Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عید ’’غدیر خم‘‘ کا حکم

  حافظ صلاح الدین یوسف

عید ’’غدیر خم‘‘ کا حکم

18 ذوالحجہ کے دن کو عید منانا، محفلیں لگانا، اس دن کے آنے کی خوشیاں منانا اور اس میں ثواب سمجھ کر غلاموں کو آزاد کرنا اور جانور ذبح کرنا بلا ریب بدعت اور باطل ہے اور جس چیز پر اس کی بنیاد ہے وہ بھی بلاشک باطل ہے۔ اس کی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہجری میں حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر 18 ذوالحجہ کو ’’غدیر خم‘‘ کے مقام پر خطبہ دیا تھا جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی وصیت کی تھی۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس عید کی بدعت شروع کرنے والے اور اس دن کا اکرام و احترام کرنے والے شیعہ حضرات ہی تھے، وہ اس عید کو عیدالفطر اور عیدالاضحی سے زیادہ مقام دیتے ہیں اور اسے ’’عید اکبر‘‘ (دونوں عیدوں سے بڑی عید) کہتے ہیں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اوقات کے لحاظ سے بدعات پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: دوسری قسم ان میں سے ان بدعات کی ہے جو کسی واقعہ کے ساتھ خاص ہیں بایں طور پر کہ اس میں کوئی واقعہ پیش آیا ہو جس طرح باقی اوقات میں بھی واقعات پیش آتے ہیں لیکن انھیں یاد گار کے طور پر جشن کا موقع بنانا جائز نہیں ہوتا اور نہ سلف ہی ایسے موقعوں پر پیش آنے والے ایسے واقعات کو جشن کے طور پر مناتے تھے، جیسے 18 ذوالحجہ ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپسی پر ’’غدیر خم‘‘ کے مقام پر خطبہ دیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کی وصیت کی اور اہل بیت کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی جیسا کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم (حدیث: 2408) میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ لیکن بعض خواہش پرستوں نے اس اصل نص میں اپنی طرف سے اضافے کر لیے اور انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح نص کے ذریعے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کا عہد دیا تھا۔ اس طرح کہ آپ نے ان کے لیے سپیشل مسند بچھائی اور انھیں اعلیٰ قسم کی مسند پر بٹھایا، اضافہ کرنے والوں نے اس میں ایسی باتیں اور اعمال ذکر کیے ہیں کہ جن کا ہونا قطعاً ثابت نہیں ہے۔ اور انھوں نے یہ بھی گمان کر لیا کہ صحابہ اس نص کو چھپانے پر متفق ہو گئے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی کا حق غصب کر لیا۔ اس طرح چند صحابہ کے علاوہ انھوں نے سب صحابہ کو کافرو فاسق قرار دے دیا۔ حالانکہ بنی آدم کی فطرت کے لحاظ سے اور پھر صحابۂ کرام کی دیانت و امانت کے لحاظ سے اور شریعت نے جس حق بیانی کو ان پر واجب کیا تھا، اس سے یقینی طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ اس طرح کی نصوص کو چھپانا (جو کھلے عام بیان ہوئے ہوں) ناممکن ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ امامت کے اثبات یا نفی کا نہیں، یہاں مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اس دن کو عید بنا لینا بالکل بدعت ہے جس کی کوئی اصل دین میں موجود نہیں ہے اور پھر اس میں کیے جانے والے اعمال بھی بدعات ہیں۔ جبکہ عیدیں تو شرعی احکام میں سے ہیں جن میں بدعات کی بجائے اتباع سنت واجب اور ضروری ہے۔

نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نو مختلف دنوں میں کئی خطاب، عہدوپیمان اور واقعات موجود ہیں، جیسے بدر، حنین، خندق، فتح مکہ، ہجرت اور مدینہ میں داخلے کے وقت کے خطبات ہیں جن میں دین کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں لیکن ان دنوں میں عید منانا جائز نہیں ہے اور ایسے کام تو یہود و نصاریٰ کرتے ہیں جو حوادث و واقعات پر خوشی یا غمی منایا کرتے ہیں مسلمانوں کا تو یہ شیوہ ہی نہیں۔

 البدع الحولیۃ، ص: 380-377۔

 

کتاب کا نام: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے
مصنف: حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ