Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

رافضیوں کا تعارف

  علامہ ڈاکٹر عبد اللہ الجمیلی

رافضیوں کا تعارف

رافضہ کا معنی : لغت میں

’’ رَفَضَ یَرْفَضُ رَفْضاً‘‘

کا معنی ہے ترک کرنا۔ [فیروز آبادی : القاموس المحیط : ۲/ ۳۳۲ : مادۃ (رفض)]

اور اصطلاح میں : ’’ وہ لوگ ہیں جو شیخین یعنی حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو ترک کرتے ہیں، اور ان سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر سب و شتم کرتے ہیں، اوران کی شان میں تنقیص کرتے ہیں۔ ‘‘

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے جن بعض بدعتی فرقوں اور ان کے اقوال کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے ایک رافضہ بھی ہیں، آپ ان کے متعلق فرماتے ہیں :

’’ یہی وہ لوگ ہیں جو اصحاب ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور ان پر سب و شتم کرتے ہیں، اوران کی شان میں تنقیص کرتے ہیں۔‘‘

[قاضی ابو یعلی : طبقات الحنابلۃ : ۱/ ۳۳۔]

عبد اللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا :رافضہ کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا :

’’ وہ لوگ ہیں جو حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گالیاں دیتے ہیں۔ ‘‘

[ابن تیمیہ : الصارم المسلول علی شاتم الرسول ص ۵۶۷۔]

ابن عبد ربہ عقد الفرید میں ’’ الرافضہ ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :

’’ انہیں رافضہ کہا گیا ہے ؛ اس لیے کہ یہ لوگ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو ترک کرتے ہیں۔‘‘ ان کے علاوہ جتنے بھی بدعتی فرقے ہیں ان میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔ اور شیعہ ان سے کم ہیں ؛ شیعہ وہ لوگ ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے ہیں اور سیّدناابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما سے دوستی و محبت رکھتے ہیں۔‘‘

[ابن تیمیۃ : الصارم المسلول علی شاتم الرسول ص ۲/۲۴۵۔]

رافضہ بذات خود اپنے اور اپنے مخالفین کے درمیان تفریق کرتے ہیں، اور اپنے مخالفین کو ناصبی کہتے ہیں ؛ اس کی وجہ شیخین کی ولایت اور ان کی امامت کی صحت کا اعتقاد ‘‘ ہے۔ جس انسان کا یہ عقیدہ (ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کا) ہو وہ رافضیوں کے ہاں ناصبی کے نام سے پکارا جاتاہے۔ اور ان سے جو براء ت کا اظہار کرے وہ ’’رافضی‘‘ کہلاتا ہے۔

حسین الدرازی [ابو الحسن علی الہادی بن محمد الجواد بن علی الرضا ؛ حسن عسکری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امامیہ کے ہاں بارہ اماموں میں سے ایک ہیں۔ تیرہ رجب اتوار کے دن؛ ۲۱۳ اور کہا گیا ہے کہ ۲۱۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ اور پیر کے روز ۲۵ جمادی الآخر ۲۵۴ ہجری میں انتقال ہوا۔ دیکھو: ابن خلکان : وفیات الأعیان ۳/ ۴۲۴-۴۲۵۔٭ شیعہ لوگ سرکش اور طاغوت سے مراد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو لیتے ہیں ، نعوذ باللہ من ذلک۔]

اپنی سند سے محمد بن علی بن موسیٰ سے روایت کرتے ہیں ؛ وہ فرماتے ہیں :

’’ میں نے علی بن محمد علیہ السلام کو ناصبیوں کے متعلق خط لکھا ؛ کیا یہ اپنے امتحان [آزمائش کی گھڑیوں ] میں سرکش اور طاغوت ٭ کومقدم کرنے اور ان کی امامت کے درست ہونے کے اعتقاد سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا :’’ جس کا یہ مذہب ہو، وہ ناصبی عقیدہ پر ہے۔ ‘‘

[محمد آل ِعصفور الدرازی البحرانی :المحاسن النفسانیۃ في مسائل الخراسانیہ ص ۱۴۵۔]

یہاں پر اس بات کی تاکید ہو جاتی ہے کہ رافضی ہر وہ شخص ہے جو حضرات ِ شیخین ابو بکروعمر رضی اللہ عنہما پر تبرا کرے اور اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبرا بھلا کہے۔ اوراس میں وہ لوگ پہلے درجہ میں شامل ہیں جن کا گمان یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسلام سے مرتد ہوگئے تھے؛اور پھر اس نظریہ کے تحت انہوں نے ان پر کفر کا فتویٰ لگایا۔واللہ تعالیٰ اعلم۔

رافضیوں پر اس اسم کا اطلاق کب ہوا؟ اور وجۂ تسمیہ :

جمہور محققین اور بحث و تلاش کرنے والوں کی رائے یہ ہے کہ ان کا نام رافضی رکھے جانے کا زمانہ زید بن علی کا زمانہ ہے، جب انہوں نے ۱۲۱ ہجری میں ہشام بن عبد الملک بن مروان کے خلاف خروج کیا۔ [شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ زید بن علی نے ہشام کی خلافت کے آخری دور میں ۱۲۱ یا۱۲۲ ہجری میں خروج کیا تھا۔‘‘ منہاج السنۃ ۱/ ۳۵؛تحقیق رشاد سالم۔]

اور اس وقت ان کے ایک لشکری نے جناب ِ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما پر طعن و تشنیع شروع کی۔ انہوں نے اس حرکت سے منع بھی کیا ؛ مگروہ لوگ باز نہ آئے۔

ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں :

’’زید بن علی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو باقی سب صحابہ پر فضیلت دیتے تھے۔ اور سیّدناابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتے تھے۔ اورظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو جائز سمجھتے تھے۔ جب وہ کوفہ میں اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ نکلے جنہوں نے ان کی بیعت کی تھی ؛ تو انہوں نے سنا کہ ان میں سے بعض جناب حضرت ابو بکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما پر طعن کررہے ہیں۔ انہوں نے جب اس کا انکار کیا، تو جن لوگوں نے آپ کی بیعت کی تھی آپ سے علیحدہ ہوگئے۔ تو آپ نے ان سے کہا : ’’ رفضتمونی‘‘…’’تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘

سو کہا گیا ہے کہ زیدبن علی کے اس قول : ’’ رفضتمونی‘‘… ’’تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘کی وجہ سے ان کا نام ’’رافضہ‘‘ پڑ گیا۔

[مقالات الإسلامیین ۱/ ۱۳۷۔]

امام رازی کہتے ہیں :

’’ بے شک ان کا نام رافضہ اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ زید بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ہشام بن عبد الملک کے خلاف خروج کیا تو ان کے لشکر نے سیّدناابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر طعن کرنا شروع کیا۔ انہوں نے اس حرکت سے منع کیا، انہوں نے حضرت زید کا ساتھ چھوڑ دیا؛ آپ کے ساتھ دو سو سوار باقی رہ گئے۔ تو زید بن علی نے ان سے کیا : ’’ رفضتمونی‘‘… ’’تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘تو کہنے لگے :’’ہاں۔‘‘تو ان کا یہی نام پڑگیا۔ -یعنی رافضی۔ ‘‘

[اعتقادات فرق المسلمین و المشرکین ص ۵۲۔]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ اسلام میں سب سے پہلے رافضہ کالفظ اس وقت معروف ہوا جب دوسری صدی ہجری کے شروع میں زید بن علی نے خروج کیا تو آپ سے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ان دونوں حضرات سے محبت و عقیدت کا اظہار کیا، تو لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا، یہیں سے ان کا نام رافضہ پڑگیا۔ ‘‘

[مجموع الفتاوی ۱۳/ ۳۶۔]

نیز فرماتے ہیں : ’’ زید کے خروج کے زمانہ میں شیعہ رافضہ اور زیدیہ میں تقسیم ہوگئے؛ اس لیے کہ جب آپ سے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ان کے لیے رحم کی دعا کی تو لوگ ان کا ساتھ چھوڑ گئے، آپ نے فرمایا : ’’ رفضتمونی‘‘…’’تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘ ان کے حضرت زید بن علی کا ساتھ چھوڑ دینے کی وجہ سے ان کا نام رافضی پڑگیا۔ اور جن لوگوں نے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا انہیں زیدیہ کہا جانے لگا۔‘‘

[منہاج السنۃ ۱/ ۸۔]

اس نام پر رافضیوں کا موقف :

رافضی اس نام کی وجہ سے دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ ’’رافضہ ‘‘ مذموم صفت ہے اور ان کا یہ نام ان کے مخالفین اور دشمنوں نے رکھا ہے۔

سماعۃ بن مہران کہتے ہیں : صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:’’ لوگوں میں سب سے برے کون ہیں ؟ میں نے کہا : ہم ہیں، اس لیے کہ لوگ ہمیں کفار اور رافضی کہتے ہیں۔ تو انہوں نے میری جانب دیکھا، اور فرمایا: ’’ اس وقت کیا عالم ہوگا جب تم لوگوں کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا، اور انہیں جہنم کی طرف ؛ وہ تم لوگوں کو دیکھیں گے اور کہیں گے :

{وَقَالُوْامَالَنَا لَانَرٰی رِجَالًا کُنَّا نَعُدُّ ھُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ } (ص: ۶۲)

’’ اور کہیں گے کیا سبب ہے کہ (یہاں ) ہم ان شخصوں کو نہیں دیکھتے جن کو بُروں میں شمار کرتے تھے۔‘‘

[علی بن یونس العاملی النباطی : الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم ۳/ ۷۶۔]

محسن امین کہتا ہے : ’’ رافضہ ایک لقب ہے، جو ان لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت میں مقدم رکھتے ہیں۔ اکثر یہ لفظ بطور انتقام تشفی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور جب عصبیت کی ہوا اٹھی تو اس نام کا اطلاق شیعہ تک ہی نہیں رہا ؛ بلکہ انتقام کی آگ نے انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ:’’ اس بارے میں محبین اہل بیت اور ان سے موالات رکھنے والے جن کے متعلق وصیت ہے، اور جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثقلین میں سے ایک قرار دیا ہے؛اورجن کے ساتھ تمسک رکھنے والا گمراہ نہیں ہوگا۔‘‘کہ [ان کی زبانی] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات گھڑی جائیں۔

جملہ مؤلفات میں یہ بات منتشر ہے کہ یہ لقب (رافضہ) زید بن علی بن حسین علیہ السلام کے زمانے میں پڑا ؛ جب کوفہ میں ان سے شیخین کے بارے میں پوچھا گیا ؛ تو انہوں نے کہا: ’’ وہ دونوں میرے دادا کے ساتھی ہیں، اورقبر میں ان کے ساتھ لیٹے ہوئے ہیں، اوراس سے مشابہ کچھ باتیں کیں۔ تو لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ؛ تو اس وجہ سے ان کا یہی نام (رافضہ) پڑگیا۔ اور یہ بات کوئی بعید نہیں ہے کہ یہ بھی گھڑی ہوئی بات ہو۔‘‘

[أعیان الشیعۃ ۱/ ۲۰-۲۱۔]

جب کہ دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ ان کا نام رافضہ اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ نباطی کی کتاب ’’الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم ‘‘ میں ہے:

’’ ابو بصیر نے صادق علیہ السلام [ابو عبداللہ جعفر الصادق بن محمد بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم۔ امامیہ کے نزدیک بارہ اماموں میں سے ایک ہیں۔ اور سادات ِ اہل بیت میں سے تھے۔اپنی گفتگو میں کھرے پن کی وجہ سے صادق کا لقب ملا۔ آپ کے فضائل تذکرہ کرنے سے زیادہ ہیں۔ ۸۰ہجری میں پیدا ہوئے، اور شوال ۱۴۸ ہجری میں وفات پائی۔ ابن خلکان : وفیات الأعیان ۱/۳۲۷۔] سے کہا : لوگ ہمیں رافضہ کا نام دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا : نہیں اللہ کی قسم ! لوگ تمہیں یہ نام نہیں دیتے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا یہ نام رکھا ہے۔ بے شک بنی اسرائیل کے ستر بہترین انسان حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی پر ایمان لائے ؛ تو ان کا نام رافضہ رکھا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی، یہ نام تورات میں ان کے لیے لکھ دے، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ذخیرہ کر رکھا یہاں تک کہ تم لوگ اس راہ پر چلو۔‘‘

[علی بن یونس العاملی النباطی : الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم ۳/ ۷۶۔]

جو بات ان کے اس نام پر فخر کرنے کو ظاہر کرتی ہے وہ نباطی کا ذکر کردہ قصہ ہے۔ وہ کہتا ہے:

’’ عمار الدہنی [عمار بن معاویہ الدہنی ؛ ابو معاویہ البلخی ؛ ابن حجر نے کہا ہے : ’’ سچا ہے، شیعیت کی باتیں کہتا ہے۔ تقریب ص ۴۰۸۔] نے ابن ابی لیلیٰ [محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ اور ابی لیلیٰ کا نام یسار تھا۔ جو احیحہ بن جلاح کی اولاد میں سے ہے۔ بنی امیہ کے قاضی رہے، اور بنی عباس کے بھی۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے پہلے اپنی رائے سے فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ۱۴۸ ہجری میں انتقال ہوا۔ ابو جعفر منصور کے ہاں قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز ہوئے۔ ابن الندیم الفہرست ص ۲۸۶۔] کے ہاں گواہی دی۔

انہوں نے کہا : ’’ہم آپ کی گواہی قبول نہیں کریں گے، اس لیے کہ آپ رافضی ہیں، تو (عمار) روپڑے۔ انہوں ( ابن ابی لیلیٰ) نے کہا : کیا تم روتے ہو؟، رافضیت سے براء ت کا اظہار کرتے ہوکہ ہمارے بھائیوں میں سے ہو جاؤ؟۔‘‘ (عمار) نے کہا :’’ نہیں ؛ بلکہ میں اس بات پر روتا ہوں کہ آپ نے مجھے ایک ایسے عالی مقام کی طرف منسوب کیا ہے جس کا اہل میں نہیں ہوں، اور میں تمہارے اس اتنے بڑے جھوٹ کی وجہ سے رورہا ہوں کہ تم نے میرے نام سے ہٹ کر مجھے دوسرا نام دیا ہے۔ ‘‘

ایک اور رافضی کا کہنا ہے : ’’ عقیدہ امامت ایمان میں شامل ہے۔ اور رافضیت ایسا پکا دین ہے جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں ہے۔ علی کے دشمنوں سے دشمنی رکھنے میں نہ ہی کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کوئی حرج۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے شرف سے سرفراز کیا کہ میں ان کے بندوں میں سے ہوں، او ر ان کی محبت میرے خون اور گوشت میں ملی ہوئی ہے۔ ولاء اور براء کے دین کے علاوہ کوئی چیز اس کے بدلہ میں نہیں چاہیے۔ اور نہ ہی اس سے ہٹ کر کسی اور راہ پر زندگی بھر چلوں گا۔

انتخاب: تحفہ شیعیت
مصنف: علامہ ڈاکٹر عبد اللہ الجمیلی
مترجم: آغا سید دلدار حشر کاشمیری