خلیفہ کے محاسبہ کا امت کو حق
علی محمد الصلابیخلیفہ کے محاسبہ کا امت کو حق
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ مطلق العنان نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کے جملہ اختیارات دو شرائط کے ساتھ مقید ہوتے ہیں:
1: کتاب و سنت کی نص صریح کی مخالفت نہ کرے، اور جو قدم بھی اٹھائے وہ روح شریعت اور اس کے مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔
2: امتِ اسلامیہ کی متفقہ رائے سے اختلاف نہ کرے، اور اس کے ارادے سے باہر نہ نکلے۔
چونکہ کہ خلیفہ امت کی نیابت کرتا ہے، وہ اپنا اقتدار و اختیار یہیں سے حاصل کرتا ہے، اسے اقتدار و اختیار کی تحدید و تمدید میں اسی امت ہی کی طرف رجوع ہونا ہوتا ہے، اس لیے امت ہمہ وقت یہ اختیار رکھتی ہے کہ چاہے اس کے اقتدار و اختیار میں وسعت پیدا کرے یا پابندی لگائے، بشرطیکہ امت کے مصالح اور امرِ الہٰی کی احسن طریق سے پابندی پیشِ نظر ہو۔
(الدولۃ والسیادۃ، د۔ فتحی عبدالکریم: صفحہ، 268)
لیکن محاسبہ کا یہ عمل مجلسِ شوریٰ کے ذریعہ سے انجام پذیر ہو گا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کے محاسبہ کے سلسلہ میں امت کے اس حق کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:
’’اگر تم کتاب اللہ میں یہ پاؤ کہ میرے پیروں میں بیڑیاں ڈال دو تو تم بشوق میرے پیروں میں بیڑیاں ڈال دو۔‘‘
(مسند الامام احمد، الموسوعۃ الحدیثیۃ: صفحہ، 524)
چنانچہ جب کچھ شرپسندوں نے بزعمِ خویش آپؓ کی حکومت میں کچھ غلطیاں نکالیں اور پھر آپؓ کے خلاف مظاہرہ کیا تو آپؓ نے اصلاح کا وعدہ کیا اور ان پر گرفت نہ کی اور ان کے حق کو سلب نہ کیا۔
(الدولۃ والسیادۃ: صفحہ، 379 اوپر یہ بات آ چکی ہے کہ خلیفہ کا محاسبہ مجلسِ شوریٰ کے ذریعہ سے ہو گا، مظاہرہ اور اجتماع جلوس اسلامی تعلیم کے منافی ہے، اور امام وقت کی سمع و طاعت کو لازم پکڑنا ہے اور نصح و خیر خواہی پر قائم رہنا ہے۔ مترجم)