کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کا لشکر باغی ہے ؟ بخاری حدیث نمبر 2812 کی وضاحت
مولانا ابوالحسن ہزارویحدیث 2812 کی وضاحت
شہادتِ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
حقیقت سے بھٹکے ہوئے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسولﷺ نے حضرت عمارؓ سے فرمایا تھا
ویح عمارؓ تقتله الفئة الباغية يدعوهم إلى الجنة ويدعونه إلى النار
(بخاری: حدیث نمبر447 اور گوگل پر حدیث نمبر 2812 ہے)
ترجمہ: "افسوس ہے عمارؓ پر کہ باغی جماعت اسے قتل کرے گی، عمارؓ تو انہیں جنت کی طرف بلائیں گے اور وہ عمارؓ کو جہنم کی طرف" اور حضرت عمارؓ حضرت علیؓ کی حمایت میں جنگ صفین میں حضرت معاویہؓ کے مقابلہ میں لڑتے ہوئے اس لڑائی میں شہید ہوئے، ان کی شہادت سے معلوم ہوا کہ حضرت معاویہؓ کی جماعت فئتہ باغيہ" کا مصداق ہے۔
الجواب:
اس حدیث کے دو طرح سے جواب دیئے گئے ہیں
(1) اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے
(2) اس اعتراض کو مانتے ہوئے
پہلا جواب
اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے
حضرت عمارؓ خود فرماتے ہیں
حدثنی حبیبی رسول الله إني لا أموت إلا قتلاً بين فئتين مؤمنتين
(التاریخ صغیر للامام بخاری: رقم 312)
حضورﷺ نے فرمایا کہ حضرت عمارؓ کی موت مؤمنین کی دو جماعتوں کے درمیان میں قتل کی صورت میں واقع ہوگی اور ان کو قتل کرنے والی باغیوں کی جماعت ہوگی جیسا کہ "تقتلہ الفئتہالباغيہ" سے واضح ہے اور باغیوں سے مراد خوارج کی وہ جماعت ہے جنہوں نے خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ سے بغاوت کی اور بالآخر آپؓ کو شہید کر ڈالا۔
لفظ ويح افسوس کا لفظ استعمال فرمایا جس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ افسوس آپ جس جماعت کے موقف کو صحیح سمجھ کر اس کے ساتھ ہوں گے وہی جماعت آپ کو قتل کرے گی
"فئتہ باغيہ" كا صحيح مصداق
فئتہ باغيہ" کا مصداق حضرت عثمانؓ کی خلافت سے باغی جماعت ہے جو حضرت علیؓ اور کچھ حضرت معاویہؓ کے لشکر میں شامل تھے۔ ان لوگوں نے حضرت عمارؓ کو شہید کر کے حضرت معاویہؓ کو ایسا بد نام کیا کہ اونچے درجے کی تحقیق والے بھی حضرت معاویہؓ کو باغی سمجھنے لگے۔
کچھ شواہد
(1) آپﷺ نے تقتلہ الفئتہ الباغيہ" فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ وہ جماعت مراد ہے جس کی بغاوت مسلمانوں میں مسلّم ہے اور وہ قاتلینِ عثمانؓ ہیں جن کی کاروائی کو تمام صحابہؓ بغاوت مانتے تھے۔
(2) رسول اللہﷺ نے خود دوسری حدیث میں فئة باغیۃ کی تشریح کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ایک شخص نے رسولﷺ کی تقسیم پر اعتراض کیا اور بعض صحابہؓ نے اس کے قتل کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے منع فرمایا اور یہ فرمایا اس کو چھوڑ دو، دوسرے حضرات اس کو قتل کر کے آپ کو اس کے قتل سے بچائیں گے یہ لوگ دین سے اس طرح نکلیں گے جیسے تیر شکار سے نکلتا ہے، ان کا قتال ہر مسلمان پر ضروری ہے۔
(السنن لابن ابی عاصم :رقم 911 )
یہ شخص خوارج میں سے تھا اور حضرت علیؓ کے مقابلے میں قتل ہوا، اس سے واضح ہوا کہ فئة باغیہ خوارج ہیں۔ ان کو خوارج نام بعد میں ملا لیکن پہلے ان کی حقیقت موجود تھی، گویا پہلے حضرت عثمانؓ سے بغاوت کر کے اکہرے خوارج تھے بعد میں حضرت علیؓ سے بھی منحرف ہو کر دوہرے خوارج بن گئے، پہلے ان کا نام فئة باغیہ تھا پھر ان کا نام خوارج پڑ گیا۔
(3) مستدرک حاکم میں (رقم:2653) علیٰ شرط البخاری روایت ہے کہ ابن عباسؓ نے اپنے بیٹے علی اور عکرمہ کو حضرت ابو سعید خدریؓ کے پاس بھیجا کہ ان سے وہ حدیث جو آپﷺ نے خوارج کے بارے میں بیان کی ہے سن کر آؤ ۔اسی میں لفظ " ويح عمارؓ تقتله الفئة الباغيہ" ہے، معلوم ہوا کہ اس حدیث کا مصداق خوارج ہیں اور انہوں نے ہی حضرت عمارؓ کو شہید کیا ہے۔
(4) ایک روایت میں ہے
"و ذلک فعل الاشقياء والاشرار "
کہ یہ بدبختوں اور شریروں کا کام ہے۔
تاریخ دمشق لابن عساکر: جلد 43 صفحہ 402
دوسری روایت میں ہے کہ
"لا يقتلک أصحابي ولكن تقتلك الفئة الباغية"
کہ تجھے کو میرے صحابی قتل نہیں کریں گے، تجھ کو باغی جماعت قتل کرے گی
(وفاء الوفاء: جلد 1 صفحہ254)
معلوم ہوا کہ یہ بدبختوں کا کام تھا صحابہؓ اس میں ملوث نہیں تھے۔
(5 ) اگر "فئتہ باغیہ" سے مراد حضرت معاویہؓ کی جماعت تھی تو حضرت علیؓ نے حضرت معاویہؓ سے صلح کی بات چیت کے لیے حکم کیوں مقرر فرمایا جس کے نتیجے میں قتال موقوف ہوا؟ باغیوں کے لیے تو قرآنی فیصلہ موجود ہے :
فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ-
یعنی کہ باغیوں سے قتال کیا جائے گا۔
دونوں فریق اپنے اپنے دعوے کے مطابق اپنے کو حق پر سمجھتے تھے۔
پھر اگر حضرت معاویہؓ کا باغی ہونا ثابت ہو چکا تھا تو حضرت علیؓ کے بعد حضرت حسنؓ نے کیوں حکومت سے دستبردار ہو کر حکومت ان کے حوالے کر دی؟ ان پر تو قتال فرض ہونا چاہیے تھا نہ کہ مسلمانوں کی قیادت ہی ان کے سپرد کر دی جاتی، پھر مزید یہ کہ حضرت حسنؓ کے اس فیصلے کی تائید اس وقت کی پوری ملتِ اسلامیہ نے کی اور سب نے خوشی منائی اور اس سال کا نام ہی عام الجماعۃ رکھ دیا۔ اگر فی الواقع حضرت معاویہؓ باغی تھے تو رسول اللہﷺ نے ان کے لیے
" اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد به" (ترمذی :3842)
کے الفاظ کیوں استعمال فرمائے؟
(6) اگر حضرت عمارؓ کی شہادت کے بعد یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت معاویہؓ کی جماعت ہی قاتل اور باغی ہے تو پھر حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابو سعید خدریؓ وغیرہ کیوں قتال سے الگ رہے؟ ان کو تو باغیوں کے مقابلے میں صف آرا ہونا چاہیئے تھا۔
اسی طرح جو صحابہؓ حضرت علیؓ کے ساتھ تھے ان میں سے کسی سے بھی صحیح سند کے ساتھ یہ ثابت نہیں کہ اس حدیث کی بناء پر حق و باطل کا اندازہ لگایا ہو اور پھر حضرت علیؓ کا ساتھ دیا ہو یا دوسرے فریق کو باغی کہا ہو، جبکہ ابو قتادهؓ 54 ہجری اور ابو ایسر کعب بن عمروؓ 55 ہجری تک زندہ رہے۔
نیز حضرت علیؓ کی طرف سے متعدد صحابہؓ جیسا کہ جابر بن عبد اللہؓ، عبید السلمانیؓ اور ابوسلیم خولانیؓ صلح کی بات چیت کے لیے حضرت معاویہؓ کے پاس آئے لیکن کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ حضرت عمارؓ ہمارے لشکر میں موجود ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپؓ کے لشکر کے ہاتھوں شہید ہوں اور آپؓ فرمانِ رسالت کے مطابق باغی گروہ قرار پائیں۔
اور عشرہ مبشرہ میں سے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر بن العوامؓ بھی حضرت معاویہؓ کے ہم خیال تھے تو وہ کیسے باغی اور مجرم ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح جریرؓ جیسے جلیل القدر صحابی اور دیگر بعض صحابہؓ کیوں حضرت معاویہؓ کے ساتھ رہ گئے ؟
حضرت عمارؓ کو شہید کرنے والے درحقیقت خارجی ہی تھے اور انہوں نے اس کو حضرت امیر معاویہؓ کی طرف منسوب کر دیا اور ایسا اس لیے کیا تاکہ لوگ ان سے بدظن ہو جائیں۔
(7)"يدعوهم إلى الجنة ويدعونه إلى النار"
کو صرف عکرمہ عن ابی سعید کی روایت میں ہے، دوسرے صحابہؓ سے مروی نہیں، ابنِ عمرؓ کی روایت میں ہے لیکن اس کی سند میں عبد النور متہم بالوضع ہے ۔عکرمہ کے علاوہ یہ روایت کئی صحابہؓ سے مروی ہے لیکن یہ ٹکڑا ثابت نہیں ہے، معلوم ہوا کہ یہ راوی حدیث عکرمہ کا ادراج ہے اور عکرمہ پر ثقاہت کے باوجود خارجیت کا الزام ہے۔
کتاب المعرفة والتاریخ للیسوی جلد 2 صفحہ 7
المغني في الضعفاء: 43812/
تہذیب الکمال: جلد 20 صفحہ 278
اور خوارج کو اصل مخالفت حضرت معاویہؓ سے تھی کیونکہ وہ قصاصِ عثمانؓ کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن جب حضرت علیؓ نے ان سے مصالحت کیلئے حکم بنایا تو آپؓ کی بھی مخالفت پر اتر آئے۔
(8) ممکن ہے کہ حدیث کے اس ٹکڑے میں "جنت" سے مراد "صلح" ہو اور "نار" سے مراد "جنگ" ہو کیوں کہ قرآن میں حرب کو نار کیا گیا ہے
"كُلَّمَآ أَو٘قَدُوا نَارًا لِّل٘حَر٘بِ أَطَفَاَهَا اللّٰهُ"
تو مطلب یہ ہوا
"يدعوهم إلى الجنة أي الصلح ويدعونه إلى النار أي الحرب"
حاکم نے مستدرک میں واقدی کی سند سے روایت کیا ہے کہ عقبہ بن عامر الجہنی، عمرو بن الحارث الخولانی اور شریک بن سلمہ، ان تینوں نے بیک وقت حملہ کر کے حضرت عمارؓ کو شہید کیا۔ (مستدرک :8654 )
یہ روایت واقدی کے متروک اور متہم بالکذب والوضع ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے۔ (تقریب التہذيب)
علامہ ذہبیؒ نے بعض محدثین سے ان کی توثیق اور متعدد محدثین سے ان کا متروک، کذاب اور واضع الحدیث ہو نا نقل کیا ہے۔
میزان الاعتدال صفحہ 6652 جلد3)
اشکال: ابن مسعود سے مرفوعاً روایت ہے:
"إذا اختلف الناس كان ابن سميه مع الحق
المعجم الكبير للطبراني: رقم 1071)
ترجمہ: جب لوگوں میں اختلاف ہوگا تو ابن سمیہ (عمارؓ) حق کے ساتھ ہوگا،
اور وہ حضرت علیؓ کے ساتھ تھے معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کی جماعت حق پر تھی۔
جواب: اس کی سند میں ضرار بن صرد اور ابو نعیم کوفی متروک الحدیث اور کذاب راوی ہیں۔
(الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي :جلد 2 صفحہ 60)
وقال البخاری متروک و قال ابن معين كذابان بالكوفة هذا وأبو نعیم (المغنى للذهبی:312)
اعتراض کو مانتے ہوئے
اس حدیث کی بنیاد پر جمہور اہل السنۃ والجماعۃ نے مشاجراتِ صحابہؓ میں سید نا علیؓ کے موقف کو راجح قرار دیا ہے اور حضرت امیر معاویہؓ کے اجتہاد کو خطا پر محمول کیا ہے لیکن واضح رہے کہ اس اجتہاد اور خطا کی بحث آپؓ کے اندر اجتہادی شان کو تسلیم کرنے کے بعد ہی پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری(رقم:3765) میں آپؓ کے تفقہ اور اجتہاد کے بارے میں حضرت ابن عباسؓ کا اعتراف بھی موجود ہے ورنہ ہر ایرے غیرے کے اس طرح کے اختلاف کو اجتہاد پر نہیں محمول کیا جاتا بلکہ ان کا مبنی عموماً کم علمی اور خود پسندی ہوتی ہے۔
بہر حال چوں کہ اہل حق کے یہاں دیگر احادیث کی بناء پر یہ بات طے شدہ ہے کہ مجتہد خاطی معذور ہوتا ہے بلکہ ایک امر کے ذریعے ماجور ( مستحق اجر ) بھی ہوتا ہے۔ اس لیے جب وہ طلبِ حق کی سعی، حسنِ نیت اور جذبہ صالح کی بناء پر مورد اجر و ثواب ٹھہر رہا ہو تو اس پر سب وشتم اور تنبیہ و تبصرہ کے کیا معنی؟
(مستفاد از نووی و فتح الباری)
الباغیہ کی تشریح
اولاً حضرت معاویہؓ کی جماعت باغی نہیں تھی کہ ان حضرات نے حضرت علیؓ سے بیعت ہی نہیں کی تھی کیونکہ حضرت معاویہؓ کا اجتہاد یہ تھا کہ حضرت علیؓ کی فوج میں باغی موجود ہیں یعنی وہ لوگ جنہوں نے عثمانؓ کے خلاف بغاوت کی تھی، جب تک ان کا قلع قمع نہ کیا جائے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
دوسرا یہ کہ یہاں لفظ " باغیہ" طاعتِ امام سے عدول اور شقاق ونفاق کے معنی میں نہیں ہے بلکہ یہ وہ بغاوت ہے جس کا تذکرہ قرآن کی اس آیت میں ہے:
وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَاۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮہُمَا علی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ (حجرات:- 9)
ترجمہ: اگر اہل ایمان کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو تم لوگ دونوں کے درمیان صلح کرادو، پھر اگر کوئی ایک جماعت دوسری پر شرعی لحاظ سے زیادتی کرے تو اس سے لڑو جو زیادتی کر رہی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کو تسلیم کرلے۔
یہ آیت انصار کے آپسی مناقشے کے پسِ منظر میں نازل ہوئی تھی ، اولی الامر سے بغاوت کے تناظر میں نہیں۔ معلوم ہوا کہ لفظ " بغاوت کبھی آپسی تنازعات میں ناحق پر اصرار کرنے والی جماعت کے لیے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔
حضرت امیر معاویہؓ کے سامنے بھی یہ حدیث پیش کی گئی مگر آپؓ کے ذہن میں اس کا مصداق دو جماعت تھی جس نے ایک متفقہ امیر المؤمنین یعنی سیدنا عثمانؓ کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کر کے ان کو شہید کیا تھا اور پھر یہود و روافض پر مشتمل اہلِ فتنہ کا یہی سازشی گروہ یکے بعد دیگرے جنگ جمل اور جنگ صفین کا سبب بنا تھا، تو حضرت معاویہؓ یہ سمجھتے تھے کہ اصل باغی گروہ تو وہ ہے جو ان حالات کا ذمہ دار ہے۔ اس لیے جب آپؓ کے سامنے یہ حدیث پیش کی گئی تو آپؓ نے اپنے علم گمان ہی کی بنیاد پر یہ بات فرمائی تھی کہ عمارؓ کو ہم نے کہاں قتل کیا ہے؟ ان کو تو ان کے لوگوں نے قتل کیا ہے جو ان کو یہاں لے کر آئے۔
دعوهم إلى الجنة ويدعونه إلى النار“
کی زیادتی کی حقیقت
اور جہاں تک حدیث کے بعض طرق میں موجود اس زیادتی کی ہے
"یدعوهم إلى الجنة ويدعونه إلى النار " (صحیح بخارى: رقم 447)
اس کے بارے میں دو باتیں قابل توجہ ہیں:
(1) یہ زیادتی ایک دوسری حدیث سے یہاں خلط اور مدرج ہو گئی ہے۔ دراصل یہ دو الگ الگ حدیثیں ہیں ۔
مکہ میں کفار کے ظلم و ستم کے زمانہ میں کسی موقع پر آپﷺ نے حضرت عمارؓ پر رحم کھاتے ہوئے ان کی حمایت میں فرمایا تھا
" مـالهـم ولـعمارؓ ؟ يدعوهم إلى الجنة ويدعونه إلى النار وذاك داب الاشقياء والفجار"
(فضائل الصحابة لأحمد: 1598)
(2)مدینہ میں مسجدِ نبوی کی تعمیر کے وقت یا غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے سید نا عمار بن یا سرؓ دو دو اینٹیں ایک ساتھ ڈھور ہے تھے۔ اس وقت آپﷺ نے فرمایا تھا:
ويح عمارؓ، تقبله الفئة الباغية"(مسلم: 2915)
راوی حدیث عکرمہ سے ان دونوں میں خلط ملط ہو گیا اور انہوں نے دونوں کو ایک ساتھ ملا کر بیان کر دیا۔ اس دعویٰ کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ تقتله فئۃ الباغية والا مضمون 30 کے قریب صحابہؓ سے مروی ہے مگر کسی بھی صحابی کی روایت میں یہ زیادتی نہیں پائی جاتی، بظاہر اسی لیے امام مسلمؒ نے بھی اس کی تخریج نہیں فرمائی۔
(2) اور اگر بعینہ یہ حدیث مان بھی لی جائے تو اس کے بارے میں شارح بخاری حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
یہاں جنت کی طرف بلانے سے مراد اس کے سبب یعنی طاعتِ امام کی طرف بلانا ہے جیسا کہ حضرت عمارؓ ان کو حضرت علیؓ کی اطاعت کی طرف بلا رہے تھے جو اس وقت اصل خلیفۂ بر حق تھے جبکہ دوسری جانب کے حضرات اس کے خلاف کے داعی تھے لیکن تاویل واجتہاد کی بناء پر وہ بھی معذور تھے کیوں کہ اپنے اجتہاد سے وہ بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ ہم ہی ان کو جنت کی طرف بلا رہے ہیں لہٰذا اس ظن و اجتہاد کی وجہ سے ان پر کوئی طعن و تشنیع نہیں کی جائے گی۔
(فتح الباری: جلد 1 صفحہ 452)
حیران کن انکشاف
کیا صحیح بخاری کی حدیث 2812 میں واقعی یہ الفاظ موجود ہیں کہ عمارؓ کو ( باغی) گروہ قتل کرے گا !
سلطنت عثمانیہ کے آخری بادشاہ، سلطان عبد الحمید نے صحیح بخاری کا ایک نسخہ شائع کروایا تھا جسے "نسخہ سلطانیہ" کہا جاتا ہے۔ یہ آج کل "دار التاصیل" مصر سے شائع ہوتا ہے۔ یہ نسخہ پہلے سے موجود نسخوں کو دیکھ کر لکھا گیا تھا۔ اس میں لکھا ہے کہ "نسخہ ابی ذر" میں " تقتلہ الفئة الباغیة" کے الفاظ موجود نہیں تھے۔ واضح رہے کہ "ابو ذر" صحیح بخاری کے متعدد نسخوں کے مرکزی راوی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا نسخہ درست ہے؟ جو نسخہ قدیم ہوگا اور سند سے امام بخاری رح سے ثابت ہوگا، وہی درست نسخہ ہوگا۔ اس وقت جو سب سے پرانے نسخے محفوظ ہیں وہ آج سے تقریبا 900 سال پرانے "ابو عمران ابن سعادة" کے تین نسخے ہیں جو کہ ترکی کی استنبول میں واقع murad molla kütüphanesi ( library ) میں موجود ہیں۔ ان تینوں میں حضرت عمارؓ کا مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت دو دو اینٹیں اٹھانے کا ذکر تو ہے، لیکن آگے "تقتلہ الفئة الباغیة" کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ میرے پاس نسخوں کی scanned copies موجود ہیں، تصاویر نیچے لگا دی ہیں۔ یہ سب نسخے امام بخاری رح سے صحیح سند سے ثابت ہیں۔ سند یہ ہے
" کتب ابوعمران ابن سعادة عٙن الصدفی عٙن ابی الولید الباجی عٙن ابی ذر عٙن المستملی عٙن الفربری عٙن محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ"
لہذا ثابت ہوا کہ
"تقتلہ الفئة الباغیة"
کے الفاظ اصلاً ( originally ) صحیح بخاری میں نہیں ہیں،
بلکہ یہ بعد کا اضافہ
/ publishing mistake ہے۔
دوسرا سوال یہ بنتا ہے کہ اگر صحیح بخاری میں
"تقتلہ الفئة الباغیہ"
کے الفاظ موجود نہیں ہیں تو پھر اس کے بغیر بخاری کی حدیث کا ترجمہ کیا بنے گا؟
"يَدْعُوهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ"
سے کیا مراد ہے؟ دیکھیں
"یدعو"
فعل مضارع واحد کا صیغہ ہے۔ مضارع کا ترجمہ by default حال ( Present indefinite ) میں کیا جاتا ہے، جب قرآئن سے واضح ہو تو ترجمہ مستقبل میں کیا جاتا ہے۔ اب قرائن سے واضح ہوتا ہے کہ
"تقتلہ الفئة الباغیہ"
کا ترجمہ یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت عمارؓ کو باغی جماعت قتل کرتی ہے، جبکہ حضرت عمارؓ زندہ ہیں۔ اس لئے اس کا ترجمہ مستقبل میں کیا جاتا کہ باغی جماعت قتل کرے گی۔ اب اسی کے سیاق (context ) میں
"يَدْعُوهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ"
کا ترجمہ بھی مستقبل میں کیا جاتا ہے عمارؓ انہیں جنت کی طرف بلائیں گے اور وہ گروہ جہنم کی طرف بلائیں گے۔ لیکن میں ثابت کرچکا کہ
"تقتلہ الفئة الباغیة"
کے الفاظ صحیح بخاری میں نہیں ہے۔ یعنی مستقبل والا context گیا۔ اب ترجمہ حال میں کیا جائے گا۔ "عمارؓ انہیں جنت کی طرف بلاتے ہیں اور وہ جہنم کی طرف بلاتے ہیں"۔ اب جب ہم نبیؐ کے اس فرمان کے وقت میں دیکھیں تو اس سے مراد مشرکین مکہ یا اس وقت کا ہی کوئی گروہ بنے گا، جسے حضرت عمار اسلام کی دعوت دیتے ( جنت کی طرف بلاتے) اور وہ جہنم ( اسلام چھوڑنے ) کی طرف بلاتے تھے۔
اب مرزا جہلمی سمیت اس کے پیروکاروں سے چند سوالات
بولیں گے ہم وہی جو حق ہے مرزا اور اس کے چیلوں کے لیے ٹائم قیامت تک ہے جواب دیں
نوٹ:- ہم اہلسنت کا واضح موقف ہے کہ مشاجرات صحابہؓ میں کسی بھی صحابی کے معاملے میں ہمیں اپنی عقل کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں اور کسی بھی صحابی کی تنقیص ہمارے نزدیک حرام ہے یہ تحریری پوسٹ مرزا جہلمی اور اس کے چیلوں کے لیے آئینے کے طور پر پیش کی گئی ہے
مرزا جہلمی کے وہ چیلے جو بخاری کی حدیث 2812 کا بہت شور مچاتے ہیں اس حدیث کے تناظر میں ان سے چند سوالات۔۔
سوال نمبر1:- مرزا جہلمی نے اپنے ریسرچ پیپر 5B میں مسند احمد کی حدیث پیش کی ہے اس حدیث میں فلاں سے مُراد کونسا(عظیم صحابی رسولﷺ) شخص ہے؟؟
اور مرزا جہلمی نے یہاں بریکٹ لگا کر نام کیوں نہیں بتایا؟؟ جیسے کہ سیدنا معاویہؓ کے بارے بریکٹیں لگا لگا کر نام لکھے ھیں ریسرچ پیپر میں ۔۔
سوال 2:- مرزا منگول محدثین کے بارے میں کہتا (جیسے کہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ کے بارے)کہ محدثین نے پوری بات نہیں بتائی بلکہ فلاں کہہ کر نام ظاہر نہ کر کے بددیانتی کی۔۔تو کیا مرزا نے بھی ریسرچ پیپر میں لفظ فلاں لکھ کر بددیانتی نہیں کی؟؟حالانکہ مرزا منگول جانتا ھے کہ یہاں فلاں سے مُراد کون ھے جسکو گالیاں دی جا رہی تھیں۔۔
سوال3:- مرزا نے اپنے ریسرچ پیپر میں حدیث کے عربی متن میں موجود لفظ (سب) کا ترجمہ برائی کیا ہے جبکہ مرزا جہلمی اسی لفظ کا ترجمہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے بارے میں گالی کرتا ہے تو یہاں ریسرچ پیپر میں مرزا جہلمی نے ترجمہ کیوں تبدیل کر دیا ہے؟؟
سوال4:- مرزا جہلمی کا ایک صحابی رسولﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے لفظ کا ترجمہ برائی کرنا اور دوسرے صحابی رسولﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے لفظ کا ترجمہ گالی کرنا کیا یہ منافقت اور عداوت نہیں ہے؟؟
سوال5:- کیا مرزا جہلمی نے کبھی اپنے ریسرچ پیپر یا ویڈیو بیان میں بخاری کی حدیث 2812 بیان کرتے ہوئے ساتھ مسند احمد کی یہ حدیث اور اس کی وضاحت مع فلاں کے نام کے ساتھ اور گالیاں دینے والے کا نام بتا کر بیان کی اور لوگوں کو بتایا کہ( سب یعنی گالی دینے والا بقول مرزا)کون تھا اور کسی کو گالی دے رہا تھا؟ اگر نہیں بیان کی اور یقیناً بیان نہیں کی تو آخر کیوں مرزا جہلمی نے منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوے آدھی بات بیان کی؟؟
سوال6:- مرزا جہلمی نے حدیث بیان کرنے والے راوی کلثوم تابعی کے الفاظ(تعجب ہے ان ہاتھوں پر۔۔۔۔الخ) کو صحابی رسولﷺ سیدنا ابوالغادیہؓ کی طرف منسوب کر کے بددیانتی کیوں کی؟؟
جبکہ یہ الفاظ راوی کے ہیں صحابی کے نہیں ہیں ثبوت کے لیے مرزا جہلمی کی تصدیق شُدہ ایپ اسلام 360 ملاحظہ فرما لیں ( جو کہ ایک غلط ایپ ہے مرزا بہت اس کی تعریفیں کرتا ہے) اس بددیانتی سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا جہلمی عربی عبارت کا ترجمہ کرنے میں فیل اور صفر ہے اور حدیث کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔۔
سوال 7:- مرزا جہلمی کے ریسرچ پیپر میں بیان کردہ حدیث کے مطابق سیدنا عمارؓ کو قتل کرنے والا جہنمی ھے تو ابوالغادیہؓ جن کو مرزا جہلمی کے چیلے ( مثال کے طور پر جعلی طارق جمیل بننے والا عماد اسلام) سیدنا عمارؓ کا قاتل بتاتے ہیں
(حالانکہ یہ ثابت شُدہ بات نہیں ہے) انہی ابوالغادیہؓ کو رضی اللہ تعالی عنہ کہنا مرزا جہلمی کی طرف سے حدیث کی مخالفت نہیں؟؟ کیونکہ مرزا جہلمی کی بیان کردہ حدیث اور اسکے چیلوں کے مطابق تو عمارؓ کا قاتل جہنمی ہے تو جو جہنمی ہو وہ رضی اللہ تعالی عنہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آخر کچھ تو مرزا جہلمی کے دل میں چور و بدیانتی ہے جو مرزا جہلمی سرعام بیان کرنے سے ڈرتا ہے۔
اسی موضوع پر مزید تحقیق اور اسکینز
صحیح بخاری میں موجود حدیثِ عمار میں تقتلہ الفئتہ الباغیہ کے الفاظ کی حقیقت قدیم بخاری نسخوں کی روشنی میں