Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

(1) اہلسنت والجماعت کا یوم عید غدیر منانا کیسا؟ (2) کیا غدیر خم کا واقعہ حضرت علی ؓ کو خلافت ملنے پر دلالت کرتا ہے؟ (3) کیا غد خم کے موقع پر حضرت علی ؓ کو ولایت عطاء کی گئی؟

  محمد ذوالفقار خان نعیمی

 (1) اہلسنت والجماعت کا یوم عید غدیر منانا کیسا؟

(2) کیا غدیر خم کا واقعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوخلافت ملنے پر دلالت کرتا ہے؟

(3) کیا غد خم کے موقع پر حضرت رضی اللہ عنہ کو ولایت عطاء کی گئی؟

السلام علیکم رحمته و برکاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین مسئلہ مندرہ کے متعلق کہ ناگپور کے تاج آباد شریف درگاہ کے سامنے میں ایک جلسہ منعقد ہوا اور اس جلسے میں جومقرر خصوصی مدعو کئے گئے شاید وہ اہل تشیع حضرات کے عقائد باطلہ سے بہت متاثر تھے۔ تو حضرت موصوف نے یوم علی رضی اللہ عنہ کے موضوع پر اہلسنت والجماعت پر لعن طعن کر تے ہوئے تمام مجمع کو یوم غدیر منانے کی نصیحت دے ڈالی ۔ نیز غدیر خم  کا واقعہ بیان کیا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ اٹھا کر کہا تھا کہ جس کا میں مولی اس کا علی مولی ۔ اور غلط بیانی کرتے ہوئے کہا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اس روز اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی حیات طیبہ خلافت دے دی تھی اور پھر بات بدلتے ہوئے کہا کہ ولایت عطا فرمائی تھی ۔ اور انہوں نے لفظ "مولی " کا معنی خلیفہ کے کئے ۔ جبکہ مشکوۃ شریف میں کتاب الکرامات میں حضرت سفینہ کے متعلق جو واقعہ ہوا کہ وہ افریقہ کے جنگل میں اپنے وقف کے ساتھ کھو گئے اور اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ جنگل کا شیر سا منے آ گیا اور جب شیر آیا تو آپ ڈرے ہیں بھاگے نہیں بلکہ شیر کی طرح اس کے سامنے کھڑے ہو گئے ۔ اور جب شیران پر حملہ آور ہوا تو انہوں نے کیا "یا ابالحارث انا مولى رسول الله ﷺ - تو اس متن کا ترجمہ تمام اہلسنت کی شرح میں کہیں بھی خلیفہ یا ولایت نہیں ہیں ۔ اور عید غدیر خاص حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے شہادت کے دن منائی جاتی ہے ۔ لہذا آپ شرعی رہنمائی فرمائیں کہ
(1) اہلسنت والجماعت کا یوم عید غدیر منانا کیسا؟
(2) کیا غدیر خم کا واقعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوخلافت ملنے پر دلالت کرتا ہے؟
(3) کیا غد برٹم کے موقع پر حضرت رضی اللہ عنہ کو ولایت عطاء کی گئی تھی یا پہلے سے یا کس وقت ملی ؟

(4) کیا دیگر خلفاء راشدین کو ولایت حاصل نہیں ہوئی تھی؟
( 5 ) اور جو اہلسنت کے افراد علماء ایسے جلسوں میں شرکت کریں یا جو ایسے جلسے منعقد کریں ان پر از روئے شرع کیا حکم ہے؟
قرآن واحادیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرما کرعنداللہ ماجور ہوں ۔
بينوا توجروا.

المستفتی : محمد عبدالعزیز خان قادری ناگپور۔


الجواب بعون الملک الوهاب

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على حبيبه الكريم

استفتاء کے مندرجات دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مقرر خصوصی اہل تشیع کے عقائد ونظریات سے متاثر ہیں اور اہل سنت کے عقائد ونظریات سے ناواقف۔
اہل سنت پر طعن وتشنیع نہ کرے گا مگر وہ جو مخالف اہل سنت ہے ۔
مقرر خصوصی کا عید غدیر منانے کا حکم دینا یقیناشیعہ مذہب کی پیروی کی طرف غماز ہے۔
یوم غدیر اہل تشیع کی عید اکبر ہے ۔اور اس کو وہ خاص اس لئے مناتے ہیں کہ ان کے مطابق اس دن حضرت علی کو خلافت بلافصل ملی تھی بلکہ امامت کے بھی قائل ہیں۔ نیز یہ بھی مشہور ہے کہ اس دن چوں کہ حضرت عثمان غنی کی شہادت ہوئی تھی اس لئے وہ اس دن جشن مناتے ہیں۔
یہ ساری وجوہات ہوسکتی ہیں البتہ اصل وجہ حضرت علی کی خلافت بلافصل اور امامت ہے۔
اس عید غدیر کا بانی عراقی شیعہ حاکم معز الدین احمد بن ابویہ دیلمی ہے۔
سب سے پہلے اس نے رافضیوں کے ساتھ ۱۸ ذی الحجہ۳۵۲ ء کو بغداد میں عید غدیر منائی۔

علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے:

"(ثم دخلت سنة ثنتين وخمسين وثلاثمائة. ..وفي ثامن عشر ذي الحجة منها أمر معز الدولة بـإظهـار الـزينـة ببغداد وأن تفتح الأسواق بالليل كما في الأعياد، وأن تضرب الدبادب والبـوقـات، وأن تشعل النيران بأبواب الأمراء وعند الشرط فرحا بعيد الغدير -غدير خم -فكان وقتا عجيبا ويوما مشهودا، وبدعة ظاهرة منكرة. “

سن ۳۵۲ ہجری ۱۸ ذی الحجہ کو معزالدولہ نے شہر بغداد سجانے اور رات کو عیدوں کی راتوں کی طرح بازار کھولنے کاحکم دیا ۔ اور باجے اور بگل بجاگے گئے اور حکام کے دروازوں اور فوجیوں کے پاس چراغاں کیا گیا عید غدیر کی خوشی میں ، تو وہ وقت عجیب اور دیکھنے کا دن تھا اور ظاہری بری بدعت کا دن تھا ۔

[البداية والنهاية، لابن الكثير ۵ ۱ / ۲۲۱]

 

امام ابن اثیر جزری، لکھتے ہیں:۔

"وفيهـا فـي الثامن عشر ذي الحجة، أمر معز الدولة بإظهار الزينة في البلد، وأشعلت الـنـيـران بـمـجـلـس الشرطة، وأظهر الفرح، وفتحت الأسواق بالليل، كما يفعل ليالي الأعيـاد فـعـل ذلك فرحا بعيد الغدير ، یعنی غدیر خم، وضربت الدبادب والبوقات، وكان يوما مشهودا.“

اور سن ۳۵۲ ہجری ۱۸ارڈی الحجہ کو معزالدولہ نے شہر سجانے کا حکم دیا ۔ اور درباریوں کی مجلس میں چراغاں کیا گیا اور خوشی کا اظہار کیا گیا اور بازار کھولے گئے رات کو جس طرح عیدوں کی راتوں کو کھولے جاتے خوب خوشی منائی گئی عید غدیر خم میں ۔ اور باجے اور بگل بجاۓ گئے اور وہ دیکھنے کا دن تھا۔‘‘

[الکامل فی التاریخ،۲۴۶/۷]

 

امام ذہبی لکھتے ہیں:

"سنة اثنتين وخمسين وثلاثمئة.... وفيها يوم ثام ذي الحجة، عملت الرافضة عيد الغدير ، غدير خم، ودقت الكوسات وصلوا بالصحراء صلاة العيد “

اور سن ۳۵۲ ہجری ۱۸ ذی الحجہ کوروافض ( ابتداء میں معزالدین کا ذکر ہے ) نے عید غد سرمنائی ڈھول بجائے گئے ۔ اور میدان میں نماز عید پڑھی ‘‘۔

العبر فی خبر من غبر، ۲/ ۹۰

الغرض عید غدیر اہل تشیع کا تہوار ہے ۔اہل تشیع کے نزدیک جس کی اصل بنیاد یوم غدیر میں نبی کریم ﷺ کا مولی علی کو خلافت و امامت دینا ہے۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔
واقعه غدیر خم سے مولی علی کی خلافت وامامت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔حدیث  خم سے مولی علی کی فضیلت اجاگر ضرور ہوتی ہے لیکن اس سے خلافت وامامت مراد لینا جہالت ہے۔حالانکہ اس سے قبل بھی متعدد مقامات پرمولی علی کو اسی طرح نبی کریم ﷺ نے نوازا مگر اس دن کو عید کا دن کیوں نہیں قرار دیا جاتا ہے ۔؟
اہل تشیع واقعہ غدیر خم کے جن الفاظ کواپنے مقصد پر استدلال کرتے ہیں وہ یہ ہیں۔ 

"من كنت مولاہ فعلی مولاہ“

 مقرر خصوصی نے بھی اپنی تقریر میں سبقتا اس کا اظہار کیا ہے۔ حالانکہ اس جملہ سے کسی طرح بھی خلافت وامامت کا مفہوم ظاہر نہیں ہوتا ہے۔
مولی کے معنی خلیفہ یا امام کے کہیں نہیں آتے بلکہ اس کے متعدد معانی میں سے ایک اہم معنی جو یہاں مراد ہے وہ ہے ناصر و مددگار ۔خلیفہ یا امام کا مفہوم محض فاسد ہے۔
ہم یہاں لفظ مولی پر شارحین حدیث کے بیانات قلم بند کرتے ہیں تا کہ مفہوم واضح ہو جائے ۔
ملاعلی قاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

"مـن كـنت مولاه فعلی مولاہ‘‘قیل، معناه مـن كـنت أتولاه فعلى يتولاه من الولى ضد العدو أي : من كنت أحبه فعلى يحبه، وقيل معناه : من يتولاني فعلى يتولاه، كذا ذكره شارح من علمائنا "

جس کا میں مددگار ہوں اس کے علی مددگار ہیں کہا گیا ہے کہ اس کے معنی جس سے میں دوستی رکھتا ہوں اس سے علی دوستی رکھتے ہیں ۔ دوست بمقابلہ دشمن یعنی جس سے میں محبت کرتا ہوں اس سے علی محبت کرتے ہیں ۔ اور یہ معنی بھی اس کے کئے گئے ہیں کہ جس شخص نے مجھ سے دوستی رکھی تو علی اس سے دوستی رکھتے ہیں۔ ہمارے شارحین علما نے ایسا ہی ذکر کیا ہے ۔‘‘
آگے اس کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’وقيل : سبب ذلك أن أسامة قال لعلى :لست مولاى إنما مولاى رسول اللہ ﷺ فقال کنت مولاه فعلی مولاه “

اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت اسامہ نے کہا کہ علی میرے مولی نہیں ہیں میرے مولی تو رسول اللہ ﷺ ہیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں جس کا مولی ہوں اس کے علی مولی ہیں ۔‘‘
اور اس حدیث سے مولی علی کی امامت پر استدلال کرنے والے شیعہ کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

قالت الشيعة :هو متصرف، وقالوا : معنى الحديث أن عليا -رضي الله عنه -يستحق التـصـرف فـي كـل مـا يستحق الرسول - -التـصـرف فـيـه، ومن ذلك أمور الـمـؤمنين فيكون إمامهم أقول : لا يـسـتـقـيـم أن تـحـمل الولاية على الإمامة التي هي التصرف في أمور المؤمنين، لأن المتصرف المستقل في حياته هو هو - لا غير فيجب أن يحمل على المحبة وولاء الإسلام ونحوهما.

شعیہ نے کہا کہ وہ متصرف ہیں اور کہا کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ علی ہر اس معاملہ میں تصرف کاحق رکھتے ہیں جس میں رسول اللہﷺ تصرف کا حق رکھتے ہیں ۔اور انہیں میں سے مسلمانوں کے معاملات ہیں پس وہ ان کے امام ہوئے۔ میں کہوں گا کہ ولایت کو اس امامت پر جو مونین کے معاملہ میں تصرف ہے محمول کرنا درست نہیں اس لئے کہ مستقل متصرف اپنی حیات میں نبی ﷺ ہی ہیں کوئی غیر نہیں تو واجب ہے کہ اسے محبت اور اسلام کی ولاء اوران دونوں کے مثل پرمحمول کیا جائے۔ 

[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح، کتاب المناقب ، ۱۱ /۲۴۷]

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:

بـدار کـه ایـن اقـوی چیزیست کـه تمسك كرده اندشیعه در ادعای ایشان نص تفصیلی بخلافت علی مرتضی رضی الله و میگویند که مولی اینجا بمعنی اولی بامامت است۔
مـا مـيـكـوئیـم بشيـعـه بطريق الزام که ایشان اتفاق کرده ندبر اعتبار تواتر دلیل امامت وكـفـتـه انـد کـه تاحدیث متواتر نباشد بدان استدلال بر صحت امامت نتوان کردویقین است که ایں حدیث متواتر نیست “


جان لو کہ یہ سب سے طاقتور دلیل ہے جس سے اپنے دعوی پر شیعہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ حضرت علی کی خلافت میں تفصیلی نص ہے اور کہتے ہیں کہ اس جگہ مولی کے معنی اولی بالامامت ہے۔ہم بطور الزام شیعہ سے کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک امامت کی دلیل میں بالا تفاق تواتر معتبر ہے اور ان لوگوں نے کہا ہے کہ جب تک حدیث متواتر نہ ہو اس سے امامت کے صحیح ہونے پر استدلال نہیں کر سکتے ۔ اور یقینی بات ہے کہ یہ حدیث متواتر نہیں ہے ۔‘‘

اشعۃ اللمعات فارسی ۳۷۴/۴۰، باب مناقب علی 


علامہ ابن حجر ہیتمی نے الصوائق المحرقہ میں لفظ مولی وغیرہ سے خلافت و امامت مراد لینے پر شیعوں کی جانب سے دئے گئے دلائل کا تفصیلی جواب دیا ہے۔ یہ مقام اس تفصیل کا تحمل نہیں ہے۔ ہم بس لفظ مولی کے امام یا خلیفہ مراد لئے جانے پر دئے گئے جواب کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔
علامہ ابن حجر لکھتے ہیں:


"زعـمـوا أن من النص التفصيلي المصرح بخلافة على قوله : يوم غدير خم موضع بالجحفة مرجعه من حجة الوداع“

اہل تشیع نے گمان کیا کہ خلافت علی پر نص مصرح تفصیلی نبی کریم ﷺ کا وہ قول (یعنی جس کا میں مولی ہوں اس کے علی مولی ہیں ) ہے جو غدیر خم کے روز مقام جحفہ میں حجۃ الوداع سے لوٹتے وقت فرمایا تھا ۔

 الصواعق المحرقه، ص ۲۵ 


اس پر اہل تشیع جو دلیل دی ہے اس کے جواب میں لکھتے ہیں ::

"لا نسلم أن معنى الولى ما ذكروه بل معناه الناصر . .. على أن كون المولى بمعنى الإمام لم يعهد لغة ولا شرعا“

ہم یہ نہیں مانتے ہیں ولی کا وہ معنی جو انہوں نے ذکر کیا ہے نام نہیں مانتے ہیں۔ بلکہ اس کا معنی مددگار کے ہیں... اس بنیاد پر کہ مولی کے معنی امام ہونا لغت اور شرع کے اعتبار سے معہود نہیں ہے۔

 الصواعق المحرقه، ص ۲۲،۲۵


تحکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں
” مولی کے معنی میں دوست ، مددگار، آزاد شد و غلام، آزاد کر نے والا مولی ۔ اس کے معنی خلیفہ یا بادشاہ نہیں علی کہتے ہیں رب فرماتا ہے

 " فان الله هو مولية و جبريل و صلح المؤمنين" -

شیعہ کہتے ہیں کہ مولا بمعنی خلیفہ ہے اور اس حدیث سے لازم ہے کہ بجز حضرت علی کے خلیفہ کوئی نہیں آپ خلیفہ بلافصل ہیں مگر یہ غلط ہے چند وجہ سے ۔
ایک یہ کہ مولی بمعنی خلیفہ یا بمعنی اولی بالخلاف کبھی نہیں آتا بتاؤ اللہ تعالی اور حضرت جبریل کس کے خلیفہ ہیں حالانکہ قرآن مجید میں انہیں مولی فرما پیا

فإن الله هو مولية و جبريل

دوسرے یہ کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کسی کے خلیفہ ہیں پھر من کنت مولاہ کے کیا معنی ہوں گے ۔

تیسرے یہ کہ حضرت علی حضور کی موجودگی میں خلیفہ نہ تھے حالانکہ حضور نے اپنی حیات شریف میں میں فرمایا پھر مولی بمعنی خلیفہ کیسے ہوگا ۔

چوتھے یہ کہ اگر مان لو کہ مولی بمعنی خلیفہ ہی ہو تو بھی بالافصل خلافت کیسے ثابت ہوگی۔
واقعی آپ خلیفہ ہیں مگر اپنے موقعہ اپنے وقت میں ۔
پانچویں یہ کہ اگر یہاں مولی بمعنی خلیفہ ہوتا تو جب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار سے حضرت صدیق اکبر نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، الخلافۃ فی القریش،  خلافت قریشی میں ہے ۔ تم لوگ چونکہ قریش نہیں لہذا تم امیر نہیں بن سکتے ،وزیر بن سکتے ہو۔ اس وقت حضرت علی نے یہ واقعہ لوگوں کو یاد کیوں نہ کرادیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو مجھے خلافت دے گئے میرے سوا کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا۔ بلکہ آپ خاموش رہے اور تینوں خلفاء کے ہاتھ پر باری باری بیعت کرتے رہے۔ معلوم ہوا کہ آپ کی نظر میں بھی یہاں مولی بمعنی خلیفہ نہ تھا۔
چھٹے یہ کہ حضور کے مرض وفات میں حضرت عباس نے جناب علی سے کہا کہ چلو حضور سے خلافت اپنے لیے لے لو حضرت علی نے انکار کیا کہ میں نہیں مانگوں گا ورنہ حضور مجھے ہرگز نہ دیں گے۔ اگر یہاں مولی بمعنی خلیفہ تھا تو یہ مشورہ کیسا۔
ساتویں یہ کہ خلافت کے لیے روافض کے پاس نص قطعی الثبوت او قطعی الدلالت چاہیے یہ حدیث نہ تو قطعی الثبوت ہے کہ حدیث واحد ہے نہ قطعی الدلالت کہ مولی کے بہت معنی ہیں اور مولی بمعنی خلیفہ کہیں نہیں آتا‘‘ 

امواۃ المناجیح شرح مشكاة المصابیح، ج۴۴۴/۸


الغرض:۔حدیث غدیر خم میں لفظ مولی کے معنی مددگار کے ہیں سوائے اہل تشیع کے کسی نے بھی مولی کے معنی خلافت، امامت با ولایت معروف نہیں لئے ہیں ۔
لہذا مقرر خصوصی کا اس معنی سے خلافت یا ولایت بمعنی امامت یا ولایت معروفه مراد لینا غلط ہے ۔ بلکہ خلافت مراد لینے میں اہل تشیع کے باطل عقیدہ کی ترجمانی ہے۔ جو یقینا گمراہی ہے۔ کیوں کہ حضرت علی کو اس حدیث کی روشنی میں اہل تشیع خلیفہ بلافصل تسلیم کرتے ہیں ۔
اور خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہم کی خلافت کو باطل مانتے ہیں۔ حالانکہ یہ سراسر ضلالت و گمراہی بلکہ کفر ہے کیوں کہ خلفائے اربعہ کی خلافت پر اجماع امت ہے۔اور اجماع امت کا انکار کفر ہے۔ 
شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی فرماتے ہیں:
"رافضیوں کا یہی عقیدہ ہے کہ خلیفہ بلافصل حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ میں خلفائے ثلاثہ کی خلافت باطل ہے ۔اور وہ غاصب تھے۔ ان کا یہ عقید و باطل ہے ۔‘‘

[ فتاوی شارح بخاری ۲۴/۴]


فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی فرماتے ہیں:
"بعض شیعہ صاحبان نے اس موقع پر لکھا ہے کہ "غدیر خم" کا خطبہ یہ "حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی خلافت بلافصل کا اعلان تھا " مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ یہ محض ایک " تک بندی " کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ کیونکہ اگر واقعی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے خلافت بلافصل کا اعلان کرنا تھا تو عرفات یا منی کے خطبوں میں یہ اعلان زیادہ مناسب تھا ۔ جہاں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا اجتماع تھا ۔ نہ کہ غدیرخم پر جہاں یمن اور مدینہ والوں کے سوا کوئی بھی نہ تھا ۔ 
سیرت مصطفی ص ۵۳۵ 


حکیم الامت فرماتے ہیں:۔
"شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت قطعی اور منصوص ہے کہ غدیر خم پر حضور انور نے انہیں اپنا خلیفہ مقرر کر دیا تھا ۔ اس صورت میں شیعہ حضرات کی یہ توجیہ درست نہیں ۔

مراۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح ، ج ۲۹۲/۸


حضورصدرالا فاضل فرماتے ہیں:
علاوہ بریں اس خلافت راشدہ پر جمیع صحابہ اور تمام امت کا اجماع ہے۔ لہذا اس خلافت کا منکر شرع کا مخالف اور گمراہ بد دین ہے سوانح کربلا ص ۴۲]
حضور اعلی حضرت فتح القدیر اور فتاوی بزازیہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

"في الروافض من فضل عليا على الثلاثة فمبتدع وان انكر خلافة الصديق اوعمررضی الله عنهما فهو كافر.

رافضیوں میں جو شخص مولی علی کو خلفاء ثلاثہ رضی اللہ تعالی عنہم سے افضل کہے گمراہ ہے اور اگر صدیق یا فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو کافر ہے۔


وجیز امام کردری میں ہے : 

مـن انـكـر خلا فة ابي بكر رضى الله تعالى عنه فهو كافر فى الصحيح ومن انكر خلافة عمر رضى الله تعالى عنه فهو كافر في الاصح

خلافت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا منکر کافر ہے، یہی صحیح ہے، اور خلافت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا منکر بھی کافر ہے، یہی صحیح تر ہے۔

[ فتاوی رضویہ جدید ۲۵۰/۱۴۰]


رہا معاملہ کہ مولی علی کو ولایت کب حاصل ہوئی تو اس کی کہیں تصریح نہیں ہے ہر صحابی ولی ہوتا ہے،حسب مراتب ۔خلفائے راشدین اولیائے کرام کی صف اول میں داخل ہیں۔اولیاء غیر صحابہ سے بدرجہا افضل وارفع ہیں۔
حضور اعلی حضرت فرماتے ہیں:
’’صحابۂ کرام سب اولیائے کرام تھے۔ صحابہ کرام میں سب سے افضل و اکمل واعلی واقرب الی اللہ خلفائے اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم تھے اور انکی افضلیت ولایت بترتیب خلافت ، یہ چاروں حضرات سب سے اعلی درجے کے کامل مکمل ہیں اور دارائے نیابت نبوت ہونے میں شیخین رضی اللہ تعالی عنہما کا پایہ ارفع ہے اور دارائے تکمیل ہونے میں حضرت مولاعلی مرتضی شیر خدا مشکل کشا کا رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین - 

[ فتاوی رضویہ قدیم ۷۰/۱۴ ]


مزید فرماتے ہیں:
’’اور تحقیق یہ ہے کہ تمام اجلہ صحابہ کرام مراتب ولایت میں اور خلق سے فنا اورحق میں بقا کے مرتبہ میں اپنے ماسوا تمام اکابر اولیاء عظام سے وہ جو بھی ہوں افضل ہیں۔ اور ان کی شان ارفع و اعلی ہے۔

اس سے کہ وہ اپنے اعمال سے غیر اللہ کا قصد کر یں ۔لیکن مدارج متفاوت ہیں اور مراتب ترتیب کے ساتھ ہیں اور کوئی شے کسی شے سے کم ہے اور کوئی فضل کسی فضل کے اوپر ہے اور صدیق کا مقام وہاں ہے جہاں نہایتیں ختم اور غایتیں منقطع ہوگئیں۔

[ فتاوی رضویہ جدید ۱۸۳/۲۴۰ ۲۸۴۰]


الحاصل:۔مقرر خصوصی کا یوم غدیر منانے کی ترغیب دینا، اہل تشیع کے باطل و گمراہ کن نظریات کی تشہیر و ترویج کرنا ہے جو یقینا گناہ بلکہ گمراہی وکفر پر مدد ہے ۔ یوں ہی ایسے جلسوں میں شرکت کرنا جہاں اہل تشیع کے باطل وفاسد کفریہ عقائد کی تشہیر ہو، حرام بلکہ ان کے کفریہ عقائد پر راضی ہونے اور ان کی تشہیر میں مدد کر نے کے سبب کفر ہے۔
بالجملہ : یوم غدیر کوعید مانا اگر اہل تشیع کے باطل نظریات سے متفق ہوئے بغیر بھی ہو تب بھی گناہ پر مدد کرنے کا الزام رہے گا اور چوں کہ عید غدیر کی بنیادی وجہ حضرت علی کی خلافت بالأصل اور خلفائے ثلاثہ کی خلافت کا انکار ہے جو بلاشبہ کفر ہے۔ تو اس طرح کفر پر مدد کرتا ہے ۔ لہذا گناہ پر مددگناہ کبیرہ اور کفر پر مدد کفر ہے۔
بنای پہ شرح ہدایہ میں ہے:

"الإعانة على المعاصي والفجور والحث عليها من جملة الكبائر“

گناہوں اور برائیوں پر مدد کرنا اور اس پر ابھارنا گناہ کبیرہ ہے ۔ 

البنایة شرح الہدایۃ ۹۰/ ۱۴۸


فتاوی شامی میں ہے:

"فلا تـجـوز الإعـانـة عـلـى تجديد الكفر فيها... وأن من ساعد على ذلك فهو راض بالكفر والرضا بالكفر كفر“

تجدید کفر پر مدد جائز نہیں ہے اور جس شخص نے کفر کوشش کی تو وہ کفر پر راضی ہوا اور کفر پر راضی ہونا کفر ہے ۔ 

ردالمختار ۴/۲۰۵


حضور اعلی حضرت طحطاوی علی الدر کے حوالے سے فرماتے ہیں:

التفرج على المحرم حرام

( حرام پر خوشی بھی حرام ہے )


ایسے جلسوں میں شرکت گناہ کبیرہ ہے۔

قال الله تعالى فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظمين .


اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : پس نصیحت و یاددہانی کے بعد ظالموں کے پاس مت بیٹھو۔۔۔

قال الله تعالى : ولا تعاونوا على الاثم والعدوان .


اللہ تعالی کا فرمان مبارک ہے: گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ۔‘‘

 فتاوی رضویہ جدید ،۲۱۰۴۰۱۰۱/۱۵


علاوہ ازیں عید غدیر منانا اہل تشیع کا مذہبی شعار ہے اور کسی کافر قوم کے مذہبی شعار کا اپنانا یقینا تشبہ کے درجہ میں آتا ہے جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا

"من تشبه بقوم فهو منهم“

جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ نہیں میں سے ہے ۔“ 

[سنن ابو داؤد، کتاب اللباس ۲۰۳/۴]


البتہ اگر ان کے عقائد ونظریات کو مان کر ہے تو تشبہ التزامی ہے ۔ اور اگر ان کے عقائد سے تو اتفاق نہیں بلکہ اپنے طور پر ہی منانا ہے لیکن ان کا مذہبی شعار ہونے کے سبب تشبہ پایا جارہا ہے تو تشبہ لزومی ہے ۔ پہلی صورت میں کفر ہے کیوں کہ تشبہ کے سبب کفریہ عقائد پر رضا شامل ہے ۔ اور دوسری صورت میں کم از کم کو تشبہ کے سبب حرمت و ممانعت ضرور ہے۔
’’تشبہ دو وجہ پر ہے :التزامی و لزومی ۔
التزامی یہ ہے کہ یہ شخص کسی قوم کے طرز و وضع خاص اسی قصد سے اختیار کرے کہ ان کی سی صورت بنائے ان سے مشابہت حاصل کرے حقیقۂ تشبہ اسی کا نام ہے۔۔۔۔
اور لزومی یہ کہ اس کا قصد تو مشابہت کا نہیں مگر وہ وضع اس قوم کا شعار خاص ہورہی ہے کہ خواہی نخواہی مشابہت پیدا ہوگی ۔ اس قوم کو محبوب و مرضی جان کر ان سے مشابہت پسند کرے یہ

بات اگر مبتدع کے ساتھ ہو بدعت اور کفار کے ساتھ معاذ اللہ کفر‘‘

[ فتاوی رضویہ جد ید ،۵۳۰/۲۴ ]


مزید فرماتے ہیں:
نہ تو انہیں اچھا جانتا ہے نہ کوئی ضرورت شرعیہ اس پر حامل ہے بلکہ کسی نفع دنیوی کے لئے یا یونہں بطور ہزل واستہزاء اس کا مرتکب ہوا تو حرام و ممنوع ہونے میں شک نہیں اور اگر وہ وضع ان کفار کا مذہبی دینی شعار ہے جیسے زقار ، قشقہ، چٹیا، چلیپا، تو علماء نے اس صورت میں بھی حکم کفر دیا کماسمعت انفا۔ اور فی الواقع صورت استہزا ء میں حکم کفر ظاہر ہے کمالایخفی ۔
اور لزومی میں بھی حکم ممانعت ہے جبکہ اکراہ وغیرہ مجبوریاں نہ ہوں جیسے انگریڑی منڈا، انگریزی ٹوپی ، جاکٹ ، پتلون ، الٹا پردہ، اگرچہ یہ چیزیں کفار کی مذہبی نہیں مگر آخر شعار ہیں تو ان سے بچنا واجب اور ارتکاب گناہ۔

[ فتاوی رضویہ جد ید ۵۳۲/۲۴۰]


حضوراعلی حضرت ملا علی قاری کے حوالے سے فرماتے ہیں:

’’اناممنوعون من التشبيه بالكفرة واهل البدعة المنكرة في شعار هم“

ہمیں کافروں اور منکر بدعات کے مرتکب لوگوں کے شعار کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔“

[ فتاوی رضویہ جد ید ،۵۳۳/۲۴]


اور فرماتے ہیں:۔
” اور اپنے لئے جو شعار کفر پر راضی ہواس پر لزوم کفر ہے ۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں : 

” من تشبه بقوم فهو منه“ 

جو کسی قوم سے مشابہت پیدا کرے وہ انھیں میں سے ہے ۔


اشباہ والنظائر میں ہے :

عبـادة الـصـنـم كـفـر ولا اعتبار في قلبه وكذا لوتزنر بزنار اليهود والنصارى دخل كنيستهم او لم يدخل .


جامع الفصولین مخ الروح الازہر میں ہے : 

من خرج الى السدة (قال القارى اى مجمع اهل الكفر) كفر لان فيه اعلام الكفر وكانه اعان عليه .

جوکوئی ( دار الاسلام کو چھوڑ کر ) کفار ومشرکین کے مجمع میں جاۓ ( السدة -محدث ملاعلی قاری نے فرمایا : اس کا معنی مجمع اہل کفر ہے ) تو وہ کافر ہو گیا کیونکہ اس میں کفر کا اعلان ہے۔
گویا وہ کفر پر ان کی امداد کر رہا ہے۔۔۔ اور کفر کے اہتمام میں شریک ہونا اور اس پر راضی ہونا کفر ہے

الرضا بالكفر كفر 

( کفر پر راضی ہونا کفر ہے ) 
وہ لوگ اسلام سے نکل گئے اور ان کی عورتیں ان کے نکاح سے ‘‘

[ فتاوی رضویہ جد ید، ۲۱/ ۲۹۶، ۲۹۷]


الحاصل:۔عید غد بر اہل تشیع کا مذہبی تہوار ہے۔
اہل سنت کا اس دن عید منانا اہل تشیع کے باطل افکار وعقائد کی تائید کا موجب اوران کے اس باطل وکفریہ عقیدہ کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔
لہذا مقرر خصوصی کا عید غدیر کی ترغیب دینا لوگوں کو کفر اور کم از کم گمراہی کی دعوت دینا ہے اور ساتھ ہی روافض کے باطل نظریات کو تقویت پہنچاتا ہے ۔ مقرر خصوصی کو چاہئے کہ توبہ کرے اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح و بیعت کرے۔
فقہ حنفی کی مشہور کتاب در مختار اور اس کے حاشیہ ردالمختار میں ہے:

مـايـكـون كـفـراتـفـاقـايـبـطـل الـعمل والنكاح واولاده اولادزنا،ومافيه خلاف يؤمربالاستغفار والتوبة(اى تجدیدالاسلام) و تجديد النكاح.

متفق علیہ کفر سے عمل اور نکاح باطل ہو جاتا ہے اور اس کی حالت میں جو اولاد ہوگی وہ اولاد زنا ہوگی اورجس کے کفر ہونے میں اختلاف ہو اس میں توبہ تجدید اسلام اور تجدید نکاح کا حکم دیا جاۓ گا۔

[باب المرتد، ۳۹۱/۲]


اور اگر مقرر خصوصی کا مقصد عید غدیر کو منانے سے فقط حضرت علی کی محبت ہی ہے ۔ یا یوں ہی رسما منانا ہے۔ اور اہل تشیع کے افکار ونظریات جو اس غدیر سے وابستہ ہیں ان سے بالکلیہ متفق  نہیں ہے بلکہ ان کو فاسد و باطل جانتا اور مانتا ہے۔ تو یہ بھی مشبہ روافض کی وجہ سے حرام ہے۔
جیسا کہ حضور اعلی حضرت فرماتے ہیں:
’’جو بات کفار یا بد مذ ہاں اشرار یافساق فجار کا شعار ہو بغیر کسی حاجت صحیح شرعیہ کے برغبت نفس اس کا اختیار ممنوع و ناجائز و گناہ ہے۔اگرچہ وہ ایک ہی چیز ہو کہ اس سے اس وجہ خاص میں ضرور ان سے تشبہ ہوگا اس قدر منع کو کافی ہے اگرچہ دیگر وجوہ سے تشبہ نہ ہو۔

فتاوی رضویہ جدید ۲۴/۲۳۵

لہذا ایسی صورت میں مقرر خصوصی پر رجوع اور توبہ لازم ہے۔ اور آئندہ اس طرح معمولات اہل سنت کے خلاف زبان درازی سے باز آنا واجب وضروری ہے۔
اور اگر وہ اس پر عمل نہ کرے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس کا بائیکاٹ کریں ۔اور اس سے ہر طرح کا تعلق ختم کر لیں ۔ قرآن پاک میں ہے:

"وإما ينسينك الشيطان فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين

( اور جو کہیں تجھے شیطان بھلا دے تو یادآ نے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھے۔)


کنز الایمان پارہ ۲۸ ، سور وانعام آیت ۶۸ 

هذا ماعندي والعلم عندالله تعالى


محمد ذوالفقار خان نعیمی
نوری دالافتاء مدينہ مسجد محلہ علی خاں کاشی پور
۲/محرم الحرام ۵۱۴۳۹