Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تمام والیان و امرائے حکومت کے نام سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا پہلا خط

  علی محمد الصلابی

تمام والیان و امرائے حکومت کے نام سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا پہلا خط

’’حمد و صلاۃ کے بعد! یقیناً اللہ تعالیٰ نے امراء و حکام کو حکم فرمایا ہے کہ وہ راعی (نگہبان) بنیں، ٹیکس وصول کرنے والا نہ بنیں۔ اس امت کے اوّلین لوگ راعی بنائے گئے تھے، ٹیکس وصول کرنے والے نہیں بنائے گئے تھے۔ قریب ہے کہ تمہارے امراء ٹیکس وصول کرنے والے بن جائیں اور راعی کی پوزیشن نہ سنبھال سکیں، اگر ایسا ہوا تو حیا، امانت اور وفا داری ختم ہو جائے گی۔ خبردار! معتدل اور بہترین سیرت یہ ہے کہ تم مسلمانوں کے مسائل میں غور و فکر کرو، ان کا جو حق ہے اس کو ادا کرو، اور ان پر جو حق ہے ان سے وصول کرو، پھر ذمیوں کے مسائل میں غور کرو، ان کا جو حق ہے اس کو ادا کرو، اور ان پر جو حق ہے ان سے وصول کرو۔ پھر دشمن کے سلسلہ میں غور و فکر کرو جس کے مقابلہ میں تم ڈٹے ہو اور وفاداری سے ان پر فتح حاصل کرو۔‘‘

(تاریخ الطبری: جلد، 5 صفحہ، 244) 

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے امراء و والیان کے نام اپنے اس خط کے اندر رعایا سے متعلق ان کے واجبات کو بیان کیا ہے اور انہیں یہ بتلایا ہے کہ ان کی ذمہ داری اور ڈیوٹی صرف مال جمع کرنا نہیں ہے بلکہ ان کی ڈیوٹی، رعایا کے مصالح کا خیال رکھنا ہے، اسی لیے اس سیاست کو واضح کیا جس کو انہیں امت کے درمیان نافذ کرنا تھا، وہ یہ کہ رعایا پر جو واجبات ہیں اس کو وصول کریں اور ان کے جو حقوق ہیں اس کو ادا کریں۔ اگر انہوں نے یہ سیاست اختیار کی تو امت درست رہے گی، اور جب اس کے برعکس ٹیکس وصول کرنے والے بن جائیں اور ان کے پیشِ نظر بس مال جمع کرنا ہو تو پھر حیاء اور امانت و وفا داری مفقود ہو کر رہے گی۔

(تحقیق مواقف الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 393)

والیان و امراء کے نام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس خط میں عادلانہ سیاست، اجتماعیت اور معیشت کے اقدار سیاسی، اجماعی، اقتصادی پر زور دیا گیا بایں طور پر کہ حق داروں کے حقوق کو ادا کیا جائے، اور ان سے حقوق کو وصول کیا جائے، سیاسی تحفظ کی شان کو بلند کیا جائے، ٹیکس کی وصولیابی اور مال میں اضافہ کرنا مقصود نہ بننے پائے۔

(الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، حمدی شاہین: صفحہ، 246)

اس خط کے اندر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس انجام سے آگاہ کیا ہے جب والیان و امراء راعی کے بجائے ٹیکس وصول کرنے والے اور مال جمع کرنے والے بن جائیں یعنی یہ سبب ہے مکارمِ اخلاق کی کمی کا جس کی مثال حیا، امانت اور وفاداری سے دی ہے۔ راعی و رعیت اور امراء و رعایا مضبوط تعلقات کے اہم ترین دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں، اور طرفین میں ایک ہدف پر اتفاق سے اس میں مضبوطی اور استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ ہدف اللہ رب العالمین کی رضا کی تلاش ہے۔ والی کو چاہیے کہ وہ امام وقت کے لیے اطاعت، ولاء اور امانت و وفا جو کچھ پیش کرتا ہے اس سے اس کا مقصود یہی ہدف ہو اور حیاء کی چادر جس کی طرف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا ہے سب کو اپنے سایہ میں لیے ہوئے ہو، اور قبیح امور کے ارتکاب اور کسی کے جذبات کو مجروح کرنے اور حرج میں مبتلا کرنے سے مانع ہو۔

پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس خط کے اندر اپنے امراء و والیان کو رعایا کے درمیان عدل کو قائم رکھنے کی وصیت فرماتے ہیں، بایں طور کہ وہ ان کے حقوق کو ادا کریں اور ان پر عائد ہونے والے حقوق کو ان سے وصول کریں۔ اس خط میں ایک انتہائی اہم ترین نکتہ کی طرف آپؓ نے اشارہ فرمایا ہے وہ یہ کہ ایفائے عہد، دشمن پر فتح و نصرت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے، اور تاریخ نے یہ واضح کیا ہے کہ مسلمانوں کے اداری اور جنگی تفوق و برتری کے سلسلہ میں اس بلند اخلاقی کا زبردست اثر رہا ہے۔

(التاریخ الاسلامی، مواقف و عبر: د۔ عبدالعزیز الحمیدی: جلد، 12 صفحہ، 369)