Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ اور اہل بیت رضی اللہ عنهم

  نقیہ کاظمی

شیعہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم 

لفظ اہل بیت عربی زبان میں ٹھیک انہیں معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم ’’گھر والوں‘‘ کا لفظ بولتے ہیں اوراس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور بچے دونوں شامل ہوتے ہیں۔ بیوی کو مستثنیٰ کر کے ’’اہل خانہ‘‘ یا ’’گھروالوں‘‘ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔ انہی معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے لہٰذا جمہور اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ آپﷺ کی تمام ازواج مطہراتؓ و اولادؓ اہل بیت ہیں۔ اس کے برعکس شیعوں کے نزدیک اہل بیت میں صرف پنج تن یعنی حضورﷺ، حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ہی شامل ہیں اس میں کوئی چھٹا تن داخل نہیں۔ یہاں تک کہ آپﷺ کے چچا حضرت عباسؓ اور آپﷺ کی محبوب بیوی حضرت خدیجہؓ  کو بھی اہل بیت میں داخل نہیں کرتے۔

 اس کی دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ آیت: 

اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰه لِیُذۡھبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَھلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ  تَطۡہِیۡرًا

 میں مذکر صیغوں سے خطاب ہے، اگر اہل بیت سے حضورﷺ کی ازواج مراد ہوتیں تو آیت کے الفاظ عنکم ، ویطہرکم کے بجائے  عنکن اور ویطهرکن  ہوتے


 آیت کی تشریح میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ فرماتے ہیں: 

جو انسان ذرا بھی عربی سے واقفیت رکھتا ہے وہ آیت پڑھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں ازواج مطہراتؓ شامل نہیں؛ بلکہ اگر کسی عام آدمی کو ان آیات کا ترجمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے تو اس کی بھی سمجھ میں آجائے گا کہ یہاں اہل بیت سے مراد ازواج مطہراتؓ ہیں کیوں کہ نظمِ قرآن میں تدبر کرنے والے کو ایک لمحہ کے لیے اس میں شک وشبہ نہیں ہو سکتا کہ یہاں اہل بیت کے مدلول میں ازواج مطہراتؓ یقیناً داخل نہیں کیوں کہ آیت ہذا سے پہلے اور بعد میں تمام تر خطابات انھیں سے ہوئے ہیں۔

 ماقبل آیت: 

’’وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ ۔۔۔۔‘‘ 

 اور اس کے بعد 

 ’’وَاذۡکُرۡنَ مَا یُتۡلٰی فِیۡ  بُیُوۡتِکُنَّ۔۔۔‘‘ 

 میں انہیں کی طرف نسبت کی گئی ہے۔ ان دونوں کے درمیان:

 اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ  لِیُذۡھبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَھلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ  تَطۡہِیۡرًا 

ہے 

 اس درمیانی جزء کے بارے میں یہ کہنا کہ چونکہ اہل بیت کو صیغہ مذکر سے بیان کیا گیا ہے اس لیے وہ اہل بیت میں شامل نہیں، یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے عربی زبان و ادب سے کوئی واسطہ نہ ہو

 (ترجمہ شیخ الہند، تفسیر از مولانا شبیر احمد عثمانی، سورۃ الاحزاب، آیت:33)۔

  قرآن کریم میں یہ لفظ اسی صیغہ میں سورۂ ہود میں بھی آیا ہے، چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کی بیوی حضرت سارہ کو خطاب کرتے ہوئے ملائکہ نے کہا:

قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِیۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ رَحۡمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیۡکُمۡ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ ؕ اِنَّہٗ حَمِیۡدٌ مَّجِیۡدٌ {سورة هود أية 73}

فرشتوں نے کہا : کیا آپ اللہ کے حکم پر تعجب کر رہی ہیں ؟ آپ جیسے مقدس گھرانے پر اللہ کی رحمت اور برکتیں ہی برکتیں ہیں۔


اس جگہ  اہل البیت سے مراد زوجہ ابراہیم خلیل اللہ ہی ہیں ۔ شیعہ مفسرین طبرسی (مجمع البیان) اور کاشانی (منہاج السالکین) نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ میں اہل البیت سے مراد حضرت سارہ ہیں ، جو حضرت ابراہیمؑ کی چچازاد بہن تھیں۔ (اگرچہ انھوں نے اس کی بے بنیاد تاویل کی ہے)۔

 اسی طرح حضرت موسیؑ کے واقعہ میں بھی قرآن کریم میں ضمیر مذکر کا استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: 


فَلَمَّا قَضٰی مُوۡسَی الۡاَجَلَ وَ سَارَ بِاَہۡلِہٖۤ  اٰنَسَ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ نَارًا ۚ قَالَ  لِاَہۡلِہِ  امۡکُثُوۡۤا  اِنِّیۡۤ  اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّیۡۤ  اٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِخَبَرٍ اَوۡ جَذۡوَۃٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّکُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ (سورۃالقصص: آیت 29)


ترجمہ: پھر جب موسیٰ نے وہ مدت پوری کرلی، اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے تو انہوں نے کوہ طور کی طرف سے ایک آگ دیکھی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا : ٹھہرو ! میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے تمہارے پاس کوئی خبر لے آؤں، یا آگ کا کوئی انگارہ اٹھا لاؤں تاکہ تم گرمائش حاصل کرسکو۔ 


 اس آیت میں دو جگہ اہل کا لفظ آیا ہے اور دونوں ہی جگہ تمام شیعہ بلا کسی تاویل کے متفق ہیں کہ اہل سے مراد حضرت موسیٰؑ کی زوجہ ہیں جو حضرت شعیبؑ کی بیٹی تھیں ۔

 (دیکھئے: تفسیر مجمع البیان، جلد7 صفحہ346، (الاحزاب:33)، للطبرسی (ابوالفضل بن الحسن)،

 طبرسی چھٹی صدی ہجری کا فاضل ترین شیعہ علماء میں سے ہے اس کی تفسیر کئی جلدوں میں شائع ہے۔ اس کے علاوہ قمی (ابوالحسن علی بن ابراہیم) بھی تیسری صدی ہجری کا شیعہ علماء میں ممتاز سمجھا جاتا ہے اور ابتدائی شیعہ مفسرین کا امام ہے )۔ ان سب کے نزدیک اس جگہ موسیٰؑ کی زوجہ مراد ہیں ۔ اس جگہ انھوں نے صیغہ مذکر مؤنث کی کوئی بحث نہیں کی۔

جہاں تک ان تمام مذکورہ مقامات میں ازواج کو صیغہ مذکر میں مخاطب کرنے کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ ہے

 (قد اجمع اہل اللسان العربی علی تغلیب الذکور علی الاناث فی الجموع ونحوہا) 

عرب میں جب ایک سے زیادہ لوگوں کو خطاب کیا جاتا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوں تو وہاں صیغہ مذکر لایا جاتا ہے۔ اس قاعدہ کے تحت حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ اور سردار انبیاءﷺ کی ازواج مطہرات کے لیے ضمیر مذکر لائی گئی ہے۔

 الغرض اہل بیت میں حضورﷺ کی ازواج مطہراتؓ کا داخل ہونا یقینی ہے؛ بلکہ آیت کاخطاب ہی ان سے ہے؛ لیکن چونکہ اولاد و داماد بھی اہل بیت (گھر والوں ) میں شمار ہوتے ہیں۔ اس لیے روایات، مثلاً آپ ﷺ کا حضرت فاطمۃ الزہراؓ، علیؓ، حسنؓ وحسینؓ کو ایک چادر میں لے کر 

 اللّٰہم ھؤلاء اھل بیتی

 وغیرہ فرمانا اور حضرت فاطمہؓ کے مکان کے قریب سے گذرتے ہوئے:

 الصلاۃ اھل البیت! 

اور 

 یرید اللّٰہ لیذھب عنکم الرجس الخ 

 سے خطاب کرنا اگر سنداً اور درایۃً درست ہے تو وہ اسی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ یہ حضرات بھی اس لقب کے مستحق اور فضیلت تطہیر کے اہل ہیں ۔ وگرنہ 5 یا 6 ھجری کے اوائل میں جس وقت حضورﷺ نے حضرت فاطمہؓ، حضرت علیؓ اور حضرات حسنؓ و حسینؓ کو ایک چادر میں لے کر یہ فرمایا تھا کہ یہ میرے اہل بیت ہیں ۔ حضورﷺ اپنی بیمار بیٹی زینبؓ جن کا گھر بار سب کچھ اجڑ چکا تھا اپنے بچوں کے ساتھ آپﷺ کے گھر پناہ لیے ہوئے تھیں، حضورﷺ ان کو اپنی چادر میں لینا کیسے بھول سکتے تھے۔ حضرت فاطمہؓ کے سوا حضورﷺ کی تمام بیٹیوں میں ایک وہی حیات تھیں، بقیہ دونوں بیٹیوں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کا انتقال ہوچکا تھا۔                                                             

دوسرا یہ کہ واقعۂ کساء سے متعلق تمام روایات اکٹھی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ایک بار کا نہیں؛ بلکہ کئی بار کا ہے۔ اور آیت تطہیر ایک بار نہیں، کئی بار نازل ہوئی۔ اس لیے کہ یہ واقعہ کہیں ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کے گھر کا بتایا جاتا ہے، کہیں حضرت فاطمہؓ کے گھر کا اور کہیں حضرت عائشہؓ کے گھر کا۔ اس لیے کہ یہ واقعہ حضرت عائشہؓ سے بھی مروی ہے۔

 ان روایات میں آپس میں اتنا اضطراب ہے کہ ان سے کسی نتیجہ پر پہنچنا دشوار ہی نہیں۔ بلکہ ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ ان تمام روایات کے رواۃ یا تو مجروح ہیں یا ان پر کلام ہے۔

 حیرت کی بات یہ ہے کہ امام بخاریؒ اس سلسلہ میں بالکل خاموش ہیں باوجود اس کے کہ انھوں نے اپنی صحیح میں اس کے متعلق کئی ابواب قائم کیے ہیں۔

         ان روایات کو اگر قابل قبول مان لیا جائے تب بھی ان سے حصر کے معنی نہیں نکلتے؛ بلکہ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:

 فذھب الکلبی ومن وافقہ فصیرھا لہم خاصۃً

 (تفسیر قرطبی، سورۃ الاحزاب، آیت:33)

 کلبی (رافضی) اور سبائی ٹولہ ہی اس بات کا مدعی ہے کہ یہ (آیت تطہیر پنج تن کے بارے میں نازل ہوئی)۔

            ابن عاشور فرماتے ہیں کہ یہ وہم (پنجتن کا) تابعین کے زمانہ کی دین ہے جو قرآن کریم سے متصادم ہے۔ 

جہاں تک حدیث کساء کی بات ہے کہ اس میں ایسا ایک لفظ بھی نہیں جس سے حصر کے معنی نکلتے ہوں ( کہ آیت تطہیر سے صرف پنجتن مراد ہوں)۔ 

صیغہ ھؤلاء اهل بیتی کلام الٰہی ان ھؤلاء ضیفی (سورۃ الحجر:68) 

کے مانند ہے، جس کے معنی یہ نہیں کہ ان کے سواء اس میں کوئی دوسرا شامل نہیں ۔ بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اہل بیت (پنجتن) کے معنی کو حدیث کساء سے غصب کیا ہے اور قرآن کریم کو پیچھے چھوڑدیا۔ جس میں ازواج نبیﷺ کو مخاطب کیاگیا ہے۔

 (تفسیر التحریر والتنویر، تالیف: محمد طاہر بن عاشور، سورۃ الاحزاب، آیت:33)۔

واضح رہے کہ حضورﷺ جس طرح حسنؓ وحسینؓ سے محبت کرتے تھے انھیں کندھوں پر بٹھاتے تھے اسی طرح حضرت زینبؓ کی بیٹی امامہؓ اور بیٹے علیؓ سے بھی محبت کرتے تھے۔ آپﷺ امامہؓ کو گود میں لے کر نماز پڑھتے تھے۔ اسی طرح علیؓ بن زینبؓ کو فتح مکہ کے دن اپنی سواری پر اپنے ساتھ بٹھانے کا اعزاز بخشا تھا؛ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے نبیﷺ کے سب سے بڑے نواسے اور نواسی کو جانتی تک نہیں ۔ حتیٰ کہ اکثر علمائے کرام بھی اپنے خطبات میں ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔ اہل بیت میں صرف حسنؓ وحسینؓ کو شامل ماننا اور حضورﷺ کے دوسرے نواسے اور نواسیوں کو اس سے خارج کرنا ان کے ساتھ غایت درجہ نا انصافی کی بات ہے۔

آل محمدﷺ :_

 عربوں میں کسی شخص کے آل سے مراد وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں جو اس کے ساتھی، مددگار اور متبع ہوں خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ انہی سب معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے:
 
آل بمعنی قرابت دار

مثال اول: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ کَذٰلِکَ یَجۡتَبِیۡکَ رَبُّکَ وَ یُعَلِّمُکَ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ وَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اٰلِ یَعۡقُوۡبَ کَمَاۤ  اَتَمَّہَا عَلٰۤی  اَبَوَیۡکَ  مِنۡ قَبۡلُ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ (سورۂ یوسف: آیت 6)


اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں (نبوت کے لیے) منتخب کرے گا، اور تمہیں تمام باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائے گا (جس میں خوابوں کی تعبیر کا علم بھی داخل ہے) اور تم پر اور یعقوب کی اولاد پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جیسے اس نے اس سے پہلے تمہارے ماں باپ پر اور ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی۔ 

 اس جگہ آلِ یعقوب سے مراد حضرت یوسفؑ کے بھائی اور ان کی اولاد ہیں جن کی نسل سے اللہ نے سینکڑوں انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے۔

مثال دوم: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۂ آل عمران: آیت 33)

اللہ نے آدم، نوح، ابراہیم کے خاندان، اور عمران کے خاندان کو چن کر تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی۔ 

اللہ رب العزت نے خود اس آیت میں آل سے نسل اور ذریت کو مراد لیا ہے۔

 مثال سوم: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ حَاصِبًا اِلَّاۤ اٰلَ لُوۡطٍ ؕ نَجَّیۡنٰہُمۡ بِسَحَرٍ (سورۃالقمر: آیت 34)

ہم نے ان پر پتھروں کا مینہ برسایا، سوائے لوط کے گھر والوں کے جنہیں ہم نے سحری کے وقت بچا لیا تھا۔ 

 یہاں آل سے مراد حضرت لوطؑ کی اولاد (بیٹیاں) ہے ؛ کیوں کہ ان کی قوم میں سوائے ان کی دو بیٹیوں کے کوئی ایمان نہیں لایا تھا حتٰی کہ ان کی بیوی بھی نہیں جسے اللہ نے عذاب میں ہلاک کر دیا۔

 حدیث میں بھی آل کا لفظ حضورﷺ کے رشتہ داروں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرات حسنینؓ بچپن میں کھجور کے ڈھیر کے پاس کھیل رہے تھے، کھیلتے کھیلتے ان میں سے کسی نے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔ آپ کی نگاہ پڑی تو منہ سے کھجور نکلوادی اور فرمایا: اما علمت ان آل محمد لا یاکلون الصدقۃ (کیا تمہیں پتہ نہیں کہ آل محمد صدقہ کا مال نہیں کھاتے)۔

  آل بمعنی اصحاب ومتبعین
 
قولہ تعالیٰ: 
وَ اِذۡ نَجَّیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ (سورۃالبقرہ: آیت 49)

ترجمہ: اور وہ (وقت یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے۔
  
یہاں آل سے مراد فرعون کی پولیس اور حفاظتی دستے ہیں، جو اسرائیلیوں کو پکڑ پکڑ کر سزا دیتے تھے جنھیں اللہ نے بعد میں ہلاک کردیا،ارشاد فرمایا: 

وَ اِذۡ فَرَقۡنَا بِکُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَیۡنٰکُمۡ وَ اَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ(سورۃ البقرہ: آیت 50)

اور (یاد کرو) جب ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑ ڈالا تھا چنانچہ تم سب کو بچالیا تھا اور فرعون کے لوگوں کو (سمندر میں) غرق کر ڈالا تھا اور تم (یہ سب) دیکھ رہے تھے 

سمندر میں جو لوگ غرق ہوئے تھے، وہ فرعون کا لشکر تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

فَاَتۡبَعَہُمۡ فِرۡعَوۡنُ بِجُنُوۡدِہٖ فَغَشِیَہُمۡ مِّنَ الۡیَمِّ مَا غَشِیَہُمۡ (سورۂ طہ: آیت 78)

چنانچہ فرعون نے اپنے لشکروں سمیت ان کا پیچھا کیا تو سمندر کی جس (خوفناک) چیز نے انہیں ڈھانپا، وہ انہیں ڈھانپ کر ہی رہی۔

  اسی طرح جب ملک فرعون میں عذاب آیا تو وہ بھی تمام قوم پر آیا جو فرعون کی پرستش کرتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 ولقد اخذنا آل فرعون بالسنین (سورۃ الاعراف:13) 

(ہم نے نافرمانیوں کے سبب فرعون کی قوم کو قحط سالی میں پکڑا)۔

 اس جگہ بھی آل فرعون سے مراد فرعون کی قوم ہے جو اللہ کی طرف سے عذاب کا شکار ہوئی۔

اسی طرح ایک آیت میں فرعونیوں کے لیے سخت عذاب کی پیشن گوئی کی گئی، ارشاد ہوا: 

اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا ۚ وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ  اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ(سورۂ غافر: آیت 46)


آگ ہے جس کے سامنے انہیں صبح و شام پیش کیا جاتا ہے اور جس دن قیامت آجائے گی (اس دن حکم ہوگا کہ) فرعون کے لوگوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو۔ 

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آل سے مراد خاندان ہی نہیں ؛ بلکہ متبعین بھی ہیں۔ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر آل فرعون کالفظ آیا ہے، ان میں کسی جگہ بھی آل سے مراد صرف فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں ؛ بلکہ وہ سب مراد ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں فرعون کے طرفدار تھے۔

یہ لفظ حدیث میں ازواج مطہراتؓ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، صحیح بخاری میں ہے،
 حضرت انسؓ فرماتے ہیں:  

ما امسی عند آل محمد صاع بر ولا صاع حب وان عندہ لتسع نسوۃ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب شراء النبی بالنسیئة) 

(کوئی شام آل محمدﷺ پر ایسی نہیں گذرتی تھی جب ان کے پاس ایک صاع گیہوں یاکوئی دوسرا اناج ہو؛ جبکہ آپﷺ کی نو بیویاں تھیں

صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

  انا کنا أل محمد لنمکث شهرا ما نستوقد بنار ان هو الا التمر والماء (صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق، باب ما بین النفختین) 

(ہم آل محمدﷺ کے گھروں میں ایک ایک مہینہ گزر جاتا تھا چولھا نہیں جلتا تھا، ہم صرف کھجور اور پانی پر گزارا کرتے تھے)

معلوم ہوا کہ لفظ ’’آل‘‘ اقرباء وازواج رسولﷺ اور اصحاب ومتبعین سب کے لیے استعمال ہوتا ہے، صرف رشتہ داروں کے لیے نہیں ۔

 لفظ اہل اور آل میں فرق

 کسی شخص کے اہل بیت وہ ہوتے ہیں جو اس کے قریبی اور رشتہ دار ہوں، خواہ وہ اس کے متبع ہوں یا نہ ہوں اور آل وہ کہلاتے ہیں جو کسی کے متبع ہوں خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں۔ 

دوسری بات یہ کہ آل عام لوگوں کی اولاد کے لیے استعمال نہیں ہوتا، یہ صرف شاہانِ مملکت اور عظیم شخصیات کی اولاد اور ان کی نسل یا ان کے اصحاب ومتبعین کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

 درود ابراہیمی میں آل کے معنی
 
نماز میں پڑھے جانے والے درود میں آل محمّد ﷺ وآل ابراہیم (علیہ السلام) کا مطلب اور اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لینا مناسب ہے کہ غیر نبی پر درود بھیجنا جائز ہے یا نہیں ؟

        درود علیٰ غیر النبی 

صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے ترجمۃ الباب قائم کیا:

 هَلْ يُصَلَّى عَلَى غَيْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

(کیا غیرنبی پر درود بھیجا جاسکتا ہے؟) اور پھر اس کے تحت درج ذیل حدیث لائے ہیں:  

عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: كَانَ إِذَا أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَتِهِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ"، فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى. (صحیح بخاری حدیث 6359)

(حضرت ابن ابی اوفی بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کے پاس جو کوئی صدقہ لے کر آتا تو آپ ﷺ فرماتے، اے اللہ اس پر صلاۃ (رحمت) نازل فرما۔ اسی دوران میرے والد (ابو اوفی) بھی صدقہ لے کر حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ آل ابی اوفی پر صلاۃ (رحمت) نازل فرما)۔

اسی طرح امام ابوداؤد رحمۃ الله علیہ نے ترجمۃ الباب قائم کیا: 

الصلاۃ علی غیرالنبی

اس باب کے تحت امام ابوداؤد یہ حدیث لائے ہیں: 

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى زَوْجِكِ". (سنن ابی داؤد حدیث 1533)

 (ایک عورت نے کہا کہ میرے اور میرے شوہر کے لیے دعاء رحمت فرمائیں ۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تم پر اور تمہارے خاوند پر رحمت نازل فرمائے)۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں حضورﷺ کے سوا دوسروں پر بھی درود بھیجنا جائز ہے؛ لیکن مستقلاً اور علیحدہ طور پر درود علی غیرالنبی کے سلسلہ میں اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یہ درست نہیں ۔ یہ رائے امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور احناف سے منقول ہے۔
 ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا:

 ما اعلم الصلاۃ ینبغی علی احد من احد الا علی النبی (فتح الباری، شرح صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب ھل یصلی علی غیرالنبی) 

(رسول اللہﷺ کی ذات مبارک کے سوا کسی پر بھی تنہا درود پڑھنا درست نہیں)۔

  حضرت ابن عباسؓ غیر نبی پر درود بھیجنے کو جائز اس لیے نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے زمانہ میں شیعہ صرف اپنے ائمہ کے نام پر ہی درود پڑھنے لگے تھے، ان کے ساتھ وہ حضورﷺ کو بھی شریک نہیں کرتے تھے جو ایک طرح کا غلو تھا۔

 (جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل: وھل یصلی علی آلہ منفردین)

 انہی وجوہات کے پیش نظر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ملکی سطح پر اس فعل کو ممنوع قرار دیا۔ آپؒ نے اپنے عمال کو لکھا کہ:

 اما بعد،فان ناسا من الناس قد التمسوا الدنیا بعمل الآخرۃ وان من القصاص قد احدثوا فی الصلوۃ علی خلفائهم وامرائهم عدل صلاتهم علی النبی  فاذا جائک کتابی فمرهم ان تکون صلاتهم علی النبیین ودعائهم للمسلمین عامة

 (جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل:وھل یصلی علی آلہ منفردین) 

کہ میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ اعمال آخرت کے ذریعہ دنیا حاصل کرتے ہیں ، ان میں سے بعض واعظین نے یہ نیا طریقہ ایجاد کیا ہے کہ وہ نبی پر درود بھیجنے کے بجائے اپنے خلفاء اورامراء کے لیے صلاۃ کالفظ استعمال کرنے لگے ہیں، میرا یہ خط پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اس فعل سے روک دو اور انھیں حکم دو کہ وہ صلاۃ کو انبیاء علیہم السلام کے لیے محفوظ رکھیں اور عام مسلمانوں کے لیے دعا۔

خلاصہ یہ کہ اب چونکہ یہ اہلِ اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلاۃ و سلام کو انبیاء کے لیے خاص کرتے ہیں، اس لیے جمہور امت کا یہ فیصلہ ہے کہ نبیﷺ کے سوا کسی پر درود بھیجنا جائز نہیں)

 

آل محمد ﷺ کے معنیٰ

 آل محمد ﷺ سے مراد صرف آپﷺ کے خاندان والے ہی نہیں ؛ بلکہ اس میں وہ سب لوگ آجاتے ہیں جو آپﷺ کے پیروکار ہوں اور آپﷺ کے طریقے پر چلیں خواہ وہ آپﷺ کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں۔

 ۔۔۔امام نوویؒ لکھتے ہیں:

 واختلف العلماء فی آل النبی علی اقوال اظهرہا وھو الاختیار الازهری وغیرہ من المحققین انهم جمیع الامة والثانی بنوہاشم وبنو المطلب والثالث اهل بیته وذریته

 (صحیح مسلم شرح نووی، باب  الصلاۃ علی النبی)

 (علماء نے آل نبیﷺ کے معنوں میں اختلاف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں کئی اقوال وارد ہیں ، ان میں راجح قول وہ ہے جسے ازہری اور دوسرے محققین نے اختیار کیا ہے کہ آل سے مراد تمام امت ہے)۔

       اسی قول (راجح) کو امام مالکؒ، حافظ ابن عبدالبرؒ، احناف اور امام ابن تیمیہؒ وغیرہ نے بھی اختیار کیا ہے۔ 

۔۔۔صحابئ رسول حضرت جابر بن عبداللہؓ ان اولین لوگوں میں سے ہیں جن سے یہ قول منقول ہے۔ چنانچہ امام بیہقیؒ اور سفیان ثوریؒ نے حضرت جابرؓ سے یہی قول نقل کیا ہے۔

 ۔۔۔امام شافعیؒ کے بعض اصحاب نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل: وھل یصلی علی آلہ منفردین)۔ 

۔۔۔اسی طرح عرب اسکالر شیخ ابن عثیمینؒ نے فرمایا:

 اذا ذکر الآل وحدہ فالمراد جمیع اتباعه علی دینه (مجموع فتاویٰ فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ، باب صلاۃ التطوع،156، سعودی عرب، 1999) 

(جب لفظ آل تنہا مذکور ہو تو اس سے مراد جملہ متبعین دین ہیں)۔

درودابراہیمی میں آل محمد ﷺ سے اگر صرف بنو ہاشم و بنو مطلب مراد لیے جائیں جو نسباً آل محمد ﷺ ہیں، تو اس میں نیک و بد اور مؤمن و کافر سب شامل ہو جائیں گے۔ دوسری طرف آل ابراہیم میں مغضوب وضالین بھی شریک ہوجائیں گے جو نسباً آل ابراہیم ہیں؛ حالانکہ قرآن میں فرمایا گیا: 

اِنَّ اَوۡلَی النَّاسِ بِاِبۡرٰہِیۡمَ لَلَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ وَ ہٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ وَلِیُّ  الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۂ آل عمران: آیت 68)

ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی (آخر الزمان) اور وہ لوگ ہیں جو (ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مؤمنوں کا کارساز ہے۔ 

لہٰذا آل ابراہیم (علیہ السلام) وآل محمد ﷺ میں صرف وہ لوگ شامل ہیں جو متبعِ شریعت ہیں، نہ کہ وہ جو دین میں غلو کرتے ہیں اور آیات الٰہیہ میں تحریف کرتے ہیں؛ بلکہ آل میں صرف متبع رسولﷺ شامل ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس پر جسے اللہ نے اتارا اور اپنے گزرے ہوئے بھائیوں کے لیے یہ دعا کرتے ہیں:

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا  الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا (سورۃالحشر آیت 10) 

وہ یہ کہتے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہماری بھی مغفرت فرمائیے، اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی بغض نہ رکھیے۔