Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اختلاف کی صورت میں حکم

  علی محمد الصلابی

اختلاف کی صورت میں حکم

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمائی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اس مجلس کی کارروائی میں شریک رہیں، لیکن خلافت سے متعلق ان کو کوئی اختیار نہ ہو گا، اگر ان چھ افراد میں سے تین ایک شخص کو منتخب کریں اور تین دوسرے کو، تو ایسی صورت میں سیدنا عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما) کو حکم (فیصل) بنایا جائے اور یہ جس فریق کے حق میں فیصلہ دے دیں ان میں سے ایک کو منتخب کر لیا جائے، اور اگر لوگ حضرت عبداللہ بن عم ر(رضی اللہ عنہما) کے فیصلہ سے راضی نہ ہوں تو اس فریق کے ساتھ ہو جاؤ جس میں سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہوں، اور ان کی توصیف میں فرمایا: سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ بڑی اچھی رائے والے ہیں، سیدھے راستے پر قائم اور ہدایت یاب ہیں، اللہ کی طرف سے ان کی حفاظت ہوتی ہے۔ لہٰذا تم ان کی بات مانو۔

(تاریخ الطبری: جلد، 5 صفحہ، 325)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے ذریعہ سے اسلام کو عزت بخشی، لہٰذا تم انصار میں سے پچاس افراد کو منتخب کر لو، اور انہیں مستعدد رکھو یہاں تک کہ یہ لوگ اپنے میں سے ایک شخص کو خلافت کے لیے منتخب کر لیں۔

(تاریخ الطبری: جلد، 5 صفحہ، 225)

اور سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے کہا: جب تم مجھے قبر میں رکھ دو تو ان لوگوں کو کسی گھر کے اندر جمع کر دینا تاکہ یہ اپنے میں سے کسی کو خلیفہ بنا لیں۔

(تاریخ الطبری: جلد، 5 صفحہ، 225)