Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

رافضی یہودی مشابہت

  امام ابن تیمیہ

رافضی یہودی مشابہت

جن اقوال میں اہل تشیع نے اہل سنت والجماعت سے علیحدگی اختیار کی ہے ‘ ان میں انتہائی فساد کا شکار ہوئے ہیں ۔مثال کے طور پر:

۱۔ یہودیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مغرب کی نماز میں اتنی تاخیر کرتے ہیں یہاں تک کہ ستارہ طلوع ہوجائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ نماز مغرب جلدی پڑھنے کی تاکید منقول ہے۔

۲۔ ایسے رافضی لوگوں سے دو روز پہلے روزہ رکھتے ہیں ۔اور دو دن پہلے افطار کرتے ہیں ۔اس میں ان اہل بدعت کی پیروی کرتے ہیں جو جوڑ کے دن کا روزہ رکھتے ہیں اور گنتی کے حساب سے روزے پورے کرتے ہیں ۔ صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے ؛ آپ نے فرمایا:

’’ ہم لوگ ان پڑھ قوم ہیں لکھنا پڑھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے؛ جب تم چاند کو دیکھو توروزہ رکھ لو‘اور جب چاند دیکھو تو افطار کرلو؛اور اگر تم پر بادل چھا جائیں تو تیس کی گنتی پوری کرلو۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے:’’ پس پھر تم اس کی تعداد مکمل کرلو۔‘‘

[ البخارِیِ:۳؍۲۷؛ ِکتاب الصومِ، باب قولِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : (( لا نکتب ولا نحسب ....،والحدِیث فِی: مسلِم:۲؍۷۶۱ ؛ کتاب الصِیامِ،باب وجوبِ صومِ رمضان لِرؤیِۃ الہِلالِ،سنن أبِی داود:۲؍۳۹۸؛ کتاب الصومِ، باب الشہرِ یکون تِسعا وعِشرِین، المسند ط۔المعارِفِ الأرقام:۵۰۱۷، ۵۱۳۷، ۵۵۳۶، ۶۰۴۱،وجمع ابن تیمِیۃ فِی کلامِہِ بین ہذا الحدِیثِ وحدِیث آخر عنِ ابنِ عمر نصہ فِی: مسلِم:۲؍۷۵۹؛ مع اختِلاف فِی الألفاظِ والرِوایاتِ، الشہر تِسع وعِشرون، فإِذا رأیتم الہِلال فصوموا،وِإذا رأیتموہ فأفطِروا، فإِن غم علیکم فاقدروا لہ۔وہو فِی البخاری عنِ ابنِ عمر:۳؍۲۶، ۲۷کتاب الصومِ، باب قولِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إِذا رأیتم الہِلال فصوموا۔] 

۳۔ ان میں سے بعض روافض یہودیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مچھلی [کی ایک خاص قسم مرماہی] کو حرام کہتے ہیں ۔ اور بعض دوسری پاکیزہ چیزوں کو بھی حرام کہتے ہیں ۔بعض مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں کافروں کی مدد کرتے ہیں ۔ اورکفار کو مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ اسلامی فرقوں میں سے کسی دیگر کے متعلق یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کوئی فرقہ ایسی حرکتیں کرتاہو۔

۴۔ نیز جن مائع چیزوں کو اہل سنت والجماعت کے ہاتھ لگ جائیں انہیں نجس سمجھتے ہیں ۔یہ بالکل سامریوں کے دین کی جنس سے ہے ۔ سامری یہودیوں کے رافضی ہیں ۔ یہودیوں میں ان کا وہی مقام ہے جو مسلمانوں میں رافضیوں کا  ہے۔ رافضی کئی ایک امور میں سامریوں کے مشابہ ہیں ۔ [مثال کے طور پر ] :

۵۔ سامری حضرت موسی علیہ السلام کے بعد حضرت ہارون اور حضرت یوشع رحمہم اللہ کے علاوہ کسی نبی کو نہیں مانتے ۔ ایسے ہی رافضی بھی خلفاء اور صحابہ میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کی امامت یافضیلت کے قائل نہیں ۔

۶۔ سامری ان مائع چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں انکے علاوہ کسی اور کے ہاتھ لگے ہوں ۔ رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں ۔

۷۔ سامری اپنے علاوہ کسی کے ہاتھ کا ذبیحہ نہیں کھاتے ۔ رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں ؛ یہ لوگ اہل کتاب کے ذبیحہ کو حرام کہتے ہیں ۔اور ان میں سے اکثر لوگ جمہور مسلمین کے ذبیحہ کو حرام کہتے ہیں ۔اس لیے کہ جمہور مسلمین ان کے ہاں مرتد ہیں ۔ اور مرتد کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں ہے۔

۸۔ سامریوں میں بھی تکبر ‘ رعونت ؛ حماقت اور جھوٹے دعوے پائے جاتے ہیں ۔حالانکہ وہ خود قلت اور ذلت کا شکار ہیں ۔ رافضیوں کا بھی یہی حال ہے ۔

۹۔ رافضی پانچ نمازوں کو تین بنا کر پڑھتے ہیں ۔رافضی ہمیشہ ظہر وعصر اور مغرب و عشاء کی نماز کو جمع کرکے پڑھتے ہیں ۔یہ مسلک رافضیوں کے علاوہ امت کے کسی اور فرقے نے اختیار نہیں کیا ۔ یہ یہودیوں کے دین سے مشابہت ہے جن کے ہاں صرف تین ہی نمازیں پائی جاتی ہیں ۔

۱۰۔ ان کے غالی عبادت گزار اپنے اصحاب پر چاشت ؛ وتر اور قیام اللیل کو بھی واجب کرتے ہیں ۔اس طرح ان کے ہاں روزانہ کی سات نمازیں ہوجاتی ہیں ۔یہ عیسائیوں کا دین ہے۔

۱۱۔ رافضی نماز باجماعت اور جمعہ کا اہتمام نہیں کرتے ۔ نہ ہی اپنے شیعہ کے پیچھے اور نہ ہی کسی دوسرے کے پیچھے؛ [کسی بھی طرح] نماز باجماعت نہیں پڑھتے۔ یہ بات باقی کسی فرقہ میں اتنی زیادہ نہیں پائی جاتی جتنی شیعہ میں پائی جاتی ہے۔ باقی سارے فرقے اپنے ہم مسلک لوگوں کے پیچھے نماز باجماعت اور جمعہ پڑھ لیتے ہیں ۔ جیسا کہ معتزلہ اور خوارج ۔ جب کہ شیعہ رافضی تو کسی طرح بھی ان چیزوں کا اہتمام ہی نہیں کرتا۔ یہ بدنصیبی صرف رافضیوں کے حصہ میں آئی ہے۔

۱۲۔ رافضی نماز میں آمین نہیں کہتے ۔امت کے کسی دوسرے فرقہ میں یہ بات نہیں پائی جاتی ۔ یہ اصل میں یہودیوں کا دین ہے۔ یہودی آمین کہنے پر اہل ایمان سے حسد کرتے ہیں ۔

۱۳۔ بعض لوگوں نے بعض رافضیوں سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ وہ اونٹ کے گوشت کو حرام کہتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار ہوئی تھیں ۔یہ بھی ایک کھلا ہوا کفر ہے ؛ جوکہ اصل میں یہود کا دین ہے۔

۱۴۔ ان کے بہت سارے عوام کہتے ہیں کہ : عورت کی رضامندی کے بغیر طلاق نہیں ہوتی۔جب کہ ان کے علماء اس کا انکار کرتے ہیں ‘ ان کے علاوہ کسی ایک نے بھی یہ بات نہیں کہی۔

۱۵۔ رافضی کہتے ہیں : امام منتظر پر ایمان لانا واجب ہے ۔ امام منتظر موجود ہے ‘ مگر غائب ہے ۔ نہ ہی اس کی ذات کا کوئی پتہ ہے اورنہ ہی اس کی کوئی نشانی پائی جاتی ہے ‘ اورنہ ہی حس اورخبر سے اس کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکا ۔ مگر ان کے ہاں امام منتظر پر ایمان لائے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔

۱۶۔ شیعہ کہتے ہیں : دین کے چار اصول ہیں : توحید ؛ عدل ؛ نبوت اور امامت ۔ اور ان کے ہاں امامت کی انتہاء امام معصوم پر ہوتی ہے جو کہ آنکھوں سے غائب ہے ۔ لیکن شہروں میں موجود ہے۔ وہ دینار کو سمندر کی گہرائیوں سے نکال لائے گا۔ یہ امام سن دو سو ساٹھ ہجری میں سرداب سامرا میں چھپ گیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر دو سال ‘یا تین سال ‘یا پانچ سال تھی یا اس کے قریب قریب تھی۔پھر اس وقت سے لے کر اب تک اس کی کوئی خبر معلوم نہیں ہوسکی۔لوگوں کا دین اس کوتفویض کیا گیا ہے ۔ پس حلال وہی ہے جسے وہ امام حلال کہہ دے اور حرام وہی ہے جسے امام حرام کردے۔ اور دین وہی ہے جو اس امام کی مقرر کردہ شریعت ہو۔ اس امام سے اللہ کے بندوں میں سے کسی ایک کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔

۱۷۔ ایسے رافضی ان لوگوں کے نام پر نام رکھنا بھی ناپسند کرتے ہیں جن سے یہ بغض رکھتے ہوں ؛اور ان اسماء والوں سے محبت رکھتے ہیں جن کے نام ان لوگوں کے نام پر ہوں جن سے محبت رکھتے ہیں ۔اس کا خیال نہیں کرتے کہ یہ مسمیٰ کون ہے ؟

۱۸۔ رافضی کوئی کام دس کی تعداد میں کرنے کو ؛ اور دس کی تعداد بولنے کو مکروہ سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ عشرہ مبشرہ کی تعداد دس ہے۔

۱۹۔ جن لوگوں سے رافضی بغض رکھتے ہیں ‘ جیسے عمر و عائشہ ؛ ان سے تشفی اس طرح حاصل کرتے ہیں لال رنگ کی بھیڑ یا دُنبی کو پکڑ کر عذاب دیتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں : یہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہے ۔ اور ایسے ہی سانڈھ کو پکڑ کر مار پیٹ کرتے ہیں اور اسے عمر رضی اللہ عنہ سے تعبیر کرتے ہیں ۔یہ حماقت رافضیوں کے علاوہ کسی دوسرے فرقہ کے نصیب میں نہیں آئی۔

۲۰۔ ایسے ہی ماتم اور گریہ زاری کی مجالس قائم کرتے ہیں ؛اپنے گال پیٹتے ہیں اورگریبان پھاڑتے اور خاک اڑاتے ہیں ۔ اور نمکین چیزیں کھاتے ہیں تاکہ پیاس لگے ؛ جب پیاس لگ جائے تو پھر پانی نہیں پیتے ؛ تاکہ مظلومیت کی حالت میں پیاسے قتل ہونے والوں کی مشابہت اختیار کریں ۔کسی کے قتل ہونے کے پانچ سو [اب ساڑھے تیرہ سو ] سال بعد بھی ماتم اور گریہ و زاری کرنا یہ صرف رافضی نصیب میں آئی ہے۔ کسی اور کے بارے میں ایسی کوئی خبر نہیں مل سکی۔

رافضیوں کی اچھوتی باتیں جو کہ ان کی جہالت و گمراہی پر دلالت کرتی ہیں ؛ بہت زیادہ ہیں ۔ یہاں پر یہ امور ذکر کرنا ہمارا مقصد نہیں ۔ہمارا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ اہل سنت والجماعت جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کی پیروی کرنے والے ہیں ؛ ان سے جتنے بھی فرقوں نے اختلاف کیا ہے ‘ رافضی ان سب سے دو قدم آگے جارہے ہیں ۔