Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہا

  ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی

معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہا:

معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا اور وہ دونوں اپنے نکاح پر قائم رہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں سے بیعت لینے کے بعد عورتوں سے بیعت لینے لگے تو ان عورتوں میں ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھی۔ اس نے اس خوف کے پیش نظر بھیس بدل رکھا تھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہچان نہ لیں۔ اس نے غزوۂ احد کے موقع پر آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا تھا اس کا منظر اس کے سامنے تھا۔ آپ نے عورتوں سے یہ بیعت لی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، کسی پر بہتان نہیں لگائیں گی اور اچھے کاموں کی مخالفت نہیں کریں گی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’چوری نہیں کریں گی۔‘‘ تو ہند رضی اللہ عنہ کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! ابوسفیان رضی اللہ عنہ بخیل آدمی ہے، وہ مجھے اتنا مال نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو، اگر میں اس کے علم میں لائے بغیر اس کے مال سے کچھ لے لوں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو اس کے مال سے اس قدر لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بچوں کو کفایت کر سکے۔‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ: ’’تم زنا نہیں کرو گی‘‘ تو ہند رضی اللہ عنہ کہنے لگی: کیا آزاد اور شریف عورت بھی ایسا کر سکتی ہے؟ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہچان لیا تو دریافت فرمایا: ’’کیا تو ہند رضی اللہ عنہ بنت عتبہ ہے؟‘‘ تو اس نے اس کا اثبات میں جواب دیا۔ پھر گویا ہوئی: گزشتہ ایام میں جو کچھ ہوا اس سے درگزر فرمائیں۔ اللہ آپ سے درگزر فرمائے گا۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتے تھے، لہٰذا ان عورتوں نے مصافحہ کیے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ آپ صرف اس عورت کے ہاتھ کو مس کیا کرتے تھے جو آپ کی محرم ہوتی یا اللہ نے اسے آپ کے لیے حلال کیا ہوتا۔

بخاری و مسلم میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی بھی کسی غیر عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کیا۔

[صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۵۲۸۸، مسلم، حدیث نمبر: ۱۸۶۶.]

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب ہند رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے پسندیدہ دین کو غلبہ عطا فرمایا۔ میرے ساتھ آپ کی قرابت داری کا مجھے فائدہ ہونا چاہیے۔ میں اللہ تعالی پر ایمان رکھنے والی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والی خاتون ہوں۔ پھر وہ اپنے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہوئے گویا ہوئی: میں ہند رضی اللہ عنہ بنت عتبہ ہوں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خوش آمدید کہا۔ وہ کہنے لگی:

اے اللہ کے رسول! ابوسفیان رضی اللہ عنہ بخیل آدمی ہے، اگر میں اس کے مال سے اپنے بچوں کو کچھ کھلا لوں تو کیا اس میں کوئی مضائقہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’معروف کے ساتھ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔‘‘

[الطبقات الکبری: ۸/۱۷۲، صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۳۸۲۵.]

ہند رضی اللہ عنہا اسلام قبول کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے بعد گھر گئیں اور پھر اپنے ہاتھوں سے اپنے بت کو توڑنے لگیں۔ یہاں تک کہ اسے ریزہ ریزہ کر دیا، وہ کہہ رہی تھیں: میں تیرے بارے میں دھوکے میں رہی۔

[الطبقات الکبری: ۸/۱۷۲.]

پھر جب انہوں نے فرزندان توحید کو کعبہ مشرفہ میں مصروف عبادت دیکھا تو پکار اٹھیں: و اللہ! میں نے آج تک کسی کو اس طرح اللہ کی عبادت کرتے نہیں دیکھا تھا۔ یہ لوگ رات بھر مصروف عبادت رہے۔

[نحو رؤیۃ جدیدۃ للتاریخ، ص: ۲۰۰.]

زمانہ جاہلیت میں ہند رضی اللہ عنہا نے سیدہ زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑا اچھا برتاؤ کیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اپنے شوہر ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ مکہ میں رہائش پذیر تھیں۔ غزوۂ بدر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کے ایک معاہدہ کے تحت انہیں مدینہ منورہ لانے کے لیے ایک آدمی کو مکہ مکرمہ بھیجا۔ جنگ بدر میں مارے جانے والے قریش مکہ کے خون ابھی خشک نہیں ہوئے تھے، اس جنگ میں ہند رضی اللہ عنہ کو اس کے باپ، بھائی اور چچا کی ہلاکت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا تھا۔ وہ قریش کی محافل و مجالس میں جاتی اور مسلمانوں سے انتقام کی آگ بھڑکاتی۔ اسے یہ خبر مل چکی تھی کہ دختر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والد گرامی کے پاس مدینہ جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ جب ایک دفعہ اس کی ملاقات زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی تو ان سے کہنے لگی: بنت محمد! مجھے معلوم ہوا کہ تم اپنے باپ کے پاس مدینہ جانے کی تیاری کر رہی ہو، اگر تمہیں سفری ضروریات کی تکمیل کے لیے کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں تمہاری تمام ضروریات کی تکمیل کے لیے حاضر ہوں، لہٰذا تمہیں مجھ سے شرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مردوں کے معاملات الگ ہیں اور تم عورتوں کے الگ۔ سیدہ زینب، ہند رضی اللہ عنہما کی اس فراخ دلانہ پیش کش سے بڑی خوش ہوئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہند رضی اللہ عنہ نے ایسا کرنے کے لیے ہی یہ باتیں کی تھیں۔

پھر جب دختر رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئیں تو قریش کے کچھ لوگوں نے ان کا راستہ روک لیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اس وقت حمل کی حالت میں تھیں۔ مشرکین کے تشدد کی وجہ سے وہ اونٹنی سے گر گئیں اور ان کا حمل ساقط ہو گیا۔ یہ دیکھ کر ہند رضی اللہ عنہا دوڑتی ہوئی آئی اور ان لوگوں کو غیرت دلاتے ہوئے چلا کر کہنے لگیں: ایک غیر مسلح خاتون کے ساتھ معرکہ آرائی؟ تمہاری یہ شجاعت بدر کے دن کہاں گئی تھی؟ پھر اس نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو اپنی آغوش میں لے کر ان کے جسم سے گرد و غبار وغیرہ کو صاف کیا اور ان کی حالت کو درست کیا، پھر بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والد گرامی کے پاس جانے کے لیے نئے سرے سے تیاری شروع کر دی۔

[ ایضا، ص: ۲۰۶، فرسان من عصر النبوۃ، ص: ۸۵۳.]

ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا بڑی دانا، بلند پایہ شاعرہ اور خود دار خاتون تھیں۔ مروی ہے کہ وہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے پہلے فاکہ بن مغیرہ کے نکاح میں تھیں۔ یہ قریشی نوجوان شراب کا بڑا رسیا تھا، جب اس کے گھر شراب کی محفل سجتی تو اس کے ہم پیالہ اجازت لیے بغیر ہی گھر میں گھس آتے۔ ایک دن جب وہ اس کے پاس گھر آئی تو گھر میں کوئی نہیں تھا، لہٰذا وہ سو گئی۔ اس دوران اس کے خاوند کا کوئی شرابی ساتھی گھر میں داخل ہوا اور یہ دیکھ کر کہ ہند رضی اللہ عنہا سو رہی ہے، وہ واپس چلا گیا اور راستے میں اس کی فاکہ سے ملاقات ہو گئی۔ جب اس نے گھر میں ہند رضی اللہ عنہ کو سوتے ہوئے پایا تو اس نے ہند رضی اللہ عنہا پر اس آدمی کے ساتھ بدکاری کی تہمت لگا دی۔ پھر بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک جا پہنچی کہ انہوں نے بالاتفاق یہ معاملہ کسی کاہن کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ گھر سے روانگی کے وقت اس کا باپ عتبہ بھی ساتھ تھا جبکہ اس کا شوہر بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ جب یہ لوگ کاہن کے قریب پہنچے تو ہند رضی اللہ عنہ کے باپ نے دیکھا کہ اس کا رنگ زرد ہو رہا ہے۔ وہ تنہائی میں جا کر اس سے کہنے لگا: بیٹی! میں دیکھ رہا ہوں کہ تیرا جسم تبدیل ہو رہا ہے اور رنگ بھی پیلا پڑ رہا ہے، اگر تجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے تو خاموشی سے مجھے بتا دے تاکہ معاملہ یہیں رفع دفع ہو جائے اور ہم لوگوں کے سامنے رسوائی سے بچ جائیں۔ اس پر ہند رضی اللہ عنہا گویا ہوئی: ابا جان! میں بالکل بے گناہ ہوں مگر ہم ایک انسان کے پاس جا رہے ہیں، اس سے غلطی بھی ہو سکتی ہے اور وہ صحیح بات بھی بتا سکتا ہے، مجھے یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ اگر اس نے میرے بارے میں کوئی غلط فیصلہ کر دیا تو ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رسوا ہو کر رہ جائیں گے۔ اس پر عتبہ کہنے لگا: میں اسے ابھی جانچ لیتا ہوں۔ جب اس نے ایسا کہا تو کاہن اس میں کامیاب رہا۔ پھر انہوں نے ہند رضی اللہ عنہ کو دوسری عورتوں میں بٹھا کر کاہن سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کھڑے ہو کر اپنا ہاتھ ہند رضی اللہ عنہا کے دونوں کندھوں کے درمیان مارا اور پھر کہنے لگا: خاتون! تو پاک دامن ہے، تو نے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا، تو ایک ایسے بادشاہ کو جنم دے گی جس کا نام معاویہ ہو گا۔ یہ سن کر فاکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اچھل کر کہنے لگا: میری بیوی۔ اس پر ہند رضی اللہ عنہا نے اس سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا: و اللہ! میں چاہوں گی کہ وہ تیرے علاوہ کسی اور مرد سے ہو۔ پھر اس نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا جس سے معاویہ رضی اللہ عنہما نے جنم لیا۔

[التبیین فی انساب القرشیین، ص: ۲۱۹.]

ہند رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں وفات پائی۔

[ایضا، ص: ۲۱۹.]

کتاب کا نام: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے
مصنف: ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی
ناشر: الفرقان ٹرسٹ
مترجم: پروفیسر جار اللہ ضیاء