحابہ کرام نے بشمولیت سیدنا علی رضہ اور ان کی اولاد نے آنے والی امت کے لئے چھوڑا تھا ۔ اس راستے کو یکسر بدلنا ہے اور اگر شیعہ نے اسلام ، عقائد اسلام اور اس کی تاریخ پر اپنی زیادتی وتعدی کو نہ چھوڑا اور اپنی اس روش کو نہ تبدیل کیا تو یہ تمام اہل اسلام سے اصولی مخالفت کرکے خود ہی تنہا رہ جائینگے۔ اور یہ مسلمانوں سے علیحدہ شمار ہونگے ۔
ہم نے اس مقالہ میں ایک حقیقت کی طرف ہلکا سا اشارہ کیا تھا کہ کمیونزم کا اثر جو عراق میں بڑھتا چلا جا رہا ہے اور ایران میں حزبِ تودہ کے زریعے دیگر اسلامی ملکوں کی نسبت سے بہت زیادہ ہے۔ یہ شیعہ مذہب کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس لئے کہ دونوں ملکوں میں کمیونزم کو اختیار کرنے والے ابنائے شیعہ میں سے ہیں۔
ان نوجوانوں نے اپنے مذہب کو خرافات وادھام اور اکازیب میں ڈوبا ہوا پایا ہے ۔ جس کا عقل و فہم کی دنیا سے کوئی علاقہ نہیں اور دوسری طرف ان کے سامنے کمیونزم کی منظم دعوت ہے اور مختلف زبانوں میں لٹریچر ہے جس میں علمی اور اقتصادی وغیرہ پروگرام کرکے انہوں نے نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھانس لیا ہے ۔ اور اگر یہ نوجوان دین اسلام کو اسکے فطرتی اصولوں سے پہچانتے اور شیعہ مذہب کے واسطے کے بغیراس کو پڑھتے تو یقینا اس گڑھے میں گرنے سے بچ جاتے ۔
فتنہ بابیہ
ایک صدی سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا کہ ایران میں فتنہ باب کھڑا ہوا علی بن شیرازی نے دعویٰ کیا کہ وہ آنے والے امام مہدی کا باب (دروازہ) ہے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد اُس نے مزید ترقی کی اور دعویٰ کردیا کہ :ـ
مہدی منتظر وہ خود ہی ہے ۔ ایرانی شیعہ میں سے بہت سے لوگ اس کے پیروکار ہوگئے۔ ایرانی حکومت نے طے کیا کے اُسے آذربائیجان کی طرف جلاوطن کردیا جائے اس لئے کہ وہاں کی آبادی سنی حنفی مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ متبع سنت ہونے کی وجہ سے ان میں خرافات وادھام کے گڑھے میں گرنے سے بچنے کی طاقت ہے۔ بخلاف شیعہ کے کہ اوہام پر ہی ان کی عمارت کی بنیاد ہے اس لئے ان کے لئے اس دھوکہ میں پھنسنا اور اس قسم کی دعوت پر لبیک کہنا آسان ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کو کسی شیعہ آبادی کے علاقہ کی طرف جلاوطن نہیں کیا ۔ جیسا کہ شیعہ مذہب کی ان کچی باتوں اور خرافات کی وجہ سے بابیوں اور بہائیوں کو ماضِی میں کامیابی ہوتی ہے۔ اب جبکہ شیعہ مذہب کے نوجوانوں میں بیداری پیداہورہی ہے تو وہ ان بے بنیاد کو جن کی تصدیق عقل انسانی کی بس میں نہیں ہے ، چھوڑ رہے ہیں اور کمیونزم کی دعوت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کمیونسٹ انہیں پُرتپاک طریقے سے گلے لگا رہے ہیں ۔ اور خوشامدید کہتے ہوئے انہیں گود میں لے رہے ہیں ۔ چناچہ کمیونزم کو عراق وایران میں دیگر ممالک سے زیادہ معاونین میستر آئے۔
یہ چند معروضات اس بنا پر پیش کی گئی ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کے زمہ اپنی ذاتِ عالی اور
جنابِ رسول علیہ السلام اور مسلمانوں کے حقوق رکھے
ہیں۔ ان کو اداکرنے اور حقِ نصیحت ادا کرنے میں
کوتاہی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین وملت اور عالم اسلام
کے اتحاد کی حفاظت فرمائے ۔ اسلام کو نقصان ،
پہنچانے والوں اور اس کے خلاف سازش کرنے والوں
کی شر سے قیامت تک محفوظ فرمائے ۔۔۔۔۔ آمین ۔
بشکریہ: مُحِبُ الدین اخطیب