Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اپنے بعد خلیفہ کو وصیت

  علی محمد الصلابی

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اپنے بعد خلیفہ کو وصیت

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو انتہائی اہم وصیت کی۔ وصیت کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا: 

’’میں تمہیں اللہ سے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں، اور میں تمہیں مہاجرین اوّلین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں ان کی سبقت کا خیال رکھنا، اور انصار کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، ان میں محسن کی بات قبول کرنا اور خطاکار سے درگزر کرنا، اور اہلِ امصار کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، وہ دشمن سے بچانے والے ہیں اور فے کو وصول کر کے لانے والے ہیں، ان سے وہی وصول کرنا جو ان سے زائد ہو۔ اسی طرح دیہات والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، وہ عرب کی اصل اور اسلام کا خام مال ہیں، تم ان کے بچے ہوئے مال میں سے لینا اور پھر ان کے فقراء و مساکین کو لوٹا دینا، ذمیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، ان کے پیچھے جو ہیں ان سے قتال کرنا، ان کی طاقت سے زیادہ ان کو مکلف نہ کرنا جب کہ وہ طوعاً و کرہاً مومنوں کے جو حقوق ان پر ہیں ادا کریں۔ میں تمہیں اللہ سے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، اس کے عتاب سے بچنا، اس کی ناراضی سے خوف کھانا کہ وہ تمہیں کسی شک میں مبتلا پائے۔ تمہیں میری یہ وصیت ہے کہ لوگوں کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا، اور اللہ کے بارے میں لوگوں سے نہ ڈرنا، رعیت کے ساتھ عدل و انصاف لازم پکڑنا، ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہمیشہ تیار رہنا، فقراء پر مال داروں کو ترجیح نہ دینا، ان شاء اللہ اس سے تمہارا دل محفوظ رہے گا اور تمہارا بوجھ ہلکا ہو گا اور تمہارا انجام کار بہتر ہو گا یہاں تک کہ تم اس ذات سے ملو جو تمہارے خفیہ رازوں سے واقف ہے اور جو تمہارے اور تمہارے دل کے مابین حائل ہوتا ہے۔

میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ احکامِ الہٰی، اس کی حدود اور معصیت کے سلسلہ میں لوگوں پر سخت رہنا، خواہ وہ قریبی ہوں یا دُور کے، اس سلسلہ میں کسی پر رحم نہ کھانا، جس پر حق عائد ہو اس سے حق وصول کرنے میں کسی کی پروا نہ کرنا، اور اللہ کے سلسلہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کرنا۔ خبردار! اللہ کی طرف سے اہلِ ایمان کو عطا کردہ چیزوں میں جس کا تمہیں اللہ والی بنائے ترجیح نفس سے بچنا اور اس میں انصاف سے منحرف نہ ہونا کہ ظلم و زیادتی کرنے لگو اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز میں تمہیں وسعت دی ہے اس سے اپنے آپ کو محروم کرنے لگو جب کہ تم دنیا و آخرت کے منازل میں ایک مقام پر پہنچ چکے ہو۔ اگر تم اپنی دنیا کے لیے عدل و عفت کو اختیار کرو گے تو ایمان و رضا حاصل ہو گی، اگر تمہارے اوپر ہویٰ و ہوس کا غلبہ ہو گا تو اللہ کا غضب حاصل ہو گا۔ میں تمہیں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ ذمیوں پر ظلم کے سلسلہ میں نہ تو اپنے آپ کو اور نہ دوسروں کو رخصت دینا، میں نے تم کو وصیت کر دی، اور تمہیں خاص کیا، اور تمہیں نصیحت کی لہٰذا اللہ کی رضا اور دارِ آخرت کے طالب بنو، میں نے تمہیں وہی رہنمائی و نصیحت کی ہے جس کو میں اپنے اور اپنی اولاد کے لیے پسند کرتا ہوں۔ پس میں نے تمہیں جو وعظ کیا ہے اگر تم نے اس پر عمل کیا اور تمہیں جو حکم دیا اس کو کر گزرے تو اس سے وافر مقدار اور کافی حصہ تمہیں حاصل ہو گا اور اگر تم نے اسے قبول نہ کیا اور اہمیت نہ دی اور اہم امور کو اس حد تک نہیں پہنچایا جو اللہ کو پسند ہے تو یہ تمہارے لیے نقص ہو گا اور تمہاری رائے محفوظ نہ رہے گی۔ اس لیے کہ خواہشات و اہواء مشترک ہیں اور معصیت و گناہ کا لیڈر ابلیس ہر ہلاکت و تباہی کی طرف دعوت دینے والا ہے۔ وہ تم سے پہلے گزشتہ اقوام کو تباہ کر چکا ہے اور انہیں جہنم جیسے برے مقام پر پہنچا چکا ہے۔ بدترین قیمت یہ ہے کہ انسان کے حصہ میں اللہ کے دشمن کی دوستی آئے جو معصیت کا داعی ہے۔ پھر تم حق کو اختیار کرو اور اس کے لیے سختیوں کو برداشت کرو اور اپنے نفس کے لیے واعظ بنو، میں تمہیں اللہ کی قسم دلاتا ہوں کہ تم مسلمانوں پر رحم کھانا، بڑوں کا اجلال و اکرام کرنا اور چھوٹوں پر رحم کرنا، عالموں کی توقیر و تعظیم کرنا، مسلمانوں کو مارنا نہیں کہ وہ ذلیل ہو جائیں، اور مال فے کو اپنے لیے مخصوص نہ کر لینا جس سے وہ غصہ ہو جائیں۔ انہیں ان کے عطیات سے محروم نہ رکھنا کہ وہ محتاج ہو جائیں، ان کو اس طرح جنگ میں نہ جھونک دینا کہ ان کی نسلیں ختم ہو جائیں۔ مال کو صرف اغنیاء کے درمیان محصور نہ رکھنا۔ اپنا دروازہ ان کے سامنے بند نہ کرنا کہ قوی ضعیف کو کھا جائے۔ یہ میری تمہیں وصیت ہے اور میں اللہ کو تم پر گواہ بناتا ہوں۔ والسلام علیکم‘‘۔

(الطبقات لابنِ سعد: جلد، 3 صفحہ، 339 البیان والتبیین، الجاحظ: جلد، 2 صفحہ، 46 الکامل فی التاریخ: جلد، 2 صفحہ، 210 الخلیفۃ الفاروق عمر بن الخطاب، العانی: صفحہ، 171، 172)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ وصیت حکومت اور ادارہ کے مسائل میں بے نظیر ہے اور ان کے مکمل نظام اور منہج کو واضح کرتی ہے۔ دینی، سیاسی، عسکری، اقتصادی اور اجتماعی امور سے متعلق حکومت کے لیے اہم دستاویز ہے۔ اس وصیت کے اہم اصول و مبادی یہ ہیں: