مسلمانوں کے معاملات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر نا انصافی کا اتہام
علی محمد الصلابیمسلمانوں کے معاملات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر نا انصافی کا اتہام
شیعی روایات نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مسلمانوں کے معاملات میں متہم کیا ہے، اور یہ باور کرایا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس بات پر راضی نہیں تھے کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ خلیفہ کے انتخاب کی کارروائی چلائیں۔ ابو مخنف رافضی، ہشام کلبی اور احمد جوہری نے یہ بیان کیا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں جانب ووٹ برابر ہونے کی صورت میں ترجیحی صلاحیت سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو سونپ دی تھی جس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اب خلافت ان کے ہاتھ سے نکل گئی کیوں کہ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سسرالی رشتہ کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ہی ترجیح دیں گے۔
(اثر التشیع علی الروایات التاریخیۃ: صفحہ، 322)
لیکن کیا یہ سچ ہے کہ دونوں میں رشتہ داری تھی۔علامہ ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ نے سیدنا عثمانؓ اور سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے درمیان کسی قریبی نسبی رشتہ داری کی نفی کی ہے۔ فرماتے ہیں: سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نہ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے نہ چچا زاد تھے اور نہ اصلاً آپؓ کے قبیلہ سے ان کا تعلق تھا بلکہ یہ تو بنو زہرہ سے تھے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بنو امیہ سے، اور بنو زہرہ بنو امیہ کی بہ نسبت بنو ہاشم کی طرف زیادہ مائل تھے۔ بنو زہرہ میں رسول اللہﷺ کی ننھیال تھی یہ سب آپﷺ کے ماموں لگتے تھے، اور انہی میں سے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما تھے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا:
ھذا خالی فلیرنی امرؤ خالہ۔
(صحیح سنن الترمذی: جلد، 3 صفحہ، 220 4018)
ترجمہ: ’’یہ میرے ماموں ہیں ان جیسا کوئی اپنا ماموں دکھائے۔‘‘
اور اسی طرح نبی کریمﷺ نے مہاجر سے مہاجر اور انصاری سے انصاری کی مواخاۃ اصلاً نہیں کرائی تھی بلکہ مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخاۃ کرائی تھی (کہ اس طرح ہی سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے رشتہ ہوا ہو بلکہ) سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مواخاۃ سیدنا سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ سے کرائی تھی۔
(صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار: صفحہ، 3780)
اور اس مواخاۃ سے متعلق حدیث صحاح و سنن وغیرہ میں مشہور و معروف ہے، اور اہلِ علم اس کو اچھی طرح جانتے ہیں
(منہاج السنۃ النبویۃ، ابنِ تیمیۃ: جلد، 6 صفحہ، 271۔ 272)
لیکن چونکہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سیدنا ولید بن عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ کی بہن سیدہ امِ کلثوم بنتِ عقبہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی
(الطبقات الکبریٰ: جلد، 3 صفحہ، 127)
جو بنو امیہ سے تھیں۔ اس رشتہ مصاہرت کی بنا پر شیعی روایات نے اتہامات کا طومار کھڑا کر دیا، اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ پر ناانصافی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نا حق ترجیح دینے کا اتہام باندھ دیا۔ اور ایک طرف جہاں یہ بھول گئے کہ نسب کی قوت مصاہرت کی قوت پر مقدم ہے وہیں دوسری طرف قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے درمیان تعلقات کی حقیقت کو فراموش کر دیا کہ ان کے تعلقات نسب و مصارت پر قائم نہیں تھے بلکہ ایمان و تقویٰ پر قائم تھے۔