Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدہ فاطمہؓ کی طبعی وفات اور جنازہ

  جعفر صادق

سیدہ فاطمہؓ کا وصال و جنازہ 

قارئین محترم بہت سے احباب نے اس فقیر کو میسج کیئے کہ سیدہ طیبہ طاہرہ خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہؓ کے وصال مبارک اور جنازہ کے متعلق تفصیل سے لکھیں کیونکہ اہل تشیع بہت سی من گھڑت کہانیاں و روایات سناتے و پیش کرتے ہیں. آپ حقائق بیان کریں۔
میں فقیر اس قابل تو نہیں ہے مگر احباب کے پر زور اصرار پر اسلاف علیہم الرحمہ کی کتب سے مستند حقائق پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ رب العزت صدقہ آل نبی کا اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین

ب سے پہلی بات ذہن میں رکھیں سیدہ فاطمہؓ کا وصال مبارک بیماری کی وجہ سے طبعی طور پر ہوا ، باقی سب من گھڑت کہانیاں ہیں ۔

سیدہ فاطمہؓ کا انتقال

رسول اللہﷺ کے وصال مبارک کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہؓ بیمار ہوئیں اور چند روز بیمار رہیں ۔ پھر تین رمضان المبارک 11 میں منگل کی شب ان کا انتقال ہوا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک علماء نے اٹھائیس یا انتیس 28 یا 29برس ذکر کی ہے ۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے سن وفات اور ان کی عمر کی تعیین میں سیرت نگاہوں نے متعدد اقوال لکھے ہیں ہم نے یہاں مشہور قول کے مطابق تاریخ انتقال اور مدت عمر درج کی ہے ۔

(البدایہ والنھایہ ج 6 ص 334۔ تحت حالات 11ھ)
( وفاء الوفاء للسمھو دی ج 3 ص 905 - تحت عنوان قبر فاطمہ بنت رسول اللہ ص)

 سیدہ فاطمہؓ کے وصال مبارک کے بعد سب صحابہ رضی اللہ عنہم کی خواہش تھی کہ ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و صحبہ وسلم کی پیاری صاحبزادی کے جنازہ میں شامل ہوں اور اس سعادت عظمی سے بہرہ اندوز ہوں۔ حضرت فاطمہؓ کا مغرب کے بعد اور عشاء سے پہلے وصال مبارک ہونا علماء نے ذکر کیا ہے ۔ اس مختصر وقت میں جو حضرات موجود تھے وہ سب جمع ہوئے ۔

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا غسل

حضرت فاطمہؓ نے قبل از وفات حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو یہ وصیت کی تھی کہ آپ مجھے بعد از وفات غسل دیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ معاون ہوں۔ 
چنانچہ حسب وصیت حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے آپ رضی اللہ عنہا کے غسل کا انتظام کیا ان کے ساتھ غسل کی معاونت میں بعض اور بیٹیاں بھی شامل تھیں مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ کی بیوی سلمی رضی اللہ عنہا اور ام ایمن رضی اللہ عنہا و غیرہا۔ حضر علی المرتضی رضی اللہ عنہ اس سارے انتظام کی نگرانی کرنے والے تھے۔

(اسد الغابہ ج 5 ص 478 تحت سلمی امراة ابی رافع )
( البداية والنهاية ج 6 ص 333 تحت حالات 11ھ)
(حلیۃ الاولیالابی نعیم الاصفہانی ص 43 جلد 2۔ تحت تذکر ہ فاطمۃ الزہر اسلام اللہ علیہا)

حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے بعض وصایا جو غسل و اغتسال کے متعلق پائے جاتے ہیں ان میں بعض چیزیں بالکل قابل اعتبار نہیں ہیں۔ چنانچہ علماء نے اس موقعہ پر فرمایا ہے کہ :۔ مطلب یہ ہے کہ بعض روایات میں جو آیا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے انتقال سے قبل غسل کر لیا تھا اس قسم کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ( اس کی وجہ مصنف ابن اسحاق کا تفرد ہے )  

سیدہ فاطمہؓ کے غسل کے متعلق وہی بات کی ہے اوپر ذکر کر دی گئی ہے یعنی حضرت اسماء بنت عمیس اور دیگر خواتین نے مل کر حسب قاعدہ شرعی بعد از وفات غسل سر انجام دیا تھا۔ اس لئے کہ میت کے لئے اسلام کا قاعدہ شرعی یہی ہے۔

(البدایہ النہایہ ج 6 ص 333۔ تحت ذکر من تو فی ہذھ النت 11ھ)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی صلوۃ جنازہ اور شیخین رضی اللہ عنہما کی شمولیت نسل اور تجہیز و تکفین کے مراحل کے بعد حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے جنازہ کی مرحلہ پیش آیا۔ کچھ لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی لغو کوشش کی ہے کہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزھراء حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراض تھیں اور آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ وہ میرے جنازے میں شریک نہ ہوں ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو رات کو ہی دفن کر دیا تھا۔ اور خلیفۃ المسمین کو اس کی خبر ہی نہ ہونے دی۔ اس رات سے ان لوگوں نے حضرت علی المرتضی اور حضرت ابوبکر رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان ناراضگی اور اختلاف کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن جمہور علماء اہلسنت و جماعت کا موقف ہے اور مستند ترین کتابوں میں یہ موجود ہے کہ حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا کا جناز و خلیفہ بلا فصل انبیاء کے بعد سرکار علیہ التحیۃ والثناء کے ظاہری و باطنی اور روحانی خلیفہ و جانشین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ہے اور اسی پر اکثر مسلمہ کا اتفاق ہے ۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو اس موقعہ پر موجود تھے ، تشریف لائے۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھائیں۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھائیں۔ جواب میں حضرت علی المرتضی نے ذکر کیا کہ آپ خلیفہ اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جناب کی موجودگی میں جنازہ پڑھانے کے لیے پیش قدمی نہیں کر سکتا۔ نماز جنازہ پڑھانا آپ ہی کا حق ہے آپ تشریف لائیں اور جنازہ پڑھائیں اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کا چار تکبیر کے ساتھ جنازہ پڑھایا۔ باقی تمام حضرات نے ان کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی ۔

یہ بات متعدد مصنفین نے اپنی اپنی تصانیف میں باحوالہ ذکر کی ہے۔

دلیل نمبر 1 :

عن حماد عن ابراهیم الفتی قال صلی ابو بکر الصديق على فاطمة بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فکبر اربعا۔ 

ترجمہ :

 حضرت ابرھیم نخعی نے کہا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبیریں کہیں ۔

(طبقات ابن سعد جلد ثامن ص ۱۹ تذکرہ فاطمہ مطبوعہ لیدن (یورپ

دلیل نمبر 2 :

عن مجالد عن الشعبي قال صلی علیها ابو بکر رضی اللہ عنہ وعنہا۔ 

ترجمہ :
حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ فاطمہ پر ابو بکر الصدیق نے نماز جنازہ پڑھایا

 طبقات ابن سعد جلد ۸ صفحہ ۱۹ تذکرہ فاطمہ طبع لیدن(یورپ)

دلیل نمبر :3

تیسری روایت امام بہیقی سے اپنی سند کیساتھ منقول ہے لکھتے ہیں کہ : 

حدثنا محمد بن عثمان ابن ابی شیبۃ حد ثناعون بن سلام حدثنا سلام بن مصعب عن مجالد عن الشعبی ان فاطمتة اماماتت دفنها علی لیلا و اخذ بضبعی ابی بکر الصديق فقدمہ یعنی فی الصلوۃ علیھا(رضوان اللہ علیہم اجمعین ) 

 ترجمہ :۔ یعنی جب حضرت فاطمہ فوت ہوئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہما نے انکو رات میں ہی دفن کر دیا اور جنازے کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دونوں بازو پکڑ کر جنازہ پڑھانے کیلئے مقدم کر دیا۔

 (السنن الکبری للبیہقی موالجواهر النقی جلد ۴ صفحه ۲۹ کتاب الجنائز)

دلیل نمبر 4 :

امام محمد باقر سے مروی روایت صاحب کنز العمال نے علی امتقی الہندی نے بحوالہ خطیب ذکر کی ہے : 

عن جعفر ابن محمد عن ابیہ قال ماتت فاطمہ بنت رسول اللہ فجاء ابوبکر و عمر ليصلو افقال ابوبکر لعلی ابن ابی طالب تقدم قال ما كنت لا تقدم وانت خلیفۃ رسول اللہ قتقدم ابوبکر وصلی علیھا۔

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اپنے والد امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ دختر رسول اللہ فوت ہوئیں تو ابو بکر و عمر دونوں جنازہ پڑھنے کیلئے آئے تو ابو بکر نے علی المرتضی سے جنازہ پڑھانے کے لئے فرمایا کہ آگے تشریف لائے تو علی المرتضی نے جواب دیا کہ آپ خلیفتہ سول ہیں آپکی موجود گی میں ، میں آگے بڑھ کر جنازہ نہیں پڑھا سکتا پس ابو بکر صدیق نے آگے بڑھ کر جنازہ پڑھایا۔ 

(بحوالہ کنز العمال (خط فی رواۃ مالک) جلد ۶ صفحہ
۳۱۸(طبع قدیم روایت ۵۲۹۹ باب فضائل الصحابہ ۔ فصل الصديق مسندات علی )

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی روایت حاضر ہے اس مسئلہ کو اس روایت نے خاصی حد تک حل کر دیا ہے :

 عن مالک عن جعفر ابن محمد عن ابیہ عن جد و علی ابن حسین قال ماتت فاطمه بین المغرب والعشاء فحضر حاابو بکر و عمر و عثمان والز بیر وعبد الرحمان ابن عوف فلما وضعت ليصلى عليها قال على تقدم یا ابا بکر قال وانت شاهد یا ابا الحسن ؟ قال نعم ! فو اللہ لا یصلی علیھا غیر ک فصلی علیھا ابو بکر (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) و دفنت لیلا
(ریاض النضرۃ فی مناقب العشره مبشر ملمحب الطبری جلد ۱ صفحه ۱۵۲ باب وفات فاطمہ ) 

دلیل نمبر 5

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی روایت حاضر ہے اس مسئلہ کو اس روایت نے خاصی حد تک حل کر دیا ہے: 
جعفر صادق اپنے والد محمد باقر سے اور وہ اپنے والد امام زین العابدین سے روایت کرتے ہیں کہ مغرب و عشاء کے در میان حضرت فاطمۃ الزہراء کی وفات ہوئی ان کی وفات پر ابو بکر و عمر و عثمان وز بیر وعبد الرحمان بن عوف حضرات حاضر ہوئے جب نماز جنازہ پڑھنے کیلئے جنازہ سامنے رکھا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق سے کہا کہ جنازہ پڑھانے کیلئے آگے تشریف لائے اللہ کی قسم آپکے بغیر کوئی دوسرا شخص فاطمہ کا جنازہ نہیں پڑھائے گا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا پر نماز جنازہ پڑھائی اور رات کو دفن کی گئیں ۔ 

(ریاض النضرۃ فی مناقب العشر و مشر محب الطبری جلد صفحه ۱۵۲ باب وفاته فاطمه ) 

دلیل نمبر 6 :

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تحفہ اثناء عشریہ کے باب مطاعن میں طعن نمبر ۱۴ کے آخر میں فصل الخطاب سے نقل کرتے ہوۓ ریاض النضرۃ کی روایت کے قریب قریب روایت ذکر کی ہے وہ بھی درج ذیل ہے 

در فصل الخطاب آورده که ابو بکر صدیق و عثمان و عبد الرحمان ابن عوف و زبیر بن عوام وقت نماز عشاء حاضر شد ند در حلت حضرت فاطمهدر میان مغرب و عشاء شب سه شنبه سوم ماه رمضان ا او بعد از ششماه از واقعه سرور جہاں بو قوع آمد ہو دوستین عمرش بست و ہشت بو د وابو بکر بموجب گفته علی المرتضی پیش امام شد و نماز بروۓ گزاشتو چہار تکبیر بر آورد۔

ترجمہ :۔ 
فصل الخطاب کے مصنف نے ذکر کیا ہے کہ ابو بکر صدیق و عثمان و عبد الرحمان بن عوف و زبیر بن عوام تمام حضرات عشاء کی نماز کے وقت حاضر ہوئے اور سیدہ فاطمہ کی رحلت مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی منگل کی رات تیسری رمضان شریف حضور کے چھ ماہ بعد فاطمہ کا انتقال مبارک ہوااسوقت فاطمہ کی عمر ۲۸ سال تھی علی المرتضی کے فرمان کے مطابق ابو بکر الصدیق نماز جنازہ کے لیے امام بنے اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی۔

( تحفہ اثناء عشریہ مطاعن صدیقی طعن نمبر ۱۴ صفحہ نمبر ۴۴۵( طبع نول کشور لکھنوی )

دلیل نمبر 7 :

حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں اپنی مکمل سند کیسا تھ ابن عباس سے جنازہ کی روایت کی ہے :

حضرت ابن عباس ذکر کرتے ہیں کہ نبی کریم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیر میں کہیں اور فرمایا کہ ملائکہ نے آدم علیہ السلام پر چار تکبیریں کہیں تھیں اور ابن عباس مزید فرماتے ہیں کہ ابو بکر نے حضرت فاطمہ کے جنازہ کے موقع پر چار تکبیر میں کہیں اور عمر نے ابو بکر اور صہیب نے عمر پر چار تکبیریں کہیں تھیں۔

(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصفہانہ جلد نمبر ۴ صفحه ۹۶ تذکره میمون بن مهران )

دلیل نمبر 8 :

کتاب بزل القوة في حوادث سنی النبوۃ( عربی ) مؤلفہ علامہ مخدوم باشم سندھی کے اردو ترجمہ موسومہ سیدہ سید الانبیاء متر جم (مفتی علیم الدین) کے صفحہ ۶۰۶ پر حضرت فاطمۃ الزھراء کے وصال کے ضمن میں حاشیہ میں موجود ہے کہ آپکا جنازہ حضرت صدیق اکبر نے پڑھایا۔  

(سیرت سید الانبیاء اردو ترجمہ بذل القوۃ فی حوادث سنی النبوۃ عربی صفحہ نمبر ۲۰۲ کاحاشیہ نمبر ا)

دلیل نمبر 9 :

تاریخ ابن کثیر الہدایہ والنھایه از حضرت علامہ عماد الدین ابن کثیر دمشقی اردو ترجمہ حصہ ششم صفحه ۴۴۳ پر ایک روایت مذکور ہے کہ آپکی نماز جنازہ حضرت ابوبکر صدیق نے پڑھائی۔ حضرت عباس اور حضرت علی کے متعلق بھی روایات موجود ہیں ۔

( تاریخ ابن کثیر اردو ترجمہ البدیہ والنھایه از امام ابن کثیر حصہ ششم صفحه ۴۴۳)

دلیل نمبر 10 :

مدارج النبوت اردو ترجمہ از حضرت شیخ عبد الحق محدث دهلوی(مترجم الحاج مفتی غلام معین الدین) کے صفحہ ۵۴۴ پر موجود ہے کہ روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت فاطمہ کی جنازہ پڑھائی اور حضرت عثمان بن عفان و عبدالرحمان ابن عوف اور زبیر بن العوام (رضی اللہ عنہم) بھی آئے۔

(مدارج النبوت از شیخ عبد الحق محدث دہلوی جلد دوم صفحہ ۵۴۴ مطبوعہ ضیاء القرآن لاہور )

حاصل کلام:

ان دس کتابوں کی ان روایات کے بعد یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنھا کا جنازہ خلیفہ وقت خلیفۃ المسلمین خلیفۃ الرسول جانشین سرور عالم ﷺ امام المسلمين والمومنین حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خود پڑھائی اور خود جناب حیدر کرار شیر خد احضرت مولا علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے آپکو مصلی امامت پر کھڑا کیا اور خود انکی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی۔ اس نماز جنازہ سے فقہ کے اس مسئلہ کی طرف بھی راہنمائی ملتی ہے کہ امامت کا سب سے زیادہ حقدار حاکم وقت ہے اگر وہ حاضر نہ ہو تو قاضی اور وہ بھی حاضر نہ ہو تو محلے کا امام امامت کرانے کا زیادہ حقدار ہے۔
 یہاں جن روایات میں حضرت علی و عباس کی روایات میں حضرت صدیق اکبر کو بھی شامل کیا گیا ہے اس کی تطبیق یہ ہے کہ کہ حاکم وقت کی موجودگی میں باقی افراد امامت کے اہل نہیں اور اسوقت کیونکہ صدیق اکبر موجود تھے اس لیے صدیق اکبر والی روایات کو ترجیح دی جائے گی (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) 
اے اللہ اپنے پاک محبوب ﷺ اور ان کے صحابہ واہلبیت رضی اللہ عنہم اجمعین کے صدقے اس کاوش کو قبول فرما آمین بجاہ نبی الکریم الامین سلام۔