یہ فیصلہ عدمِ جواز ان وجوہات کی بناء پر راجح ہے
یہ فیصلہ عدمِ جواز ان وجوہات کی بناء پر راجح ہے
(1) قولِ جواز میں یہ الفاظ ہیں: ظاهره ۔۔۔ يفيد ۔۔۔ و عليه المتون: اور فیصلہ عدمِ جواز میں یہ الفاظ ہیں: و به نأخذ ۔۔۔ وبه يفتی ۔۔۔ صرح فی كافى الحاكم ۔۔۔ ولم يذكر فيه خلافا ۔۔۔ وبه علم أنه ظاهر الرواية عن الكل: یہ الفاظ قولِ جواز سے متعلقہ الفاظ کے مقابلہ میں بہت قوی ہیں۔
(2) کافی حاکم کا مقام بہت بلند ہے :وهو كاف للقضاء بين الأقوال المختلفة: اس سے :وعليه المتون: کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ :لأن الكافی أم المتون:
علاؤہ ازیں یہ کلیہ ہے کہ جہاں شروح میں متون کے خلاف فتویٰ تحریر ہو، وہاں متون پر عمل نہ ہو گا۔ پھر :انه وظاهر الرواية عن الكل: نے تو فیصلہ ہی کر دیا۔
(3) علامہ ابنِ عابدینؒ کا فیصلۀ عدمِ جواز آپؒ کی تحریرِ جواز سے متأخر ہے۔
(4) آپ نے :باب المصرف: میں جواز کی طرف اپنا جواز بیان فرمایا ہے پھر اس کے بعد :باب كفارة الظهار: میں عدمِ جواز کا یقینی فیصلہ تحریر فرمایا ہے۔
(5) آپؒ نے :منحة الخالق: میں :باب المصرف و باب كفارة الظهار: دونوں جگہ عدمِ جواز کا :مفتیٰ به: ہونا نقل کر کے اس پر کوئی اشکال نہیں تحریر فرمایا، جو دلیلِ اختیار ہے۔
(6) صدقة الفطر بوجہ وجوب، زکوٰۃ کے مشابہ ہے۔
(7) عدمِ جواز روايةً و درايةً اقویٰ ہونے کے علاؤہ احوط بھی ہے۔ :والأخذ بالاحتياط في باب العبادات واجب:
(8) عدمِ جواز جمہور کے مطابق ہے۔
(بداية المجتهد جلد 1 صفحہ 289)
یہ بحث تو علامہ ابنِ عابدینؒ کی تحریر سے متعلق تھی۔ مزید بریں مندرجہ ذیل ائمہ فقہاء کرامؒ بھی عدمِ جواز کے قائل ہیں ۔
(1) الأول هو الحاكم نفسہؒ المتوفى 344 ہجری (ردالمختار جلد 3 صفحہ 479)
(2) الامام طاهر بن عبد الرشيد البخاریؒ المتوفى: 542ہجری.
(خلاصة الفتاوىٰ جلد 1 صفحہ 242/275)
(3) الملا على القارىؒ المتوفى: 1014ہجری.
(شرح النقاية جلد 1 صفحہ 392)
(4) العلامة الحصكفىؒ المتوفى: 1088ہجری۔ (ردالمختار جلد 2 صفحہ 269/351)
(5) العلامة الطحطاویؒ المتوفى: 1231ہجری.
(حاشية الطحطاوی على مراقی الفلاح صفحہ 393)
(6) العلامة ابنِ عابدينؒ المتوفى 125 ہجری.
(رد المختار جلد 3 صفحہ 479)
وظهر من مراجعة كتب المذهب أن المجوزين هم الأكثرون، ومعلوم أن العبرة بقوة الدليل لا للكثرة، والكافی هو كاف وحده وان لم يكن معه أحد فكيف اذا واقفه جماعة من الأئمة العظامؒ:
(احسن الفتاوىٰ جلد 10 صفحہ 461)