تعزیہ کا جلوس اور ماتم کی مجلس دیکھنا
سوال: تعزیہ کا جلوس اور ماتم کی مجلس دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: ان دِنوں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ماتم کی مجلس اور تعزیہ کے جلوس کا نظارہ دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتی ہے۔ اس میں کئی گناہ ہیں۔
ایک گناہ یہ ہے کہ اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قرآن کے دشمنوں سے تشبہ ہو جاتی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا من تشبہ بقوم فھو منھم جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں شمار ہو گا۔
ایک عبرت ناک واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
ہولی کے دنوں میں ایک بزرگ جا رہے تھے انہوں نے مزاح کے طور پر ایک گدھے پر پان کی پیک ڈال کر فرمایا کہ تجھ پر کوئی رنگ نہیں پھینک رہا، لے لو تجھے میں رنگ دیتا ہوں۔ مرنے کے بعد اس پر گرفت ہوئی کہ تم ہولی کھیلتے تھے اور عذاب میں گرفتار ہوئے۔
دوسرا گناہ یہ ہے کہ اس سے اُن دشمنانِ اسلام کے رونق بڑھتی ہے۔ دشمنوں کی رونق بڑھانا بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا من کثر سواد قوم فھو منھم جس نے کسی قوم کی رونق بڑھایا وہ انہی میں سے ہے۔
تیسرا گناہ یہ ہے کہ جس طرح عبادت کو دیکھنا عبادت ہے اسی طرح گناہ کو دیکھنا بھی گناہ ہے۔
ایک دفعہ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جہاد کی مشق کر رہے تھے، سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ان کی اس عبادت کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ حضور اکرمﷺ نے اس کا اتنا اہتمام فرمایا کہ آپﷺ پردے کی غرض سے خود کھڑے ہو گئے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ آپﷺ کے پیچھے پردے میں کھڑے ہو کر آپﷺ کے کندھے پر سے دیکھتی رہیں، سیدہ عائشہ صدیقہؓ اس عبادت کے نظارے سے سیر ہو کر جب خود ہٹی تب حضور اکرمﷺ ہٹے۔ غرض یہ کہ عبادت کو دیکھنا بھی عبادت ہے اور گناہ کو دیکھنا بھی گناہ۔
چوتھا گناہ یہ ہے کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ جل شانہ کا غضب نازل ہو رہا ہوتا ہے۔ ایسے غضب والی جگہ جانا بہت بڑا گناہ ہے۔
ایک دفعہ حضور اکرمﷺ و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا گزر ایسے بستیوں کے کھنڈرات پر ہوا جن پر عذاب آیا تھا، حضور اکرمﷺ نے اپنے سر مبارک پر چادر ڈال لی اور سواری کو بہت تیز چلا کر اس مقام سے جلدی سے گزر گئے۔ جب حضور اکرمﷺ غضب والی جگہ سے بچنے کا اتنا اہتمام فرماتے تھے تو عوام کا کیا حشر ہو گا؟ سوچنا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ جل شانہ کے دشمنوں کے کرتوتوں سے اس وقت عذاب آگیا تو کیا صرف نظارہ دیکھنے کے لئے جمع ہونے والے مسلمان اس عذاب سے بچ جائیں گے؟ ہرگز نہیں بلکہ عذابِ آخرت میں بھی یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے، یہ بھی خیال رہے کہ جس طرح مبارک دنوں میں عبادت کا زیادہ ثواب ہے اسی طرح ان دونوں میں گناہ پر بھی زیادہ عذاب ہے۔
(احسن الفتاویٰ: جلد، 1 صفحہ، 393)