سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فوقیت دینے کا حکم
علی محمد الصلابیسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فوقیت دینے کا حکم
اہلِ سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ جو شخص سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر فوقیت و فضیلت دیتا ہے وہ گمراہ اور بدعتی ہے، اور جو شخص سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر فوقیت و فضیلت دیتا ہے وہ غلطی پر ہے اس کو گمراہ و بدعتی قرار نہیں دیتے۔
(مجموع الفتاویٰ: جلد، 3 صفحہ، 101، 102)
اگرچہ بعض اہلِ علم نے اس پر سخت نکیر کی ہے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر فوقیت دیتا ہے۔ فرماتے ہیں: جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فوقیت دی تو گویا اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس خیانت سے متہم کیا کہ انہوں نے امانت کو ادا نہ کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ترجیح دے دی۔
(حقبۃ من التاریخ، عثمان الخمیس: صفحہ، 66)
علامہ ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: اہلِ سنت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی فوقیت و فضیلت اور انہیں مقدم رکھنے پر قائم ہیں، لیکن جمہور اہلِ سنت کے نزدیک اس مسئلہ کا تعلق اصول سے نہیں ہے کہ جس کے مخالف کو گمراہ قرار دیا جائے، بلکہ اصل مسئلہ خلافت کا ہے کہ جس کے مخالف کو گمراہ قرار دیا جائے گا۔ اہلِ سنت کا ایمان ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد خلیفہ حضرت ابوبکر پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہم ہیں، اور جو شخص ان خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی خلافت پر طعن کرے وہ اپنے گدھے سے زیادہ گمراہ ہے۔
(مجموع الفتاویٰ: جلد، 3 صفحہ، 101، 102)
سیدنا عثمانؓ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوقیت و فضیلت سے متعلق اہلِ علم کے دو اقوال ہیں:
1: یہ جائز نہیں ہے، لہٰذا جس نے سیدنا علیؓ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر فوقیت دی وہ سنت سے خارج ہو کر بدعت کے دائرے میں داخل ہو گیا، کیوں کہ اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کی مخالفت کی، اسی لیے کہا گیا ہے کہ جس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فوقیت دی اور مقدم جانا اس نے مہاجرین و انصار پر اتہام لگایا۔
یہ قول بہت سے ائمہ سے مروی ہے انہی میں سے ایوب سختیانی، احمد بن حنبل اور دار قطنی رحمہم اللہ ہیں۔
2: اس کو بدعتی نہیں کہا جائے گا کیوں کہ سیدنا عثمانؓ و سیدنا علیؓ کے حالات ایک دوسرے سے قریب ہیں۔
(مجموع الفتاویٰ: جلد، 4 صفحہ، 267 قول اوّل ہی راجح ہے کیوں کہ نصوص اسی کی موید ہیں۔ مترجم)