خانہ علی و بتول پر یلغار (شیعہ کتاب بیت الاحزان)
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند خانہ علی و بتول پر یلغار
(شیعہ کتاب بیت الاحزان)
علامہ طبرسی نے احتجاج میں عبداللہ بن عبدالرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے ۔ اس نے کہا: عمر بن خطاب نے اپنے دامن کو مضبوطی سے باندھا اور مدینہ میں گھومنے لگے اور بلند آواز میں کہنے لگے:
لوگ ابوبکرؓ کی بیعت کر چکے ہیں ۔ تم لوگ بھی تیزی سے ابوبکرؓ کی بیعت کرو ۔ لوگ خوف زدہ ہوکر ابوبکرؓ کی بیعت کرنے لگے۔
حضرت عمرؓ کو اطلاع ملتی کہ ایک گروہ اپنے گھروں میں چھپا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی جماعت کو لے کر ان پر یلغار کرتے اور انہیں بزور طاقت مسجد میں لے کر آتے اور ان سے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت لیتے ۔
کئی روز تک یہی حالات رہے پھر عمر ایک بڑی جماعت لے کر حضرت علیؓ کے دروازے پر آئے اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ گھر سے نکل کر ابوبکرؓ کی بیعت کریں۔
حضرت علیؓ نے ان کا مطالبہ مسترد کر دیا۔
عمر نے لکڑیاں اور آگ لانے کا حکم دیا اور کہا:
“والذي نفس عمر بيده ليخرجن اولاحرقته علی مافیہ ‘‘
اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں عمر کی جان ہے یا تو یہ لوگ گھر سے باہر نکلیں گے یا میں اس گھر کو اس کے مکینوں سمیت جلا دوں گا۔
(شرح نہج البلاغه ابن ابی الحدید معتزل۔ جلد ششم میں ۴۸ ۔ تاریخ طبری)
بعض حاضرین نے عمرؓ سے کہا: ’’اس گھر میں رسول خدا ﷺ کی بیٹی فاطمہؓ اور ان کے نواسے حسن و حسین اور آثار رسول بھی ہیں ۔
حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا : تم نے کیا سوچا ہے تمہارا کیا خیال ہے کہ میں ایسا کام کروں گا میرا مقصد انہیں ڈرانا ہے جلانا نہیں ۔
حضرت علیؓ نے پیغام بھیجا: ’’میرا گھر سے باہر آنا ممکن نہیں کیونکہ میں قرآن مجید کو جمع کرنے میں مصروف ہوں: جبکہ تم نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا ہے اور تم دنیا سے دل لگا چکے ہو۔ میں قسم کھا چکا ہوں جب تک قرآن مجید جمع نہ کرلوں گا اس وقت تک نہ تو گھر سے باہر نکلوں گا اور نہ ہی اپنے کندھوں پر عبا ڈالوں گا ۔ اس وقت حضرت فاطمہؓ بنت پیغمبر اٹھیں اور دروازے کی اوٹ کے قریب کھڑی ہوئیں اور لوگوں سے کہا: میں نے تم جیسی بے وفا قوم نہیں دیکھی ۔ تم نے رسول خدا ﷺ کے جنازے کو چھوڑ دیا اور اپنے معاملات خود ہی حل کر لئے اور تم نے ہم سے مشورہ تک نہ کیا اور تم نے ہمارے حق کو فراموش کر دیا ہے۔ تمہاری حالت یہ ہے کہ گویا تمہیں روز غدیر کے واقعہ کا علم تک نہیں ہے ۔ خدا کی قسم ! رسول خدا نے اس دن علی کی ولایت اور دوستی کا لوگوں سے عہد لیا تھا تا کہ خلافت کے متعلق تمہاری امید کو ختم کیا جا سکے ۔ لیکن تم نے پیغمبر اکرم ﷺ سے اپنے تمام تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔
واللہ حسيب بيننا وبينكم في الدنيا والاخرة
الله دنیا و آخرت میں ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔
اہل سنت کتب میں اگرچہ دهمکی کی روایات ضعیف ہیں، اس کے باوجود حضرت عمر فاروقؓ کے ارادے پر غور فرمائیں!
آگ لگانا تو دور ، آگ لگانے کی نیت بھی نہیں تھی۔ دروازے کو آگ لگنا، دروازے کا سیده فاطمہؓ ک اوپر گرنا ،دروازہ لگنے سے سیدہ کا شدید زخمی ہونا، حمل ساقط ہوجانے اور حضرت محسن کے شہید ہونے میں کوئی حقیقت نہیں ہے!