Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

رافضیوں کے مشہور فرقے

  علامہ ڈاکٹر عبد اللہ الجمیلی

 رافضیوں کے مشہور فرقے


اصحاب الفرق اور مقالات نے رافضی فرقوں کے بارے میں بہت اختلاف کیا ہے۔ اور اس کا سبب بعض لوگوں کے ہاں رافضیت کے مفہوم میں وسعت ہے۔ وہ اس نام کے تحت تمام شیعہ فرقوں کو شمار کرتے ہیں۔ جیساکہ بغدادی نے کیا ہے، انہوں نے رافضہ کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے:

۱۔ زیدیہ

۲۔امامیہ

۳۔ کیسانیہ

۴۔ غالی
پھر ان میں سے ہر ایک فرقہ کے نیچے بہت سارے فرقے ذکر کیے ہیں۔ [دیکھو: الفرق بین الفِرق ص ۲۱-۲۳۔] اور اسفرائینی نے بھی ایسے ہی کیا ہے۔ [دیکھو: التبصیر فيالدین ص ۲۷۔] نیز امام رازی نے بھی۔ [دیکھو: اعتقادات فرق المسلمین المشرکین ص ۵۲۔] 
صرف یہ کہ ان دونوں نے غالی فرقہ کو رافضیوں میں شمار نہیں کیا۔
دوسری جانب بعض اصحاب الفرق اور مقالات اس تقسیم کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ سابقہ فرقے شیعہ فرقے ہیں۔ یہ رافضی یا امامی نہیں ہیں، جیسا کہ ان کے بارے میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بھی انہی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے۔ ان لوگوں میں سے شہرستانی [الملل والنحل ۱/ ۱۴۷۔] اور اشعری [مقالات الاسلامیین ۱/ ۶۵-۹۱۔] بھی ہے۔ صرف یہ کہ شہرستانی نے کیسانیہ کو رافضی فرقوں میں شمار کیا ہے۔

میری رائے کے مطابق زیدیہ، غالی اور کیسانیہ رافضی فرقوں میں سے نہیں ہیں۔ زید بن علی کے زمانہ میں شیعہ دو قسموں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ ایک فرقہ کا نام رافضہ رکھا گیا، اس لیے کہ انہوں نے سیّدناابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت و ولایت کے مسئلہ پر زید بن علی کو چھوڑ کر ان سے علیحدگی اختیار کرلی۔
دوسرا فرقہ زیدیہ :یہی وہ لوگ ہیں جو امام زید کے مذہب پر باقی رہے اور ہم نے اس کی تفصیل پہلے بیان کر چکے ہیں۔ اس بنا پر زیدیہ کو کیسے رافضہ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

[مقالات الاسلامیین ۱/ ۱۳۷۔] 


غالی :
یہ رافضیوں سے پہلے بھی معروف تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں غلو کیا، اور ان کے متعلق ربوبیت کا دعوی کرنے لگے۔

[مقالات الاسلامیین ۱/ ۶۶۔] 

ان کے ایسے عقائد ہیں جو انہیں بالکل ہی اسلام سے خارج کردیتے ہیں، جیسا کہ یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے ائمہ میں حلول کرگیا تھا۔ اور بعض کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کے چہرہ کے علاوہ باقی اعضاء ختم ہوچکے ہیں یا نہیں۔ اور ان میں سے بہت سے لوگوں کا اپنے ائمہ کے معبود ہونے کا دعوی کرنا۔ اوراس کے علاوہ بھی ان کے بہت سارے فاسد عقائدہیں۔

[دیکھو: اعتقادات فرق المسلمین المشرکین ص ۷۵۔ الملل والنحل ۱/ ۶۶۔] 
انہیں شیعہ اور سنی ’’ فرق اور مقالات کے لکھنے والوں نے کافر قرار دیا ہے، اوران کا شمار مسلمانوں میں نہیں کیا۔ [دیکھو: البغدادی : الفرق بین الفرق ۲۳؛ ۲۳۳۔ نعمت اللّٰه الجزائری الأنوار النعمانیہ ۲/ ۲۴۳۔] یہ لوگ رافضی نہیں ہیں ؛ اگرچہ رافضی ان کے بعض عقائد سے متاثر ہیں۔
کیسانیہ:
یہ لوگ امیر المومنین حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے غلام کیسان کے پیروکار ہیں۔ کیسان نے محمد [ابو القاسم محمد بن علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ، المعروف محمد بن الحنفیہ ؛ اس کی ماں کا نام الحنفیہ بنت خولہ بنت جعفر بن قیس بن سلمہ ہے۔ فرقہ کیسانیہ ان کی امامت کا اعتقاد رکھتا ہے۔ اور ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے امام ’’رضوی،، پہاڑ میں چھپے ہوئے ہیں۔ ابن خلکان : وفیات الأعیان (۴/۱۷۲) ۔] بن (علی) الحنفیہ کے ہاتھوں تعلیم پائی۔
کیسانیہ کا کہنا ہے کہ :’’امامت محمد بن الحنفیہ کا حق ہے۔ ‘‘

[دیکھو : نوبختی : فرق الشیعۃ : ص ۲۶۔ الشہرستانی : الملل و النحل ۱/ ۱۴۷۔] 
اس وجہ سے وہ رافضی اجماع کے خلاف ہیں، جس کے مطابق امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حسن اور حسین، اور 

علی بن حسین [ ابو الحسن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ المعروف بزین العابدین ؛ امامیہ کے ہاں اثنا عشریہ ائمہ میں سے ایک ہیں اور بڑے تابعین میں سے ہیں۔ ان کے فضائل اعداد و شمار سے زیادہ ہیں۔ ۳۸ہجری میں پیدا ہوئے ؛ اور ۹۴ ہجری میں وفات پائی۔ دیکھو: ابن خلکان : وفیات الأعیان (۳/۲۶۶-۲۶۹) ۔] کا حق ہے۔ پھر علی بن حسین کے بعد امام کے متعلق ان میں اختلاف ہے۔

شہرستانی کہتے ہیں : ’’امامیہ فرقہ کے لوگ حسن ؛ حسین، اورعلی بن الحسین کے بعد امام کے متعین ہونے کے بارے میں ایک رائے پر متفق نہیں ہیں۔ ‘‘ 

[ الملل و النحل ۱/ ۱۶۵۔] 

شہرستانی کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ رافضہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد ان تین کی امامت پر اجماع ہے۔ پھر ان کے بعد امام کے متعین ہونے میں ان کے مابین اختلاف واقع ہوا ہے اس کے لیے ایک اوربڑے رافضی عالم کی تحریر بھی گواہی دیتی ہے کہ رافضیوں کا اس مسئلہ پر اجماع ہے؛ وہ کہتا ہے : ’’امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خاص کر بنی ہاشم میں ہوگی۔ پھر ان میں سے بھی علی، حسن، حسین میں اور ان کے بعدقیامت تک کے لیے ان کی آل میں ہوگی۔‘‘

 [ المفید : أوائل المقالات ص ۴۴۔] 

جب کہ کیسانیہ فرقہ والے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد امامت ان کے بیٹے محمد بن (علی [محمد بن حنفیہ کااصل نسب محمد بن علی بن ابو طالب ہے۔ انہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے شیعہ نے محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور کیا ‘ اور بڑے بڑے اہل ِ سنت بھی اس دھوکا کا شکار ہوگئے حالانکہ دنیابھر میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو یہ بات نہ جانتا ہوکہ نسب والد کی طرف سے چلتا ہے ‘ والدہ کی طرف سے نہیں ؛ اور والدہ کی طرف نسبت سوائے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے کسی اور کے لیے جائز نہیں۔ ازمترجم۔] ) الحنفیہ کے لیے مانتے ہیں۔

میں نے کیسانیہ فرقہ کے اقوال کی اس کثرت کے باوجود جانچ پڑتال کی۔ میں نے یہی پایا کہ وہ امامت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے بیٹے محمد بن حنفیہ کے لیے مانتے ہیں۔ ان میں سے سوائے ایک فرقہ کے کوئی بھی حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی امامت کوتسلیم نہیں کرتا۔ یہ فرقہ بھی ان دونوں کے بعد امامت محمد بن الحنفیہ کا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک امامت علی بن الحسین کے لیے نہیں ہے، خواہ جو بھی ہو۔ یہ لوگ اپنے اہم ترین اصولوں میں رافضی اجماع کے مخالف ہیں۔ ایسے ہی کیسانیہ اور رافضیہ کا بھی آپس میں بہت سے مسائل میں اختلاف ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر شہرستانی نے کیاہے؛ وہ کہتے ہیں :

’’ان کا اس بات پر اجماع ہے کہ دین کسی آدمی کی اطاعت کا نام ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ وہ اپنے اس قول (عقیدہ ) کی وجہ سے ارکان ِ شریعت جیسے نماز؛روزہ ؛ زکواۃ؛ حج اور ان کے علاوہ باقی امور کو افراد پر تاویل کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں کا قیامت کے بارے میں عقیدہ بہت ہی کمزور 

ہوگیا۔‘‘

 [ الملل و النحل ۱/ ۱۴۷۔] 

جب کہ رافضہ کا ایسا عقیدہ نہیں ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کیسانیہ رافضی فرقوں میں سے نہیں ہیں۔ واللہ اعلم

اس طرح ہم شہرستانی کے قول کودوسرے فرق اور مقالات والوں پر ترجیح دے سکتے ہیں کہ اس نے ان فرقوں کو رافضیوں میں شمار نہیں کیا۔ بلکہ شیعہ کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے :

۱۔ کیسانیہ

۲۔ زیدیہ

۳۔ امامیہ

۴۔ غالی

۵۔ اسماعیلیہ

پھر ان میں سے ہر ایک فرقہ کی قسمیں علیحدہ علیحدہ ذکر کی ہیں، اس لیے میں رافضیوں کی تقسیم کے لیے شہرستانی کے قول پر اعتماد کرتا ہوں۔

شہرستانی نے امامیہ اور رافضہ کو سات قسموں میں تقسیم کیا ہے :

پہلا :… باقریہ، جعفریہ، واقفہ:

یہ لوگ محمد الباقر [ابو جعفر محمد بن زین العابدین علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم ؛ باقر کے لقب سے معروف ہوئے۔ امامیہ عقیدہ کے مطابق اثنا عشریہ کے ائمہ میں سے ایک امام ہیں۔ یہی جعفر الصادق کے والد ہیں۔ امام باقر، بڑے عالم، او ررہنما انسان تھے۔ آپ کو باقر اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ نے علم میں بہت ہی وسعت حاصل کی۔ بروز منگل تین صفر ۷۵ ہجری میں پیدا ہوئے ؛ اور ربیع الآخرکے آخر میں ۱۱۳ہجری میں انتقال ہوا۔ انہیں مدینہ منتقل کرکے بقیع میں دفن کیا گیا۔ وفیات الأعیان : ابن خلکان (۴/۱۷۴) ۔] بن علی بن زین العابدین کے پیرو کار ہیں۔ اور ان کا بیٹا جعفر الصادق ہے۔جنہیں وہ امام مانتے ہیں۔ اور ان کے والد زین العابدین کوبھی اپنا امام مانتے ہیں۔ بس یہ کہ ان میں سے بعض لوگوں نے ان میں سے ایک کے امام ہونے کے بارے میں مذہب اختیار کیا ہے ؛لیکن امامت کو ان کی اولاد میں منتقل نہیں کیا۔ اور بعض نے امامت کا سلسلہ ان کی اولاد کے لیے بھی جاری رکھا ہے۔ اسی لیے شیعہ میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے امام باقر پر پہنچ کر توقف (خاموشی ) اختیار کرتے ہوئے امام باقر کے لوٹ کر آنے کا کہا ہے؛بالکل ایسے ہی جیسا کہ ابو عبد اللہ جعفر بن محمد الصادق کی امامت ماننے والوں نے ان کے لوٹ کر آنے کا کہا ہے۔

دوسرا :… ناؤوسیہ :

یہ ایک ناؤوس نامی آدمی کے پیروکار ہیں۔ 

[ اس کا نام عجلان بن ناؤوس ہے۔ اہل بصرہ میں سے تھا۔ مقالات اسلامیین (۱/ ۱۰۰) ۔] 

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لوگ ’’ ناؤوس [ یہ ہمدان کے قریب ایک گاؤں ہے۔ ابن فقیہ نے اس کا ذکر کیا ہے، اور اس کے بارے میں فارسیوں کا خرافات سے بھرپور قصہ بھی نقل کیاہے۔ اس کے بعد کہا ہے: یہ گاؤں ابھی تک اسی نام سے مشہور و موجود ہے۔ معجم البلدان : یاقوت الحموی (۵/۲۵۴) ۔] ‘‘ نامی گاؤں کی طرف منسوب ہیں۔

ان کا عقیدہ ہے کہ امام صادق ابھی تک زندہ ہیں اور انہیں موت نہیں آئی۔اور اس وقت تک ہر گز موت نہیں آئے گی جب تک کہ وہ ظاہر ہوں، اور ان کا مذہب غالب آجائے۔ اور وہی قائم اور مہدی ہیں۔ انہوں نے امام سے روایت کی ہے :’’ اگر تم دیکھو کہ میرا سر پہاڑ سے تم لوگوں کی جانب لڑھکا دیا جائے، تب بھی میری موت کا یقین نہ کرو؛ اس لیے کہ میں ہی تمہار ا تلوار والا ساتھی ہوں۔‘‘

تیسرا :… افطحیہ:

ان کا کہنا ہے کہ امامت الصادق کے بعد ان کے بیٹے عبد اللہ الافطح میں منتقل ہوگئی تھی۔ یہ اسماعیل کا سگا بھائی ہے اور اس کی ماں فاطمہ بنت الحسین بن الحسن بن علی ہیں۔ اور امام صادق کی اولاد میں سے سب سے بڑی عمر کے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ امام نے کہا ہے کہ ’’ امامت ان کے بعد ان کے بڑے بیٹے میں ہوگی۔‘‘

اور امام نے کہا ہے :’’ امام وہ ہوگا جو میری جگہ پر بیٹھے گا۔‘‘ اور یہی ان کے جگہ پر بیٹھے تھے۔ اور عبد اللہ اپنے والد کی وفات کے بعد ستر دن ہی زندہ رہے، پھر ان کا انتقال ہوگیا اور اپنے پیچھے کوئی نرینہ اولاد نہیں چھوڑی۔

چوتھا :… شمیطیہ :

یہ لوگ یحی بن ابی شمیط کے پیرو کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ : ’’(امام) جعفر نے کہا ہے: 

(( إن صاحبکم إسمہ إسم نبیکم ))

 …’’ بے شک تمہارے ساتھی کا نام تمہارے نبی کا نام ہوگا۔‘‘

اور ان کے والد رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا تھا: ’’اگر تمہارے گھر بچہ پیدا ہو اور اس کا نام میرے نام پر رکھو، تو اس کے بعد اس کا بیٹا محمد امام ہوگا۔‘‘

پانچواں : اسماعیلیہ واقفہ

ان کا کہنا ہے کہ جعفر کے بعد امام اسماعیل ہے ؛ اس پر ان کی تمام اولاد متفق ہے۔ صرف یہ کہ ان کے والد کی زندگی میں ہی ان کی وفات کی وجہ سے ان میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ : ’’ آپ نہیں مرے۔‘‘بلکہ انہوں نے خلفاء بنی عباس کے خوف سے تقیہ کرتے ہوئے موت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ایک اجتماع بھی منعقد کیا ہے جس پر مدینہ کے گورنر منصور کو گواہ بنایا ہے۔

چھٹا:… موسویہ مفضلیہ:

یہ لوگ موسیٰ بن جعفر [ابو الحسن موسیٰ الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر ؛ امامیہ کے نزدیک بارہ اماموں میں سے ایک ہیں۔ ان کے کئی نادر قسم کے قصے ہیں۔ آپ کی پیدائش بروز منگل ۱۲۹ہجری میں پیدا ہوئے ؛ اور ۲۵ رجب ۱۸۳ ہجری میں انتقال ہوا۔ دیکھو: ابن خلکان : وفیات الأعیان (۵/ ۳۰۸) ۔] کے امام ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، اور کہتے ہیں ان کے امام ہونے کے بارے میں نام کے ساتھ نص موجود ہے۔ صادق رضی اللہ عنہ نے کہا ہے :

’’ سابعکم قائمکم ‘‘

… ’’تمہارا ساتواں تمہارا قائم ہوگا۔‘‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے :

’’ صاحبکم قائمکم‘‘

…’’ تمہارا ساتھی تمہارا قائم ہوگا۔‘‘انہیں صاحب ِ تورات بھی کہا جاتا ہے۔

پھر جب موسیٰ بن جعفر کا انتقال ہوگیا ؛ تو ان میں سے بعض نے ان کی موت کے بارے میں توقف اختیار کیا؛ اور کہنے لگے : ’’ ہمیں پتہ نہیں ہے کہ وہ مر گئے ہیں یا نہیں مرے۔‘‘ انہیں ’’ممطورہ ‘‘(بارش میں بھیگے کتے )کہا جاتا ہے۔ ان کا یہ نام علی بن اسماعیل نے رکھا ہے۔ انہوں نے ان سے کہا تھا :’’ تم تو صرف بارش میں بھیگے ہوئے کتے ہو۔‘‘ ان میں سے بعض نے ان کی موت کے بارے میں قطعی یقین سے کہا کہ وہ مر گئے ہیں، ان کا نام ’’ قطعیہ ‘‘ پڑ گیا۔ اور ان میں سے بعض نے موت کے بارے میں توقف کیا اور کہنے لگے : آپ مرے نہیں ہیں، بلکہ غائب ہوگئے ہیں، اور عنقریب خروج کریں گے۔ انہیں ’’ واقفہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔

ساتواں :… اثنا عشریہ :

جن لوگوں نے موسیٰ الکاظم بن جعفر الصادق کی موت کے قطعی(دو ٹوک اور یقینی ) ہونے کا کہا ؛ انہیں ’’ قطعیہ ‘‘ کہا جانے لگا۔ انہوں نے امامت کا سلسلہ اس کے بعد اس کی اولاد میں چلایا ؛ اور کہنے لگے : ’’موسیٰ کاظم کے بعد امام اس کا بیٹا علی رضا [ابو الحسن علی رضا بن موسیٰ الکاظم۔ شیعہ امامیہ کے اعتقاد کے مطابق یہ ان کے بارہ اماموں میں سے ایک ہے۔ مامون نے ان کی شادی اپنی بیٹی ام حبیب سے کردی تھی۔ ان کی پیدائش مدینہ میں ۱۵۳ ہجری کے کچھ ماہ گزرنے کے بعد جمعہ کے دن ہوئی۔ اور ۲۰۲ ہجری میں صفر کے آخر میں مدینہ میں ہی وفات ہوئی۔ ابن خلکان : وفیات الأعیان ۵/ ۳۰۸۔] ہوگا، اس کے بعد محمد تقی الجواد [ ابو جعفر محمد بن علی رضا، امامیہ شیعہ کے اماموں میں سے ایک امام۔ ایک وفد کے ساتھ خلیفہ معتصم کے پاس بغداد تشریف لائے ؛ ان کے ساتھ ان کو بیوی ام الفضل بنت مامون بھی تھی وہیں پر وفات پائی۔ ان کی بیوی کو اس کے چچا معتصم کے پاس اس کے قصر میں لے جایاگیا۔ آپ کی پیدائش ۵ رمضان ۱۹۵ ہجری میں ہوئی تھی۔ اور وفات ۵ ذو الحجہ ۲۲۰ ہجری میں ہوئی۔ دیکھو: ابن خلکان : وفیات الأعیان (۴/ ۱۷۵) ۔] ہوگا۔ پھر ان کے بعد ان کا بیٹا علی بن محمد تقی امام ہوگا۔ اور اس کے بعد حسن عسکری ہوگا [ ابو محمد الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسیٰ الرضا؛ امامیہ شیعہ کے اعتقاد کے مطابق اثنا عشریہ کے ائمہ میں سے ایک امام ہیں۔ یہ غار میں چھپے ہوئے امام منتظر کے والد ہیں۔ اور انہیں عسکری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کے والد علی کو بھی اسی نسبت سے جانا جاتا ہے۔ آ پ ۲۳۱ ہجری میں جمعرات کے دن پیدا ہوئے۔ اور بروز بدھ ماہ ربیع الاول کی آٹھ تاریخ کو ۲۶۰ ہجری میں انتقال ہوا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے :جو انہیں دیکھے گا خوش نصیب ہوگا۔‘‘ دیکھو: ابن خلکان : وفیات الأعیان (۲/ ۹۴) ۔] او راس کے بعد اس کا بیٹا محمد القائم [ابو القاسم محمد بن حسن العسکری امامیہ کے اعتقاد کے مطابق اثنا عشریہ کے بارہویں امام۔ جو ’’الحجۃ‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔ ان کے بارے میں شیعہ کا گمان ہے کہ ان کا انتظار کیا جارہا ہے۔ اور یہی قائم اور مہدی ہے۔ اور ان کے ہاں غار والا امام یہی ہے۔ دیکھو: ابن خلکان : وفیات الأعیان (۴/ ۱۷۶) ۔ حقیقت میں اس مہدی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، جس کی وضاحت آنے والے صفحات’’رافضیوں کے ہاں وجود ِمہدی کی حقیقت‘‘ میں ہوگی ؛ اور وہاں پر ان کے اس دعویٰ کا پر زور رد کیا جائے گا] ہوگا، جس کا انتظار کیا جارہا ہے، اور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے، جو اسے دیکھے گا خوش بخت ہوگا۔ یہ بارہواں امام ہے۔

 [أنظر : الملل والنحل : ۱/ ۱۶۵- ۱۶۹۔] 

رافضیوں کے یہ فرقے شہرستانی نے ذکر کیے ہیں۔ پھر ان سے دوسرے فرقے بھی نکلے ہیں، جن کے بارے میں لکھنے والے دوسرے علماء نے تفصیل سے لکھا ہے۔ یہاں پر ان کی تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے کہ شہرستانی کے ذکر کردہ فرقے باقی تمام فرقوں کی اصل بنیاد ہیں۔