Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عمرو بن میمون روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں دس اوصاف پائے جاتے ہیں جو کسی اور میں موجود نہیں

  امام ابن تیمیہ

[شبہات و اعتراضات] 

:شیعہ مصنف لکھتا ہے: عمرو بن میمون روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں دس اوصاف پائے جاتے ہیں جو کسی اور میں موجود نہیں :

۱۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں فرمایا: ’’ میں ایک ایسے شخص کو بھیجوں گا، جسے اللہ تعالیٰ ہر گز رسوا نہیں کرے گا وہ اﷲ و رسول کو چاہتا ہے اور اﷲ و رسول اسے چاہتے ہیں ۔ آپ نے ادھر ادھر دیکھا، پھر فرمایا ،علی رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟

لوگوں نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے ‘اور آرام کررہے ہیں ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے ‘آپ کی آنکھوں میں تکلیف کی وجہ سے دیکھ نہیں سکتے تھے۔ پھر آپ نے ان کی آنکھوں میں پھونک ماری ‘پھر تین بار جھنڈے کو ہلایا اور آپ کو عطا کردیا؛آپ صفیہ بنت حیي بن اخطب کو گرفتار کرکے لائے ۔

۲۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سورۂ توبہ دے کر بھیجا، بعد ازاں ان کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا اور فرمایا: ’’ اس سورت کو لے کر وہ شخص جائے گا جو میرا ہے اور میں اس کا ہوں ۔‘‘

۳۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائیوں سے پوچھا:’’ کون شخص دنیا و آخرت میں مجھ سے دوستی لگانا چاہتا ہے؟‘‘ سب نے انکار کردیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ میں آپ سے دنیا و آخرت میں دوستی لگاؤں گا۔‘‘

فرمایا : ’’ آپ نے اسے چھوڑ دیا ؛ پھران آدمیوں میں سے ایک آدمی کے پاس آئے ؛ آپ نے پوچھا:’’ کون شخص دنیا و آخرت میں مجھ سے دوستی لگانا چاہتا ہے؟‘‘ سب نے انکار کردیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ میں آپ سے دنیا و آخرت میں دوستی لگاؤں گا۔‘‘ تو آپ نے فرمایا :تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے۔‘‘

۴۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اوّلین شخص تھے جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے بعد اسلام لائے۔

۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب خمسہ [حضرت علی ‘حضرت حسن حضرت حسین اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم کو چادر تلے چھپایا اور آیت کی تلاوت فرمائی:

{اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا} 

[الأحزاب۳۳] 

’’ اے اہل بیت نبی اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرکے اچھی طرح پاک صاف بنا دے۔‘‘

۶۔ چھٹی خصوصیت: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جان کی بازی لگائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص پہن کر مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سوئے رہے؛اس وقت مشرکین آپ پر سنگ باری کرر ہے تھے۔

۷۔ ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے مدینہ سے نکلے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ساتھ جانے کی اجازت نہ دی تو آپ روپڑے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی؛ سوائے اس کے کہ آپ نبی نہیں ہیں ۔ اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں چلا جاؤں مگر آپ کو اپنا خلیفہ بناکر ۔‘‘

۸۔ آٹھویں خصوصیت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں فرمایا:’’ میرے بعد آپ ہر مومن کے دوست ہیں ۔‘‘

۹۔ نویں خصوصیت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ علی رضی اللہ عنہ کے سوا باقی سب لوگوں کے وہ دروازے بند کردیے جائیں ۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ بحالت جنابت مسجد نبوی میں سے گزرا کرتے تھے۔اسکے علاوہ آپ کا دوسرا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔

۱۰۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دسویں خصوصیت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں فرمایا:

(( مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔ )) 

’’ جس کا میں دوست ہوں ‘علی بھی اس کا دوست ہے ۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا گیا ہے کہ: آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سورۂ توبہ دے کر مکہ روانہ کیا۔ چنانچہ آپ تین شب و روز چلتے رہے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیج کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو واپس بلوایا اور علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ سورۂ توبہ مکہ پہنچائیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوی میں پہنچ کر روپڑے۔ اور عرض کیا:اے اﷲ کے رسول! کیا میرے بارے میں کوئی نئی بات پیش آئی ہے؟ آپ نے فرمایا:’’ نہیں البتہ مجھے حکم دیا گیا تھا کہ یہ سورت خود مکہ پہنچاؤں یا میرا کوئی اپنا آدمی یہ فریضہ انجام دے۔‘‘ 

[انتہی کلام الرافضی] 


[جوابات]

 :یہ کسی مستند حدیث میں ثابت نہیں ہے۔ عمرو بن میمون کی روایت کردہ یہ روایت مرسل ہے( اس لیے کہ عمرو بن میمون نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت اسلام کی ا ور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ مل سکے) مزید براں اس حدیث کے بعض الفاظ ایسے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی طرف سے گھڑ کر منسوب کئے گئے ہیں ۔ مثلاً یہ فقرہ:

(( لَا یَنْبَغِیْ اَنْ اَذْہَبَ اِلَّا وَ اَنْتَ خَلِیْفَتِیْ۔ )) 

’’میں اس صورت میں مدینہ سے باہر جا سکتا ہوں جب آپ میرے خلیفہ ہوں ۔‘‘

حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ متعدد مرتبہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنا نائب بنایا تھا۔ جب آپ نے حدیبیہ والا عمرہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے ‘ اور مدینہ پر آپ کا خلیفہ کوئی اور تھا۔اس کے بعد آپ نے غزوہ خیبر کیا توحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے ؛ اور مدینہ میں خلیفہ کوئی اور تھا۔ غزوہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے اور مدینہ پر خلیفہ کوئی دوسرا آدمی تھا۔ ایسے ہی غزوہ حنین اور غزوہ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے اور مدینہ میں خلیفہ رسول کوئی اور تھا۔ آپ نے حجۃ الوداع کیا ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ حج پر تھے ‘ اور مدینہ پر حاکم کوئی اور تھا اور ایسے ہی غزوہ بدر کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے ‘ مدینہ میں کوئی دوسرا خلیفہ رسول تھا۔

یہ تمام باتیں صحیح اسناد کے ساتھ معلوم شدہ ہیں ۔ اور ان پر اہل علم محدثین کا اتفاق ہے۔ اکثر غزوات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا کرتے تھے ؛ خواہ ان غزوات میں قتال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔

اگر کوئی یہ کہے کہ :آپ کے خلیفہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہی افضل ہیں ۔تو اس سے لازم آتا ہے کہ اتنے سارے غزوات [و واقعات ] میں حضرت علی رضی اللہ عنہ مفضول ہوں اور ایسے ہی حج و عمرہ کے موقع پر بھی۔ پھر باقی غزوات کے موقع پر خلیفہ مردوں پر بنایا جاتا تھا ؛ جب کہ غزوہ تبوک کے موقع پر معذوروں ؛عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنایا گیا۔اس وقت مدینہ میں [صحیح سالم اورتندرست] اہل ایمان میں سے صرف وہی تین مرد پیچھے رہ گئے تھے [ جن کی معافی کا اعلان اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ] یا پھر وہ انسان باقی تھا جس پر منافق ہونے کی تہمت ہو۔ اس وقت مدینہ میں ہر لحاظ سے امن و امان تھا۔ اہل مدینہ کو کسی طرف سے کوئی خوف نہیں تھا اور پیچھے رہ جانے والوں کو جہاد کی ضرورت نہیں تھی۔جس طرح کہ باقی اکثرمواقع پر ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح شیعہ کی پیش کردہ حدیث

 (( سُدُّوا الْاَبْوَابَ اِلَّا بَابَ عَلِیٍّ )) 

[ أورد ابن الجوزِیِ ہذا الجزء مِن حدِیثِ عمرِو بنِ میمون فِی الموضوعاتِ:۱؍۳۶۴وحکم علیہِ بِالوضعِ:۱؍۳۶۶، وذکر أن ہذا الحدِیث مِن ہذا الطرِیقِ وغیرِہِ حدِیث موضوع ثم قال: فہذِہِ الأحادِیث کلہا مِن وضعِ الرافِضۃِ قابلوا بِہا الحدِیث المتفق علی صِحتِہِ فِی: سدوا الأبواب ِإلا باب أبِی بکر۔]

روافض کی طرف سے بطور مقابلہ اپنی گھڑی ہوئی ہے۔

جبکہ بخاری و مسلم میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا:

’’میں سب لوگوں سے زیادہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال او ررفاقت کاممنون ہوں ۔‘‘اگر میں کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ البتہ اسلامی اخوت و مودّت کسی شخص کے ساتھ مختص نہیں ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی شخص کی کھڑکی مسجد کی جانب کھلی نہ رہے۔‘‘ 

[ بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۳۶۵۴) مسلم، (ح:۲۳۸۲) ۔] 

شیعہ کی پیش کردہ حضرت ابن عباس کی روایت

’’اَنْتَ وَلِیِّیّ فِیْ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی‘‘

باتفاق محدثین موضوع ہے ۔ 

[ جاء ہذا الحدِیث فِی ِکتاب فضائل الصحابۃ:۱؍۵۰۳، رقم:۵۲۱، ۱؍۵۲۴، رقم:۸۶۸ وقال المحقِق:۱؍۵۰۳، موضوع وفِیہِ متروکانِ متہمانِ بِالوضعِ: طلحۃ وعبیدۃ۔ وجاء الحدِیث فِی حقِ عثمان بنِ عفان رضِی اللّٰہ عنہ فِی الموضوعاتِ:۱؍۳۳۴، البِدایۃِ والنِہایۃِ:۷؍۲۱۳ وغیرِہا مِن المراجِعِ، وذکر المحقِق أن ہذا الحدِیث أیضاً موضوع۔] 

صحیح حدیث میں جن دیگر امور کا ذکر کیا گیا ہے اس میں نہ تو ائمہ کی کوئی خصوصیات ہیں اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیات؛بلکہ ان میں دوسرے لوگ بھی آپ کے شریک ہیں ؛ مثلاً:

۱۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اﷲ و رسول کو چاہتے ہیں ؛ اور اللہ اور اس کا رسول حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چاہتے تھے۔

۲۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کرنا۔ 

[ ہم قبل ازیں تحریر کر چکے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو صرف ایک ہی مرتبہ حاکم مدینہ مقرر کیا گیا تھا۔ جب کہ دیگر صحابہ کو متعدد مرتبہ یہ خدمت تفویض ہوئی تھی جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اگر حاکم مدینہ کا سب لوگوں سے افضل ہونا ضروری ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ جب بھی کوئی دوسرا حاکم مقرر کیا گیا سیدنا علی اس وقت مفضول تھے۔ مزید براں دوسرے صحابہ کی حاکمیت مدینہ کے زمانہ میں وہاں سب مومن موجود ہوا کرتے تھے، مگر جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کیا گیاتو عورتوں اور بچوں کے سوا وہاں کوئی نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس سے افسردہ خاطر ہوئے اور اسے اپنی توہین پر محمول کیا۔ اس وقت مدینہ مامون تھا، اسے کوئی خطرہ لاحق تھا نہ وہاں جہاد کی ضرورت تھی۔] 

۳۔ یہ بات کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی مرتبہ حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے۔

۴۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس انسان کا دوست ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے دوست ہوں ۔ اس لیے کہ ہر مؤمن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی رکھتا ہے۔

۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سورۂ توبہ کو لے کر مکہ جانا؛ کیونکہ بنی ہاشم کے علاوہ کوئی یہ سورت مکہ نہیں پہنچا سکتا۔اس میں سارے بنی ہاشم مشترک ہیں ۔ان میں سے کوئی بات بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مختص نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سورۂ توبہ دے کر مکہ بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ نقض عہد کی اطلاع دینے کے لیے حاکم اعلیٰ کے قبیلہ کا کوئی شخص جایا کرتا تھا۔ اس سورۃ میں بھی نقض عہد کی اطلاع دی گئی ہے، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مکہ جانا ضروری تھا۔ 

[ یہ بات غلط ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سورۂ توبہ لے کر گئے اور پھر انھیں معزول کرکے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کیا تھا اور آپ بہمہ وجوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی یا عدم موجودگی میں اس کے اہل تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینہ سے رخصت ہو چکے تھے کہ سورۂ توبہ نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ سورۃ دے کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جانب بھیجا، اس کے دو اسباب تھے، پہلی وجہ ذکر کی جا چکی ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس سورۃ میں یہ آیت بھی ہے:

 { اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْہُمَا فِی الْغَارِ} 

اس آیت میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جو مدح و ثنا بیان کی گئی ہے، وہ اس وقت تک باقی ہے، جب تک قرآن دنیا میں موجود ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اس عظیم سورۃ کو لے کر جانا جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت پر مشتمل ہے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی دلیل اور ان لوگوں کے لیے ابدی ذلت کا موجب ہے جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے دل میں بغض و عداوت رکھتے ہیں ۔‘‘]