Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

کفار کی تعریف کرنا عظیم جرم اور کفر تک لے جانے کا ذریعہ بنے گی


کفار کی تعریف کرنا عظیم جرم اور کفر تک لے جانے کا ذریعہ بنے گی

بہت سے لوگوں کو فساق و فجار سے نفرت کے بجائے ان کی بہت سی باتیں انہیں اچھی لگتی ہیں۔

 ایک شخص نے کہا کہ: انگریز بہت ہنس مکھ اور خوش مزاج ہوتے ہیں اور یہ علماء اور یہ بزرگ حضرات خشک مزاج ہوتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں کی خوش مزاجی ان کی زبان کا اثر ہے۔ 

ایسی باتیں اور بھی بہت سے لوگ کہہ دیتے ہیں۔ اس لئے اس کے جوابات سن لیں: 

(1) مسلمان ہر کام میں اپنے اللہ تعالیٰ جل شانہ کے قانون کے پابند ہوتا ہے، وہ کوئی کام بھی خلاف نہیں کر سکتا جیسا دل میں آیا کر لیا۔ ہر وقت ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی بات یا حرکت نہ ہو جائے جس سے میرا مالک ناراض ہو جائے۔ اور انگریز بالکل آزاد ہیں جیسا دل میں آیا کر لیا۔ اس سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بڑے خوش مزاج ہیں۔

جو شخص قانون کا پابند ہو گا وہ خوش مزاج ہو ہی نہیں سکتا، اگر خوش مزاجی کی کوئی بات کرے گا بھی تو قانون کا پابند رہ کر سوچ سمجھ کر موقع محل دیکھ کر، اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی رضا کے لئے کرے گا، آزادی سے بلا سوچے سمجھے، بے موقع و محل اور مخلوق کی رضا کے لئے نہیں کرے گا۔ 

(2) اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا حکم ہے: اللہ کے باغیوں اور مجرموں کے سامنے ان کے گناہوں سے بیزاری کا اظہار کرو۔

اللہ والے اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے اس قانون کی پابندی کرتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ جل شانہ کے باغیوں اور مجرموں کے ساتھ زیادہ خوش مزاجی نہیں کرتے۔

 اور انگریز جب خود ہی اللہ تعالیٰ جل شانہ کے باغی ہیں تو وہ دوسرے باغیوں سے نفرت کیا کریں گے بلکہ محبت ہی کریں گے، اسی لئے وہ ہر ایک سے خوش مزاجی سے پیش آتے ہیں۔ 

ان دو وجہوں سے معلوم ہوا کہ انگریزوں کی خوش مزاجی کی یہ خوبی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ میرے محترم قارئین کرام!

غیر قوموں میں بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو عقلاً و شرعاً صحیح نہیں ہوتیں مگر بعض لوگوں کو طبعاً پسند آتی ہیں، ایسی باتوں کی طرف طبعیت کا مائل ہونا بہت ہی خطرناک ہے، جو انسان کو کفر تک لے جا سکتا ہے۔

بعض باتیں غیر قوموں میں غیر اختیاری ہوتی ہیں، مثلاً جسمانی ساخت، خوش رنگ، لمبا قد ، قوت، شجاعت وغیرہ۔ اگر ان چیزوں کی وجہ سے ان کی طرف طبعیت مائل ہوتی ہے اور ان کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے تو یہ بھی خطرہ سے خالی نہیں۔ اس لئے کہ یہ بات سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ: 

جس کے ساتھ عداوت اور دشمنی ہوتی ہے اس کی خوبیاں اور کمالات بھی بُرے لگتے ہیں، اور جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے اس کی بُری باتیں بھی اچھی لگتی ہیں۔

آپ کے سامنے اگر کوئی آپ کے کسی دشمن کی خوبیاں بیان کرنا شروع کر دے تو آپ کو کتنی ناگواری ہوتی ہے، آپ تو اس کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے، پھر اللہ تعالیٰ جل شانہ کے اتنے بڑے دشمنوں اور باغیوں کی غیر اختیاری خوبیوں کو دیکھ کر اگر آپ متأثر ہو جاتے ہیں تو یہ اس کی دلیل ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ جل شانہ کے دشمنوں سے محبت ہے، پھر انجام بھی اللہ تعالیٰ جل شانہ کے دشمنوں کے ساتھ ہی ہو گا۔ حدیث شریف میں ہے :المرء مع من احب: انسان کا حشر اُس کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ اس نے دنیا میں محبت کی۔ 

لہٰذا کسی میں کوئی خوبی نظر آئے تو یہ دیکھیں کہ یہ شخص مسلمان اور دین دار ہے یا نہیں، اگر مسلمان ہے اور دین دار ہے تو سب کچھ ہے۔ 

اپنی اصلاح کیسی کریں؟

اوّلاً: یہ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کو جن کے ساتھ محبت ہے ہمیں بھی انہی کے ساتھ محبت ہو، اور اللہ تعالیٰ شانہ کے نزدیک جو مبغوض ہیں ہمارے نزدیک بھی وہ مبغوض ہو۔ 

دوسرا علاج: یہ کہ اگر غیر اختیاری طور پر ان کی کوئی خوبی سامنے آئے یا کوئی آپ کے سامنے بیان کر لے تو اس کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے بتکلف یوں رَد کر کرنے کی کوشش کیا کریں کہ: 

جو لوگ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے باغی ہوتے ہیں ان میں کوئی کمال ہو ہی نہیں سکتا، کسی کا ظاہر اچھا ہونے سے ضروری نہیں کہ اس کا باطن بھی اچھا ہو۔ سانپ کا ظاہر کتنا اچھا اور خوبصورت ہوتا ہے لیکن اندر زہر بھرا ہوتا ہے۔

آپ کفر کی جتنی برائیاں بیان کریں گے اتنی ہی کفر سے نفرت بڑھے گی اور جتنی کفر سے نفرت بڑھے گی اتنی ہی اسلام سے محبت بڑھے گی۔ 

اگر آپ بتکلّف اُن کی برائیاں سوچنے اور بیان کرنے کی بجائے اُن کی خوبیوں کو سوچیں گے یا سنیں گے یا کسی کو بتائیں گے تو ان سے محبت بڑھے گی جو بالآخر کفر تک لے جائے گی۔ 

خلاصہ یہ کہ: فساق و فجار سے خوش مزاجی سے پیش آنا یا محبت کرنا اور دوستانہ تعلق رکھنا تو درکنار ۔۔۔۔ ان کے فسق و کفر سے نفرت ظاہر کرنا فرض ہے اور ان کے فسق و کفر کے مٹانے کی ادنیٰ سی کوشش سے بھی غفلت کرنا، یعنی دل میں ان کے مٹانے کا پختہ عزم نہ رکھنا بہت بڑا جرم اور اللہ تعالیٰ جل شانہ کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ 

بنی اسرائیل پر :نهمي عن المنکر: ترک کرنے کی وجہ سے یہ عذاب آیا کہ انہیں بندر اور خنزیر بنا دیا گیا تھا۔ اسی طرح حضور اقدسﷺ نے فرمایا:

اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میری اُمت کے بہت سے لوگ اپنی قبروں سے بندر اور خنزیر کی صورت میں نکلیں گے، اس وجہ سے کہ انہوں نے گناہ کرنے والوں کے ساتھ مداہنت سے کام لیا اور قدرت ہونے کے باوجود انہیں گناہوں سے نہیں روکا۔

(3) ارشاد باری تعالیٰ ہے :واتقوا فتنة لا تصيبن الذين ظلموا منكم خاصة: اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرو جو دنیا میں پھیل جانے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ جل شانہ نے حضرت جبرائیلؑ کو حکم دیا کہ فلاں فلاں شہر کو اُن کے رہنے والوں پر الٹ دو۔

حضرت جبرائیلؑ نے کہا: اے رب! ان لوگوں میں تیرا ایک فلاں بندہ ایسا ہے جس نے پلک جھپکنے بھر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔

اللہ تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہوا: اس پر بھی اور دوسرے لوگوں پر بھی اس شہر کو الٹ دو۔ اس لئے کہ لوگوں کے گناہ دیکھ کر میری خاطر کبھی بھی اس کے چہرے پر بل نہیں پڑا۔ 

میرے محترم دوستو!

اتنا بڑا عابد جو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ جل شانہ کی عبادت میں مشغول رہتا تھا اور ذرا سی دیر کے لئے بھی اس نے اللہ تعالیٰ جل شانہ کی کوئی نافرمانی نہیں کی لیکن چونکہ اسے لوگوں کے گناہ دیکھ کر ذرا بھی رنج و غم نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی اس نے بُرائیوں کو مٹانے کی سب سے آخری کوشش یعنی دل میں مٹانے کا عزم کیا، جس کا ظہور گناہوں کو دیکھ کر بیزاری کا اظہار کرنے سے ہوتا ہے، اس لئے اس کی عبادت اور ریاضت اسے اللہ تعالیٰ جل شانہ کے عذاب سے نہ بچا سکی۔ 

(4) حضور اقدسﷺ نے فرمایا: اگر کسی قوم کا کوئی فرد گناہ کرتا ہو اور اس قوم کے دوسرے افراد اس کو روکنے کی قدرت بھی رکھتے ہوں اس کے باوجود اسے گناہوں سے نہیں روکتے تو اللہ تعالیٰ جل شانہ اُن کے مرنے سے پہلے ان پر عذاب بھیج دے گا۔ 

(احسن الفتاوىٰ جلد 9، صفحہ 103)