سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا استخلاف استخلاف سے متعلق فقہ عمری
علی محمد الصلابیسیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا استخلاف
استخلاف سے متعلق فقہ عمری
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو وحدت امت اور اس کے مستقبل کی فکر برابر دامن گیر تھی۔ یہاں تک کہ زندگی کے آخری لمحات میں بھی جب کہ آپؓ گہرے زخموں کے آلام سے چور تھے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ناقابلِ فراموش لمحات ہوتے ہیں، لیکن اس میں سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کا ایمان عمیق اور اخلاص و ایثار روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے۔
(الخلیفۃ الفاروق عمر بن الخطاب، العانی: صفحہ، 161)
ان نازک لمحات میں سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے جدید خلیفہ کے انتخاب کا نیا طریقہ ایجاد کیا جس کی مثال سابق میں نہیں ملتی، اور جو اسلامی سلطنت کی سیاست میں آپؓ کی فقہ و فراست کی واضح علامت اور دلیل ہے۔ آپؓ سے قبل رسول اللہﷺ نے اپنے بعد نصِ صریح سے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں فرمایا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نامزد کر دیا اور جب سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ سے اس وقت جب کہ آپؓ بستر مرگ پر تھے خلیفہ کی نامزدگی کا مطالبہ کیا گیا تو آپؓ نے اولاً اس سلسلہ میں غور و فکر کیا، اور یہ فیصلہ کیا کہ ایسا اسلوب اختیار کرنا چاہیے جو حالات کے مناسب ہو۔
رسول اللہﷺ نے جس وقت وفات پائی تھی اس وقت سب ہی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت اور اسبقیت کے معترف تھے۔ اس وقت اختلاف کا احتمال نادر تھا، اور خاص کر جب کہ رسول اللہﷺ نے اپنے قول و فعل سے امت کی رہنمائی فرما دی تھی کہ آپﷺ کے بعد خلافت کے لیے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ زیادہ مستحق ہیں۔
اور جس وقت سیدنا صدیقؓ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نامرد کیا وہ بخوبی جانتے تھے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس بات پر یقین و اطمینان حاصل ہے کہ آپؓ کے بعد خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے سب سے افضل و قوی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں، اسی لیے کبار صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کر کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں خلافت کی باگ ڈور دے دی، اور کسی نے بھی ان کی اس رائے کی مخالفت نہ کی، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیعتِ خلافت پر اجماع ہو گیا۔
(اولیات الفاروق، د۔ غالب عبدالکافی القرشی: صفحہ، 122)
لیکن جدید خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ شوریٰ کو مخصوص تعداد میں محصور کر دیا گیا، اور چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے لیے خاص کر دیا گیا، جن میں سے ہر ایک خلافت کے لیے مناسب و موزوں تھا اگرچہ ان کے مابین تفاوت موجود تھا، اسی طرح آپؓ نے طریقہ انتخاب اور اس کی مدت کی تحدید فرما دی، اور ان دونوں کی تعداد کی بھی تعیین فرما دی جو خلیفہ کے انتخاب کے لیے کافی تھے۔ اس مجلس انتخاب کے لیے حکم (فیصل) اور اگر ووٹ برابر ہوں تو مرجح کی بھی تعیین فرما دی، اور مجلس انتخاب میں انتخابی کارروائی کی نگرانی، فتنہ و فساد کو روکنے اور جماعت کی مخالفت کرنے والے کو سزا دینے کے لیے اللہ کے لشکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو مقرر فرمایا تاکہ اہلِ حل و عقد کی مجلس میں جو انتخابی کارروائی ہو اس میں نہ تو کوئی داخل ہو سکے اور نہ سن سکے۔
(اولیات الفاروق، د۔ غالب عبدالکافی القرشی: صفحہ، 124)