حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا غدیر کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت پر اشعار پڑھنا ؟
محمد ذوالقرنین الحنفیحضرت حسان بن ثابتؓ کا غدیر کے موقع پر حضرت علیؓ کی امامت پر اشعار پڑھنا ؟
السلام علی من اتبع الھدیٰ
آج کل شیعہ ”فرائد السمطین“ نامی کتاب سے ایک روایت بہت سنا رہے ہیں لوگوں کو اور اس سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ نبیﷺ نے اپنی زندگی میں ہی حضرت علیؓ کو خلیفہ بنا دیا تھا۔
اس تحریر میں ہم اسی روایت کا تحقیقی جائزہ لیں گے۔
واقعہ کافی طویل بیان کیا گیا ہے ہم صرف مدعا پر بات کریں گے اس لیے یہاں وہی الفاظ مینشن کریں گے جن سے یہ غلط تاثر لیا جا رہا ہے اس روایت کی دو اسناد ہیں۔
پہلی سند کا مرکزی راوی ابو ہارون عبدی ہے جو حضرت ابوسعید الخدریؓ سے یہ واقعہ نقل کر رہا ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ غدیر کے موقع پر جب نبیﷺ نے فرمایا
”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“
تو حضرت حسان بن ثابتؓ نے نبیﷺ سے منقبت پڑھنے کی اجازت مانگی، نبیﷺ نے اجازت دے دی تو انہوں نے کچھ اشعار پڑھے جن میں ایک شعر تھا۔
”پھر نبیﷺ نے کہا اے علیؓ اٹھو“
”میں نے تم کو اپنے بعد امام اور ھادی چُن لیا ہے“
(فرائد السمطین: صفحہ، 72)
اس سند کا مرکزی راوی ابو ہارون عبدی جو کہ ”عمارہ بن جوین“ ہے اس کے حالات ملاحظہ فرمائیں۔
امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
”یہ متروک شیعہ راوی ہے یعنی اس کی تکذیب کی گئی ہے“
(تقریب التہذیب: جلد، 1 صفحہ،651)
امام ذھبیؒ نے اس کے ترجمے میں کثیر جروحات نقل فرمائی ہے، لکھتے ہیں:
”اسے لعین قرار دیا گیا ہے، حماد بن زید نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے، شعبی کہتے ہیں اگر میری گردن اُڑا دی جائے یہ بات مجھے زیادہ محبوب ہے اس سے کہ میں ابوہارون نامی راوی سے کوئی حدیث نقل کروں، امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں یہ کوئی چیز نہیں، یحییٰ بن معین فرماتے ہیں یہ ضعیف ہے اس کی حدیث کو سچا قرار نہیں دیا جائے گا، امام نسائی رحمۃ اللہ کہتے ہیں یہ متروک الحدیث ہے، امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں یہ خارجی اور شیعہ ہے، امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں اس نے حضرت ابوسعید خدریؓ سے ایسی روایات نقل کرتا ہے جو حضرت ابوسعیدؓ کی بیان کردہ نہیں ہیں، شعبی کہتے ہیں میری کچھ مسافروں سے ملاقات ہوئی ان کے پاس ابوہارون کی ایک تحریر تھی جس میں حضرت علیؓ کے بارے میں کچھ منکر روایات منقول تھیں، قطانؒ کہتے ہیں یہ کذاب و مفتری ہے،شعبہ، ابوہارون کے پاس آئے اور اسے کہا مجھے وہ روایت نکال کر دکھاؤ جو تم نے حضرت ابوسعیدؓ سے نقل کی ہے، اس نے جب وہ تحریر نکال کر دکھائی تو اس میں لکھا تھا ”حضرت ابوسعیدؓ نے مجھے بیان کیا کہ حضرت عثمانؓ اپنے گڑھے(قبر) میں داخل ہوئے وہ اللہ کا انکار کر چکے تھے (یعنی مسلمان نہیں رہے تھے معاذاللہ) شعبیؒ کہتے ہیں اس نے حضرت ابوسعیدؓ سے ایسی روایات نقل کی ہیں جن کے بارے میں میری رائے ہے کہ ان کو اہل عراق نے رات کو بیٹھ کر ایجاد کیا ہے، صالح بن محمدؒ کہتے ہیں ابو ہارون فرعون سے بڑا جھوٹا ہے“
(میزان الاعتدال: جلد، 5 صفحہ، 219)
پھر امام ذھبیؒ نے بھی اپنی الکاشف میں ”ابو ہارون العبدی“ پر آخری حکم ”متروک“ کا لگایا ہے۔
(الکاشف: جلد، 2 صفحہ، 53)
تو یہ تھے اس راوی کے حالات کہ یہ جھوٹا تھا اور بدعتی شیعہ تھا صحابہ کرامؓ پر طعن کرتا تھا محدثین نے اس پر سخت جروحات کی ہیں کہ اس کی روایت کو ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا اور اسے تو فرعون سے بھی بڑا جھوٹا قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ یہ حضرت ابوسعید خدریؓ کی طرف جھوٹ منسوب کرتا تھا اور اوپر بیان کردہ روایت بھی یہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے ہی نقل کر رہا ہے۔
اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت موضوع و منکر ہے اور اس پر یقین کرنا جائز نہیں۔ اس روایت کی دوسری سند میں اس سے بھی زیادہ علتیں ہیں اور وہ اس سے بھی زیادہ موضوع و منکر ہے، اور مولف دوسری سند نقل کر کے خود کہتا ہے کہ اس حدیث کے مزید طُرق نہیں ہیں سوائے ابو سعید خدریؓ کے طُرق کے(یعنی یہ الفاظ صرف حضرت ابوسعید خدریؓ کے طرق میں موجود ہیں)۔
(فرائد السمطین: صفحہ، 74)
اس روایت کے بھی الفاظ بلکل یہی ہیں لیکن سند کچھ یوں ہے کہ:
”یحیی الحمانی قیس بن ربیع سے نقل کرتا ہے قیس،ابو ہارون سے اور ابو ہارون آگے ابو سعید خدریؓ سے“
اس سند میں بھی ابوہارون ہے جو حضرت ابوسعیدؓ سے روایت کر رہا ہے جس کا کھلا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی وضع شدہ ہے لیکن پھر بھی ہم دوسرے راویوں پر کلام کر لیتے ہیں تاکہ حجت تمام ہو جائے۔ اس کی سند کے یہ تینوں راوی ”یحیی، قیس اور ابوہارون“ شیعہ ہیں اور ان پر کذب و متروک کی جروحات موجود ہیں، یحییٰ الحمانی جو کہ یحییٰ بن عبدالحمید حمانی ہے پر امام ذھبیؒ کثیر جروحات نقل کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:
”امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں یہ کھلم کھلا جھوٹ بولتا تھا، امام نسائی فرماتے ہیں یہ ضعیف ہے، امام بخاریؒ فرماتے ہیں امام احمدؒ اور علی بن مدینیؒ نے اس پر کلام کیا ہے، امام ذھبیؒ خود فرماتے ہیں یہ بغض رکھنے والا شیعہ ہے، زیاد بن ایوب کہتے ہیں میں نے حمانی کو کہتے ہوئے سنا کہ حضرت امیر معاویہؓ اسلام کی بجائے کسی اور دین پر تھے (معاذاللہ) پھر زیاد کہتے ہیں اللہ کے اس دشمن (یحییٰ) نے جھوٹ کہا ہے، امام ذھبیؒ فرماتے ہیں میں کہتا ہوں اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے“
(میزان الاعتدال: جلد، 7 صفحہ، 198)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ راوی بھی بدعتی شیعہ اور کذاب ہے اور یہ صحابہ کرامؓ پر طعن کرتا تھا اس لئے اس کی روایت کو بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔
اس کی سند کا تیسرا راوی قیس بن ربیع ہے اس پر بھی سخت جروحات نقل کرتے ہوئے امام ذھبیؒ لکھتے ہیں:
”اپنی ذات کے حوالے سے سچا ہے مگر اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا، امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں سچا ہے مگر قوی نہیں، یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں ضعیف ہے، امام احمدؒ سے دریافت کیا گیا کہ اس کی احادیث کو ترک کیوں کر دیا گیا تھا ؟ تو فرمایا اس میں تشیع پایا جاتا ہے اور یہ بکثرت غلطیاں کرتا تھا اور اس سے منکر روایات بھی منقول ہیں، وکیعؒ اور علی بن مدینیؒ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، امام نسائی فرماتے ہیں یہ متروک ہے، امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں یہ ضعیف ہے، امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں جب اس کی عمر زیادہ ہوئی تو اس کا حافظہ خراب ہو گیا اور یہ اپنے بڑے بیٹے کی آزمائش میں پڑ گیا جو اسے غلط الفاظ بتاتا تھا، عفانؒ کہتے ہیں میں نے لوگوں کو قیس کا ذکر کرتے ہوئے سنا تو مجھے پتہ نہ چل سکا کہ اس میں کیا خرابی ہے، جب میں کوفہ آیا تو اس کے پاس آیا اور اس کی محفل میں بیٹھا تو اس کا بیٹا اسے تلقین کر رہا تھا، ابن نمیرؒ کہتے ہیں اس کا ایک بیٹا تھا جو خرابی کی جڑ ہے، محدثین نے اس کی تحریروں کا جائزہ لیا ہے تو اس کو منکر قرار دیا ہے، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بیٹے نے ان روایات کو تبدیل کیا ہے، ابو الحسن القطانؒ کہتے ہیں محدثین کے نزدیک قیس، ابن ابی لیلیٰ اور شریک بن عبداللہ النخعی کی طرح کا ضعیف ہے کیونکہ اس میں خرابی اس وقت لاحق ہوئی جب یہ قاضی بنا، محمد بن عبید کہتے ہیں قیس کا معاملہ ٹھیک رہا یہاں تک کہ جب یہ قاضی بنا تو اس نے ایک شخص کو قتل کروا دیا تو معاملہ خراب ہوا“
(میزان الاعتدال: جلد، 5 صفحہ، 456)
یہ تھے قیس بن ربیع کے حالات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس راوی کی روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا اور اس میں بھی تشیع پایا جاتا تھا اور اس کے بیٹے نے احادیث میں تحریف کر کے اس کو احادیث باور کروائی ہیں۔ اور تیسرے سب سے بڑے کذاب راوی (ابوہارون عبدی) کے حالات تو آپ اوپر ملاحظہ فرما چکے ہیں۔
ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں طُرق سلسلہ کذب ہیں اور یہ روایت سخت موضوع و من گھڑت ہے اور اس کو وضع کرنے والا ”ابو ہارون“ ہے اس لیے اس روایت پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔
شیعوں کو چاہیئے کہ موضوع و من گھڑت روایات سنانے کی بجائے خود بھی حق تسلیم کریں اور لوگوں کو بھی حق سنائیں۔
دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو فتنہ شیعت سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)