Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اپنی بہن فاطمہ بنت خطاب کے گھر پہنچنا اور ان کا بھائی کے سامنے ثابت قدم رہنا

  علی محمد الصلابی

اپنی بہن فاطمہ بنت خطاب کے گھر پہنچنا اور ان کا بھائی کے سامنے ثابت قدم رہنا

سیدنا عمر بن خطابؓ نے جب سنا کہ ان کی بہن اور بہنوئی اسلام لے آئے ہیں تو آپ کو سخت غصہ آیا اور ان کے پاس پہنچے۔ جب گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انہوں نے پوچھا: کون؟ آپ نے کہا: ابن خطاب۔ وہ لوگ اپنے ہاتھوں میں لیے قرآن پڑھ رہے تھے۔ جب عمر کے آنے کا احساس ہوا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور قرآن کو اسی حالت میں بھول کر چھپنے لگے۔ جب آپ داخل ہوئے اور آپ کی بہن نے آپ کو دیکھا تو چہرہ سے غصے کو بھانپ لیا، جلدی سے صحیفہ کو اپنی ران کے نیچے چھپا لیا۔ آپ نے کہا: ابھی مبہم اور پست آواز جو میں نے تمہارے پاس سنی یہ کون سی بات تھی۔ درحقیقت وہ لوگ سورہ ’’طٓہ‘‘ کی تلاوت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ہماری آپس کی بات کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی۔ آپ نے کہا: شاید کہ تم دونوں صابی (دین بدل دینے والے) ہو گئے ہو۔ ان کے بہنوئی نے کہا: تمہاری کیا رائے ہے اگر حق تمہارے دین کے علاوہ دوسری جگہ ہو۔ اتنے میں عمر (رضی اللہ عنہ ) اپنے بہنوئی سعیدؓ پر چڑھ دوڑے اور ان کی داڑھی کو پکڑ لیا۔ پھر دونوں نے اٹھا پٹک کی۔ سیدنا عمرؓ سخت طاقتور تھے۔ آپ نے سعید کو زمین پر پٹخ دیا اور خوب روندا، پھر ان کے سینہ پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں آپ کی بہن آ گئیں اور آپ کو اپنے شوہر سے دور کرنے لگیں۔ آپ نے ان کو تھپڑ رسید کیا جس سے ان کا چہرہ خون آلود ہو گیا۔ بہن نے غصہ کی حالت میں کہا: اے اللہ کے دشمن! کیا تو مجھے اس لیے مار رہا ہے کہ میں اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتی ہوں؟ آپ نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: جو تجھے کرنا ہے کر لے۔

 أشہد أن لا إلٰہ الا اللّٰه وأن محمدا رسول اللّٰه 

ترجمہ:’میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘

تیری مرضی کے خلاف ہم اسلام لا چکے ہیں۔

جب عمر نے ان سے یہ باتیں سنیں تو شرمندہ ہوئے اور ان کے شوہر کے سینے سے اتر گئے اور بیٹھ گئے، پھر کہا: تمہارے پاس جو صحیفہ ہے مجھے دو، میں اسے پڑھوں گا۔ آپ کی بہن نے کہا: میں ایسا نہیں کروں گی۔ آپ نے کہا: تمہاری بربادی ہو! تمہاری بات نے میرے دل کو متاثر کیا ہے۔ مجھے صحیفہ دو، میں اسے دیکھ تو لوں، میں تجھے یقین دلاتا ہوں کہ اس میں خیانت نہیں کروں گا۔ تو اسے جہاں چاہے محفوظ رکھ لینا۔ انہوں نے کہا: تم ناپاک ہو اور   لَا یَمَسَّہُ اِلَّا الْمُطَّہَّرُوْنَ (سورة البقرۃ: آیت، 79) ’’اسے صرف پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔‘‘ جاؤ غسل کرو یا وضو کر لو۔ 

آپ غسل کرنے گئے، پھر اپنی بہن کے پاس لوٹ کر آئے۔ انہوں نے آپ کو صحیفہ دیا۔ جس میں ’’طٓہ‘‘ اور دوسری سورتیں تھیں۔ آپ نے اس میں دیکھا:

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ جب الرحمن الرحیم پر پہنچے تو کانپ اٹھے، صحیفہ ہاتھ سے گر گیا، پھر خود کو سنبھالا، اور اس میں پڑھا

طه(1) مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى (2) إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى (3) تَنْزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى (4) الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى (5) لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ النَّرَى (6) وَإِنْ تَجْهَرُ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى (8)

(سورۃ طہ: آیات، 8 تا 1)

ترجمہ: "طہ۔ ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لیے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑ جائے، بلکہ اس کی نصیحت کے لیے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ اس کا اتارنا اس کی طرف سے ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمان کو پیدا کیا ہے۔

جو رحمن ہے عرش پر قائم ہے۔ جس کی ملکیت آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان اور کرۂ خاک کے نیچے ہر ایک چیز پر ہے۔ اگر تو اونچی بات کہے تو وہ ہر ایک پوشیده بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر چیز بھی بخوبی جانتا ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بہترین نام اسی کے ہیں۔"۔ وہ چھپے ہوئے تھے۔ اور کہا: اے عمر! خوش ہوجاؤ، مجھے امید ہے کہ آپ کے حق میں بروز سوموار رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا قبول ہو چکی ہے:

اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبُّ بِذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بأبي جهل بن بِشَامٍ أَوْ بِعْمَرَ بْنِ الْخَطَابِ

اے اللہ! ابوجہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ بہتر ہو اس کے ذریعہ سے اسلام کو غالب کردے۔

آپ نے فرمایا: مجھے رسول اللہﷺ کی جگہ بتاؤ۔ جب انہوں نے بات کی سچائی کا اعتبار کر لیا تو کہا: آپ ﷺ صفا پہاڑی کے نیچے ہیں۔ سیدنا عمر نے تلوار سنبھالی گردن میں لٹکا لی پھر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کی طرف چل نکلے۔ وہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا، جب انہوں نے آپ کی آواز سنی تو خوفزدہ ہو گئے اور کسی نے بھی دروازہ کھولنے کی ہمت نہ کی، کیونکہ انہیں جناب عمر کی آپ ﷺ سے شدت عداوت معلوم تھی۔ جب سیدنا حمزہ نے دیکھا کہ لوگ خوفزدہ ہیں تو کہا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب ہیں۔ آپ نے کہا عمر بن خطاب ہیں؟ دروازہ کھول دو۔ اگر اللہ نے اس کے لیے بھلائی چاہی تو وہ اسلام لے آئے گا، اور اگر اس کے علاوہ اس کا ارادہ ہے تو اس کا قتل کرنا ہمارے لیے آسان ہو جائے گا۔ انہوں نے دروازہ کھول دیا، سیدنا حمزہ اور ایک دوسرے آدمی نے آپ (عمر) کے دونوں بازوؤں کو پکڑ لیا، یہاں تک کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔

(فضائل الصحابة احمد بن حنبل: جلد، صفحہ، 344)

آپ ﷺ ان کی طرف بڑھے اور انہی کی چادر سے ان کی کمر کو پکڑ لیا، پھر تیزی سے کھینچا اور کہا ما جاء بك يا ابن الخطاب؟ والله ما أرى أن تنتهى حتى ينزل الله بک قارعة اے خطاب کے بیٹے! تمہارا کیسے آنا ہوا؟ اللہ کی قسم میں تم کو تمہارے ارادے سے باز آنے والا نہیں پاتا یہاں تک کہ تم پر اللہ تعالىٰ مصیبت ڈال دے۔

عمر نے آپ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں آپ کے پاس اللہ، اس کے رسول اور اللہ کی طرف سے آپ جو لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانے آیا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا، اس طرح آپﷺ کے صحابہ نے جو دار ارقم میں موجود تھے جان لیا کہ عمر اسلام لے آئے۔ پھر صحابہ ادھر ادھر چلے گئے۔ حمزہ بن عبد المطلب کے ساتھ جب عمر بھی اسلام لے آئے تو انہوں نے کافی قوت محسوس کی اور انہیں لگا کہ اب یہ دونوں رسول اللہﷺ کو تکلیف نہیں پہنچنے دیں گے۔ اور دیگر صحابہ بھی ان دونوں کے ذریعہ سے اپنے دشمن سے بدلہ لے لیں گے۔

عمر بن خطاب الطنطاويات ترمذی: مناقب صفحہ 3681)

دعوت الی اللہ کے لیے ڈٹ جانا اور اس کے لیے مشکلات برداشت کرنا سيدنا عمر مكمل خلوص و للہیت کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے اور پوری طاقت کے

یہ آیات آپ کے دل پر بہت اثر انداز ہوئیں۔

آپ نے کہا: کیا قریش اسی سے بھاگتے ہیں؟

پھر جب اللہ کے اس فرمان تک پہنچے

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (4) إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةً أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى (5) فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى

(سورة طہ: آیات، 1 تا 6) 

ترجمہ: بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا عبادت کے لائق اور کوئی نہیں۔ پس تو میری ہی عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ قیامت یقیناً آنے والی ہے جسے میں پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو۔ پس اب اس کے یقین سے تجھے کوئی ایسا شخص روک نہ دے جو اس پر ایمان نہ رکھتا ہو، اور اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو، پس تو ہلاک ہوجائے گا۔ اس کے بعد آپ نے کہا: جو ایسی بات کہہ رہا ہو اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت نہ کی آئے۔ مجھے بتاؤ محمد کہاں ہیں؟