حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جناب سیدہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا مکان جلادیا اور آپ کے پہلوئے مبارک میں تلوار کا کچوکا دیا کہ اس کے صدمہ سے آپ کا حمل ساقط ہوگیا۔(معاذاللہ)۔
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویاعتراض یہ ہے کہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جناب سیدہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا مکان جلادیا اور آپ کے پہلوئے مبارک میں تلوار کا کچوکا دیا کہ اس کے صدمہ سے آپ کا حمل ساقط ہوگیا۔(معاذاللہ)۔
الجواب:
یہ قصہ سراسر بہتان اور بدترین افتراء اور جھوٹ ہے اسکی کوئی اصلیت نہیں۔ اس لئے امامیہ حضرات کی اکثریت اس قصہ کی قائل ہی نہیں۔ اتنا کہتے ہیں کہ گھر جلانے کا ارادہ کیا تھا مگر وہ ارادہ عمل میں نہیں آسکا۔ حالانکہ قصد و ارادہ دل کی کیفیت ہے جس پر خدا کے سوا کوئی مطلع نہیں ہوسکتا ۔
اگر ان کی مراد یہ ہو کہ آپ نے زبانی طور پر ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ میں اسکو جلا دوں گا تو یہ ڈراوا اور دھمکی بھی ان لوگوں کے لئے تھی جو جناب سیدہ کے مکان کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ،جوہر خائن کا ملجا اور جائے پناہ تھا اور جسے انہوں نے حرم مکہ کا درجہ دے رکھا تھا، اور خلیفہ اول کی خلافت کے خلاف فساد انگیز مشورے کرتے اور منصوبے بناتے اور فتنہ وفساد کرنے کی تدبیریں سوچتے ۔ خود جناب سیدہ زہرا ان کی نشست اور فساد انگیز حرکات سے شاکی اور نالاں تھیں ۔ مگر حسن خلق کے سب کھلم کھلا ان کو اپنے یہاں آنے سے منع نہ کرسکتی تھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان حالات کا علم ہوا اور حقیقت واقعہ سے آگاہی ہوئی تو آپ نے ان جمع ہونے والے فسادیوں سے کہا کہ اگر تم اپنی فسادانگیز حرکات سے باز نہ آئے تو گھر سمیت تم کو جلا دوں گا۔ کی دھمکی کی تخصیص ایک لطیف و باریک استنباط پر مبنی ہے جو آپ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک سے فرمایا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو نماز کی جماعت میں شریک نہیں ہوتے اور امام کی اقتدا نہیں کرتے تھے اس قسم کی دھمکی دی تھی کہ اگر یہ لوگ ترک جماعت کرتے رہے اور اس سے باز نہ آئے تو میں ان کو بمع ان کے گھروں کے جلا دوں گا۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے مقرر فرمودہ پیش امام تھے ، اور یہ سازشی لوگ امام حق کی اقتدار چھوڑنے کے منصوبے بنا رہے تھے اور مسلمانوں کی جماعت سے رشتہ رفاقت توڑ نے پر کام کر رہے تھے اس لئے وہ حصنی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تہدی کے مستحق قرار پائے ۔ لہذا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل سے ملتا ہے جو فتح مکہ کے وقت ظہور میں آیا تھا جب فتح مکہ کے دن آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ ابن خطل رجو کفار کا شاعر تھا جس نے بارہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجو میں اشعار کہے اور روسیاہ ہوا ۔) حرم کعبہ میں جا چھپا ہے اور اس کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا وہ جہاں چھپا ہے وہیں اسکو قتل کرو اور کسی بات کا لحاظ نہ کرو ۔ تو ایسے لعنتی اور پھٹکار مارے راندہ درگاہ الہی لوگوں کو خانہ خدا میں بھی پناہ نہیں تو خانہ زہراء رضی الل عنہا میں ان کو امان کیسے مل سکتی ہے۔ اور جناب زہرا رضی اللہ عنہا کو ایسے فسادیوں کی سزا پر تکدر کیوں ہونے لگا علاوہ ازیں خود ان سے بھی ایسی صحیح روایات منقول ہیں کہ جناب زیرا رضی اللہ عنہا خود بھی ان لوگوں کو اس طرح جمع ہونے سے منع فرماتی تھیں اور اس سلسلہ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جناب فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول جناب علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے فعل سے بدرجہا کم ہے ،کہ شہادت ذوالنورین جناب عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد جب آپ مسند آراء خلافت ہوئے تو وہ لوگ جو آپ کی خلافت کا تختہ الٹنے کے منصوبے اپنے ذہنوں میں رکھتے تھے ، مدینہ منورہ سے بھاگ کر حرم مکہ میں جا پہنچے۔ قاتلین عثمان سے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں کے ہمنوا ہو گئے اور حرم محترم جناب صدیقہ یعنی اللہ عنہا کے ساتھ ہو گئے تو ایسے لوگوں کو آپ نے قتل کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم محترم اور اپنی ماں ، بلکہ ام المؤمنین کی حرمت و عزت کا کوئی پاس نہ کیا۔
اس سلسلہ میں حرم رسول کو جو کچھ تکلیف پہنچی اور جو اہانت و ذلت اٹھائی وہ اظہر من الشمس ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جناب علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو صواب و درست ہی کہیں گے کیونکہ اس قسم کے اہم امور میں جو عام فتنہ وفساد کا سبب بن سکتے ہوں ، انفرادی مصلحتوں کو ملحوظ رکھنا اور فتنہ کے مبادی و مقدمات کو نظر انداز کر دینا ان کے دفعیہ کی کوشش نہ کرنا دین و دنیا کے معاملات میں بے تدبیری سمجھی جائے گی ۔ توجس طرح سیدہ زہرا رضی اللہ عنہا کی جائے قیام و سکونت لائق عزت تھی ، اسی طرح ام المومنین جو حرم محترم رسول، آپکی محبوب زوجہ ، اور محبوبہ الہی بھی تھیں ۔ آپ بھی واجب الاحترام اور لائق تعظیم تھیں بلکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تو ڈرانے کی غرض سے اور تہدید و ترہیب کی بنا پر محض قول ہی صادر ہوا تھا ۔ اور جناب امیر رضی اللہ عنہ نے تو اس کو عمل کی بھی آخری حد تک پہنچا دیا ۔ لہذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق زبان طعن دراز کرنا تعصب عناد پر مبنی ہے ۔ حالانکہ جناب فاروق رضی اللہ عنہ کا قول جناب امیر رضی اللہ عنہ کے فعل سے باعتبار درجہ بہت ہی کم اور ہلکا تھا۔
اب اگر اہل سنت پر الزام دینے کی خاطر فرق پیدا کر کے یہ کہا جائے کہ
چونکہ علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق تھی لہاذا نظام مملکت کی حفاظت ضروری اور اولیت رکھتی ہے ، اس کے مقابلہ میں ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا پاس اور حرم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ وہاں ساقط ہو گا۔ اور خلافت جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چونکہ ناحق تھی اس لئے خلافت فاسدہ کے انتظام کے تحفظ کے لئے جناب سیدہ رضی اللہ عنہا کے مکان کے احترام کا لحاظ نہ کرنا وبال اور قابل اعتراض بات ہوگی ۔
تو یہ فرق ہمارے نزدیک انتہائی حماقت نادانی اور بے عقلی کی بات ہے ، اس لئے کہ اہل سنت تو دونوں خلافتوں کو برابر سمجھتے اور برحق مانتے اور جانتے ہیں۔ خصوصا ایسے وقت کہ اعتراض حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر کیا جارہا ہے کیونکہ ان کے نزدیک تو جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حقیقت خلافت متعین ہوچکی تھی اور اس وقت جناب صدیق رضی اللہ عنہ کا کوئی ایسا مخالف اور ہمسر بھی میدان میں دعوائے خلافت کے ساتھ موجود نہ تھا۔ جس کی مخالفت کچھ بھی اہمیت رکھتی ہو تو منظم اور برحق خلافت کے خلاف سازشیں کرنا اور منصوبے بنانا خصوصا جبکہ جوش اسلام کی نشو نما ہو رہی تھی اور دین وایمان کے پودے نے جڑہی پکڑی تھی سزائے قتل کو واجب کرتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے سازشیوں کو اس وقت قتل بھی کر دیتے تو یہ جائز اورحق تھا۔ انہوں نے ڈرا دھمکا کر ہی جان بخشی کر دی ! اور تعجب تو ان شیعہ فضلا پر ہوتا ہے جنہوں نے اس واقعہ کو نمک مرچ لگا کر اور بڑھا چڑھا کر اپنا خبث و بغض سب پر عیاں کر دیا ہے کہ جن جوانوں کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ڈرا دھمکایا تھا ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی جناب زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ اور اس کے بعد جناب سیدہ زہراء رضی اللہ عنہا نے بنی ہاشم کے نوجوانوں اور زبیر رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر پر مجلس بر پا کرنے اور اکھٹے ہونے سے منع فرمایا ۔
سبحان اللہ ! کیا انوکھی منطق ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خلاف جناب زبیر رضی اللہ عنہ فساد کے منصوبے بنائیں تو وہ معصوم بے خطا اور واجب التعظیم ہوں اور جب یہی زبیر رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص طلب کرنے میں لہجہ تند و درشت رکھیں تو واجب القتل قرار پائیں ! جناب سیدہ زہراء رضی اللہ عنہ کے مکان میں جب لوگ فتنہ وفساد برپا کرنے کے منصوبے بنائیں ۔سازشیں کریں تو وہ مقبول و پسندیدہ ہوں ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب زوجہ جو بلاشبہ ام المؤمنین تھیں ۔ کی قیادت و ہمرکابی میں قصاص کا دعوی یا قاتلین عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شکایت میں زبان کھولیں تونا مقبول اور مردود القول قرار دئے جائیں۔ ایسا لچر اور واہیات فرق اصول شیعہ ہی پر مبنی ہوسکتا ہے ۔ اگر وہ اہل سنت پر اپنے ہی اصولوں سے الزام تھوپنا چاہیں، تو سیدھا سیدھا کہیں،اس ایچ پیچ کی کیا ضرورت ہے ، جب رسول اللہ علیہ وسلم نے ترک جماعت پر جو سنت مؤکدہ تھی، اور اس کا فائدہ صرف مکلفین تک محدود تھا ۔ اس کے ترک سے عائمہ مسلمین کو کوئی خطرہ یا نقصان نہیں پہنچتا تھا۔ اس سبب کے باوجود ان تارکین جماعت کے گھروں کو جلانے کی تہدید فرمائی ۔ تو ایسے فتنہ و فساد پر جس سے پوری ملت اسلامیہ کے متاثر اور خونچکاں ہونے کا خطرہ ہو، اور دین کو ملیا میٹ کرنے کا سامان ہو ، تو ایسی سازش گاہ کو جلانے کی دھمکی کیوں جائز نہ ہو!
اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جناب سیدہ زہرا رضی اللہ عنہا کے مکان میں اس وقت تک داخل نہ ہوں جب تک دروازہ منقش و باتصویر پرده نہ اتارلیا جائے ۔ یا خانۂ خدا حرم کعبہ میں اس وقت تک تشریف نہ لے جائیں۔ جب تک وہاں موجود حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل علیہما السلام کے مجسے نہ نکلوادیں۔ تو اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی متبرک اور مکرم مقام کو جہاں فتنہ انگیر تدابیر سوچی جا رہی ہوں، حاضرین سمیت جلا دینے کی دھمکی دیں تو اس میں گناہ کی کیا بات ہے ۔ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ ادب کی رعایت نہ کرنے کی ہو سکتی ہے تو یہ معلوم ہوگیا ایسے اہم اور مہتم بالشان امور میں ادب کی رعایت اور لحاظ نہیں کیا جاسکتا ،جناب امیر رضی اللہ عنہ کا اپنا رویہ اس کا ثبوت اور دلیل ہے ۔ کیا شیعہ لوگ دنیا کو یہ باور کرانا اور جناب امیر پر یہ الزام رکھنا چاہتے ہیں کہ آپ محبوب رسول ام المومنین جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ادب نہیں فرماتے تھے اور آپ کی نظر میں آپ کے لئے کوئی اعزاز کوئی احترام نہیں تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ اور جناب امیر رضی اللہ عنہ کے کبھی خواب وخیال میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی ۔ اس کے باوجود آپ کا رویہ جناب صدیقہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے ہمراہوں کے ساتھ جو درشت ہوا تو وہ نظم مملکت کی حفاظت کا تقاضا تھا۔ اس کو اہانت و بے قدری صدیقہ پر محمول شیعہ ذہن ہی کر سکتا ہے ، لہذا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایسا فعل سرزد ہوجو فعل معصوم سے ملتا ہو تو وہ کسی منطق سے محل طعن و تشیع ہوسکتا ہے ۔
تحفہ اثنا عشریہ
تالیف : حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی
( المتوفی ۱۲۳۹ھ)
ترجمہ : مولانا محمد عبدالمجید خاں