قاتلین حسین عوامی عدالت میں!
مولانا اللہ یار خانقاتلین حسین عوامی عدالت میں! (مولانا اللہ یار خان)
امام مظلوم
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے وطن سے دُور جس بے نوائی کی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی اور جس عظیم قربانی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے کنبے کو شہید کروایا اس کی مثال تاریخ انسانی میں ڈھونڈے نہیں ملے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسلام کے اس عظیم فرزند پر مصائب کس جانب سے آئے، کون سے ہاتھ ان کے لیے آگے بڑھے اور کیوں؟
اس واقعہ کے عینی شاہد یا تو قاتل ہیں یا مقتولین کے گروہ میں سے جو بچ گئے۔ اس لیے سادہ طریق تحقیق تو یہ ہے کہ بچے کھچے مظلومین سے پوچھا جائے کہ تمہارا قاتل کون ہے اور قاتل گروہ سے پوچھا جائے کہ تمہارا جواب دعوی کیا ہے۔ اگر مدعی کے بیان کے بعد ملزم اپنے جرم کا اقرار کر لے تو کسی شہادت کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور اقرارِ جرم کے بعد ملزم، ملزم نہیں رہتا بلکہ مجرم قرار پاتا۔
♦️موضوع:-♦️
قاتلین حسین کون تھے؟ شیعہ یا غیر شیعہ؟
جواب کے لیے مقدمات:
1۔ مدعی کون تھے؟
2۔ مدعا علیہ کون ہے یعنی مدعی کا دعویٰ کس کے خلاف ہے؟
3۔ گواہ کون ہیں؟
4۔ کیا وہ عینی شاید ہیں یا ان کی شہادت سماعی ہے؟
5۔ اگر یہ شہادت مدعی کے بیان کے موافق ہے تو دعویٰ ثابت اگر خلاف ہے تو مردود
ان امور کی روشنی میں واقعہ کا جائزہ لینا چاہیے۔
مقدمہ اول:-
مدعی حضرت حسین رضی اللہ عنہ، آپ رضی اللہ عنہ کے اہلبیت اور آپ رضی اللہ عنہ کے ہمراہی ہیں۔جن پر ظلم ہوا۔ یہ خیال رہے کہ شیعہ کے نزدیک امام معصوم ہوتا ہے یعنی گناہ صغیرہ اور کبیرہ سے پاک ہوتا ہے اور مفترض الطاعتہ ہے۔
مقدمہ دوم:-
مدعا علیہ وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ظلم سے قتل کیا۔
مقدمہ سوم:-
قاعدہ کی رو سے گواہ مدعی اور مدعا علیہ سے جدا کوئی اور ہونا چاہیے۔
مقدمہ چہارم:-
کوئی عینی شاہد نہیں جو چشم دید واقعہ بیان کر سکے کیونکہ کربلا چٹیل میدان تھا، اس کے گرد کوئی آبادی نہ تھی اس لیے جو گواہ پیش ہوگا اس کی شہادت سماعی ہوگی۔
مقدمہ پنجم:-
چونکہ شہادت سماعی ہے اس لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ گواہ نے یہ واقعہ قاتلین کی زبانی سنا یا مقتولین کی زبان سے، جو صورت بھی ہو یہ دیکھنا ہوگا کہ شہادت مدعی کے دعوی کے مطابق ہے تو قبول ورنہ مردود۔ اگر شہادت مدعی کے بیان کے خلاف ہے تو لازم آئے گا کہ گواہ نے مدعی کو جھوٹا قرار دیا اور امام معصوم کو جھوٹا قرار دینے والے کی شہادت کیونکر قبول ہو سکتی ہے۔ لہذا کوئی ایسی روایت یا خبر کسی راوی اور خواہ کسی کتاب سے لی گئی ہو لازماً مردود ہوگی۔
یاد رہے اس تحقیق کے بعد جو مجرم ثابت ہو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اسے مجرم سمجھے ورنہ اس آیت کا مصداق ہو گا
وَمَن يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا (پ 5 آیت112)
دعویٰ کی تفصیل۔ بیانات مدعیان
۔ بیان مدعی نمبر1:-
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں دشمن کی فوج کو مخاطب کرکے فرمایا:-
"اے اہل کوفہ! حیف ہے تم پر، کیا تم اپنے خطوط اور وعدوں کو بھول گئے جو تم نے خدا تعالی کو اپنے اور ہمارے درمیان دے کر لکھے تھے کہ اہل بیت آئیں ہم ان کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔ حیف ہےتم پر۔ تمہارے بلاوے پر ہم آئے اور تم نے ہمیں ابن زیاد کے حوالے کردیا اور ہمارے لئے فرات کا پانی بند کر دیا واقعی تم لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے خلاف ہو کہ حضور کی اولاد کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔ اللہ تمہیں قیامت کے دن سیراب نہ کرے۔"
( ذبح عظیم حوالہ ناسخ التواریخ صفحہ 335)
♦️امام کے بیان سے دو باتیں ثابت ہوئیں۔
1۔ اہل کوفہ نے امام کو خطوط لکھ کر کوفہ بلایا اور عہد دیا کہ امام کی مدد کے لئے مرنے مارنے پر تیار ہوں گے۔
2۔ جنہوں نے خطوط لکھ کر کوفہ بلایا انہوں نے امام پر پانی بند کردیا اور امام کو قتل لیے ابن زیاد کے حوالے کردیا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ بلانے والے شیعہ تھے یا کوئی اور گروہ تھا۔
اہل تشیع مجتہد قاضی نور اللہ شوستری نے مجالس المومنین ص 25-مجلس اول میں تصریح کر دی۔
"تشیع اہل کوفہ حاجت با قامت دلیل نداردوسنی بودن کوفی الاصل خلاف اصل ومحتاج دلیل است اگرچہ ابو حنیفہ کوفی است"
" اہل کوفہ کے شیعہ ہونے کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں۔ کوفیوں کا سنّی ہونا خلافِ اصل ہے جو محتاجِ دلیل ہے اگرچہ ابو حنیفہ کوفی تھے"
♦️شیعہ عالم شوستری کی شہادت کے مطابق اہل کوفہ کا شیعہ ہونا اظہر من الشمس ہے۔
پھر بھی مزید دو شہادتیں پیش کی جاتی ہیں۔
ا۔ جب مقام زیالہ پر امام حسین رضی اللہ عنہ کو امام مسلم کی شہادت کی خبر ملی
تو امام نے فرمایا "خذلنا شیعتنا یعنی ہمارے شیعہ نے ہمیں ذلیل کیا ہے"
(خلاصہ المصائب صفحہ 49)
ب۔ جلال العیون اردو۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے معرکہ کربلا میں شیعہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
"تم پر اور تمہارے ارادے پر لعنت ہو اے بے وفایان جفاکار! تم نے ہنگامہ اضطراب واضطرار میں ہمیں اپنی مدد کے لیے بلایا جب میں نے تمہارا کہنا مانا اور تمہاری نصرت اور ہدایت کرنے کو آیا اس وقت تم نے شمشیر کینہ مجھ پر کھینچی اپنے دشمنوں کی تم نے یاوری اور مددگاری کی اور اپنے دوستوں سے دستبردار ہوئے۔"
ان بیانات سے ثابت ہوگیا کہ امام کو شیعوں نے بلایا۔ انہوں نے پانی بند کیا اور انہوں نے ہی قتل کے لیے ابن زیاد کے حوالے کیا۔
جلاء العیون میں امام کے بیان کے دوران شمشیر کینہ کا لفظ قابل توجہ ہے یعنی کوفی شیعوں کے دلوں میں کوئی پرانا بغض تھا اس لیے انتقام لینے کی غرض سے یہ ناٹک کھیلا۔ تاریخی اعتبار سے اس دیرینہ عداوت کی وجہ اس کے بغیر کیا ہو سکتی ہے کہ اسلام کے شیدائیوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانوں نے اہل کوفہ سے اپنا آبائی مذہب چھڑا کر اسلام کی دولت عطا کی اور صدیوں کی پرانی سلطنت عرب مسلمانوں کے زیرنگیں آ گئی۔ آخر قومی اور مذہبی تعصب بروئے کار آ کے رہا۔
نتیجہ؛ مدعی نمبر1 کے بیان کے مطابق امام کے قاتل اہل کوفہ شیعہ تھے کوئی اور نہیں تھا۔
بیان مدعی نمبر۔2
حضرت امام زین العابدین:-
( احتجاج طبری طبع ایران صفحہ 159)
"اے لوگو! میں تمہیں خدا کی قسم دلاتا ہوں کیا تمہیں علم نہیں کہ تم نے میرے والد کو خطوط لکھے اور انہیں دھوکہ دیا۔ تم نے پختہ ارادہ اور بیعت کا عہد لیا اور تم نے انہیں قتل کیا ذلیل کیا۔ خرابی ہو تمہارے لئے جو کچھ تم نے اپنے لیے آگے بھیجا ہے اور خرابی ہو تمہاری بری رائے کی۔ تم کس آنکھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو گے جب وہ فرمائیں گے تم نے میری اولاد کو قتل کیامیری بے حرمتی کی۔ تم میری امت سے نہیں ہو۔ پس رونے کی آواز بلند ہوئی اور ایک دوسرے کو بد دعا دینے لگے کہ تم ہلاک ہو گئے جس کا تمہیں علم ہے۔"
اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ بلانے والوں سے مخاطب ہیں اور وہی قاتل ہیں۔ ردِ عمل میں ان کا یہ اعتراف بھی موجود ہے۔
بیان دیگر:-
( احتجاج طبری صفحہ 108)
"جب زین العابدین مرض کی حالت میں عورتوں کے ساتھ کربلا سے آرہے تھے اہل کوفہ کی عورتیں گریبان چاک کیے بین کرنے لگیں اور مرد بھی رو رہے تھے پس زین العابدین نے پست آواز میں فرمایا کیونکہ بیماری کی وجہ سے کمزور ہو چکے تھے کوفہ والے روئے ہیں مگر یہ تو بتاؤ ہمیں قتل کس نے کیا؟"
ملا باقر مجلسی نے جلاالعیون صفحہ 503 پر امام کا بیان انہی الفاظ میں نقل کیا ہے۔
"امام زین العابدین نے با آوازِ ضعیف فرمایا کہ تم ہم پر گریہ اور نوحہ کرتے ہو لیکن یہ تو بتاؤ ہمیں قتل کس نے کیا ہے؟
امام کے سوال اور اس لہجے کے اندر اس کا جواب پوشیدہ ہے۔
مدعی نمبر2 کے بیان سے یہ نتیجہ نکلا کہ:
1۔ اہلِ کوفہ نے خط لکھے۔
2۔ اہلِ کوفہ نے حضرت حسین کو دھوکا دیا۔
3۔ اہلِ کوفہ نے حضرت حسین کو قتل کیا۔
4۔اہلِ کوفہ شیعہ تھے۔
5۔قاتلینِ حسین کوفی شیعہ امت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خارج ہیں۔
6۔قاتلینِ حسین رضی اللہ عنہ روئے اور ان کی عورتوں نے گریبان چاک کئے اور بین کیے بلکہ مستقل سنت قائم کر گئے
یہ خیال رہے کہ دونوں مدعی معصوم ہیں اس لئے اپنے دعویٰ میں صادق ہیں۔
بیان مدعی نمبر 3: زینب بنتِ علی رضی اللہ عنہا ہمشیرہ حسین رضی اللہ عنہ۔
جب اسیرانِ کربلا، کربلا سے آئے کوفہ میں داخل ہوئے تو کوفہ کے مردوں اور عورتوں نے رونا پیٹنا شروع کردیا تو حضرت زینب نے فرمایا:
"حمد و صلاۃ کے بعد فرمایا اے اہل کوفہ! اے ظالموں !اےغدارو! اےرسوا کرنے والو۔۔۔۔۔۔۔ بہت بُرا ہے جو تم نے اپنے آگے بھیجا ہے یہ کہ اللہ تم پر ناراض ہو اور تم ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہو...تم روتے رہوہاں روتے رہو... کیونکہ تمہیں رونا ہی زیب دیتا ہے...خوب روؤ اور کم ہنسو...کل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دو گے جب آپ پوچھیں گے تم آخری امت ہو.... تم نے میرے بعد میرے اہلِ بیت اور میری اولاد سے کیا سلوک کیا ان میں سے بعض کو قیدی بنایا اور بعض کو خاک و خون میں لوٹایا"
اس خطبے کا ترجمہ باقر مجلسی میں جلاءالعیون صفحہ نمبر 503 پر یہ دیا ہے:
"اما بعد! اے اہلِ کوفہ!اے اہلِ غدور مکروحیلہ! تم ہم پر گریہ و نالہ کرتے ہو اور خود تم نے ہمیں قتل کیا ہے۔ ابھی تمہارے ظلم سے ہمارا رونا بند نہیں ہوا اور تمہارے ستم سے ہماری فریاد ونالہ ساکن نہیں ہوا۔۔۔۔ تم نے اپنے لئے آخرت میں توشہ و ذخیرہ بہت خراب بھیجا ہے اور اپنے آپ کو ابدالآباد جہنم کا سزا وار بنایا ہے تم ہم پر گریہ ونالہ کرتے ہو حالانکہ تم نے خود ہی ہم کو قتل کیا ہے۔۔۔۔ تمہارے یہ ہاتھ قطع کیے جائیں۔ اے اہلِ کوفہ! تم پر وائے ہو تم نے جگر گوشۂ رسول کو قتل کیا اور پردہ دار اہلِ بیت کو بے پردہ کیا۔ کس قدر فرزندانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تم نے خونریزی کی اور حرمت کو ضائع کیا"۔
نتیجہ:-
1۔ اہلِ کوفہ نے مکروحیلہ سے امام کو بلایا۔
2۔ امام سے غداری کی اور اہلِ بیت کو قتل کیا۔
3۔ یہ سب کچھ کر لینے کے بعد رونا پیٹنا شروع کر دیا۔
4۔ ان کو ابدی جہنم کی خوشخبری سنائی گئی۔
5۔ باطل وہی تھے جو بلانے والے تھے۔ شیعہ تھے تو اس جرم کے مرتکب اور ابدی جہنم کے مستحق وہی شیعہ ٹھہرے۔
بیان مدعی نمبر4:
حضرت فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہ۔
"اما بعد اے اہل کوفہ! اے اہلِ مکروفریب۔۔۔ تم نے ہمیں جھٹلایا اور ہمیں کافر سمجھا۔ ہمارے قتل کو حلال اور ہمارے مال کو غنیمت جانا جیسا کہ ہم ترکوں یا کابل کی نسل سے تھے۔ جیسا کہ تم نے کل ہمارے جد(علی) کو قتل کیا تھا تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپک رہا ہے۔ سابقہ کینہ کی وجہ سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں دل خوش ہوۓ تم نے خدا کے مقابلے میں جرأت کی اور مکر کیا اور اللہ اس مکر کی خوب سزا دینے والا ہے۔"
بیٹی امام مظلوم کے بیان کا نتیجہ
1۔کوفہ کے شیعوں نے اہل بیت کو کافر سمجھا اور ان کا خون حلال سمجھا۔
2۔شیعوں کو اہل بیت سے کوئی پرانی دشمنی تھی۔
3۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتل شیعہ ہیں۔
4۔اہل بیت کو قتل کرکے یہ لوگ خوش ہوئے۔
وہ رونا پیٹنا محض ایکٹنگ تھی۔
بیان مدعی نمبر 5:
ام کلثوم ہمشیرہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ
جب کوفی عورتوں نے اہلبیت کے بچوں کو صدقے کی کھجوریں میں نے شروع کیں تو مائی صاحبہ نے فرمایا؛ صدقہ ہم پر حرام ہے۔ یہ سن کر کوفی عورتیں رونے پیٹنے لگیں اس پر مائی صاحبہ نے فرمایا؛
" یہ اہلِ کوفہ ہم پر تصدق حرام ہے۔ اے زنان کوفہ! تمہارے مردوں نے ہمارے مردوں کو قتل کیا ہم اہلبیت کو اسیر کیا ہے پھر تم کیوں روتی ہو؟"
( جلاءالعیون صفحہ 507)
نتیجہ ظاہر ہے۔ ان پانچ مدعیان کے بیانوں میں قدر مشترک یہ ہے:
1۔اہلِ کوفہ نے امام حسین کو دعوت دی، خود لکھے۔
2۔دعوت دینے والے شیعہ تھے۔
3۔ان بلانے والے شیعہ نے امام کو قتل کیا، اہل بیت کو اسیر کیا، ان کا مال لوٹا۔
4۔قاتلینِ حسین رضی اللہ عنہ کی عورتوں نے گریبان چاک کیے، بین کیے۔
5۔قاتلینِ حسین رضی اللہ عنہ شیعہ امت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خارج ہیں۔۔
ایک اور ہستی کا بیان ملاحظہ ہو جسے مدعی بھی کہہ سکتے ہیں اور گواہ بھی وہ ہیں امام باقر انہوں نے یہ واقعات لازماً اپنے والد امام زین العابدین سے سنے ہوں گے اور وہ خود بھی بقول شیعہ امام معصوم ہیں۔
جلاء العیون صفحہ 326
"جب امیرالمومنین سے بیعت کی پھر ان سے بیعت شکستہ کی اور ان پر شمشیر کھینچی اور امیرالمومنین ہمیشہ ان سے بمقام مجادلہ اور محاربہ تھے اور ان سے آزاد مشقت پاتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کو شہید کیا اور ان کے فرزند امام حسن سے بیعت کی اور بعد بیعت کرنے کے ان سے غدر اور مگر کیا اور چاہا کہ ان کو دشمن کو دے دیں۔ اہل عراق سامنے آئے اور خنجر ان کے پہلو پر لگایا اور خیمہ ان کا لوٹ لیا یہاں تک کہ ان کی کنیز کے پاؤں سے خلخال اتار لئے اور ان کو مضطرب اور پریشان کیا حتی کہ انہوں نے معاویہ سے صلح کرلی اور اپنے اہل بیت کے خون کی حفاظت کی اور ان کے اہلبیت کم تھے۔ پس ہزار مرد عراقی نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور جنہوں نے بیعت کی تھی خود انہوں نے شمشیر امام حسین پر چلائی اور ہنوز بیعت امام حسین ان کی گردنوں میں تھی کہ امام کو شہید کیا"۔
اس بیان سے بات بالکل واضح ہو گئی
"سابقہ کینہ کے شواہد"
فاطمہ دختر امام حسین کے بیان میں سابقہ کینہ کے الفاظ ہیں ان کی تاریخی تعبیر یہ ہے:
1۔ جلاالعیون صفحہ 230 پر بیان ہے کہ عبدالرحمن ابن ملجم نےحضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور بیعت کر کے جناب امیر (حضرت علی) کو شہید کیا۔
کہا جاتا ہے کہ یہ خارجی تھا مگر تاریخ سے اس بات کا نشان تک نہیں ملتا کہ خارجیوں نے کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہو۔ وہ تو کھلم کھلا مخالفت تھےاور تقیہ بھی نہیں کرتے تھے۔ جب ابن ملجم نے جناب امیر کی بیعت کی تو شیعان علی میں شامل ہو گیا ۔یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قاتل بھی شیعہ تھا۔
2۔ احتجاج طبری طبع ایران صفحہ 150 امام حسن کا بیان:
"خدا کی قسم میں معاویہ کو ان شیعوں سے اچھا سمجھتا ہوں۔ وہ میرے شیعہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور انہوں نے مجھے قتل کرنا چاہا اور میرا مال لوٹ لیا۔"
ان اقتباسات سے ظاہر ہے شیعوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا، حضرت حسن کو قتل کرنا چاہا، اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرکے دم لیا۔ غالباً اسی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دس شیعہ دے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی لے لینے کی آرزو کی تھی۔
نہج البلاغہ جلد اول صفحہ 189 حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:-
"فاخذ منی عشرۃ واعطانی رجلا منھم"
گویا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی ایمان اور وفاداری میں اتنے قابل اعتماد تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کا ایک آدمی لے کر اس کے بدلے دس شیعہ دینے کو تیار تھے۔ قرآن مجید میں ایک اور دس کی نسبت کا ذکر ہے۔
"ان یکن منھم عشرون صابرون یغبر ماتین"
"اے مسلمانوں تمہارے 20 صابر آدمی میں کفار کے 200 پر غالب آ سکتے ہیں"۔
ممکن ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی تقابل میں اسی کی رعایت ملحوظ رکھی ہو۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتماد تھا اور انہوں نے ان دونوں کی حفاظت بھی کی۔ دونوں حضرات نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت بھی کر لی اور ان سے وظیفہ بھی لیتے رہے۔ اس کے برعکس شیعہ نے ایک بھائی کو قتل کرنا چاہا دوسرے کو قتل کر دیا۔
اب مدعا علیہ کے جوابِ دعویٰ کو دیکھنا ہے۔ اگر اس میں اقرار جرم موجود ہے تو شہادت کی ضرورت نہیں۔ اگر انکار کرے تو گواہ ضروری ہیں۔
بیان مدعا علیہ:-
مجالس المومنین میں قاضی نور اللہ شوستری بیان فرماتے ہیں:۔ صفحہ 441
"اب ہم اپنی بد اعمالیوں پر نادم ہیں چاہتے ہیں توبہ کریں شاید اللہ تعالی ہم پر رحمت فرما کر ہماری توبہ قبول کر لے اور جماعت سے جتنے لوگ( ابن زیاد کی فوج میں امام کو قتل کرنے) کربلا میں گئے تھے صبح عذر کرنے لگے۔ سلیمان بن صرد نے کہا اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم اپنے آپ کو تیغ بدست میدان میں لائیں جیسے بنی اسرائیل نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا الخ یہ کہہ کر تمام شیعہ استغفار کے لیے زانو کے بل گر پڑے"
نوٹ:- سلیمان بن صرد وہی شخص ہے جس کے مکان میں جمع ہوکر شیعہ نے امام کو کوفہ آنے کا دعوت نامہ تیار کیا تھا۔ مدعا علیہ نے اقرار جرم کرلیا اور توبہ بھی کرلی مگر فائدہ؟
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
مدعا علیہ نے اقرار جرم کرلیا اور ثابت ہوگیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل کوفی شیعہ ہیں جنہوں نے امام کو گھر بلا کر بے دردی سے قتل کیا۔ مگر احتیاطا مزید چھان بین کر لینی چاہیے۔ ممکن ہے کہ کسی اور کا ہاتھ بھی ہو۔
خلاصۃ المصائب صفحہ 201
لیس فیھم شامی ولا حجازی بل جمیعھم من اھل الکوفۃ
" امام حسین کے قاتلوں میں کوئی ایک بھی شامی یا حجازی نہیں تھا بلکہ سب کے سب کوفی تھے"
ظاہر ہے وہ اہل کوفہ وہی تو تھے جو شیعہ تھے اور امام کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی۔ مگر حیرت ہے کہ اماموں کو قتل کرنے والوں کے متعلق شیعہ کے ہاں ایک عجیب فتویٰ ہے۔
جلاء العیون صفحہ 413:-
" احادیث کثیرہ میں ائمہ اطہار علیہم السلام سے منقول ہے کہ پیغمبروں اور ان کے اوصیاء کو اور ان کی ضروریات کو قتل نہیں کرتا مگر ولد الزنا، اور ان کے قتل کا ارادہ نہیں کرتا مگر فرزندزنا فامنۃ اللہ علیہم اجمعین الی یوم الدین۔
"مدعیان نے ان کوفی شیعوں کو جہنم کی بشارت تو دے دی تھی اب آئمہ اطہار کے اس فتوی سے ان کی دنیوی حیثیت بھی متعین ہو گئ۔ ممکن ہے کوفہ کے شیعوں کو یہ فتوی نہ پہنچا ہو مگر علم نہ ہونے سے حکومت تو نہیں بدل جاتا۔ آخر یہ آئمہ اطہارکا فتوی ہے کسی عام آدمی کا نہیں۔
ایک امر غورطلب باقی رہ گیا ہے کہ چلو امام کےقاتل اہل کوفہ شیعہ ثابت ہوگۓ مگر یزید کا حصہ اس میں ضرور ہوگا کیونکہ وہ حاکم وقت تھا۔ مدعا علیہم سے ہی اس کے متعلق پوچھتے ہیں شاید وہ اسے بھی اپنے ساتھ شامل کریں۔
1۔ احتجاج طبری صفحہ 162 امام زین العابدین نے یزید سے سوال کیا میں نے سنا ہے تم میرے والد کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یزید نے جواب دیا:
"قال یزید لعن اللہ ابن مرجانۃفواللہ ما امرتہ بقتل ابیک ولو کنت متولیا لقتالہ ما قلتہ"
"یزید نے کہا اللہ ابن زیاد پر لعنت کرے بخدا میں نے اسے تیرے والد کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اگر میں خود معرکہ کربلا میں ہوتا تو انہیں ہرگز قتل نہ کرتا"
مدعا علیہ نے یزید کی صفائی پیش کردی مگر اس کا بیان کافی نہیں حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔
1۔ خلاصۃ المصائب صفحہ 304 جب شمر نے امام کا سر یزید کے سامنے پیش کیا اور انعام کا مطالبہ کیا تھا تو
فغضب یزید ونظر الیہ نظرا شدید او قال ملاء اللہ رکابک نارا ویل لک افا علعت انہ خیر الخلق فھم قتلتہ اخرج من بین یدی لا جائزۃ لک عندی۔
"پس یزید نے غضب ناک ہو کر شمر کی طرف دیکھا اور کہا اللہ تیری رکاب کو آگ سے بھر دے۔ تیرے لیے ہلاکت ہو۔ جب تجھے یہ علم تھا کہ یہ ساری مخلوق سے افضل ہیں تو نے انہیں کیوں قتل کیا۔ دور ہو جا میری آنکھوں سے تیرے لیے کوئی انعام نہیں"
2۔ جلاء العیون صفحہ 529 پر ہے کے نام کے طالب کو قتل کردیا۔
اگر یزید نے قتل کا حکم دیا تھا تو شمر کہہ دیتا کہ آپ نے حکم دیا تھا میں نے تعمیل کی اور یہ بات روایت میں مذکور ہوتی مگر ان میں سے کوئی صورت بھی موجود نہیں۔
4۔۔نہج الاحزان طبع ایران صفحہ 321
کسے وارد شد خبر دو گفت دیدۂ تو
روشن کہ سر حسین وارد شدآں نظر غضبناک
کردو گفت دیدہ ات روشن مباد
" کسی نے یزید کو اطلاع دی تیری آنکھیں روشن ہوں حسین کا سر آ گیا۔ یزید نے نگاہِ غضب سے دیکھا اور کہا تیری آنکھیں بے نور ہوں"
ان روایات سے ظاہر ہے کہ مجرموں نے یزید کو بری قراردیا ہے۔ غالبا اسی بنا پر امام زین العابدین کو تسلی ہو گئی اور یقین آگیا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں یزید کا ہاتھ نہیں۔ اس لیے انہوں نے یزید کی بیعت کر لی بلکہ یہاں تک کہہ دیا
انا عبد مکرہ اشئت فاسک وان شئت فبع۔
"اے یزید میں تمہارا غلام ہوں۔ چاہے مجھے رکھ لے چاہے فروخت کر دے"
( روضہ کافی، جلاء العیون)
یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ قاتلینِ حسین رضی اللہ عنہ کوفی شیعہ تھے جیسا کہ مدعیان کا دعوی ہے اور مدعا علیہم نے اقرارِ جرم کرلیا۔ البتہ ایک مسئلہ حل طلب ہے۔
اصول کافی طبع نو لکشور صفحہ 158 پر ایک اصول بیان ہوا ہے:-
ان الائمۃ یعلمون متی یموتون وانھم لا یعرتون الا باختیارھم
"تحقیق ائمہ کرام کو اپنی موت کے وقت علم ہوتا ہے اور وہ اپنے اختیار سے مرتے ہیں"
اصول کے پیش نظر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں
1. حسین رضی اللہ عنہ کو علم تھا کہ اہلِ کوفہ غدار ہیں۔ مجھے بلا کر قتل کریں گے کیونکہ امام کو ماکان وما یکون کا علم ہوتا ہے اور امام کے پاس رجسٹر بھی ہوتا ہے پھر آپ کو فہ کیوں گئے؟ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی اصلاح کے لئے گئے تھے تو خود جاتے۔ اپنے اہل بیت کو کیوں ساتھ لے گئے؟ اپنی شہادت اور اہل بیت کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا علم ہونے کے باوجود یہ اقدام کیوں کیا؟
2۔۔ امام جب اپنے اختیار سے موت قبول کی اسے پسند کیا تو سالہا سال سے ان کی موت پر رونا پیٹنا کس وجہ سے ہے اگر محبت سے ہے محبت کا تقاضا یہ ہے کے اپنی پسند محبوب کی پسند کے تحت ہو۔ اگر امام کی پسندکے خلاف احتجاج ہے تو یہ بھی غیر معقول۔ البتہ اپنے فعل پر ندامت ہے کہ امام کو قتل کیوں کیا تو یہ بات معقول نظر آتی ہے۔
3۔۔ بقول شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تقیہ کیا اصحاب ثلاثہ کی بیعت کر کے تقیہ کرنے کا ثواب بھی حاصل کیا بلکہ نوحصے دین بچا لیا اور اپنی بھی جان بچائی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے تقیہ کیوں نہ کیا۔ اپنے والد کی سنت کی پیروی بھی ہوجاتی۔ تقیہ کا ثواب بھی ملتا۔ جان بھی بچ جاتی اور اہل بیت بھی مصائب سے بچ جاتے۔
تقیہ کے فضائل کی بحث طویل ہے۔ البتہ چند ایک باتیں بیان کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
1۔ اصول کافی باب التقیہ صفحہ 482 امام جعفر فرماتے ہیں:-
یا ابا عمران تسعتہ اعشار الذین فی التقیتہ لا دین لمن لا تقیتہ لہ۔
"اے ابو عمر 9/10 حصہ دین کا تقیہ کرنے میں ہے جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے"
تفسیر حسن عسکری طبع ایران 129
قال رسول اللہ مثل المومن لا تقیتہ لہ کمثل جسد لا راس لہ۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تارکِ تقیہ مومن کی مثال ایسی ہے جیسے بدن بغیر سر کے۔"
ظاہر ہے کہ جس طرح سر کے بغیر بدن بے کار ہے اسی طرح تقیہ کے بغیر ایمان کسی کام کا نہیں۔
3۔ایضاً
"امام زین العابدین نے فرمایا اللہ تعالی مومن کے تمام گناہ بخش دے گا اور دنیا سے پاک کرکے نکالے گا مگر وہ گناہ نہیں بخشے گا اول تقیہ کا ترک کرنا دوم بھائیوں کے حقوق ضائع کرنا"
من کل ذنب سے ظاہر ہے کہ شرک اور آئمہ کو قتل کرنا بھی قابل معافی گناہ ہیں۔ ہاں تارکِ تقیہ کے لئے نجات نہیں۔ گویا اہلِ کوفہ امام کو قتل کر کے بھی گناہوں سے پاک ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔ اور امام نے جان دے کر بھی کچھ نہ پایا۔ کیونکہ ترکِ تقیہ ناقابل معافی گناہ ان کی گردن پر رہا۔ہاۓ امام مظلوم کی دہری مظلومیت لطف یہ کہ بات امام مظلوم کے بیٹے کی زبان سے کہلوائی گئی ہے۔
اسی وجہ سے عبدالجبار معتزلی نے اپنی کتاب مغنی میں شیعہ سے ایک سوال کیا کہ شیعہ کا عقیدہ ہے تقیہ ضرورت کے وقت جائز ہے اور خوفِ جان ہو تو تقیہ فرض ہے۔ ایسی حالت میں جو تقیہ نہ کرنے کی وجہ سے مارا گیا وہ ملعون موت مرا، اس نے خدا کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ مگر کربلا میں امام حسین نے اپنی جان ہی نہیں دی اہل بیت کو شہید کرایا۔ ان پر مصائب آئے تو اس کی اصل وجہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا تقیہ نہ کرنا ہے۔ اگر وہ تقیہ کرکے یزید کی بیعت کر لیتے تو خدا کی نافرمانی بھی نہ ہوتی اور جان بھی بچ جاتی۔ حالانکہ امام حسن رضی اللہ عنہ نے تقیہ کرکے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تقیہ کرکے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کر لی۔ اس لیے آپ حضرات شیعہ کیا کہتے ہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی موت کس قسم کی تھی؟
ابوجعفر طوسی نے تلخیص شافی صفحہ 471 پر اس سوال کو یوں نقل کیا ہے:-
" جب ابن زیاد نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو اس شرط پر ایمان دی کہ یزید کی بیعت کر لیں امام نے اسے قبول نہ کیا۔ اپنی جان اور اپنے متعلقین کی جان بچا لیتے۔ انہوں نے ترکِ تقیہ کرکے ان جانوں کو ہلاکت میں کیوں ڈالا حالانکہ ان کے بھائی امام حسن رضی اللہ عنہ نے بلا خوفِ جان حکومت امیر معاویہ کی سپرد کر دی تھی۔ دونوں بھائیوں کے فعل کو کیسے جمع کر سکتے ہو"
شریف مرتضی اور ابو جعفر طوسی کی طرف سے جواب یہ دیا گیا:-
جب حضرت حسین رضی اللہ اللہ عنہ نے دیکھا کہ مدینہ کو لوٹنے کا کوئی راستہ نہیں نہ کوفہ میں داخل ہونے کی کوئی صورت ہے تو شام کو روانہ ہوۓ کہ یزید کے پاس جائیں شاید اس مصیبت سے نجات ملے جو ابن زیاد اور اسکے ساتھیوں سے ہو رہی تھی۔آپ روانہ ہوۓ توعمرو سعد لشکر عظیم لیکر سامنے آگیا جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے اسلیے یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ امام نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان ہلاکت میں ڈالی۔حالانکہ یہ روایت موجود ہے کہ امام نے ابن سعد سے فرمایا تین میں سے ایک صورت اختیار کرلو یا تو مجھے واپس مدینہ جانے دو یا یزید کے پاس جانے دو کہ میں اسکے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا۔وہ میرے چچا کا بیٹا ہے۔وہ میرے حق میں جو راۓ کرے سو کرے یا اسلامی سرحدوں کی طرف جانے دو۔میں مسمانوں میں مل کر جہاد کروں گا۔انکے ساتھ نفع نقصان میں شریک ہوں گا۔
اس بیان سے معلوم ہوا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ یزید سے بیعت کرنے پر راضی تھے مگر فوج نے اس پیش کش کو ٹھکرادیا۔معلوم ہوتا ہے ابن زیاد وغیرہ ذمہ دار لوگ امام کو گرفتار کرکے لے جانا چاہتے تھے تاکہ انعام کے حقدار ہوسکیں۔
دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ شیعیان کوفہ کی فوج بھی تقیہ کرکے امام کے خلاف لڑ رہی تھی۔ گویا دو تقیوں میں تصادم ہوگیا۔ فرق اتنا ہے کہ امام تقیہ کرنے پر آمادہ ہو گئے اور فوج عملاً تقیہ کر رہی تھی۔
تلخیص شافی صفحہ 471 پر اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے:-
"واجتمع کل من کان فی قلبہ نصرتہ وظاھرہ مع اعدائہ" ۔
" امام کے مقابل جو فوج جمع ہوئی ان کے دلوں میں امام کی محبت اور اس کی نصرت کی آرزو تھی۔ ظاہرا وہ دشمن کے ساتھ تھے۔"
شریف مرتضی اور طوسی نے عبدالجبار معتزلی کا جواب تو دے دیا مگر ایک اور پیچ پڑ گیا۔
مختصر بصائر الدرجات صفحہ 7:-
قال ابو عبداللہ ای الامام لا یعلم ما بصیبہ ولا الی ما یصیر امر فلیس بحجۃ اللہ علی خلقہ۔
"جو امام آنے والی مصیبت قائل نہیں رکھتا اور یہ نہیں جانتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا وہ امام ہی نہیں نہ مخلوق پر خدا کی حجت ہے"۔
یعنی امام کو آنے والے مصائب کا علم تھا۔ انہوں نے اپنے اختیار اور پسند سے موت قبول کی۔ جب اس کا علم تھا تو کربلا گئے کیوں؟ عبدالجبار کا اعتراض" کہ انہوں نے اپنے آپ کو ہلاکت میں کیوں ڈالا؟" بدستور قائم ہے کیونکہ تقیہ کا فائدہ تو جب ہوتا کہ کربلا روانہ ہونے سے پہلے کرتے۔ اس موقع پر تقیہ کے ارادے کا اظہار بے موقع ہے اور بناوٹ معلوم ہوتی ہے۔شیعہ حضرات کبھی یہ بھی جواب دیتے ہیں کہ یہ روایت مناظرے کی کتابوں میں ہے حدیث کی کتابوں میں نہیں لہذا حجت نہیں"۔ بات درست سہی مگر ان کے بڑوں کو کیوں نہ سوجھی؟ سید شریف مرتضی نے شافی میں اور ابو جعفر طوسی نے تلخیص میں اس روایت کو کیوں جگہ دی؟ جب تحریفِ قرآن کا مسئلہ چلے تو طوسی کے دامن میں پناہ لیتے ہیں۔ یہاں طوسی کیوں ناقابل اعتماد قرار پایا؟۔ معلوم ہوا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے دامن سے تقیہ کا داغ دھویا نہیں جا سکتا اور سوال کا یہ حصہ بدستور قائم ہے کہ بتاؤ تمہارے اصول کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی موت کس قسم کی تھی؟
آئمہ کی موت اپنے اختیار میں ہونے کا اصول تقاضہ کرتا ہے کہ
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یہ موت اپنے اختیار سے پسند کی ۔محبانِ حسین بھی محبوب کی پسند کو محبوب رکھیں اور ان کی یاد میں اپنی جان دے دیں۔ رونا پیٹنا جواں مردی نہیں۔
♦️اس موقع پر ایک دو باتیں مزید ضمناً بیان کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
1۔شیعہ کہتے ہیں امام مع رفقاء پیاسے مرے مگر جلاءالعیون صفحہ 454:-
"جب پانی نہ ملا امام نے خیمے کے پیچھے بیلچہ مارا تو شیریں پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ۔امام نے خوب پیا اور رفقاء کو بھی پلایا" ۔
2۔شیعہ کہتے ہیں کہ امام کی نعش کو گھوڑوں کے نیچے روندا گیا مگر اصول کافی اور جلاء العیون ص 503 پر لکھا ہے:-
"امام کی نعش پر ایک شیر آکے بیٹھ گیا اور اس نے کسی کو نعش کے قریب نہ آنے دیا"-
ان متضاد باتوں میں سچائی کی تلاش کیجئے۔
3.ملا باقر مجلسی کا بیان ہے کہ امام کا جسم ان کی موت کے بعد آسمان پر اٹھا لیا گیا اور فرشتے اس کا طواف کرتے رہتے ہیں۔
"جسم تو آسمان پر گیا زمین پر کس کو روندا گیا۔ کربلا میں روضہ کس کا بنایا گیا؟ روضے میں دفن کون ہے؟
کربلا میں جا کر زیارت کس کی ہوتی ہے؟ اگر میت کے بغیر کربلا میں روضہ بنایا جا سکتا ہے تو ہر جگہ روضہ بنا لینے میں کیا قباحت ہے؟
واقعی شیعوں کے بیانات سے تضاد رفع کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔
اس سلسلے میں ایک اور سوال ضمناً غور طلب ہے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی رضی اللہ عنہ کو ہم نے قتل کیا۔ یزید کا اس میں ہاتھ نہیں۔ پھر حیرت ہوتی ہے کہ حضرت حسین جب شیعہ تھے تو شیعوں نے قتل کیوں کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ برعکس ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اہلسنت تھے۔ ان کا مذہب وہی تھا جو باقی عرب کا تھا۔ اسی وجہ سے کوفہ کے شیعوں نے دھوکہ دے کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور قتل کیا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ وہ شیعہ ہیں مگر ان کی اصلاح کی خاطر چلے گئے۔ ائمہ سے شیعوں کی پرانی دشمنی کا ذکر تفصیل سے ہو چکا ہے۔
ائمہ کے علم کی وسعت کا جو عقیدہ شیعہ کے ہاں مسلم ہے کہ ما کان وما یکون کا علم امام کو ہوتا ہے اس کے پیشِ نظریہ سوچنا پڑتا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو علم تھا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں حکومت سے دستبردار ہونا ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو حکومت دینی ہے اور یزید کی فوج نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا ہے تو اصل مجرم کون ہوا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حسن یا یزید؟
اس ممکنہ سوال کا جواب اصول کافی صفحہ نمبر 278 پر ملتا ہے امام تقی سے روایت ہے:-
فھم یحلون ما یشاؤون ویحرمون ما یشاؤون۔
"ائمہ جس چیز کو چاہیں حلال کر لیں جسے چاہے حرام کرلیں"
یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا قتل حلال کر لیا حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی کا قتل حلال کر لیا۔
♦️نتیجہ یہ نکلا اس قتل کا مرتکب مجرم نہیں۔ کیونکہ فعل حلال کرنے والا ثواب کا مستحق ہے مجرم نہیں۔
اس سلسلے میں ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کئی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے نرغے میں چھوڑا اور بھاگ گئے پھر بھی اہل سنت انہیں کامل الایمان سمجھتے ہیں۔ اگر شیعہ نے ایک بار حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے یہ سلوک کیا تو کافر کیوں ہوگئے۔
بات بڑی اونچی ہے مگر اس میں کئ سقم ہیں
1۔ تاریخ سے کوئی ایک واقعہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کو کفار کے نرغے میں چھوڑ کر بھاگ جانے کی غلطی کی ہو۔ اس لیے یہ دعوی بھی جھوٹا ہے۔
2۔ صحابہ رضی اللہ عنھم کو کامل الایمان تو خودخدا کہتا ہے۔ اس لیے جو خدا اور رسول کو قابل اعتماد نہ سمجھے وہ آزاد ہے جو چاہے کہتا پھرے۔
3۔ اہل سنت کو کوئی حق نہیں کہ کسی کو کافر کہیں۔ بلکہ وہ تو روٹھنےوالوں کو منانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس کا کیا علاج کہ
ا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرما گئے ہیں قد خذلنا شیعتنا
ب۔ امام زین العابدین کہہ گئے ہیں: نتبالکم ما قدمتم لانفسکم نعتم من امتی۔
ج۔ زینب بنت علی کہتی ہیں: وفی العذاب انتم خالدون۔
د۔ امام باقر کہہ گئےکہ جنہوں نے بیعت کی تھی خود انہوں نے شمسیر حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر کھینچی اور ہنوز بیعت حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان کی گردنوں میں تھی کہ حضرت حسین کو شہید کیا۔
ر۔ نور اللہ شوستری شیعوں کی طرف سے کہے گئے:بیچ چارہ نمید انیم جزانیکہ خودرادر عرصۂ تیغ آوریم۔
اہل علم و دانش خودہی فیصلہ کریں کہ جو عوام کو دھوکہ دے جو حضور کی امت سے خارج ہو جس کے لیے ابدی جہنم ہو۔ جو واجب القتل سمجھا جائے اسے کامل الایمان ہی کہیں گے؟
4۔ صحابہ رضی اللہ عنہم پر بہتان ہے کہ حضور علیہ السلام کو کفار کے نرغے میں چھوڑ کر بھاگ جایا کرتے تھے مگر یہاں تو بات دور تک پہنچتی ہے ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو دھوکہ دیا گھر بلایا ۔حضرت حسین کے ساتھ ہو کر یزید کے خلاف لڑنے کا حلفیہ عہد دیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے تو آنکھیں بدل لیں۔ یزید کی فوج میں شامل ہوگئے۔ پانی بند کیا۔ امام کو نہایت بے دردی سے شہید کیا۔ اہل بیت کو رسوا کیا۔ ان کا مال لوٹا۔ اس لئے کہاں وہ بہتان اور کہاں یہ تلخ حقائق۔ اور لطف یہ کہ اتنا کچھ کر چکنے کے بعد محبان اہل بیت بن کر سینہ کوبی کرنا اور جلوس نکالنا۔ حالانکہ جلاالعیون صفحہ 519 اور صفحہ 527 پر موجود ہے کہ رونا پیٹنا یزید اور اس کے گھر سے شروع ہوا۔ اس لئے اگر یزید کی سنت سمجھ کر کیا جاتا ہے تو درست ہے ورنہ ظاہر ہے کہ جو غم مرنے والے کے پسماندگان کو ہوتا ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا اور اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اہل بیت پسماندگان نے تعزیہ دلدل، علم، پنجہ غیرہ کے جلوس نکال کر اور اجتماعی طور پر سینا کوبی کر کے اظہارِ غم کیا ہو۔ اوراگر یہ عبادت ہے تو ظاہر ہے کہ ائمہ اور اہل بیت سے بڑھ کر عبادت گزار یہ ماتمی تو نہیں ہو سکتے۔ ان سے یہ عبادت کیوں چھوٹ گئی؟
♦️ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ:-♦️
1۔قتلِ حضرت حسین رضی اللہ عنہ میں مدعی ائمہ معصومین اور اہلِ بیت ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہمیں شیعوں نے قتل کیا۔
2۔ قاتلین کوفی شیعہ اقرارِ جرم کرتے ہیں۔
3۔ گواہ امام باقر ہیں۔
اگر اس کے خلاف کوئی شخص دعویٰ کرے تو
* آئمہ اوراہل بیت کا دعویٰ پیش کرے مدعا علیہ کا اقرارِ جرم پیش کرے ۔
* امام جعفریا امام باقر کی شہادت پیش کرے، اس کے بغیر بےتکی بات کوئی وزن نہیں رکھتی۔
ماتمِ حسین رضی اللہ عنہ
شیعہ حضرات کے ہاں اس عبادت( ماتم حسین) کا سراغ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ہی ملتا ہے اس لیے ہم شیعہ کتب سے اس شہادت کے متعلق چند حقائق پیش کرتے ہیں۔
الطراز المذھب مظفری طبع جدید طہران۔ اسی کتاب کے 1: 281 پر حضرت زینب کے طولانی خطبے میں اس کی کچھ اور وضاحت ہوئی ہے۔
"اے دھوکے باز مکار اہل کوفہ کیا تم روتے ہو۔۔۔۔۔ تم نے اپنے لئے بہت برا توشہ آخرت بھیجا ہے۔ لعنت اور پھٹکار ہو تم پر"۔
حضرت زینب کے اس خطاب سے ایک بات مزید معلوم ہوئی کہ اہل کوفہ نے مکرو غداری سے قتل بھی کیا اور پھر رونا پیٹنا شروع کر دیا مگر اس کے باوجود لعنت اور پھٹکار کے مستحق ہی ٹھہرے۔
ناسخ التواریخ 301
حضرت امِ کلثوم دخترِ علی اور زوجۂ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہم کا خطبہ:-
" امِ کلثوم نے فرمایا اے اہل کوفہ تمہارا برا ہو، تمہیں کیا ہوا تم نے حسین رضی اللہ عنہ سے دھوکہ کیا اسے قتل کیا اس کا مال لوٹا اس کی خواتین کو قیدی بنایا اب روتے ہو۔ تم برباد ہو جاؤ۔ کیا تم جانتے ہو تم نے کونسا خون بہایا۔ گناہ کا کتنا بوجھ اپنی پیٹھوں پر لادا اور کس کا مال لوٹا۔ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین افراد کو قتل کیا۔ تمہارے دلوں سے رحم جاتا رہا۔ خوب سن لو اللہ والے ہی کامیاب ہیں اور شیطان کا ٹولہ گھاٹے میں ہے"۔
"می فرمایدا مردم کوفہ بدبر حال شماچہ افتاد وشماراکہ حسین راخوارسا ختیدو و مخذول و بے یارو نے یار گز اشتیدو امولش را بغارت بردیدو چوں میراث خویش قسمت ساختید"۔
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے بیان سے اہل کوفہ کے مکروفریب اور ظلم وجور کے علاوہ اہل کوفہ سے شکایت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے قتل حسین کے بعد اہل بیت کا مال بھی لوٹا اور میراث سمجھ کر آپس میں تقسیم کیا۔
ان اقتباسات سے یہ امر واضح ہوگیا کہ اہل کوفہ شیعوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھ کر بلایا۔ جب آئے تو مکروفریب سے ساتھ چھوڑ دیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دشمن کے ساتھ مل کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا۔ اسی پر بس نہیں پھر اہل بیت کے اموال لوٹے اور
میراث سمجھ کر آپس میں تقسیم کیے۔
ایضاً صفحہ 308 میں امِ کلثوم کا ایک اور بیان:-
"وبالجملہ زنان کوفیاں برایشاں زار ز ارمی گریستند جناب ام کلثوم وسلام اللہ علیھا سراز محمل بیروں کردو بآں جماعت فرمود۔"
"یا اھل الکوفۃ تقتلنا رجالکم وتبکینا نسائکم فالحاکم بیننا وبینکم اللہ یوم فصل القضاء" ۔
" اے اہل کوفہ تمہارے مردوں نے ہمیں قتل کیا اور تمہاری عورتیں ہم پر روتی ہیں۔ اچھا اللہ تعالی ہی ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلے کے دن فیصلہ کرے گا"
اسی کتاب کے صفحہ 311 پر
" کوفہ کی عورتوں کو گریبان چاک کیے ہوئے روتے پیٹتے ہوئے دیکھ کر ابو جدیلہ اسدی کو تعجب ہوا کہ یہ عورتیں کیوں یہ منظر پیش کر رہی ہیں۔ اس کے وجہ پوچھنے پر بتایا گیا کہ انہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک دیکھ کر رونا آیا۔"
مگر سوال یہ ہے کہ جب ان مردوں کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر تن سے جدا کرتے ہوئے ترس نہ آیا تو ان عورتوں کے دلوں میں غم کے جذبات کیسے ابھر آئے بات تو وہی ہوئی۔
وہی قتل بھی کرے وہی لے ثواب الٹا
قاتلینِ حسین کون تھے؟
یہ بحث تفصیل سے گزر چکی ہے اور ثابت کیا جا چکا ہے کہ:-
معصوم مدعیوں کے بیانات سے واضح ہوگیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلانے والے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے آنے کے بعد اس کی مخالفت کرنے والے،حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر پانی بند کرنے والے، بے دردی سے گرم ریت پر لٹا کر ذبح کرنے والے، خاندانِ نبوت کے خیموں کو لوٹنے والے، مال غنیمت آپس میں تقسیم کرنے والے، اس کے بعد رو پیٹ کر طمانچہ زنی اور خاک ربائی کر کے ڈرامائی انداز میں اظہارِ غم کرنے والے سب شیعہ تھے۔ ان مدعیان کے بیانات کے بعد مدعا علیہم کا اقرارِ جرم پیش کردیا گیا جو نور اللہ شوستری شہید ثالث کی معتبر کتاب مجالس المومنین جلد دوم مجلس ہشتم میں موجود ہے۔
سب سے بڑی بات ہے کہ ائمہ معصومین جب صاف اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے قاتل شیعہ ہیں اور ملزم خود اقراری ہیں تو کوئی تیسرا شخص اس مسلمہ حقیقت کو کیوں کر جھٹلا سکتا ہے۔