Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

*کیا ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے غزوہ احد میں حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا؟*

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

  عالم اسلام کے تمام مؤرخین اور خصوصاً حاقدینِ بنی امیہ اپنی مؤلفات میں مرویاتِ محمد بن اسحاق اور مسند امام احمد کی ایک روایت کی بنیاد پر حضرت ہند بنتِ عتبہ  قرشیہ رضی اللہ عنھا کے متعلق بیان کیا ہے کہ اس نےجنگِ احد میں حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا پیٹ چاک کرکے ان کا جگر چبا ڈالا تھا بلکہ اسے نگلنے کی کوشش بھی کی تھی اور سچی بات یہ ہے کہ ہم خود بھی ان لوگوں میں شامل رہے ہیں جو ممبر و محراب پر ہند بنت عتبہ کی سنگدلی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور ہم آج تک اس قصے کو  متفق علیہ سمجھتے رہے تاآنکہ ہمیں فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی عمیر مدخلی سابق پروفیسر مدینہ یونیورسٹی کی کتاب مطاعن سید قطب علی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں علامہ محمود شاکر مصری کا مقالہ بھی شامل ہے جو انہوں نے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں لکھا تھا۔

♦️ اس مقالے میں انہوں نے ایمان قبول کرکے اسلام کی خاطر زندگیاں وقف کر دینے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تذکرے کے بعد ہند بنت عتبہ قرشیہ کے متعلق لکھا تھا کہ اگر ہند بنت عتبہ کے متعلق حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  کے پیٹ  چاک کرنے اور ان کے جگر کو چبانے کا قصہ صحیح ثابت ہو جائے تو پھر بھی بہت  کماایسے مرد اور عورتیں نظر آئیں گی جن سے جاہلیت میں ایسے افعال سرزد نہ ہوۓ ہوں۔

        جب ہم نے یہ الفاظ پڑھے تو ہمیں حددرجہ حیرانی ہوئی اور پھر ٹھنڈے دل سے سوچا کہ اصل حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ جتنا کسی کا گناہ یا قصور ہوں حکایتاً اسے اتنا ہی بیان کیا جاۓ اور مبالغہ آمیزی سے بچا جائے۔ ہم اسی فکر میں تھے کہ ہمیں کویت سے شائع ہونے والا مجلہ "امتی" مل گیا اس میں فضیلۃ الشیخ حای الحای کے مضمون پر نظر پڑی اور ہم نے اسے بالاستیعاب پڑھا۔ زیر نظر مضمون میں ہم اسے تمہید بنا کر اپنی گزارشات پیش کریں گے۔ اللہ کریم ہمیں افراط و تفریط سے بچائے اور حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

♦️ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب ہاشمی  رضی اللہ عنہ کے بعد از شہادت پیٹ چاک کرنے اور ان کے جگر  چبانے کے قصے کا دارومدار مسند احمد کی اس  مرسل اور منکر المتن روایت پر ہے جو بمع سند اسطرح ہے:-

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں عفان نے حماد کےحوالے سے اور حماد نے ان کو عطاء بن سائب کے حوالے سے بیان کیا کہ شعبی کے ذریعے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے جنگ احد کے دن مسلمان عورتیں مسلمانوں کے پیچھے تھیں اور وہ مشرکین کے زخمیوں پر حملہ آور ہوکر ان کا کام تمام کردیتی تھیں اور اگر میں اس دن حلف اٹھا کر کہتا کہ ہم اسے کوئی بھی دولت، دنیا کا ارادہ نہیں رکھتا تھا تو میں پر امید تھا کہ سچا ثابت ہوں گا یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی:-

مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ"۔

( سورہ آل عمران 125)

   " جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ کے حکم کی خلاف ورزی کی  تو آپ صحابہ کے ساتھ ایک طرف ہو گئے ان میں سات انصاری تھے اور دو قریشی اور ان میں دسویں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے۔

جب کفار قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نرغے میں لے لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"اللہ اس آدمی پر رحم فرمائے جو انہیں ہم سے دور ہٹا دے۔ "راوی کہتا ہے کہ انصار میں سے ایک صحابی آگے بڑھا اور گھڑی بھر لڑتا ہوا شہید ہو گیا  ۔جب انہوں نے پھر گھیرا تنگ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ اس آدمی پر رحم فرمائے جو انہیں ہم سے دور ہٹا دے۔ "

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح فرماتے رہے یہاں تک کہ ساتوں انصاری یکے بعد دیگرے لڑتے شہید ہوگئے۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔ "

چنانچہ ابوسفیان آیا اور کہنے لگا:اعل ھبل( ہبل کا اقبال بلند ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم کہو اللہ اعلی واجل اللہ تعالی اور بزرگ و برتر ہیں"۔ ابو سفیان نے عرض کیا:

"لنا عزی ولاعزی لکم"

( ہمارا عزی ہے تمہارا عزی کوئی نہیں)_

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تم جواب دو :

"اللہ مولیٰ ولامولیٰ لکم "

( ہمارا مولی اللہ ہے تمہارا مولی کوئی نہیں)۔

پھر ابو سفیان نے کہا :آج کا دن یوم بدر کےبدلے کا ہے۔ کوئی دن ہمارے لئے اور کوئی دن ہمارے بر خلاف۔ کسی دن ہم بے وقعت اور کسی دن ہم خوش بخت۔ حنظلہ کے بدلے حنظلہ ۔ فلاں کے بدلے فلاں ۔

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی طرح سے برابری نہیں ہمارے  مقتول تو زندہ ہیں اور رزق دیے جاتے ہیں جب کہ تمہارے مقتول دوزخ میں عذاب دیے جارہے ہیں"۔

ابو سفیان نے کہا: "قوم میں کچھ افراد کے ناک کان کاٹے گئے ہیں اور یہ ہمارے سرکردہ جنگجوؤں کا کام نہیں ہے نہ میں نے اس طرح کرنے کا حکم دیا تھا نہ اس طرح کرنے سے روکا۔ اور نہ ہی برا سمجھا اور نہ ہی یہ منظر مجھے برا لگا اور نہ ہی اچھا۔ راوی کہتا ہے کہ جب انہوں نے دیکھا تو حضرت حمزہ کا پیٹ پھاڑا گیا تھا اور  ہند نے ان کا جگر چبایا لیکن اسےنگل نہ سکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کیا اس نے اس سے کچھ کھایا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالی ایسا نہیں کہ وہ حمزہ کے بدن کے کسی جزو کو آگ میں داخل کرے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمزہ کو سامنے رکھ کر ان کی نماز جنازہ پڑھی اسی دوران ایک انصاری شہید لایا گیا اور اسے سیدنا حمزہ کے پہلو میں رکھ دیا گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی کی نماز جنازہ پڑھی پھر نصاری کو اٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا گیا پھر دوسرے شہید انصاری کو لایا گیا اور اسے حمزہ رضی اللہ عنہ ان کے پہلو میں رکھ دیا گیا اور ان پر نماز جنازہ پڑھی گئی پھر اسے اٹھایا گیا اور حمزہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ اس روز سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ پر ستر مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی"۔

♦️ یہ طویل حدیث ہے جسے محدث عصر علامہ احمد شاکر نے سہواًصحیح قرار دیا ہے یہ دو اعتبار سے ضعیف بھی ہے اور شاذ بھی اور منکر بھی ہے۔ ضعیف تو اس اعتبار سے ہے کہ اس روایت کے راوی امام شعبی کا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے جیسا کہ امام ابو محمد عبدالرحمن بن حاتم رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ ابو حاتم رازی سے سنا وہ فرماتے تھے کہ شعبی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے جو کچھ بھی نہیں کریں گے وہ مرسلاً ہی ہوگا۔ البتہ حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا کرتے تھے۔

اس بنا پر یہ روایت منقطع ثابت ہوئی۔

مزید برآں اس حدیث میں عطاءبن سائب کی وجہ سے بھی ضعف ہے۔ چنانچہ امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:-

"تفرد بہ احمد وھذااسناد فیہ ضعیف ایضا من جھۃ عطاء بن سائب۔"

   " اس روایت کو بیان کرنے میں امام احمد منفرد ہیں اور اس میں عطاء بن سائب کی وجہ سے ضعف بھی ہے"۔

امام ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمعالزوائد میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:-

"وفیہ عطاء بن سائب وقد اختلاط"

اگرچہ علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ روایت اختلاط سے قبل کی ہے لیکن ان کا اختلاط روایت مذکورہ میں اظہر من الشمس ہے اور وہ اس طرح کہ صحیح بخاری اور دیگر کتب صحاح میں مسلمان عورتوں کے مشرکین اور زخمیوں  پر حملہ آور ہونے کا ذکر نہیں ہے جبکہ یہاں اس بات کا ذکر ہے کہ مسلمان عورتیں زخمی مشرکوں پر حملہ آور ہو رہی تھیں۔

صحیح احادیث میں یوم لنا ویوم علینا ویوم نسائ ویوم نسر، حنظلہ بحنظلہ، فلان بفلان کا ذکر بھی نہیں ہے جبکہ اس روایت میں 

"لاسوائ اما قتلانافاحیاء یرزقون وقتلاکم فی النار یعذبون" 

جبکہ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس مفہوم کا جواب دیا تھا۔

♦️ اس روایت میں اس بات کا ذکر ہے کہ ابو سفیان نے پہلے "اعل ہبل" کا نعرہ لگایا تھا جبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ اس نے دامن احد میں کھڑے ہوکر پوچھا تھا کہ تم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے؟ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہے؟ کیا تم میں عمر بن خطاب ہے؟ پھر اس کے بعد اس نے "اعل ھبل" کہا تھا۔

♦️  اس روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کی فرداً فرداً نماز جنازہ پڑھی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی 70 مرتبہ نماز جنازہ پڑھی جبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کو نہ تو غسل دیا اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی تھی بلکہ انہیں خود شہادت سمیت دفن کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں اس میں کئ باتیں اور بھی ہیں جو اس روایت کے شاذ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

♦️ اس لئے باہر کا متن بھی منکر ہے وہ اس طرح کہ اس روایت میں ذکر ہے کہ آپ نے پوچھا:

ااکلت منھا شیئا؟ قالوا:لا ،قال ماکان اللہ لیدخل شیئا من حمزۃالنار۔

اس روایت کا مدعاہے کہ ہندبنت عتبہ اسلام قبول نہیں کرے گی اور جہنم میں داخل ہوں گی کیونکہ اللہ نے حمزہ بن عبدالمطلب کے بدن کے کسی  جزو کو ایسے بدن میں داخل نہیں ہونے دیا جو آگ میں جلنا ہے۔ جبکہ صحیح بخاری میں کتب صحاح میں صحیح الاسناد روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہند نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا اور ساری زندگی اسلام و ایمان پر قائم رہیں بلکہ فتح الباری میں امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ وکانت من عقلاءالنساء اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دیتے وقت اس کی گفتگو سے اس کی دانش مندی پر کئی پہلؤوں سے استدلال کیا۔

♦️  اگرچہ مذکورہ بالا حدیث روایت کے بعد مندرجات کی دیگر شواہد حادیث میں تائید موجود ہے لیکن ہند کے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پیٹ چاک اور ان کا جگر چبانے کی بات کسی طرح بھی صحیح طور سے ثابت نہیں ہوتی، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب جیسے اسد اللہ واسد رسولہ کی شہادت نہایت المناک ہے لیکن اس میں مرکزی کردار حضرت جبیر بن مطعم کا ہے جس نے اپنے چچا طعیمہ بن عدی کا بدلہ لینے کے لئے وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ کو خصوصی طور پر مشن سونپا تھا اور اس نے محض اپنی آزادی کی خاطر بزدلانہ حملہ کرکے آپ کو شہید کردیا تھا۔

♦️  باقی رہی یہ بات  کہ شہدائے احد کا مثلہ تو ہوا تھا تو ہم بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں  یقینا ان کا مثلہ  ہوا تھا لیکن یہ سارا کام صرف ہند بنت عتبہ قرشیہ نے سر انجام نہ دیا تھا اس کے ساتھ دیگر خواتین یا مشرکین بھی شریک تھے جو اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتے رہے لیکن یہاں تک پیٹ چاک کرکے کلیجہ یا جگر چبانے یا شہداء کرام کے ناک کان کاٹ کر ہار بنانے اور اسے گلے میں لٹکانے اور پھر اس وحشی بن حرب کو ہدیہ دینے جیسی یہ روایات منقول ہیں ایک طرف تو وہ سنداً صحیح نہیں دوسری طرف فطرت انسانی بھی انہیں قبول کرنے سے ابا کرتی ہے اور عقل سلیم بھی اسے تسلیم نہیں کرتی کیونکہ وحشی بن حرب کی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے دشمنی نہ تھی۔ وہ تو جبیر بن مطعم کا غلام تھا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے جبیر بن مطعم کے چچا طعیمہ بن عدی کو جنگ بدر میں قتل کیا تھا اس لئے جبیر نے اپنے چچا کا انتقام لینے کے لیے وحشی کو آزادی کا لالچ دے کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل پر آمادہ کیا تھا۔ اور اس نے محض اپنی آزادی کی خاطر یہ بزدلانہ اور گھناؤنا جرم کیا تھا لہذا اسے کٹے ہوئے اعضاء انسانی اپنے گلے میں پہننے کی ضرورت ہی نہ تھی اسے تو آزادی کی ضرورت تھی جو اسے مل گئی۔ نہ وہ ہند بنت عتبہ کا غلام تھا اور نہ ہی ہندنے اسے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل پر آمادہ کیا تھا اسے تو جبیر بن مطعم کا منصوبہ کام دے گیا۔

بعد ازاں حضرت جبیر بن مطعم اور ہند بنت عتبہ اور وحشی بن حرب نے اسلام قبول کرلیا اور اسلام کی خاطر شاندار خدمات سرانجام دیں۔ فتح الباری اور  الاصابہ وغیرہ میں شرح و بسط سے ان کے قبول اسلام کا واقعہ مرقوم ہے۔ اگر ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے جسد اطہر سے ایسا سلوک کیا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول اسلام کے وقت ایسا تو کہہ دینا تھا کہ ہند تیرا اسلام تو قبول ہے لیکن آٹھ کر چلی جا ۔آئندہ میرے سامنے نہ آنا۔ کیونکہ مجھے شہید چچا کی المناک شہادت یاد آجایا کرے گی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا بلکہ اس کے بجائے طبقات ابن سعد171/8 میں منقول ہے کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا:

"یارسول اللہ الحمدللہ الذی اظھر الدین الذی اختار  لنفسی لتسفعنی رحمک یا محمد انی امراء مومنہ باللہ ومصدقۃ برسولہ۔"

    " اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام طرح کی حمد و ثناء اللہ کے لیے جس نے اس دین کو غالب کر دکھایا جسے اس نے اپنے لئے پسند کیا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عفو و در گزر کی صورت میں آپ سے قرابت داری کا نفع ملنا چاہیے۔ میں اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والی عورت ہوں"۔

بعد ازاں اس نے کہا:

" میں ہند بنت عتبہ ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرحبا بک  خوش آمدید"۔

پھر وہ یوں گویا ہوئیں:

  " اللہ کی قسم! روئے زمین پر مجھے آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کا ذلیل ہونا محبوب نہ تھا اور آج میری کیفیت یہ ہے کہ روئے زمین پر مجھے آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کا عزت دار ہونا محبوب نہیں"۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-وزیادۃ

اور بخاری کی روایت میں

ایضا والذی نفسی بیدہ۔

پھر اس نے جہاد یرموک میں جو بے مثال خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔

حوالہ کتاب المراسیل 6/591

البدایہ والنہایہ 4/40.41


 

*کیا ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے غزوہ احد میں حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا؟*

ہمارے ہاں ایک قصہ بےحد مشہور ھے کہ جی سیدہ ہند نے سیدنا حبشی بن حرب کے ذریعے سیدنا حمزہ کو شہید کروایا اور پھر سیدنا حمزہ کا مثلہ کیا اور کلیجہ چبایا۔۔ سچ یہ ھے کہ اس قصے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ روایت چند کتب احادیث تاریخ و تفاسیر میں وارد ہوئی ھے مگر اسکی سند منقطع ھے۔ یعنی یہ روایت مرسل ضعیف ھے۔ دوسرا حقائق کے برعکس ہونے کے باعث اسکا متن منکر ھے۔ سب سے پہلے ہم مذکورہ روایت کو دیکھتے ہیں:

روایت:

أخبرنا عبد الله بن الحسن الحراني قال: نا النفيلي قال: نا محمد بن سلمة عن محمد بن اسحق قال: قد وقفت هند بنت عتبة كما حدثني صالح بن كيسان والنسوة الآتون معها يمثلن بالقتلى من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يجدعن الآذان والآناف حتى اتخذت هند من آذان الرجال وأنافهم خذماً وقلائداً، وأعطت خذمها وقلائدها وقرطيها وحشياً غلام جبير بن مطعم، وبقرت عن كبد حمزة فلاكتها فلم تستطيع أن تسيغها، ثم علت على صخرة مشرفة فصرخت بأعلى صوتها وقالت، من الشعر حين ظفروا بما أصابوا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم:نحن جزيناكم بيوم بدرفأجابتها هند بنت أثاثة بن عباد بن المطلب بن عبد مناف فقالت:والحرب بعد الحرب ذات سعر ما كان لي عن عتبة من صبر ولا أخي وعمه وبكر شفيت نفسي وقضيت نذري * شفيت وحشي غليل صدري فشكر وحشي علي عمري * حتى ترم أعظمي في قبري

««سيرة ابن إسحاق (كتاب السير والمغازي)»»

ابن اسحاق سے مروی ہے کہ مجھ سے صالح بن کیسان نے بیان کیا کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھ شریک خواتین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہدا ساتھیوں کا مثلہ کرنے لگیں ، وہ ان کے ناک اور کان کاٹ رہی تھیں‌، یہاں‌تک کہ ہند رضی اللہ عنہا نے جو اپنے ہار ، پازیب اور بالیاں وغیرہ وحشی کو دے چکی تھیں ، ان شہدا کے کٹے ہوئے ناکوں اور کانوں کے پازیب بنائے ہوئی تھیں اور انہوں نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہا کا کلیجہ چیر کر نکالا اور چبانے لگیں‌، لیکن اسے بآسانی حلق میں اتار نہ سکیں تو تھوک دیا ۔ پھر ایک اونچی چٹان پر چڑھ گئیں اور بلند آواز سے چیختے ہوئے کہا :

'' ہم نے تمہیں یومِ بدر کا بدلہ دے دیا ، جنگ کے بعد جنگ جنون والی ہوتی ہے ، عتبہ کے معاملے میں مجھ میں صبر کی سکت نہ تھی ، اور نہ ہی اپنے بھائی اور اس کے چچا ابوبکر پر میں نے اپنی جان کو شفا دی اور انتقام کو پور کیا ، وحشی تو نے میرے غصہ کی آگ بجھا دی ، پس وحشی کا مجھ پر عمر بھر ،احسان رہے گا ، یہاں‌تک کہ قبر میں میری ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں‌''۔

تخریج :

ابن اسحاق نے اسے السیرتہ(ج 3 ص36) میں روایت کیا ہے ۔ اول تو ابن اسحاق خود شدید مجروح ہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ صالح بن کیسان سے روایت کر رھے ہیں کہ جو اپنی پیدائش سے ستر سال قبل کا واقع بنا کسی واسطے کے نقل کر رھے ہیں۔ لہذا اس کی سند ضعیف بھی ہے ، اور مرسل بھی۔

یہ قصہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ (ج 4 ص37) میں نقل کیا ، پھر فرمایا :

وذكر موسى بن عقبة: أن الذي بقر عن كبد حمزة وحشي فحملها إلى هند فلاكتها فلم تستطع أن تسيغها فالله أعلم.

'' موسی بن عقبہ نے ذکر کیا کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ وحشی نکال کر ہند بنت عتبہ کے پاس لائے تھے ، انہوں نے اس کو چپایا ، لیکن نگل نہ سکیں‌۔

(ترجمہ:: محمد صدیق رضا / تخریج حدیث :: حافظ زبیر علی زئی )

ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی نے اپنی تاریخ میں ابن اسحاق سے بھی نقل کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ھند نے عورتوں کے ساتھ ملکر مثلہ کیا ، جبکہ ابن کثیر والی روایت میں ‌ہے کہ وحشی نے کلیجہ نکال کر ہند کو دیا تھا ۔ جبکہ دونوں روایتیں ہی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت میں سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کا کوئی کردار نہ تھا۔ نیز اس ضمن میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے سیدہ ہند رضی عنہا کی کوئی بات یا معاملہ طے نہ ہوا تھا۔ اور نہ ہی حضرت وحشی رضی اللہ عنہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔

سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں طعیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ طعیمہ بن عدی کے بھتیجے تھے، جو کہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔ اور حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بھی ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے۔ حضرت وحشیؓ، جناب جبیر بن مطعم ؓکے غلام تھے۔ سیدنا جبیر بن مطعمؓ حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان ایمان لائے اور خلافت معاویہؓ میں فوت ہوئے۔ آپؓ نے حضرت وحشیؓ سے کہا کہ حمزہؓ نے میرے چچا طعیمہ بن عدی کو قتل کیا ہے، اگر تم میرے چچا کے بدلہ میں حمزہؓ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو۔ یہی وجہ تھی جس نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا کہ وہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیں۔

اسی بات کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ”کتاب المغازی“ کے عنوان

”قتل حمزة بن عبدالمطلب رضی اللّٰہ عنہ“

کے تحت بیان کیا ہے۔

اب یہ بھی دیکھیں کہ سیدنا وحشی رضی اللہ عنہ جب خدمت رسالت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مشرف بہ اسلام ہونا قبول فرماتے ہوئے فرمایا کہ آپؓ اپنا چہرہ میرے سامنے نہ لایا کریں

(الاصابة فی تمییزالصحابة)

۔ لیکن اس کے برعکس جب سیدہ ہند رضی اللہ عنہا اسلام لاتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی کا اظہار بھی فرماتے ہیں اور اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ ہندؓ کے مابین ہونے والی فصیحانہ و بلیغانہ گفتگو کا تذکرہ بھی کتب میں موجود ہے۔ کیا وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ہند رضی اللہ عنہا سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حوالہ سے کوئی بات نہیں فرمائی؟ جب کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ چھپانے کے لیے فرمایا۔

حالانکہ سیدہ ہند بنت عتبہ کا جرم قتل سے بھی سنگین تر تھا۔ شہید کی لاش کا مثلہ کرنا، کلیجہ نکال کر چبانا۔۔۔ اگر ان سے یہ جرم سرزد ہوا جس پر روایتی طور پر بحث ہوچکی کہ ستر سال کے بعد ابن اسحاق نے صالح بن کیسان کے نام سے ایک منقطع روایت پیش کی تو اس مجرم سے بھی اظہار نفرت ہونا چاہئے تھا ناں؟

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محبوب عم محترم کے مقدس جسد کا مثلہ کرنے والی کے گھر کو

”من دخل دار ابی سفیان فہو اٰمن“

دار ابی سفیان کو مثل حرم جائے پناہ قرار دیا گیا۔ چہ معنی دارد؟ مزید برآں فتح مکہ کے بعد نبی مکرم کے دست مقدس پر بیعت کرنے کے بعد سیدہ ہندہ کا عرض کرنا کہ :

”یا رسول اللہ! آج سے پہلے روئے زمین پر آپ سے زیادہ مجھے مبغوض کوئی نہ تھا اور آج آپ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں“۔

یہ تو الفاظ تھے سیدہ ہندہ کے۔ جواب میں نبی الانبیاء علیہم السلام نے کیا فرمایا ِ؟ دیکھئے بخاری جلد اول ص:۵۳۹

”وایضاً والذی نفسی بیدہ“

” اس ذات کی قسم جن کے قبضہ میں میری جان ہے، میرا بھی یہی حال ہے“.

(یعنی سیدہ ہندہ کی عزت وحرمت محبوب ہے) عام محبت نہیں بلکہ ایسی شدید محبت کہ نبی دوعالم اقسم کھا کر اس کا ذکر فرمارہے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا: ”تو نے میرے محبوب چچا کا کلیجہ چبایا ہے‘ میرے سامنے نہ آیا کر ۔ بس تیرا اسلام قبول ہے“ یہ نہیں فرمایا‘ بلکہ قسم کھاکر محبت کا اظہار فرمایا۔ فتح مکہ کے بعد بہت لوگ ایمان لائے مگر محبت وعقیدت سے بھر پور وہ الفاظ

”وایضا والذی نفسی بیدہ“

کسی اور ذکر وانثی کو نصیب نہ ہوسکے۔ امام بخاری نے یہاں عنوان قائم کیا ہے: ”باب فضل ہند بنت عتبہ“.


 ھند رض اور سیدنا حمزہ رض

اعتراض:

روایت ::

أخبرنا عبد الله بن الحسن الحراني قال: نا النفيلي قال: نا محمد بن سلمة عن محمد بن اسحق قال: قد وقفت هند بنت عتبة كما حدثني صالح بن كيسان والنسوة الآتون معها يمثلن بالقتلى من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يجدعن الآذان والآناف حتى اتخذت هند من آذان الرجال وأنافهم خذماً وقلائداً، وأعطت خذمها وقلائدها وقرطيها وحشياً غلام جبير بن مطعم، وبقرت عن كبد حمزة فلاكتها فلم تستطيع أن تسيغها، ثم علت على صخرة مشرفة فصرخت بأعلى صوتها وقالت، من الشعر حين ظفروا بما أصابوا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم:نحن جزيناكم بيوم بدرفأجابتها هند بنت أثاثة بن عباد بن المطلب بن عبد مناف فقالت:والحرب بعد الحرب ذات سعر ما كان لي عن عتبة من صبر ولا أخي وعمه وبكر شفيت نفسي وقضيت نذري * شفيت وحشي غليل صدري فشكر وحشي علي عمري * حتى ترم أعظمي في قبري ««سيرة ابن إسحاق (كتاب السير والمغازي)»»

ابن اسحاق سے مروی ہے کہ مجھ سے صالح بن کیسان نے بیان کیا کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھ شریک خواتین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہدا ساتھیوں کا مثلہ کرنے لگیں ، وہ ان کے ناک اور کان کاٹ رہی تھیں‌، یہاں‌تک کہ ہند رضی اللہ عنہا نے جو اپنے ہار ، پازیب اور بالیاں وغیرہ وحشی کو دے چکی تھیں ، ان شہدا کے کٹے ہوئے ناکوں اور کانوں کے پازیب بنائے ہوئی تھیں اور انہوں نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہا کا کلیجہ چیر کر نکالا اور چبانے لگیں‌، لیکن اسے بآسانی حلق میں اتار نہ سکیں تو تھوک دیا ۔ پھر ایک اونچی چٹان پر چڑھ گئیں اور بلند آواز سے چیختے ہوئے کہا :

'' ہم نے تمہیں یومِ بدر کا بدلہ دے دیا ، جنگ کے بعد جنگ جنون والی ہوتی ہے ، عتبہ کے معاملے میں مجھ میں صبر کی سکت نہ تھی ، اور نہ ہی اپنے بھائی اور اس کے چچا ابوبکر پر میں نے اپنی جان کو شفا دی اور انتقام کو پور کیا ، وحشی تو نے میرے غصہ کی آگ بجھا دی ، پس وحشی کا مجھ پر عمربھراحسان رہے گا ، یہاں‌تک کہ قبر میں میری ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں‌''

تخریج :

ابن اسحاق نے اسے السیرتہ(ج 3 ص36) میں روایت کیا ہے ۔ اس کی سند ضعیف ہے ، مرسل ہے (انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے )

یہ قصہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ (ج 4 ص37)میں نقل کیا ،

پھر فرمایا :

وذكر موسى بن عقبة: أن الذي بقر عن كبد حمزة وحشي فحملها إلى هند فلاكتها فلم تستطع أن تسيغها فالله أعلم.

'' موسی بن عقبہ نے ذکر کیا کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ وحشی نکال کر ہند بنت عتبہ کے پاس لائے تھے ، انہوں نے اس کو چپایا ، لیکن نگل نہ سکیں‌۔

(ترجمہ:: محمد صدیق رضا / تخریج حدیث :: حافظ زبیر علی زئی )

ابن کثیررحمہ اللہ تعالی نے اپنی تاریخ میں ابن اسحاق سےبھی نقل کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ھند نے عورتوں کے ساتھ ملکر مثلہ کیا ، جبکہ ابن کثیر والی روایت میں‌ہے کہ وحشی نے کلیجہ نکال کر ہند کو دیا تھا ۔ جبکہ دونوں روایتیں ہی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہیں

جواب :

دفاع ھند رض

نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے آخری پیغمبر بنا کر بھیجا اور اس بات کو قرآن میں یوں بیان فرمایا:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا۔

[1]

ترجمہ:محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز پر عالم ہیں۔

نبی کریم ﷺ کی شریعت کو بھی اللہ نے آخری بنا دیا اور آپ ﷺ کو دی ہوئی کتاب کو بھی آخری کتاب بنا دیا اور آپﷺ کے ساتھیوں کو

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْه

والا ایسا سند دیا جو اس سے پہلے کسی پیغمبر کے ساتھیوں کو نہیں ملا ۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخ اسلام کے مؤرخین نے سہواً یا عمداً ان صحابہ سے متعلق اپنی کتب میں ایسی روایات کو جگہ دے دی جن سے یہ لوگ کوسوں دور تھے۔ یہ روایات یا تو غلو فی المحبۃ کی وجہ سے فضائل کے باب میں سے ہیں یا غلو فی البغض کی وجہ تنقیص کے باب میں سے ہیں، اور اس قسم کے روایات کافی تعداد میں موجود ہیں لیکن یہاں پر اس مختصر مقالہ میں حضرت ہند بنت عتبۃ رضی اللہ عنہا سے متعلق تاریخ کی روایات کو موضوع تحقیق بنایا جارہا ہے جو کہ زبان زد عام ہیں۔روایت کچھ یوں ہے:

قال أبو جعفر وكان الذي هاج غزوة أحد بين رسول الله ﷺ ومشركي قريش وقعة بدر وقتل من قتل ببدر من أشراف قريش ورؤسائهم فحدثنا ابن حميد قال حدثنا سلمة عن محمد بن إسحاق قال وحدثني محمد بن مسلم بن عبيدالله بن شهاب الزهري ومحمد بن يحيى بن حبان وعاصم بن عمر بن قتادة والحصين بن عبدالرحمن بن عمرو بن سعد بن معاذ وغيرهم من علمائنا كلهم قد حدث ببعض هذا الحديث عن يوم أحد وقد اجتمع حديثهم كلهم فيما سقت من الحديث عن يوم أحد قالوا لما اصيبت قريش أومن قاله منهم يوم بدر من كفار قريش من أصحاب القليب فرجع فلهم إلى مكة ورجع ابو سفيان بن حرب بعيره مشى عبدالله بن أبي ربيعة وعكرمة بن أبي جهل وصفوان بن أمية في رجال من قريش ممن أصيب آباؤهم وأبناؤهم وإخوانهم ببدر فكلموا ابا سفيان بن حرب ومن كانت له في تلك العير من قريش تجارة فقالوا يا معشر قريش إن محمدا قد وتركم وقتل خياركم فأعينونا بهذا المال على حربه لعلنا أن ندرك منه ثأرا بمن أصيب منا ففعلوا فاجتمعت قريش لحرب رسول اللهﷺ حين فعل ذلك أبو سفيان وأصحاب العير بأحابيشها ومن أطاعها من قبائل كنانة وأهل تهامة وكل أولئك قد استعووا على حرب رسول اللهﷺ۔

[2]الخ

ترجمہ:قریش بڑی شان وشوکت سے جنگ کےلئے نکلے اور قریش کے مختلف قبیلے اور وہ لوگ جو بنو کنانہ اور تہامہ میں سے تھے ، ان کے ساتھ تھے اور یہ لوگ اپنی پردہ نشین عورتوں کو بھی ساتھ لے گئے تھے تاکہ وہ عورتوں کی نگہبانی کے احساس سے جنگ سے منہ نہ موڑیں۔ پس ابوسفیان بن حرب بھی نکلےاور وہ لوگوں کےقائد تھے ،ا ن کے ساتھ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بھی تھیں اور عکرمہ بن ابی جہل بن ہشام بن المغیرہ بھی نکلے ۔ ان کے ساتھ ام حکیم بنت الحارث بن الہشام بن المغیرہ بھی تھیں۔ حارث بن الہشا م بھی تھے ، ان کے ساتھ فاطمہ بنت الولید بن المغیرہ، (حضرت خالد بن الولید کی بہن)، صفوان بن امیہ بن خلف بھی نکلے اور ان کے ساتھ برزہ تھیں اور ایک روایت میں ہے کہ برّہ بنت مسعود بن عمرو بن عمیر الثقفیہ بھی نکلیں اور یہ عبداللہ بن صفوان کی والدہ ہیں، عمرو بن عاص بن وائل بھی نکلے اور ان کے ساتھ بریطہ بنت منبہ بنت الحجا ج بھی تھی اور یہ حضر ت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی والدہ تھیں اور طلحہ بن ابی طلحہ اور ابو طلحہ عبداللہ بن عبدالعزی بن عثمان بن عبدالدار بھی نکلے اور ان کےساتھ سلافہ بنت سعد تھیں اوروہ طلحہ کےبیٹے سلافہ، الجلاس اور کلاب کی والدہ ہیں اور اس دن یہ تینوں اور ان کے والد قتل ہوئے ۔ خناس بنت مالک بن المغرب نکلی، یہ بنو مالک بن حسل کی عورتوں میں سے ایک ہے ۔ اس کے ساتھ اس کا بیٹا ابو عزیز بن عمیر تھا اور یہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی ماں ہے اور عمرہ بنت علقمہ نکلی، یہ بنی حارث بن عبدمناف بن کنانہ کی عورتوں میں سے ایک ہے۔

اس کہانی کو ابن اسحاق اور ابن جریر طبری جو کہ ابن اسحاق ہی کی روایت ہے، اور اسی کو علامہ شبلی نعمانی نے بھی سیرۃ النبیؐ میں نقل کیا ہے، کو بڑھاتے ہوئے لکھتےہیں:

’’حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ہندرضی اللہ عنہا کے باپ عتبہ کو بدر میں قتل کیا تھا اور جبیر بن مطعم کے چچا بھی حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے ۔ اس بناء پر ہندرضی اللہ عنہا نے وحشی رضی اللہ عنہ کو ، جو جبیر بن مطعم کا غلام تھا اور حربہ اندازی میں کمال رکھتا تھا ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل پر آمادہ کیا اور یہ اقرار ہوا کہ اس کارگزاری کے صلہ میں اُس کو آزاد کردیا جائے گا۔ قریش کی عورتوں نے انتقام بدر کے جوش میں مسلمانوں کے لاشوں کا مثلہ کیا اور ان کے ناک، کان کاٹے۔ ہند نے ان کا ہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈالا۔ حمزہ رضی اللہ کے لاش پر گئی اور ان کا پیٹ چاک کرکے کلیجہ نکالا اور چبا گئی لیکن گلے سے نہ اتر سکا اس لئے اگل دینا پڑا اور ہند نے اپنا ہار حبشی رضی اللہ عنہ کے گلے میں ڈالا۔ تاریخوں میں ہند کا جو لقب جگر خوارہ لکھا جاتا ہے وہ اسی بناء پر لکھا جاتا ہے ‘‘۔[3]

اس روایت پر تبصرہ:

اس روایت پر غور کرنے سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔

1:حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ تھے۔

2:حبشی رضی اللہ عنہ جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔

3:حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے پر ان کی آزادی موقوف تھی۔

4:اس قتل پر بعض مؤرخین کے مطابق ان کو جبیر بن مطعم نے آمادہ کیا اور بعض کے بقول ہندرضی اللہ عنہا نے۔

5:بعض مؤرخین کے نزدیک ہند رضی اللہ عنہا نے ان کو آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا جب کہ وہ اس کا غلام بھی نہ تھا اور بعض کے نزدیک جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب حبشی رضی اللہ عنہ ہند رضی اللہ عنہا کے غلام بھی نہ تھے تو اس کو آزاد کرنے کا اخیتار کہاں سے اس کے پاس آیا؟

6: اس جنگ میں قریش کی متعدد عورتیں شریک تھیں۔

7: ان تمام عورتوں نے مسلمانوں کے لاشوں کا مثلہ کیا اور ان کے کان وناک کاٹ ڈالے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان عورتوں میں مؤرخین کو صرف ایک ہند رضی اللہ عنہا کا نام نظر آیا باقی کسی بھی عورت کا ذکر نہیں ہے جس نے مثلہ کیا ہو ؟ آخر باقی عورتوں کا حال کیوں نہیں بیان کیا گیا؟ جن کے اسماء طبری کی روایت میں اوپر مذکور ہوئے۔

8: علامہ شبلیؒ نے اس کو جگر خوارہ کا لقب دیا اور یہ کہا کہ تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام جگر خوارہ نام اس وجہ سے لکھا جاتا ہے لیکن کسی بھی عربی لغت کی کتاب کو اٹھا یا جائے تو جگر خوارہ کا لفظ نہیں ملے گا بلکہ جگرخوارہ کا لفظ فارسی کا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ بنو امیۃ خاندان کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے فارسی زبان لوگوں نے رکھ دیا ہو۔

9: اس روایت کو ابن اسحاق کے علاوہ کوئی اور روایت ہی نہیں کرتا ۔

10: ایک اہم اور سوال کہ جب حبشی رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے بعد نبی کریم ﷺ کے پاس گئے تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تو مجھ سے اپنا چہرہ نہیں چھپا سکتا؟ اور اس کی وجہ صرف حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قتل تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ قتل جس کے ایماء پر ہوا ہے اور کس نے حبشی کے ساتھ آزادی اور انعام کا وعدہ کیا ہے ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ نے یہ برتاؤ کیوں نہیں کیا؟ یعنی جبیربن مطعم اور ہند رضی اللہ عنہما کےساتھ۔ ان دونوں کے ساتھ تو حبشی رضی اللہ عنہ سے بھی سخت برتاؤ کرنا چاہیے تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کے ساتھ بہت ہی اچھا رویہ تھا۔

11: اس جنگ میں جتنے بھی صحابہ شریک تھے کسی سے بھی اس طرح کی کوئی روایت نہیں نقل کی گئی اور کفار کی طرف سے اس جنگ میں جتنے مرد اور عورتیں شریک تھیں (جن کے نام اوپر کی روایت میں مذکور ہیں)جو کہ اس جنگ کے چشم دید گواہ تھے، ان میں سے کسی نے بھی حضرت ہند رضی اللہ عنہا کا یہ قصہ بیان نہیں کیا کہ اُس نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا۔ہاں البتہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ جنگ کے اختتام پر ایک اعلان خود کرتے ہیں:’’ہمارے کچھ افراد نے لاشوں کا مثلہ کیا ہے لیکن میں نے نہ تو اس کا حکم دیا تھا اور نہ مجھے یہ بات بری معلوم ہوئی‘‘[4]۔

اب ابو سفیان کے یہ الفاظ اس بات کی شہادت ہے کہ یہ کام صرف عورتوں نے نہیں کیا تھا بلکہ اس میں مرد بھی شامل تھے۔ اب یہ کام کس کس نے کیا تھا اور کون سے مرد نے کیاتھا اور کون سی عورت نے کیا تھا؟ اس جنگ کے چشم دید گواہوں میں سے کوئی بھی بیان نہیں کرتا لیکن ابن اسحاق کو حضرت ہند کی ذات ضرور نظر آئی کہ یہ کا م صرف اسی نے کیا ہے۔ ضروری ہے کہ تاریخ کی کتابوں پر کسی فیصلہ سے پہلے حدیث کی کتابوں کا ایک بار ضرور ورق گردانی کرنی چاہئے تاکہ ان قصہ گو تاریخ دانوں کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ حضرت حمزہ کی شہادت خود اس کے قاتل حضرت حبشیکے زبانی اگر دیکھ لیا جائے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کی ذات پر کبھی بھی کوئی کیچڑ نہیں اُچال سکے گا۔ صحیح بخاری میں حبشی کی زبانی واقعہ وہاں تفصیل کےساتھ بیان ہوا ہے۔واقعہ کچھ یوں ہے:

قَالَ لِى عُبَيْدُ اللَّهِ هَلْ لَكَ فِى وَحْشِىٍّ نَسْأَلُهُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَةَ قُلْتُ نَعَمْ . وَكَانَ وَحْشِىٌّ يَسْكُنُ حِمْصَ فَسَأَلْنَا عَنْهُ فَقِيلَ لَنَا هُوَ ذَاكَ فِى ظِلِّ قَصْرِهِ ، كَأَنَّهُ حَمِيتٌ۔۔۔۔۔الخ۔

[5]

ترجمہ:عبیداللہ بن عدی نے (حضرت حبشی )سے کہا کہ تم ہمیں حضرت حمزہکی شہادت کا واقعہ بتا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! بات یہ ہوئی کہ بدر کی لڑائی میں حضرت حمزہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔ میرے آقا جبیر بن مطعم  نے مجھ سے کہا کہ اگر تم نے حمزہ کو میرے چچا (طعیمہ) کے بدلے میں قتل کردیا تو تم آزاد ہوجاؤگے۔ انہوں نے پھر بتا یا کہ جب قریش عینین کی جنگ کیلئے نکلے( عینین احد کی ایک پہاڑی ہے اس کے اور احد کے درمیان ایک وادی حائل ہے)تو میں بھی ان کے ساتھ جنگ کے ارادے سے ہولیا۔ جب (دونوں فوجیں آمنے سامنے)لڑنے کیلئے صف آراء ہوگئیں تو( قریش کے صف میں) سباع بن عبدالعزی نکلا اور اس نے آواز دی: ہے کوئی لڑنے والا؟ (اس کی دعوت مبارزت پر )حمزہ بن عبدالمطلب نکل کر آئے اور فرمایا: اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے! جو عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی۔ تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے لڑنے آیا ہے؟پھر حمزہ نے اس پر حملہ کیا اور اس کو گزرے ہوئے کل کی طرح بنا دیا۔ ادھر میں ایک چٹان کے نیچے حمزہ کی تاک میں تھااور جوں ہی وہ مجھ سے قریب ہوئے ، میں نے ان پر اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا۔ نیزہ ان کی ناف کے نیچے جا کرلگااور ان کی سرین کے پار ہوگیا اور یہی ان کی شہادت کا سبب بنا، پھر جب قریش واپس ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس ہوگیا اور مکہ میں مقیم رہا لیکن جب مکہ بھی اسلامی سلطنت کے تحت آگیا تو میں طائف چلا گیا ۔ طائف والوں نے بھی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک خادم بھیجاتو مجھ سے وہاں کے لوگوں نے کہا کہ انبیاء کسی پر زیادتی نہیں کرتے۔ چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو دریافت فرمایا: کیا تمہارا ہی نام وحشی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ پھر فرمایا کہ تم ہی نے حمزہ کو شہید کیا تھا؟ میں نے عرض کیا جو آپ ﷺ کو اس معاملے میں معلوم ہے، وہی صحیح ہے۔نبیﷺ نے فرمایا: کیا تم ایسا کرسکتے ہو کہ اپنی صورت کبھی مجھے نہ دکھاؤ؟ اور پھر میں وہاں سے نکل گیا۔(اس سے آگے مسلمہ کذاب کے قتل کا واقعہ بیان کرتے ہیں جو اختصار کی وجہ سے چھوڑا جارہا ہے۔تفصیل کیلئے حوالہ بالا دیکھے)۔