Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

رسول اللہﷺ کے پاس جانا اور قبول اسلام

  علی محمد الصلابی

رسول اللہﷺ کے پاس جانا اور قبولِ اسلام

 جب خبابؓ نے یہ واقعہ سنا تو گھر سے نکلے۔ وہ چھپے ہوئے تھے۔ اور کہا: اے عمر! خوش ہوجاؤ، مجھے امید ہے کہ آپ کے حق میں بروز سوموار رسول اللہﷺ کی یہ دعا قبول ہو چکی ہے

اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبُّ بِذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بأبي جهل بن بِشَامٍ أَوْ بِعْمَرَ بْنِ الْخَطَابِ

اے اللہ! ابوجہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ بہتر ہو اس کے ذریعہ سے اسلام کو غالب کردے۔ آپ نے فرمایا: مجھے رسول اللہﷺ کی جگہ بتاؤ۔ جب انہوں نے بات کی سچائی کا اعتبار کر لیا تو کہا: آپﷺ صفا پہاڑی کے نیچے ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے تلوار سنبھالی گردن میں لٹکا لی پھر رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کی طرف چل نکلے۔ وہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا، جب انہوں نے آپ کی آواز سنی تو خوفزدہ ہو گئے اور کسی نے بھی دروازہ کھولنے کی ہمت نہ کی، کیونکہ انہیں جناب عمر کی آپ ﷺ سے شدت عداوت معلوم تھی۔ جب سیدنا حمزہ نے دیکھا کہ لوگ خوفزدہ ہیں تو کہا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب ہیں۔ آپ نے کہا عمر بن خطاب ہیں؟ دروازہ کھول دو۔ اگر اللہ نے اس کے لیے بھلائی چاہی تو وہ اسلام لے آئے گا، اور اگر اس کے علاوہ اس کا ارادہ ہے تو اس کا قتل کرنا ہمارے لیے آسان ہو جائے گا۔ انہوں نے دروازہ کھول دیا، سیدنا حمزہ اور ایک دوسرے آدمی نے آپ (عمر) کے دونوں بازوؤں کو پکڑ لیا، یہاں تک کہ انہیں رسول اللہﷺ کے پاس لائے۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔

(فضائل الصحابة احمد بن حنبل: صفحہ، 344)

آپ ﷺ ان کی طرف بڑھے اور انہی کی چادر سے ان کی کمر کو پکڑ لیا، پھر تیزی سے کھینچا اور کہا

ما جاء بك يا ابن الخطاب؟والله ما أرى أن تنتهى حتى ينزل الله بک قارعة

اے خطاب کے بیٹے! تمہارا کیسے آنا ہوا؟ اللہ کی قسم میں تم کو تمہارے ارادے سے باز آنے والا نہیں پاتا یہاں تک کہ تم پر اللہ تعالىٰ مصیبت ڈال دے۔

عمر نے آپ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں آپ کے پاس اللہ، اس کے رسول اور اللہ کی طرف سے آپ جو لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانے آیا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا، اس طرح آپ ﷺ کے صحابہ نے جو دار ارقم میں موجود تھے جان لیا کہ عمر اسلام لے آئے۔ پھر صحابہ ادھر ادھر چلے گئے۔ حمزہ بن عبد المطلب کے ساتھ جب عمر بھی اسلام لے آئے تو انہوں نے کافی قوت محسوس کی اور انہیں لگا کہ اب یہ دونوں رسول اللہﷺ کو تکلیف نہیں پہنچنے دیں گے۔ اور دیگر صحابہ بھی ان دونوں کے ذریعہ سے اپنے دشمن سے بدلہ لے لیں گے۔

عمر بن خطاب الطنطاويات ترمذی: مناقب صفحہ، 3681)