Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مسلم و شیعہ دین تاریخ کی نظر میں قسط 1

  توقیر احمد

 مسلم و شیعہ دین تاریخ کی نظر میں قسط 1 

مسلم و شیعہ دین تاریخ کی نظر میں

بنام۔۔۔شیخ التفسیر و الحدیث حافظ حضرت مفتی عبدالعزیز العزیزی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ۔

بدعا۔۔۔مناظر اسلام  شیخ التفسیر و الحدیث  حضرت علامہ علی شیر رحمانی صاحب دامت برکاتهم العالیه

فہرست

١۔۔مقدمہ

٢۔۔غرض وغایت

٣۔۔حرف آغاذ

۴۔۔شیعت وحی الہی سے نہیں

۵۔۔رسولﷺہی خاتم الاوصاف رسالت

٦۔۔شیعہ عقیدہ اوصاف رسالت

٧۔۔نتیجہ

٨۔۔نوٹ

٩۔۔تقابل علم رجال شیعہ و مسلم

مقدمہ:

نحمد الله ونصلی ونسلم علی محمد رسول اللہﷺ۔۔۔۔۔۔

تاریخ اقوام کو ماضی حال مستقبل کے آپس میں معاشی معاشرتی تمدنی تهذیبی قانونی سیاسی اور دینی طورپر جوڑے رکھنے کاعلم ہے۔ ہمارا یہ دور جس میں تہذیبوں اور ملتوں کے فرق تیزی کے ساتھ مٹ رہے ہیں اور ایک یک رنگی انسانیت " پراسیس “ میں ہے۔ اس مخصوص ”گلوبلائزیشن “ کی دہلیز پرقدم دھرتے ہر مسلم ذہن کی علمِ تاریخ  ضرورت ہے۔لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارا دین اسلام بطور تاریخ نہیں ہے بلکہ بطور وحی الہی ہے۔یہ موضوع  مناظراسلام حضرت علامہ علی شیر رحمانی صاحب کے حکم اور خواہش پر شروع کیا ہے اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے مرشد کی سوچ فکر اور خواہش پر پورا اترنے کی توفیق اور ہمت دے آمین ۔۔۔۔۔والسلام

غرض وغایت:

تقابلِ تاریخِ اسلام و شیعه اس رسالے کا لکھنےکامقصد یہ ہے کہ ہم اسلام کو سمجھیں اور شیعت کے پروپیگنڈوں کو سمجھیں۔ تاریخ کی اہمیت مسلم ہےلیکن بطور ایمانیات عقائد نظریات فرائض واجبات حلت وحرمت حجت نہیں ہے۔ لیکن آج کل ہو یہ رہاہے کہ وحی (متلو وغیرمتلو) کو چھوڑ کر تاریخ سے ایمانیات نظریات عقائد فرائض واجبات حلت و حرمت کو ثابت کیا جانے لگاہے۔ مقدس شخصیات اصحاب رسول ﷺ واہلبیت رسول ﷺ کی شخصیات کو تاریخی روایات سے مجروح کیا جاتاہے۔ اور ایسے ایسے الزامات و توہمتیں صرف تاریخی روایات سے لگائی جاتی ہیں جن کے لیے وحی الہی نے گواہ اور ثبوتوں کی شرائط رکھی ہیں۔ جبکہ  یہ روایات اکثر کسی بھی تنقیص کی صورت میں شرائط پر پوری نہیں اترتی ہیں۔ توہم تاریخی روایات سے کسی کی تنقیص ناکرتےہیں اور ناہی قبول کرتے ہیں۔ اورکوئی بھی سلیم عقل اور پڑھےلکھے ہونے کا دعوی کرنے والاشخص آج کے دور میں کسی بھی حادثے اور واقعے کو دس الگ الگ اخبارات میں پڑھے اورمیڈیا پر دیکھے کتنے تضادات سامنے آئیں گے۔اب یہ دیکھیں گے کہ دین اسلام کیاہے۔ جو دین تاریخ سے لیا گیاہے وہ کیاہے اور جو دین نزول وحی الہی (وحی متلو و  غیر متلو) سے لیاگیاہے وہ کیاہے۔

حرف آغاز:

کسی بھی دین یا مذهب کے کچھ بنیادی اصول ہوتےہیں جن پر اس مذہب کی مکمل عمارت تعمیرہوتی ہے۔

مسلمانوں کے ایمانیات جن کو عرف عام میں  اصول الدین بھی کہاجاتاہے۔

١۔۔۔اللہ پر ایمان لانا   

٢۔۔۔فرشتوں پر ایمان لانا

٣۔۔۔نازل شده کتابوں پر ایمان لانا

۴۔۔۔رسولوں پر ایمان لانا

۵۔۔۔تقدیر پر ایمان لانا

٦۔۔۔قیامت پرایمان لانا

شیعہ ایمانیات یااصول الدین

١۔۔۔توحید

٢۔۔۔عدل

٣۔۔۔نبوت

۴۔۔۔امامت(خلافت۔وصیت۔عصمت)

۵۔۔۔معاد(رجعت)

دونوں ایمانیات کا تقابل تناسب وتباین آپ کے سامنے ہے۔

پہلے(امت مسلمہ) ایمانیات بذریعہ وحی الہی (وحی متلو غیر متلو) ثابت شدہ ہیں۔

جبکہ دوسرے ایمانیات (شیعہ) بذریعه تاریخ گھڑے گئے ہیں۔

بذریعہ وحی الہی (وحی متلو و غیر متلو) نہیں لیے گئے۔

ہم شیعت سےسوال کرتےہیں۔

1۔۔۔وحی متلو:

شیعہ مزہب میں دین لینے کا اصول کیاہے؟!؟

١۔۔۔تاویل حدیث تفسیر کس سے لیتےہیں؟!؟

جوابا کہاجاتاہے اہلبیت رسول ﷺ سےلیے جاتے ہیں

٢۔۔۔قرآن کے الفاظ اہلتشیع نے کس سے لیے ہیں ؟!!

کوئی جواب نہیں ہے سواے فحش تاویلات کے بوجہ یہ کہ قرآن کو اصحاب رسول ﷺ نے جمع کیاہے اور کل اصحاب رسولﷺشیعہ کے نزدیک کافر مرتد اور غیر معتبر ہیں۔

٣۔۔۔قرآن اہل تشیع کے نزدیک تابع ہے یا متبوع؟!؟

جوابا کہاجاتاہے کہ قرآن امام کے تابع ہے فی نفسه حجت نہیں ہے۔

۴۔۔۔ایمانیات میں آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ شیعت نے ایمانیات سے قرآن پر ایمان لانے کو نکال دیاہے۔

2۔۔۔غیر متلو:

١۔۔۔شیعه مذهب میں داخل ہونے کے لیے کن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے ؟!؟

جوابا

توحید عدل نبوت امامت وصیت عصمت خلافت معاد رجعت ہم دوسرا سوال کرتے.  ہیں ۔

٢۔۔۔شیعہ اصول الحدیث کے مطابق کوئی ایک صحیح متصل غیر معارض فرمان رسول ﷺ پیش فرمادیں جس میں توحید عدل نبوت امامت وصیت عصمت خلافت معاد رجعت  بطور ایمانیات بیان فرمایا ہو تصریح فرمائی ہو یا کسی شخص کو سکھایا ہو؟!؟

شیعہ منابع میں بذریعہ وحی الہی (متلو و غیر متلو)کوئی جواب نہیں ہے۔اب ہم دیکھتے ہیں مختصرا شیعه و مسلم اسماء الرجال کی حالت۔تاکہ جن شخصیات کے ذریعے دین اسلام پہنچاہے یا مسلم وشیعہ نے جن سے دین کوقبول کیا ہے وہ معتبر بھی ہیں یا کہ غیرمعتبر ہیں۔تواتر بھی موجود ہے یا نہیں ہے۔ رسول ﷺکو خاتم وحی الہی منصوص من اللہ مفترض الطاعة اور خاتم المعصومین ماناجاتاہے یانہیں مانا جاتا۔

رسول ﷺ ہی خاتم الاوصاف نبوت:

امت مسلمہ کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ رسولﷺ خاتم الاوصاف نبوت ہیں اور نزول وحی الہی رسول ﷺ پر قیامت تک کےلیے ختم ہے جیساکہ آیت

وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْ ءٌ»

ان الفاظ میں رسول ﷺ کے بعد وحی کی ہر قسم کی نفی ہے الہام اوهام القا نفخ اور خواب جن کی نسبت رسولوں کی طرف بطورنزول وحی الهی هوتی تھی اب جو شخص بھی اپنے لیے یاکسی دوسرے شخص کے لیے وحی کی ان اقسام میں سے کسی قسم کے نزول کا دعوی کرے گا وہ شخص ختم رسالت کامنکرہے۔

١۔۔۔جس شخصیت پر نزول وحی الهی ہو وہ منصوص من اللہ کہلاتاہےاب رسول ﷺ کےبعد جو شخص اپنےلیے یا کسی دوسرے کے لیےمنصوص من اللہ ہونےکادعوی کرےوہ شخص ختم رسالت کامنکر ہے۔

٢۔۔۔جس شخصیت پرنزول وحی الہی ہو اس کو معجزات بطرز رسالت بطور تائیدِ حجت دیے جاتے ہیں۔ اب جو رسول ﷺ کے بعد اپنے لیےیاکسی دوسرے شخص کے لیے معجزات بطرز رسالت کا دعوی کرے وہ ختم رسالت کامنکر ہے۔

٣۔۔۔جس شخصیت پر نزول وحی الہی ہو وہ شخصیت معصوم عن الخطاء فی الدین ہوتی ہے۔اب رسول ﷺ کے بعد جو شخص بھی معصوم عن الخطاء فی الدین ہونےکادعوی اپنے لیے یا کسی دوسرے شخص کے لیے کرے وہ ختم رسالت کا منکر ہے۔

۴۔۔۔جس شخصیت پرنزول وحی الہی ہو وہی شخص مفترضة الطاعة ہوتاہے اب جوشخص بھی رسول ﷺ کے بعد اپنے لیے یا کسی دوسرے شخص کےلیے مفترضة الطاعة ہونے کا دعوی کرے وہ ختم رسالت کا منکر ہے۔

شیعہ عقیدہ اوصاف رسالت :

اہل تشیع کا نظریہ ہے کہ

✅امام نبی سےافضل ہوتاہے۔

✅امام پروحی کانزول ہوتاہے۔

✅امام معصوم ہوتاہے۔

✅إمام مفترض الطاعةہوتاہے۔

✅امام منصوص من اللہ ہوتاہے۔

✅امام معجزات بطرز رسالت دیاجاتاہے۔

✅أمام ما فوق الفطرت قدرت رکھتاہے۔

ہم صرف آئمہ پر نزول وحی الہی کی تفصیل پیش کر رہیےہیں کیونکہ دوسرے اوصاف نزول وحی الہی کے ہی مرهون منت ہیں۔

(تفصیلات حقیقت ایمانیات اہل تشیع اصل چہارم امامت) اہل تشیع کا چوتھا اصول دین امامت 

نزول وحی الہی؛

#مسلم_وشیعه_دین_تاریخ_کی_نظرمیں

شیعہ آئمہ پر نزول وحی الہی؛

فرمایا امام جعفر صادق نے کہ انبیاء و مرسلین کے چارطبقے ہیں

١۔۔۔روایت

محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن أبي يحيى الواسطي، عن هشام بن سالم، ودرست بن أبي منصور، عنه قال: قال أبو عبد الله عليه السلام: الأنبياء والمرسلون على أربع طبقات: فنبي منبأ في نفسه لا يعدو غيرها، ونبي يرى في النوم ويسمع الصوت ولا يعاينه في اليقظة، ولم يبعث إلى أحد وعليه إمام مثل ما كان إبراهيم على لوط عليهما السلام، ونبي يرى في منامه ويسمع الصوت ويعاين الملك، وقد ارسل إلى طائفة قلوا أو كثروا، كيونس قال الله ليونس: " وأرسلناه إلى مائة ألف أو يزيدون (١) " قال: يزيدون: ثلاثين ألفا وعليه إمام، والذي يرى في نومه ويسمع الصوت ويعاين في اليقظة وهو إمام مثل  اولي العزم وقد كان إبراهيم عليه السلام نبيا وليس بإمام حتى قال الله: " إني جاعلك للناس إماما قال: ومن ذريتي فقال الله: لا ينال عهدي الظالمين " من عبد صنما أو وثنا لا يكون إماما.

ترجمہ۔

ایک نبی وہ ہے جو خواب میں فرشتوں کو دیکھتا ہے اس کی آواز سنتا ہے اور جاگتے میں کسی کو نہیں دیکھتا اور وہ کسی کی طرف مبعوث نہیں کیا گیا ہوتا بلکہ اس کا ایک امام ہوتا ہے

(الکافی کتاب الحجه باب نمبر 2 جلد 1 صفحه 175)

شیعہ مصنفین اپنی اماموں کو اس طرح کا نبی سمجھتے ہیں ان کے نزدیک نبی اور امام میں یہی فرق ہے جیسا کہ

٢۔۔۔روایت؛

میں ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا

ونبي يرى في منامه ويسمع الصوت ويعاين الملك قلت:الإمام ما منزلته؟ قال: يسمع الصوت ولا يرى ولا يعاين الملك

ترجمہ؛

نبی وہ ہے جو فرشتے کو خواب میں دیکھتا ہے اس کی آواز سنتا ہے لیکن ظاہر بظاہر حالت بیداری میں نہیں دیکھتا اور رسول وہ ہے جو آواز بھی سنتا ہے خواب میں بھی دیکھتا ہے اور ظاہر میں بھی  راوی کہتا ہے کہ میں نے پوچھا امام کی منزل کیا ہے فرمایا وہ فرشتے کی آواز سنتا ہے مگر دیکھتا نہیں

(الکافی کتاب الحجۃ باب 3 جلد۔ 1 ص ،176)

٣۔۔۔روایت؛

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن إسماعيل بن مرار قال: كتب الحسن بن العباس المعروفي إلى الرضا عليه السلام: جعلت فداك أخبرني ما الفرق بين الرسول والنبي و الامام؟ قال: فكتب أو قال: الفرق بين الرسول والنبي والإمام أن الرسول الذي ينزل عليه جبرئيل فيراه ويسمع كلامه وينزل عليه الوحي وربما رأى في منامه نحو رؤيا إبراهيم عليه السلام، والنبي ربما سمع الكلام وربما رأى الشخص ولم يسمع والإمام هو الذي يسمع الكلام ولا يرى الشخص.

ترجمہ؛

حسن بن عباس معروفی نے امام رضا کو لکھا کہ آپ پر فدا ہوں کیا فرق ہے رسول و نبی و امام میں ؟آپ نے جواب میں فرمایا رسول وہ ہے جس پر جبرائیل نازل ہو اور ان کا کلام سنے اور اس پر وحی نازل ہو اور کبھی خواب میں بھی دیکھے جیسے ابراہیم کا خواب اور نبی وہ ہے کہ کبھی کبھار کلام سنتا ہے اور کبھی فرشتے کے وجود کو دیکھتا ہے اور امام وہ ہے جو کلام سنتا ہے اور فرشتے کے وجود کو نہیں دیکھتا

(الکافی کتاب الحجۃ باب نمبر 3 جلد 1 صفحہ 177)

تبصرہ؛

شیعہ مصنفین اپنے بارہ ائمہ حضرات کو اس طرح کا نبی سمجھتے ہیں اور ملاباقر مجلسی نے جو حیاۃالقلوب میں لکھا ہے کہ نبی اور امام میں کوئی فرق نہیں ۔اور حق یہ ہے کہ تمام کمالات صفات اور شرائط میں نبی اور امام میں کوئی فرق نہیں ہے سوا اس فرق کے جو حدیثوں میں فرق آیا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ خاتم النبین ہیں اس لئے آپ کی تعظیم کی وجہ سے امام کو نبی کہنے سے منع ہے

(حیات القلوب فارسی جلد 3 صفحہ نمبر 3)

نوٹ؛

اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ محققین کے نزدیک امام اور نبی میں چولی دامن کا تعلق ہے ان کے نزدیک امام بھی نبی ہی ہے وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی وجہ سے اپنے اماموں کو نبی نہیں کہتے  ہیں باقی ان کو نبی سمجھتے ضرور ہیں اور نبی نہ کہنے کی وجہ بھی خود بتائیں کہ اگر اماموں کو نبی کہیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا لحاظ نہیں رہے گا ورنہ امام کو نبی ہی سمجھتے ہیں۔شیعوں کے خاتم المحدثین ملاباقرمجلسی نے ڈرتے ڈرتے بالآخر کہہ بھی دیا کہ امامت حقیقت میں نبوت ہے

ترک لفظ اطیوا یا رسول اولی الامر مستعر است بایں که مرتبه امامت نظیر مرتبه نبوت است۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ؛

لفظ اطیعوا کو رسول اور الامر کے درمیان سے ترک کرنا اطیعواللہ و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم یه اس بات  کی خبر دیتا ہے کہ مرتبہ امامت مرتبہ نبوت کے برابر اس کے مثل ہے چنانچہ نبوت اللہ تعالی کی طرف سے فرشتے کی وساطت سے مقرر کی جاتی ہے امامت بھی نبوت کی ہی  حقیقت ہے جو خدا کی طرف سے نبی کی وساطت سے مقرر کی جاتی ہے

(حیات القلوب فارسی جلد 3 فصل نهم صفحه 81)

یہی سبب ہے یعنی شیعہ مذہب میں نبوت اور امامت ایک ہی چیز ہے اس لئے جس نے کسی امام کی امامت کا انکار کیا وہ شیعوں کے نزدیک کسی نبی کی نبوت کے انکار کرنے کی طرح کافر ہے جیسا کہ شیعوں کے ثقة الاسلام علامہ محمد بن یعقوب کلینی نے لکھا ہے

۴۔۔۔روایت؛

علي بن إبراهيم، عن صالح بن السندي، عن جعفر بن بشير، عن أبي سلمةعن أبي عبد الله عليه السلام قال: سمعته يقول: نحن الذين فرض الله طاعتنا، لا يسع الناس إلا معرفتنا ولا يعذر الناس بجهالتنا، من عرفنا كان مؤمنا، ومن أنكرنا كان كافرا،ومن لم يعرفنا ولم ينكرنا كان ضالا حتى يرجع إلى الهدى الذي افترض الله عليه من طاعتنا الواجبة فإن يمت على ضلالته يفعل الله به ما يشاء.

ترجمہ؛

ہم وہ ہیں جو اللہ نے ہماری اطاعت فرض کی ہے لوگوں کو ہماری معرفت کے سوا کوئی چارہ نہیں اور ہم سے جاھل رہے گا کوئی تو عذر قابل قبول نہیں ہو گا جس نے ہم کو پہچانا وہ مومن ہے اور جس نے انکار کیا وہ کافر ہے اور جس نے نہ پہچانا نہ انکار کیا وہ گمراہ ہے جب تک وہ اس ہدایت کی طرف نہ لوٹے جسے اللہ نے ہماری اطاعتکی صورت میں فرض کیا ہےپس اگر وہ اسی گمراہی کی حالت میں مرگیا تو اللہ جو چاہے گا وہ دے گا

۵۔۔۔روایت؛

  راوی کہتا ہے میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا کہ میں اپنا عقیدہ آپ کے سامنے پیش کرو فرمایا بیان کرو میں نے کہا

اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰــہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَــــــــ لَہٗ وَاَشْھَــــــــدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وحدہٗ لاشریک ہے وہ اور محمد اس کے عبد اور رسول ہیں اور میں اقرار کرتا ہوں ان تمام باتوں کا جو وہ خدا کی طرف سے لے کر آئے اور یہ کہ علی امام ہیں اللہ نے ان کی اطاعت فرض کی ہے ان کے بعد حضرت حسین اور ان کے بعد علی بن حسین اور ان کے بعد آپ امام ہیں اور ان سب کی اطاعت اللہ نے فرض کی ہے حضرت نے فرمایا یہی اللہ اور اس کے ملائکہ کا دین ہے

(الکافی کتاب الحجۃ باب 8 صفحه جلد 1 صفحه 200)

نتیجہ:

اہل تشیع کی یہ مختصر روایات واقوال ہیں جن میں نزول وحی الہی کا دعوی آئمہ کے لیے کیاگیاہے۔ جیسا کہ مصحف فاطمہ رضی اللہ عنہ کا دعوی کہ جبرائیل ؑ وحی لاتے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ لکھ لیتے تھے۔ اسی طرح مصحف علی رضی اللہ کا دعوی اسی طرح دوسرے آئمہ کے مصحف موجود ہونے کا دعوی

(باب أن الأئمة عليهم السلام محدثون مفهمون)

(الکافی جلد 1/270)

بحار الانوار جلد 100-102 ذائرین آئمہ کے لیے جابجا روایات موجود ہیں کہ ان کے کانوں میں فرشتے سرگوشیاں کرتےہیں۔

مطلب یہ کہ شیعہ کا آئمہ کے لیے نزول وحی الہی کا دعوی عام ہے جبکہ شیعت بڑے زورو شور سے رسول ﷺ کی ختم نبوت کا دعوی کرتی ہے۔ہم نے یہاں صرف دعوی آئمہ پر نزول وحی الہی کے دلائل پیش کیے ہیں۔ کیوں کہ باقی تمام اوصاف رسالت نزول وحی الہی ہی سے متصف  ہیں جیسے منصوص من اللہ ہونا مفترض الطاعة ہونا معصوم ہونا معجزات رسالت دیے جانا وغیرہ۔تو ثابت یہ ہوا کہ شیعت اپنے آئمہ کے لیے نزول وحی الہی کا دعوی تو کرتی ہے لیکن ناتو وہ الفاظ جو رسول ﷺ پر بطور وحی الہی متلو نازل ہوئے آئمہ نے امت کو دیے اور نا ہی آئمہ نے اپنا کوئی قرآن شیعت کو دیا ہے۔

نوٹ:

یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ شیعت نے اپنا دین وحی الہی (وحی متلو غیر متلو)سے نہیں لیاہے۔ماقبل ہم یہ بھی بتاچکے ہیں۔کہ شیعت کے اصول الدین (وحی غیر متلو) مطلب کوئی ایک روایت شیعہ منابع میں موجود نہیں ہے جس میں تصریح ہوکہ  رسول ﷺ نے توحید عدل نبوت امامت وصیت عصمت خلافت معاد و رجعت کو اصول الدین فرمایا هو۔اب ہم تواتر و اتصال دین  پر مختصرا بحث کرتےہیں۔ کہ شیعت کے دین اسلام ہونے کے لیے جو تواتر اور اتصال زمان مطلوب ہے وہ موجود ہے یا نہیں ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ علم رجال شیعہ اور مسلم کا تقابل تناسب و تباین پیش کیا جائے۔

تقابل علم رجال مسلم و شیعہ:

ماقبل ہم بیان کر چکے ہیں کہ شیعہ مذہب کے اصول الدین نزول وحی الہی (متلو و غیر متلو) کے بیان کردہ نہیں ہیں۔

اب ہم شیعہ کے علم الرجال کی طرف چلتےہیں اوردیکھتے ہیں کہ شیعہ نےعلم رجال میں کیاگل کھلائے ہیں۔

تدوین علم الرجال تشیع:

ہم مابعد اس کی وضاحت کریں گے کہ مسلمانوں کو علوم حدیث میں اولیت و سبقت حاصل ہے، اسی سبب شیعه امامیہ کی تعریفات  حدیث: مدرج، متصل، مرفوع، موقوف، مقطوع، مضمر، مرسل، معضل، معلق، معل، مدلس، معنعن، مزید، مفرد، شاذ، محفوظ، منکر، معروف، مدرج، مصحف، مسلسل، مضطرب، مقلوب اور موضوع، مسلمانوں کی تعریفات سے جا بجا عموما متاثر نظر آتی ہیں، اس وجہ سے ہم اس پر تفصیلی گفتگو نہیں کر رہیےبلکہ یہاں ہم تدوین فن اسماءالرجال جرح وتعديل کی طرف اپنا رخ کرتے ہیں کہ شیعہ کے پاس قرون ثلاثہ کا کچھ علمی تراث بھی موجود ہے یانہیں ہے۔

1…قرون ثلاثہ:

١۔۔۔حیدر حب الله صاحب دورس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیه' میں علم رجال کے مراحل میں سے پہلے دومراحل  زمانہ نبوت سے لے کر تیسری صدی ہجری کے اختتام تک کے بارے میں لکھتے ہیں:

"إن الارث الرجالى لھذا المرحلۃ لم يصلنا مع الاسف الشدید کی نصور من خلالہ المشهد بطریقۃ دقیقۃ، فلم تتوفر بین ایدینا تقریبا سوی المحاولۃ التی ترکھا البرقی فی الطبقات"

یعنی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رھا ہے کہ اس مرحلے کا(نبوت سے تین سو ہجری تک) رجالی تراث ہم تک نہیں پہنچا ورنہ ہم اس کی موجودگی میں اس دور کے تراث کا باریک تجزیه کر سکتے  اس وقت ہمارے پاس کچھ بھی موجود نہیں ہے، سوائے اس کوشش کے، جو برقی طبقات کی صورت میں ہمارے پاس چھوڑگئے ہیں۔

(دروس فی تاریخ علم الرجال صفحه 83)

رجال البرقی:

رجال البرقی چندصفحات کا رسالہ ہے جس میں چودہ سو اکاون ١۴۵١ کے قریب اصحاب  ائمہ کےصرف نام ہیں سنہ تاریخ پیدائش ووفات اساتذہ تلامذہ کاکوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اس رسالےکےبارے چار۴اقوال ہیں۔

"و علی النظریتین الثالثۃ و الرابعۃ لا یعتمد علی الکتاب لعدم توثیق عبد اللہ و ابنہ احمد عند علماء الجرح والتعديل

یعنی آخری دو اقوال کے مطابق کتاب پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ عبد اللہ اوراس کابیٹا احمد علمائے جرح و تعدیل کےہاں قابل اعتمادنہیں ہے، یوں یہ کتاب بعض شیعہ علماء کے نزدیک معتمد ہی نہیں ہے۔

(دروس فی تاریخ علم الرجال صفحه 81)

خلاصہ:

بنیادی فرق یہ ہے کہ رسول ﷺ سے لے کر 300سنہ ہجری تک تشیع فن رجال مصطلح حدیث اورفن حدیث میں لاوارث رہیے ہیں اب اس بحث سے ایک عام شخص بھی سمجھ سکتاہے کہ یہ انقطاع کیا گل کھلائے گا اور مزے کی بات یہی ہے کہ اس تین سو 300 ساله انقطاع نے تشیع کے اصول الدین توکیا مکمل مذہب کی بنیادوں  تک کو ختم کر دیا ہے یعنی پہلی تین سو 300سالہ سنہ ہجری میں رجال پر جو کتاب موجودتھی وہ بھی مختلف فیہ ہو گئی اور ناقابل اعتبار ہے۔یہی وہ وجہ ہے کہ جب ہم شیعہ سے شیعہ اصول الحدیث کے مطابق اصول الدین پر روایت طلب کرتےہیں تو جواب ندارد جب ہم اہلبیت کے دیے گئے قرآن کے الفاظ کا سوال کرتے.  ہیں یا اہلبیت سے حاصل شدہ قرآن کا سوال کرتےہیں۔ تو جواب ندارد۔ شیعت کی حدیث کی سب سے صحیح کتاب کی حالت ملاحظه فرمائیں۔

اصول الکافی: کی حالت زار

الکافی کے مولف أبو جعفر محمد بن يعقوب بن اسحق الكليني الرازي البغدادی المعروف کلینی (متوفّىٰ سنہ 329 ھ) ہیں۔

زیادہ تر روایات ان آٹھ حضرات سےلی ہیں۔

١۔۔۔علی بن ابراہیم قمی سے 7068 حدیثیں۔

٢۔۔۔محمد بن یحیی عطار اشعری قمی سے 5033 حدیثیں۔

٣۔۔۔ابوعلی اشعری قمی سے 875 حدیثیں۔

۴۔۔۔ابن‌ عامر حسین بن محمد اشعری قمی سے 830 حدیثیں۔

۵۔۔۔محمد بن اسماعیل نیشابوری سے 758  حدیثیں۔

٦۔۔۔حمید بن زیاد کوفی سے 450 حدیثیں۔

٧۔۔۔احمد بن ادریس اشعری قمی سے 154  حدیثیں۔

٨۔۔۔علی بن محمد سے 76 حدیثیں۔

جنابِ کلینی کے شیوخ کے نام:

1- علي بن إبراهيم القمي - ثقة

2- محمد بن يحيى العطار القمي - ثقة

3- حميد بن زياد الكوفي - ثقة

4- أحمد بن إدريس الأشعري القمي - ثقة

5- الحسين بن محمد الأشعري القمي – ثقة

6- محمد بن إسماعيل النيسابوري – مجهول

7- محمد بن جعفر الرزاز الكوفي – مجهول

8- أحمد بن محمد بن أحمد الكوفي - مجهول

9- علي بن محمد بن بندار البرقي - ثقة

10- أحمد بن مهران – مجهول

11- محمد بن أحمد بن الصلت القمي- ثقة

12- الحسن بن علي الهاشمي – مجهول

13- الحسين بن علي العلوي– مجهول

14- الحسين بن علي الحسيني– مجهول

15- الحسين بن الحسن العلوي– مجهول

16- الحسن بن خفيف– مجهول

17- أبو داود– مجهول

18- محمد بن عبد الله بن جعفر الحميري - ثقة

19- أحمد بن عبد الله – مجهول

20- أبو عبد الله الأشعري– مجهول

21- علي بن موسى الكمنداني– مجهول

22- محمد بن علي بن معمر– مجهول

23- علي بن محمد بن علي بن عباس – مجهول

24- علي بن الحسين المؤدب– مجهول

25- القاسم بن العلاء الأذربيجاني - ثقة

26- محمد بن عقيل – مجهول

27- محمد بن الحسن– مجهول

28- أحمد بن محمد بن سعيد ابن عقدة الكوفي - ثقة

خلاصہ:

ملاحظه فرمائیں شیخ کلینی کے کتنےشیوخ مجہول الحال ہے اس کے باوجود تشیع اس کتاب کی اور شیخ الکلینی کی تعریفات کے پل باندھ دیتے ہیں۔جب کہ نصف سے زائد شیوخ مجهول الحال ہیں۔

جنابِ کلینی کے شیوخ کی تحقیق دروس تمهيدية في القواعد الرجالية لمحمد باقر الايرواني سے مدد لی گئی ہے۔

کتاب کانام ::

کلینی کتاب طہارت کے خطبے میں کہتے  ہیں: یہ کتاب علم دین کے تمام فنون کے لئے کافی ہے۔

(الکافی، جلد 1، صفحہ 14۔مقدمہ)

یہ نام اس کلام سے ماخوذ ہے جس کی نسبت امام زمانہ (عج) کو دی گئی ہے؛  مروی ہے کہ امام زمانہ (عج) نے فرمایا: الکافی كافٍ لشيعتنایعنی الکافی ہمارے پیروکاروں کے لئے کافی ہے۔ یہ جملہ اس وقت ناحیۂ مقدسہ سے صادر ہوا جب الکافی کو امام زمانہ(عج) کی خدمت میں پیش کیا گیا اور آپ(عج) اس کی تحسین و تعریف فرمائی۔

(غفاری، عبدالرسول الکلینی و الکافی، صفحه 392)

کتاب الکلینی و الکافی کے مولف، شيخ عبد الرسول غفاري میرزا عبدالله افندی کی کتاب ریاض العلماء

(افندی، رياض العلماء، جلد2، صفحہ 265-266)

میں ملا خلیل قزوینی کے حالات زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت صاحب (عج) نے پوری کتاب الکافی کا مشاہدہ فرمایا ہے اور اس کی تعریف کی ہے اور جہاں بھی کلینی نے کوئی روایت  نقل کی ہے جس کا آغاز وَ رُوِیَ سے ہوا ہے وہ روایت انھوں نے براہ راست اور بغیر کسی واسطے سے امام زمانہ (عج) سے نقل کی ہے۔

(غفاری، عبدالرسول، الکلینی و الکافی، صفحه 394)

شیخ مفید کہتے ہیں: یہ کتاب برترترین و بہترین شیعہ کتب میں سے ایک ہے جو کثیر فوائد کی حامل ہے۔

(لاعتقادات الامامیہ، صفحہ70)

شہید اول کہتے ہیں: الکافی ایسی کتابِ حدیث ہے جس کی مانند کوئی کتاب اصحاب (امامیہ) نہیں لا سکے ہیں۔

(الکافی، جلد 1، صفحه 27)

محمد تقی مجلسی لکھتے ہیں: اصول کی تمام کتب سے زیادہ مضبوط و مستحکم اور سب سے زیادہ جامع ہے اور فرقۂ ناجیہ ‌(امامیہ) کی عظيم ترین تالیف ہے۔

(مرآة العقول، جلد 1، صفحہ3)

آقا بزرگ تہرانی کا کہنا ہے: الکافی ایسی کتاب ہے کہ حدیث اہل بیت (ع) نقل کرنے کے حوالے سے اس جیسی کتاب اب تک مکتوب نہیں ہوئی ہے۔

(الذریعه، جلد 17، صفحه 245)

استر آبادی علماء اور اپنے اساتذہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: اسلام میں الکافی کے برابر یا اس کے  پائے کے قریب تر کوئی کتاب تالیف نہيں ہوئی ہے۔

( الفوائد المدنیہ، صفحہ520)

آیت الله خوئی اپنے استاد نائینی کا قول  نقل کرتے ہوئے  کہتے ہیں الکافی میں مندرجہ احادیث کی اسناد میں نزاع کرنا، عاجز اور بے بس افراد کا پیشہ اور ہتکھنڈہ ہے۔

(معجم رجال الحدیث جلد 1 صفحه 99)

یوسف بحرانی نے اپنی کتاب لؤلؤۃ البحرین میں  لکھا ہے کہ الکافی میں مندرجہ احادیث کی تعداد 16199 ہے؛ ڈاکٹر حسین علی محفوظ نے الکافی پر  اپنے مقدمے میں اس کتاب میں مندرجہ احادیث کی تعداد 15176 ہے؛ علامہ مجلسی کے مطابق الکافی میں مندرجہ احادیث کی تعداد 16121 ہے جبکہ شیخ عبدالرسول الغفاری نے اپنی کتاب الکلینی و الکافی میں مندرجہ احادیث کی تعداد 15503 ہے۔

خلاصہ::

تشیع محققین نے مطلقا الکافی اور شیخ الکافی کی ثقاہت بیان کی ہے تو جناب ماقبل ہم الکلینی کے شیوخ کا حال بیان کرچکےہیں۔

آیت الله سید محمد حسین جلالی الکافی کےبارےمیں شیخ یوسف بحرانی کا قول نقل کرتے ہوئے یوں تحریر فرماتے ہے :

شیخ یوسف بحرانی نے لؤلؤۃالبحرین صفحہ ٣٩٥ میں کافی مین درج شدہ احادیث کی تعداد کو اس طرح بیان کیا ہے :

صحیح : 5077

حسن : 144

موثق :1118

قوی :302

ضعیف : 9480

(حوالہ : مذھب امامیہ میں منابع احادیث لشیخ محمد حسین جلالی صفحہ ١٦)

نوٹ::

الکافی کے ایک روای پر بحث کر دیتےہیں

علی بن ابراہیم قمی سے 7068 الکافی میں مرویات ہیں  ان کی ایک تفسیر ہے تفسیر القمی جس میں کثرت سے تحریف القرآن کی روایات اور مثالیں نقل ہوئی ہیں جبکہ تحریف القرآن کی کثیر روایات بلکہ ابواب الکافی میں بھی مذکور ہیں الکافی میں اس بارے میں بہت سی روایات مروی ہیں جس کا اگر آپ مطالعہ کریں جیسےباب فیه نکت و نتف من التنزیل فی الولایة اس باب میں قرآن مجید سے ولایت کے متعلق نکات اور معارف کا بیان اسباب میں ننانویں 99 روایات جمع  کردی ہیں آپ اسی باب میں طرح طرح کی معنوی تحریفات ملاحظه فرما سکتے ہیں

(الکافی جلد 1 صفحه 412 )

اس کے علاوہ اور بہت سارے ابواب مذکور ہیں

(باب ان القرآن یرفع کما انزل جلد 2 صفحہ 619 )

مجلسی نے مراۃ العقول کافی کے بعض روایت پر ضعف کا حکم  لگایا ہے لیکن تحریف قرآن کی روایات پر صحت کا حکم لگایا ہے

(مرآۃ العقول جلد2 /536 )

اصول کافی کی شرح الشافی میں بھی صحت کا حکم لگایا گیا ہے تحریف قرآن کی روایات پر

(الشافی جلد 7 صفحہ 227)

تحریف قرآن کے افسانے کو عملی جامہ پہنانے والے قمی اور کلینی ہیں انہوں  نے ہر اس آیت کےبعد جس میں انزل اللہ علیک   یا انزلنا الیک کے الفاظ تھےان کے بعد فی علی کے لفظ کو داخل کردیا اور لفظ ظلموا کے بعد آل محمد حقهم کو ٹھونس دیا لفظ اشرکواکے بعد فی ولایة علی کا اضافہ کر دیا اور قرآن میں جہاں جہاں امة کا لفظ آتا ہے اس کو آئمہ میں بدل دیا

بئسما اشتروا به انفسهم ان يكفروا بما أنزل الله (في علي بغيا )

(الکافی جلد 1 صفحه 417)

وان کنتم فی ریب مما نزلنا (فی علی) فاتو١ بسورۃ من مثلہ

(الکافی جلد 1 صفحه 417 )

يا ايها الذين اوتوا الكتاب آمنوا بما نزلنا (في علی) نورا مبينا

(الکافی جلد 1 صفحه 417)

قمی لکھتا ہے جو تحریف شدہ آیات ہیں ان میں یہ فرمان باری تعالی بھی ہے

لکن الله يشهد بما انزل اليك (في علي) انزله بعلمه والملائكة يشهدون

یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک (فی علی) وا لم تفعل فما بلغت رسالتہ إن الذين كفروا وظلموا( آل محمد حقهم) لم يكن اللہ لیغفرلھم وسيعلم الذين ظلموا( آل محمد حقهم )في غمرات الموت

(تفسیر القمی جلد 1 صفحه 160)

(تفسیر القمی جلد 1 صفحه 48 100 110 122  126 ) قمی کہتا ہے کہ اس کی بہت زیادہ مثالیں ہیں قرآن مجید میں

(تفسیر القمی جلد 1۔صفحه  10 11) 

كنتم خير امة اخرجت للناس

اس آیت کے بارے میں لکھتاہے کہ یہ اس طرح نازل ہوئی تھی

كنتم خير أئمة أخرجت للناس

(تفسیر القمی جلد 1 صفحه 110 ) کلینی رضا سے اس آیت کبرعلی المشرکین کے بارے میں روایت کرتا ہے کہ وہ اس کے بعد

ولایة علی

کا اضافہ کرتے ہیں اور

ماتدعوھم الیہ

کے بعد

یامحمد من ولایة علی

کا اضافہ کرتے ہیں کتاب اللہ میں ایسا ہی لکھا ہے(الکافی جلد 1 صفحه 418)

آیت۔ فستعلمون من هو في ضلال مبين

میں یہ

يا معاشر المكذبين حيث رسالة ابي في ولاية علي عليه السلام والائمه من بعده من هو في ضلال مبين

جھٹلانے والوں کا اضافہ کرتے ہیں پھر وہ اس بات کے ساتھ اس کفر اور تحریف کی توثیق و تاکید کرتے ہیں کہ یہ ایسے ہی نازل ہوئی تھی (الکافی جلد 1 صفحه 421)

اللہ تعالی کے اس فرمان

فلنذیقن الذين كفروا میں بترکہم ولایت امیرالمومنین علیہ السلام عذابا شدیدا فی الدنیا ولنجزینھم اسوء والدین کانوا یعملون۔

کا اضافہ کرتے ہیں

(الکافی جلد 1 صفحہ 321)

ان القرآن الذی جاء بہ جبریل علیہ السلام الی محمد سبعۃ عشر الف ایۃ،

وہ قرآن جو جبرائیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اس کی 17000 آیات تھیں۔

( اصول الکافی کتاب فضل القرآن باب نوادر جلد 2 صفحہ 134)۔

جب کہ قرآنی آیات جس طرح مشہور ہے کہ چھے ہزار سے کچھ زائد ہیں اس روایت کا تقاضا یہ ہے کہ تقریبا دو تہائی حصہ ساقط ہے اور یہ کتنا بڑا افترا ہے۔یہ روایت الکافی میں ہے جو ان کی سب سے صحیح کتاب ہےلیکن کچھ شیعہ کا کہنا ہے کہ الکافی میں ساری روایت صحیح نہیں ہے۔

کتاب (دعوۃ التقریب صفحه 383 شیعہ بین الحقائق والاوهام صفحہ 419 اور ۔420) ۔

اگر ہم اس جیسے قول کو حقیقت پر محمول کریں تقیہ پر نہیں جو ان کے ہاں حسن اور صحیح اور ضعیف کے اصول و ضوابط پر تحفظات اور اس سلسلے میں ان کے اختلافات اور اضطراب اگر ہم اس سے بھی تجاوز کریں کیونکہ ان کے نزدیک ضعیف کا حکم کبھی صرف سند پر ہو سکتا ہے ان کا کہنا ہے الکافی کی اکثر احادیث کی اسناد صحیح نہیں لیکن وہ متون کے لحاظ 

سے اور عقائد حقہ کی معرفت کے اعتبار سے معتبر ہیں ان جیسی روایت میں سند کو نہیں دیکھا جاتا۔

(مقدمہ شرح جامع الشعرانی)

اگر ہم ان تمام باتوں سے صرف نظر کریں اور ان کے علماء سے اس روایت کی صحت کے بارے میں جواب چاہیں تاکہ ہم اپنے اس عمل میں انکی کتب الرجال کی روشنی میں اسناد پر غور کرکے زیادہ سے زیادہ غیر جانبدار رہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ مجلسی سابقہ روایت کے متعلق کہتا ہے

فالخبر صحیح ولا یخفی ان ھذا الخبر و کثیرا من الاخبار الصحیحۃ  صریحۃ فی نقص القرآن و تغیرہ و عندی ان الاخبار فی ھذا الباب متواترۃ معنی و طرح جمیعھا یوجب رفع الاعتماد عن الاخبار راسا بل ظنی ان الاخبار فی ھذا الباب لا یقصر عن اخبار الامامۃ فکیف یثبتونھا بالخبر،

لهذا یہ خبر صحیح ہے مخفی نہ رہے کہ یہ خبر اور دیگر بہت ساری صحیح روایات صراحتاً قرآن پاک میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں اور میرے نزدیک تحریف قرآن کے مسئلہ میں روایات ماننامتواتر ہیں اور ان سب روایات کو ترک کرنا تمام ذخیرہ حدیث سے اعتماد کو اٹھانا ہے، بلکہ میرا خیال ہے کہ تحریف قرآن کی روایات مسئلہ امامت کی روایات سے کم نہیں، اگر ان روایات کا اعتبار نہ ہوا تو مسئلہ امامت روایات سے کیسے ثابت کریں گے؟

(مرآۃ العقول جلد 2 صفہ 536)

مجلسی کی یہ گواہی ان کے نزدیک انتہائی زیادہ قابل اعتبار ہے کیونکہ وہ الکافی کا محقق شارح ہے جس نے اس میں صحیح اور ضعیف کو بیان کیا ہے

مرآۃ العقول

اور محمدجوادمغنیه کی کتاب

العمل بالحدیث وشروطه عند الامامیه ضمن کتاب دعوۃ التقریب صفحہ 383

معاصر علماء سے اس روایت کی صحت کے متعلق آگاہی  چاہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا عالم عبدالحسین مظفر کہتا ہے یہ صحیحح طرح موثق ہے

(الشافی شرح اصول الکافی جلد  صفحہ 227 )

یہ بحث تھی اس روایت کے صحیح ہونے پر اب اس روایت کے معنی کیا ہیں تو اس کی وضاحت کافی کا شارح محمد صالح بن احمد مازندانی یوں کرتا ہےقرآن کی آیات 6500 ہیں اور اس سے جو زائد حصہ ہے وہ تحریف کی وجہ سے ساقط ہو چکا ہے۔

(شرح جامع الکافی جلد11 صفحه76  )

مجلسی کہتا ہے یہ روایت اور بہت ساری دیگر صحیح روایات قرآن میں کمی اور تحریف کے حوالے سے صریح ہیں۔

 (مرآۃ العقول جلد 2 صفحہ 536)

(ابن بابویہ شروعات کے بارے میں الاعتقادات میں جو ان کے معاصر علماء کی تحقیق کے مطابق معتبر کتاب ہے۔

( الذریعہ جلد 13 صفحہ 101)

وہ کہتا ہے یقینا قرآن کے علاوہ اتنی وحی نازل ہوئی ہے کہ اگر اسے قرآن کے ساتھ جمع کرلیا جاتا تو وہ ١٧٠٠٠سترہ ہزار آیت کی مقدار کے برابر ہوتی یہ جبرائیل کے اس قول کی طرح ہے۔

(عش ماشئت فانك ميت واحبب ما شئت فإنك مفارقه واعمل ما شئت فإنك ملاقيه الاعتقادات صفحہ 102 )

اس کے بعد اس نے اس جیسی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔

یہ حالت ہم نےتشیع کے ایک استادشاگرد کی بیان کی ہےجس سے الکافی میں سات ہزار سے زائد روایات نقل کی ہیں اور تشیع رجال خود تذبذب کا شکار ہے کہ اس کو ثقہ کہیں یا ضعیف کہیں اس کی روایات کی توثیق کریں یا تضعیف کریں۔

خلاصہ:

تو جناب آپ نے ملاحظہ فرمایاہے کہ ہم نے الکلینی کے ایک شیخ کی حالت بیان کی ہے جس کی خود کی تفسیر کو تشیع محققین نے رد کیا ہے اور شیخ علی ابن ابراهیم القمی پر تحریف القرآن کا الزام ثابت کیا ہے جبکہ الکلینی بھی القمی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریف القرآن کی روایات کو اپنی کتاب میں جگہ دیتے ہیں اور سب سے اہم بات تشیع ان روایات پر صحیح ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔کلینی الکافی میں 7068 روایات علی بن ابراہیم القمی سے لیتاہے۔ یہ حالت ہے شیعہ کی اس کتاب کی جو زمانہ رسول ﷺ کے قریب ترین لکھی گئی جبکہ شیعہ محققین خود اقرار کرتے  ہیں کہ  زمانہ رسول ﷺ سے تین سو 300 ہجری کا علمی تراث ہمارے پاس موجود نہیں ہے اور جو ہے وہ غیر معتبر ہے

حیدر حب الله صاحب دورس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیه صفحه 63 پر اقرار کرتے ہیں کہ پہلے دوسو سنه هجری تک امامیہ کے ہاں کوئی علم اسماء الرجال کا وجود نہیں تھا۔سنہ 400ہجری کے بعد کے مرحلے کے بارے حیدر حب اللہ صاحب لکھتے ہیں اس مرحلے میں شیعہ علم الرجال پر کتب لکھی جانے لگی یہ کتب فہارس تھیں مطلب مصنفین اور مصنفات کی تفصیل تھی بلکلیہ جرح و تعدیل پر باقاعدہ بحث نہیں تھی ضمنن بحث ہوتی تھی۔ (دروس فی علم الرجال عند الامامیہ صفحہ 90 ) مرے خیال میں ایک سلیم العقل انسان سمجھ سکتاہے۔ جس مزہب کے روایت کرنے والے ابتداء اسلام سے یعنی دور رسالت سے 400سنہ ہجری تک مجہول ہوں اس مذہب کی حالت کیا ہوگی    

نتیجہ:

جس مزہب کےمحققین کا دعوی ہو کہ یہ اصل رسول ﷺ اور آل رسول ﷺ کا مذہب ہے لیکن اس مذہب کے محققین اپنے لیے بطور حجت نزول وحی الهی (قرآن) نا رکھتے ہوں اور جب اس مذہب کے اصول الدین بطور دینِ اسلام تسلیم کرنےکےلیےوحی غیر متلو (فرمادات رسول ﷺ) لانے کا سوال کیا جائے تو وہ نالاسکیں تو ایسے مذہب کو کیسے منزل من اللہ کہا جاسکتاہے۔اور جس مذہب کے اور اس سے بڑی مصیبت اس مذہب کے لیے رسول ﷺ اور 

اہلبیت رسول ﷺ  سے  400 سالہ  سنہ ہجری کا انقطاع رجالی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ مزہب تاریخی مذہب ہے اللہ رسول ﷺ کا بیان کردہ نہیں ہے شیعہ مذہب شیعہ علماء ومحققین کا گھڑا ہوا مذہب ہے اہلبیت رسول ﷺ کا مذہب نہیں ہے۔

(مکمل تفصیلات رسالہ علم رجال میں تشیع کی حالت زار)

#جاری____ہے