شیعوں کے ساتھ لین دین کرنا اور غیر مسلم بنک میں سود چھوڑنا
سوال: غیر مسلمین کے بنک، یا جن بنکوں کے بعض مالک غیر مسلم ہیں، مثلاً عیسائی، مرزائی، غالی، سبی شیعہ حصہ دار ہیں، ان بنکوں میں اگر کوئی شخص اپنے دینی ادارہ کی رقم جمع کرائے اور لکھ دے کہ میں اس پر سود نہیں لوں گا اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اگر میں سود نہیں لوں گا تو میری رقم کا سود کفر کی نشر و اشاعت پر خرچ ہو گا، کیونکہ بنک والے یہی سود عیسائی مشنریوں اور شیعی اداروں کو دیدیں گے۔ تو کیا ایسی صورت میں بلا سود رقم جمع کرانا جائز ہو گا ؟
نیز اگر اپنی رقم کا سود لے لے اور مساکین پر تصدق کر دے تو اس کا کیا حکم ہو گا؟ شریعت کی رو سے ان دونوں صورتوں میں اہون صورت کونسی ہے؟ اگر اکثر حصہ دار مسلم ہوں اور غیر مسلم کم ہوں تو مسئلہ میں کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟
جواب: بنک کے مالک خواہ مسلم ہوں یا کافر، بہرکیف بنک میں رقم جمع کرانا جائز نہیں، اور اگر کسی نے ناواقفیت یا ضرورتِ شدیدہ کی وجہ سے بنک میں رقم جمع کرا دی تو اس کا سود بنک میں چھوڑنا جائز نہیں، اس لئے کہ بنک میں مختلف لوگوں کی رقوم سے خلافِ شرع حاصل شدہ منافع ارباح فاسدہ ہیں، جو بحکمِ لقطہ ہیں، اور چونکہ ان کا مالک معلوم نہیں، لہٰذا بنک سے سود کی رقم لے کر تصدق على الفقراء واجب ہے۔ علاؤہ ازیں اس میں سودی کاروبار سے تعاون کا گناہ بھی ہے۔
تنبيہ: قادیانی، شیعہ اور ہر وہ فرقہ یا فرد جو کافر ہونے کے باوجود اسلام کا مدعی ہو، اُن کا حکم عام کفار سے الگ ہے، یہ زندیق ہیں، ان کے ساتھ کسی قسم کا بھی کوئی معاملہ جائز نہیں ۔
(احسن الفتاوىٰ: جلد، 7 صفحہ، 18)