حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان (رضی اللہ عنہ) سے قصاص کیوں نہ لیا؟
جعفر صادقحضرت علی رضی اللہ عنہ نے قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص کیوں نہ لیا؟
حضرت علیؓ مصلحت اور مفسدہ کو مدِ نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ قصاص کو مؤخر کر دیا جائے۔ اس لیے انہوں نے قصاص کو صرف مؤخر کر دیا تھا، ترک نہیں کیا تھا۔
جس طرح نبی کریمﷺ نے افک کے موقعہ پر کیا تھا کہ چند لوگوں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگایا اور حضرت حسان بن ثابتؓ، حمنہ بنتِ جحش اور مسطح بن اثاء نے اس میں نمایاں حصہ لیا لیکن اس سلسلے میں عبد اللہ بن ابی (ابنِ سلول) نے بڑا کردار ادا کیا۔ چنانچہ حضرت رسول کریمﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: مجھے اس شخص (یعنی عبد اللہ بن ابی سلول ) سے کون نجات دلائے گا جس کی ایذا میرے گھر تک پہنچ گئی؟
چنانچہ حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا:
اے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کو اس سے نجات دلاؤں گا، اگر وہ ہمارے اوس قبیلے کا ہے تو ہم اسے قتل کر دیں گے اور اگر اس کا تعلق ہمارے ان بھائیوں سے ہے جو خزرج قبیلے سے ہیں تو آپ ہمیں اسے قتل کرنے کا حکم دیں، ہم بجا لائیں گے۔
اس پر حضرت سعد بن عبادہ انصاریؓ خزرجی کھڑے ہوئے اور ان کو سخت جواب دیا۔ اس کے بعد حضرت اسیدؓ کھڑے ہوئے تو انہوں نے سعد بن عبادہ کا رد کیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر حضرت نبی اکرمﷺ انہیں خاموش کرانے لگے۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب حديث افك :حديث نمبر، 4141 مسلم: كتاب التوبة، 56)
آپﷺ کو معلوم تھا کہ معاملہ بڑا نازک ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ کی تشریف آوری سے قبل، اوس اور خزرج اس بات پر متفق ہو چکے تھے کہ وہ عبد اللہ بن ابی ابنِ سلول کو اپنا حکمران بنا لیں، چونکہ اس کا ان کے ہاں بڑا اثر و رسوخ تھا۔ اور یہی وہ شخص تھا جو جنگِ احد کے دن لشکر کا تیسرا حصہ واپس لے آیا تھا۔
چنانچہ نبی کریمﷺ نے اس موقعہ پر اس شخص کو کوڑے لگوانے سے گریز کیا۔ اس شخص کو کوڑے کیوں نہ لگائے؟ صرف مصلحت اور مفسدہ کو مدِ نظر رکھ کر کیونکہ آپ نے بھانپ لیا کہ اس کو کوڑے نہ لگانے کی بہ نسبت کوڑے لگوانا زیادہ خطرناک ہے۔
اسی طرح سیدنا علی المرتضیٰؓ نے بھی بھانپ لیا کہ قصاص میں جلدی کی بجائے دیر کرنے میں فساد بہت کم ہو گا۔ بلکہ درحقیقت آپ قاتلینِ عثمان کو (فوری طور پر) قتل کرنے پر قادر ہی نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امن و امان کی حالت تسلی بخش نہ تھی اور فتنہ دبا نہیں تھا اور قاتلینِ عثمان کے قبائل اپنے اپنے مجرموں کا دفاع کرنے پر تلے بیٹھے تھے، اور پھر فوری قصاص لینے کی صورت میں کون ضمانت دیتا کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی قتل نہ کر دیتے؟ جبکہ آخر کار انہوں نے ہی سیدنا علیؓ کو اس کے بعد قتل کر دیا تھا۔ اس بنا پر جب سیدنا امیرِ معاویہؓ منصبِ خلافت پر فائز ہوئے تو انہوں نے بھی قاتلینِ عثمان سے قصاص نہ لیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ بھی اس حقیقت کو دیکھنے لگے تھے جو حضرت علیؓ دیکھ چکے تھے، البتہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس صورتِ حال کو حقیقتاً دیکھ رہے تھے، جب کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ اسے نظری طور پر دیکھتے تھے۔ اور جب خود ان کے ہاتھ میں خلافت آئی تو انہیں بھی اصل صورتِ حال وہی نظر آئی جو سیدنا علیؓ کو نظر آئی تھی، یہ درست ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اپنے دور امارت میں مختلف آدمی بھیج کر بعض قاتلینِ عثمان سے قصاص لے بھی لیا تھا۔ لیکن دوسرے بہت سے قاتلینِ حجاج بن یوسف کے دور یعنی عبدالملک بن مروان کی خلافت تک زندہ رہے بھی کہ اس دور میں آخری قاتل بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ جب حجاج بن یوسف ثقفی نے گورنر عراق کی حیثیت سے کوفہ میں خطبہ دیا اور لوگوں کو محاذ جنگ پر پہنچنے کا حکم دیا تو اس وقت ایک بوڑھا کوفی پیش خدمت ہوا اور اپنی جگہ اپنے بیٹے کو محاذ جنگ پر بھیج کر خود گھر میں رہنے کی درخواست کرنے لگا۔ چنانچہ حجاج نے اس کی درخواست منظور کر لی۔ جب وہ واپس پلٹا تو کسی نے حجاج سے کہا: اے امیر! آپ جانتے ہیں کہ یہ کون ہے؟ یہ عمیر بن صابی ہے جس نے امیر المؤمنین سیدنا عثمانؓ کی لاش کو ٹھوکر مار کر ان کی پسلیاں توڑ دی تھیں۔ یہ سن کر حجاج نے اسے واپس بلایا اور اس سے پوچھا:
انت الذی كسر ضلعنی امیر المؤمنين عثمانؓ۔
یہ خاموش ہو گیا تو اس نے جلاد سے کہا: اس منافق کی گردن اڑا دے تو اس نے تلوار سے اس کی گردن اڑا دی۔
مقصد یہ ہے کہ سیدنا علیؓ کسی کمزوری کی بنا پر قصاص میں تاخیر نہ کر رہے تھے بلکہ امت پر شفقت کی بنا پر ایسا ہوا تھا۔ جب یہ معرکہ جمل ختم ہوا تو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو سنبھالا اور انہیں حضرت رسول کریمﷺ کے حکم کے مطابق عزت و احترام کے ساتھ مدینہ منورہ بھیج دیا کیونکہ سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت رسول کریمﷺ نے خبر دی تھی کہ
تیرے اور سیدہ عائشہؓ کے درمیان اختلاف ہو گا۔
تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اس صورت میں سب سے زیادہ بد بخت ہوں گا۔ آپ نے فرمایا: ایسا نہیں بلکہ جب یہ موقعہ آئے تو اسے اس کے محفوظ مقام پر بھیج دینا۔
چنانچہ آپ نے وہی کیا جس کا آپ کو رسول کریمﷺ نے حکم دیا تھا۔
(مسنداحمد: جلد، 6 صفحہ، 393 قال الحافظ فی الفتح و سنده حسن: جلد، 13 صفحہ، 60)