کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی 40 سال کی عمر تک تین بیٹیوں کی پیدائش، شادی اور طلاق ہوئی؟؟
نقیہ کاظمیکیا رسولﷺ کی 40 سال کی عمر تک تین بیٹیوں کی پیدائش، شادی اور طلاق ہوئی؟؟
عرصہ دراز سے سوشل میڈیا پر ایک پُر فریب کلپ وائرل ہے جس میں شیعہ ذاکر آصف علوی غلط حساب لگا کر رسولﷺ کی تین بیٹیوں کا انکار کرتے ہوئے کہتا ہے:
جب نبیﷺ کی شادی ہوئی تو اس وقت نبیﷺ کی عمر مبارک 25 تھی۔ شیعہ سنی تمام نے لکھا 25 سال کی عمر میں نبیﷺ کی شادی ہوئی۔ اب جنہوں نے چار بیٹیاں لکھی انہوں نے کہا نبیﷺ نبی بنے تھے 40 سال کے بعد، 29 سال کی عمر تک نبیﷺ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی ہے شیعوں نے بھی لکھا اور سُنی سیرت نگاروں نے بھی لکھا۔ پہلا بیٹا پیدا ہوا چار سال کے بعد عمر مبارک تھی 29 سال بیٹے کا نام تھا قاسم جس کی وجہ سے مشہور ہوئے ابوالقاسم۔ اب جس نے لکھی چار بیٹیاں اب اس نے لکھا، ابن خلدون سے شبلی نعمانی شبلی نعمانی سے لیکر ڈاکٹر طاہر القادری تک سب نے لکھا اعلان نبوت سے 5 سال پہلے معاذاللہ ثم معاذاللہ نقل کفر کفر نہ باشد نبیﷺ نے اپنی 3 بیٹیوں کا عقد مشرکوں سے کیا تھا اب یہ سُنی تاریخ ہے عتبہ،عتیبہ، ابوالعاصؓ، اب بچے پوچھتے ہیں کہ نبیﷺ کی بیٹیاں اور مشرک کے گھر ؟ تو مولوی کہتا ہے کیونکہ وہ اس وقت نبی نہیں بنے تھے نبی بنے 40 سال بعد اس لیے 40 سال سے پہلے ہی شادی کر دی تھی ۔اب 25 سال کی عمر میں شادی اور 40 سال کی عمر میں نبی۔ انہوں نے کہا اعلان نبوت سے 5 سال پہلے شادیاں کر دی تھیں 25 اور 40 سال کے درمیان بچتے ہیں 15 سال 4 سال تک کوئی اولاد نہیں 15 میں سے 4 نکالے تو سال بچ گئے 11، اعلانِ نبوت سے 5 سال پہلے شادیاں کرا دیں تو 11 میں سے 5 نکال دو تو 6 سال بچ گئے۔ کس بےغیرت مذہب میں ہے 6 سال میں 3 بیٹیاں پیدا بھی ہوگئیں جوان بھی ہو گئیں اور شادیاں بھی ہو گئی؟
لیجیئے یہ تھی اس کی تحقیق.
آئیے اب اسے علم کے میدان میں کھڑا کر کے اس کی تحقیق کی حقیقت اسی کے مذہب کی معتبر ترین کتاب سے دکھاتے ہیں!
پہلا جھوٹ:
قارئین کرام..! شیعہ ذاکر کا یہ کہنا (ابن خلدون سے شبلی نعمانی شبلی نعمانی سے لیکر ڈاکٹر طاہر القادری تک سب نے لکھا اعلان نبوت سے 5 سال پہلے معاذاللہ ثم معاذاللہ نقل کفر کفر نہ باشد نبیﷺ نے اپنی 3 بیٹیوں کا عقد مشرکوں سے کیا تھا اب یہ سنی تاریخ ہے عتبہ، عتیبہ، ابوالعاص) سراسر جھوٹ ہے
ہم نے تاریخ ابن خلدون میں بہت تلاش و جستجو کے باوجود یہ بات کہیں نہیں پائی کہ ان صاحبزادیوں کا نکاح اعلان نبوت سے 5 سال پہلے ہوا بلکہ پوری کتاب میں عتبہ اور عتیبہ کے نکاح کا ذکر تک نہیں البتہ ایک جگہ عتبہ کا صرف اتنا ذکر آتا ہے۔
و من عقب أبي لهب ابنه عتبة صحابي
تاریخ ابن خلدون (جلد 2 ص 393 ناشر بیروت)
کہ ابولہب کی نسل میں سے اس کا بیٹا عتبہ صحابی ہے۔ لیکن ان دونوں بھائیوں کے شادی کا تذکرہ تاریخ ابن خلدون میں تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملا لہٰذا یہ شیعہ کا جھوٹ نمبر ایک ہے۔
دوسرا جھوٹ
شیعہ ذاکر کا یہ کہنا کہ شبلی نعمانی نے بھی یہی بات لکھی ہے یہ جھوٹ نمبر دو ہے۔ ہم نے شبلی نعمانی کی کتاب سیرۃ النبیﷺ میں جب اس حوالے کی تحقیق کی تو ہمیں اس کے خلاف بات نظر آئی وہ یہ کہ شبلی نعمانی صرف اتنا بتا رہے ہیں کہ رقیہؓ اور ام کلثومؓ کا نکاح ابوجہل کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے نبوت سے پہلے ہوا لہٰذا اس میں 5 سال کا لفظ شیعہ نے اپنی فیکٹری سے بنایا ہے
اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں
(سیدہ رقیہؓ) مشہور روایت یہ ہے کہ حضرت زینبؓ کے تقریباً 3 سال بعد یعنی بعثت سے 7 سال پہلے پیدا ہوئیں جب رسولﷺ کی عمر مبارک 33 سال تھی پہلے ابولہب کے بیٹے عتبہ سے شادی ہوئی۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ یہ شادی قبل نبوت ہوئی تھی، آنحضرتﷺ کی دوسری صاحبزادی ام کلثومؓ کی شادی بھی ابولہب کے دوسرے لڑکے عتیبہ سے ہوئی تھی جب آنحضرتﷺ کی بعثت ہوئی اور آپﷺ نے دعوت اسلام کا اظہار کیا تو ابولہب نے بیٹوں کو جمع کر کے کہا" اگر تم محمد کی بیٹیوں سے علیحدگی اختیار نہیں کرتے تو تمہارے ساتھ میرا سونا بیٹھنا حرام ہے۔ دونوں فرزندوں نے باپ کے حکم کی تعمیل کی۔
(سیرت النبیؐ شبلی نعمانی: صفحہ 436)
شیعہ اپنی اس تقریر (کس بے غیرت مذہب میں ہے کہ 6 سال میں 3 بیٹیاں پیدا بھی ہو گئیں جوان بھی ہوگئیں اور شادیاں بھی ہو گئی؟) سے یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ سنیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اس 6 سال کے عرصہ کے دوران صاحبزادیاں جوان بھی ہو گئیں اور ان کی شادی بھی ہوگئی حالانکہ ان مذکورہ کتابوں میں سے کسی بھی کتاب میں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ وہ صاحبزادیاں جوان ہوگئیں اور ان کی جوانی کی حالت میں شادی ہوگئی اور رخصتی بھی ہوگئی یہ سراسر دھوکہ اور شیعہ کا جھوٹ ہے۔
درحقیقت اعلانِ نبوت سے کچھ عرصہ قبل نکاح ہوا تھا جب سیدہ زینبؓ کی عمر 10 سال تقریباً اور سیدہ رقیہؓ و سیدہ ام کلثومؓ کی عمر بالترتیب 7 اور 6 سال تھی۔ اور سیدہ رقیہؓ اور ام کلثومؓ کو طلاق اعلانِ نبوت کے 3 سال بعد ہوئی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا 13 سال کے دوران تین بچیوں کا پیدا ہونا محال ہے ہر عاقل کہے گا ہرگز نہیں۔ کیا بچپن میں کم عمر ہونے کی حالت میں صرف نکاح کا ہونا محال ہے؟ تو شیعہ سنی مذہب کو جاننے والا ہر شخص کہے گا کہ ہرگز محال نہیں بلکہ ممکن ہے۔ کیونکہ شیعہ سنی مذہب میں وضاحت موجود ہے کہ چھوٹی بچی کا نکاح جائز ہے اس کی دلیل سیدہ عائشہؓ کا نکاح ہے وہ اس طرح کہ رسول اللہﷺ نے سیدہ عائشہؓ کے ساتھ 6 سال کی عمر میں نکاح کیا جیسے کہ سنی شیعہ کتب سے ظاہر ہے۔
ملا حظہ فرمائیں:
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: تزوجنى النبيﷺ وأنا بنت ست سنين (صحیح البخاری رقم الحدیث 3894)
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میری عمر 6 سال کی تھی کہ نبیﷺ سے میرا نکاح ہوا۔
اب آئیے اس کے ریاضی کے حساب کا جائزہ شیعہ مذہب کے مطابق ہی لیتے ہیں
شیعہ مذہب کی سب سے معتبر کتاب اصول کافی میں دیکھیں لکھا ہے:
وتزوج خديجة وهو ابن بضع وعشرين سنة، فولد له منها قبل مبعثه عليه السلام القاسم، ورقية، وزينب، وأم كلثوم (الكافي: 1/487)
ترجمہ: نبیﷺ نے خدیجہؓ سے نکاح کیا اس وقت آپ کی عمر 20 سال سے کچھ زیادہ تھی پھر خدیجہؓ سے آپﷺ کی جو اولاد بعثت (اعلانِ نبوت) سے پہلے پیدا ہوئی وہ قاسم، رقیہؓ، زینبؓ اور ام کلثومؓ ہیں۔
اس روایت سے، جو اس کتاب میں ہے جسے شیعہ کے امامِ غائب نے اپنے شیعوں کیلئے کافی ہونے کی سند
(ھذا کاف لشیعتنا)
دی ہے، اس ذاکر کے چند جھوٹ واضح ہوتے ہیں۔
پہلا جھوٹ:
شیعہ کی اس معتبر ترین کتاب کی اس روایت سے اس شیعہ ذاکر کی ایک تحقیق تو غلط ہو گئی کہ رسولﷺ کی شادی کے وقت عمر 25 سال نہیں بلکہ 20 سال سے کچھ زیادہ تھی۔یعنی کہ اس ذاکر نے کبھی اپنی ہی کتبِ معتبرہ پڑھنے کی بھی کوشش نہ کی۔
ایک لطیفہ:
اِسی روایت میں آپ کو نبیﷺ کی اولاد جو آپﷺ کی عمر 40 سال ہونے سے پہلے ہوئی اس کے نام بھی مل جائیں گے یعنی شیعہ مذہب میں بھی چار بناتِ رسولﷺ کا ہونا مسلمات میں سے ہے۔ آگے غیرت بیغیرتی خود معلوم ہو جاتی کہ کس کی ہے۔
دوسرا جھوٹ:
قاسم کی ولادت شادی کے 4 سال بعد نہیں بلکہ چوتھے سال ہوئی۔ یعنی شیعہ پہلے کہہ رہا ہے کہ 29 سال کے بعد قاسم کی ولادت ہوئی وہ درست نہیں بلکہ جب نبیﷺ کی عمر مبارک 29 سال تھی تو آپ کو اللّٰہ نے پہلی اولاد سے نوازا۔
تیسرا جھوٹ:
شیعہ ذاکر کا کہنا کہ "جنہوں نے کہا نبی کی چار بیٹیاں تھیں انہوں نے کہا نبیﷺ نبی بنے چالیس سال بعد" یعنی شیعہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ اہلسنّت کے ہاں نبی نبیﷺ بنے 40 سال کے بعد جب کہ شیعہ کے ہاں نبی پیدائشی نبی ہوتا ہے یہ بھی اس ذاکر کی جہالت کا ایک ثبوت ہے۔ تمام اہلسنّت کا عقیدہ ہے انبیاء کرام پیدائشی نبی ہوتے ہیں۔ یہ اہلسنّت پر بہتان لگا رہا ہے
اہلسنّت کے عقیدہ کے مطابق 40 سال کی عمر میں بعثت ہوئی یعنی آپﷺ پر نزولِ وحی کا آغاز اور آپﷺ نے تبلیغ کا آغاز 40 سال کی عمر میں کیا
مسند الإمام أحمد بن حنبل - جلد 34 صفحہ 202،
مجموعہ فتاوٰی ابن تيميہ جلد 8 صفحہ 283 )
اوپر والی روایت کو غور سے دیکھیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ قبل مبعثه کے الفاظ یقینی طور پر اس ذاکر کا منہ چڑا رہے ہوں گے کہ شیعہ مذہب کی اساس اور بنیادی کتاب اصولِ کافی میں بھی نبی پاکﷺ کی بعثت ہونے سے قبل کا ذکر ہے۔ اس کا صاف اور واضح مطلب یہی ہے کہ شیعہ کے ہاں بھی نبی پاکﷺ کی بعثت 40 سال کی عمر میں ہوئی۔
یہ تو شیعہ مذہب کی ایک روایت سے اس ذاکر کی علمیت کا بھانڈا پھوٹ گیا۔
آئیے اب اس مسئلے کا اور اس ذاکر کے بیان کے دیگر پہلوؤں کا ہم اہلسنت اور اہلِ تشیع کی کتبِ معتبرہ سے تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔ تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ شیعہ ذاکر جو کہہ رہا تھا کہ سر پہ قرآن رکھیں اور صحن بیت اللہ میں آئیں ہم اس سے علمی بات کرنے کو تیار ہیں۔ آئے ذرا علمی میدان میں!!!
سیدہ زینبؓ کی ولادت و نکاح کی تحقیق
ولادت: جب رسول اللہﷺ کی عمر مبارک 30 سال تھی۔
نکاح: اعلان نبوت سے پہلے۔
چونکہ سیدہ زینبؓ کی ولادت شادی کے پانچویں سال ہوئی تو اعلان نبوت کے وقت سیدہ زینبؓ کی عمر 10 سال تھی اور نکاح بھی تقریبا اسی عمر میں ہوا۔
اہلسنت کتب:
البدایہ و النہایہ جلد 3 صفحہ 311
سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 651:652
شیعہ کتب:
تاریخ الخمیس جلد 1 صفحہ 273
ذخائر العقبیٰ صفحہ 57
سیدہ رقیہؓ و سیدہ ام کلثومؓ کی ولادت و نکاح کی تحقیق
ولادت : سیدہ رقیہؓ جب رسولﷺ کی عمر مبارک 33 سال تھی تب پیدا ہوئیں (زرقانی جلد 3) یعنی رسول اللہﷺ کی شادی کے آٹھویں سال اور سیدہ ام کلثومؓ جب رسولﷺ کیعمرمبارک 34 سال تھی تب پیدا ہوئیں یعنی شادی کے نویں سال۔
نکاح: دونوں کے نکاح بچپن ہی سے رسولﷺ نے ابولہب کے بیٹوں عتبہ و عتیبہ سے کر دیے تھے اور رخصتی نہ ہوئی تھی۔
(محققین کے نزدیک یہ نکاح موجودہ مروجہ نکاح نہیں تھے بلکہ صرف نسبت طے کی گئی تھی کہ یہ نکاح ہوں گے)
وضاحت: اس کم سنی کے نکاح کی وجہ یہ تھی کہ جب سیدہ زینبؓ کا نکاح بنو امیہ میں ہوا تو بنو ہاشم کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں دوسری بیٹیوں کا رشتہ بھی خاندان سے باہر نہ ہو جائے لہٰذا سیدہ زینبؓ کے نکاح کے کچھ عرصے بعد بنو عبدالمطلب کے کچھ اشخاص حضرت ابوطالب کو ساتھ لے کر نبی پاکﷺ کے پاس حاضر ہوئے۔ جناب ابوطالب نے بات شروع کی اور کہا: اے بھتیجے! آپ نے زینبؓ کا نکاح ابوالعاص سے کر دیا ہے، بے شک وہ اچھا داماد اور شریف انسان ہے مگر آپ کے عم زاد کہتے ہیں کہ جس طرح آپ پر خدیجہؓ کی بہن ہالہ کے بیٹے کا حق ہے اس طرح ہمارا بھی آپ پر حق ہے اور حسب نسب اور شرافت میں ہم بھی اس سے کم نہیں۔
آپﷺ نے فرمایا: اے چچا! قرابت داری اور رشتہ داری سے انکار نہیں مگر مجھے سوچنے کا موقع دیجیے۔آخر حضرت خدیجہؓ کے مشورے سے اور بیٹیوں کی رضامندی سے یہ نکاح ہو گئے۔
جب رسول اللہﷺ نے اعلانیہ دعوت و تبلیغ شروع کی اور ابولہب اور ام جمیل کی ایذا رسانیوں کی وجہ سے ان کی مذمت میں سورۃ لہب نازل ہوئی تو ابولہب کے کہنے پر اس کے دونوں بیٹوں نے سیدہ رقیہؓ و ام کلثومؓ کو رخصتی سے پہلے طلاق دے دی۔
اہلسنّت کتب:
طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 24
الاصابہ جلد 4 صفحہ 297
تفسیر قرطبی جلد 9، 14، صفحہ 242، 243
اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 612
البدایہ و النہایہ جلد 5 صفحہ 309
•شیعہ کتب :
الانوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 124، 367
تاریخ الخميس جلد 1 صفحہ 275
نبیﷺ کی بیٹیاں اور مشرکوں کے گھر میں؟
شیعہ ذاکر نے یہ کہہ کر سادہ لوح عوام کو زیادہ الجھن کا شکار کیا۔
آئیے ذرا اس کی تحقیق کرتے ہیں
1: حضورﷺ نے اپنی بیٹیوں کے نکاح کے وقت اس بات کا کوئی خیال نہ کیا کہ اپنی بیٹیاں کافروں یا منافقوں کے نکاح میں دے دی جائیں اس لیے عتبہ، عتیبہ پسران ابولہب اور ابوالعاص بن الربیع کو اپنی بیٹیاں بیاہ دیں۔
ازاں باشد کہ حق تعالیٰ حرام گرداند دختراں دادن بکافراں باتفاق مخالفاں حضرت زینبؓ رابابوالعاص تزویج نمود در مکہ وقتے کہ او کافر بودد ہم چنیں رقیہؓ و ام کلثومؓ بنابرمیان مخالفان بعتبہ وعتیبہ کہ پسران ابولہب بودند کافر بودند تزویج نمود بود
ترجمہ: اس سے پہلے کہ کافروں کو لڑکی کا رشتہ دینا حرام قرار دیا گیا مکہ میں حضورﷺ نے زینبؓ کا نکاح ابو العاصؓ بن الربیع سے کیا جب کہ وہ کافر مشہور تھا اور رقیہؓ اور ام کلثومؓ کا نکاح ابو لہب کے بیٹوں سے کیا جب کہ کافروں سے لڑکی لینا دینا حرام نہیں کیا گیا تھا۔
(حیات القلوب ج2، ص 718)
دوسری جگہ:
ومشہور آنست کہ دختران آ نحضرت چہار نفر بودند وہمہ از حضرت خدیجہؓ بوجود آمدند اول زینبؓ و حضرت ﷺ پیش از بعثت وحرام شدن دختر بکافراں دادن او را بابی العاص بن الربیع تزویج نمود
ترجمہ: مشہور مذہب یہی ہے کہ حضرت محمدﷺ کی چار بیٹیاں تھیں اور چاروں خدیجہؓ کے بطن سے تھیں؛ اول زینبؓ جن کا نکاح نبی ﷺ نے اس وقت کیا جب کافر کو لڑکی دینا حرام قرار نہیں دیا گیا تھا۔
(حیات القلوب: ج2، ص 719)
رہی یہ بات کہ اب بچے پوچھتے ہیں کہ نبی کی بیٹیاں اور مشرک کے گھر ؟ تو مولوی کہتا ہے کیونکہ وہ اس وقت نبی نہیں بنے تھے نبی بنے 40 سال بعد اس لیے چالیس سال سے پہلے ہی شادی کر دی تھی تو شیعہ کا مولوی کی طرف سے یہ کمزور جواب نقل کرنا محض اپنا الو سیدھا کرنا ہے ورنہ مولوی کو ایسے جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مولوی یعنی اہلِ سنت عالم کا جواب یہ ہوگا کہ آپﷺ نے جو اپنی بیٹیاں کافروں کے نکاح میں دی تھیں یہ اس لیے کہ اس وقت تک آپﷺ پر یہ حکم نازل نہیں ہوا تھا
وَلَا تُنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُواْ ۚ (سورۃ البقرہ: آیت221)
{ترجمہ:اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں}
یہاں اس حکم کے نازل ہونے سے پہلے ہی ابولہب کے بیٹوں نے تو آپﷺ کی بیٹیوں کو رخصتی سے پہلے ہی طلاق دے دی تھی لیکن جب حکم آ گیا تو آپﷺ نے ابوالعاصؓ اور زینبؓ کے درمیان علیحدگی کروا دی تھی۔ دونوں میاں بیوی میں شدید محبت تھی اس کے باوجود سیدہ زینبؓ اور ابوالعاصؓ کو تقریباً چھ سال جدا رہنا پڑا۔ بعد ازاں 7 ہجری میں جب ابوالعاصؓ نے اسلام قبول کیا تو نبی پاک ﷺ نے ان دونوں کا دوبارہ نکاح پڑھوایا۔ دوبارہ نکاح کے قلیل عرصہ بعد سیدہ زینبؓ کی وفات ہو گئی اور ان کے شوہر ابوالعاصؓ نے زندگی بھر دوبارہ نکاح نہ کیا۔
ثبوت ملا حظہ فرمائیں
اگر چہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ رسولﷺ زمانہ جاہلیت میں بھی اللہ پاک کے پسندیدہ دین پر تھے لیکن آنحضرتﷺ کو تمام احکام شرعیہ اکٹھے نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ اللہ کے رسول پر جب بھی کوئی حکم شرعی نازل ہوتا تو آپ اس پر عمل کرتے جاتے اپنی طرف سے کوئی حکم شرعی نہیں بناتے تھے۔ اور زینبؓ و رقیہؓ کی شادی کے وقت ایمان میں کفائت کی شرط شرعاً نہیں لگائی گئی تھی اس لیے اللہ کے رسول نے ان دونوں کا نکاح دونوں آدمیوں سے شرعاً صحیح کیا۔ پھر جب اللہ پاک نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی (جس کا ترجمہ یہ ہے کہ) اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیںتو رسول اللہﷺ نے ابوالعاص اور زینبؓ کے درمیان علیحدگی کر دی ۔ اگر اسلام میں اس سے پہلے کفائت شرط ہوتی تو اللہ پاک یہ آیت نازل نہ کرتے لہذا ابوالقاسم کوفی نے جو وجہ بیان کی وہ وجہ، وجہ ہی نہیں ہے۔
شیعہ کتاب تنقیح المقال ج ۳ ص ۰ ۷۹)
اور جہاں تک تعلق ہے اس بات کا ( جس نے لکھی چار بیٹیاں اب اس نے لکھا۔ {معاذ اللہ ثم معاذ اللہ نقل کفر کفر نہ باشد} نبیﷺ نے اپنی تین بیٹیوں کا عقد تین مشرکوں سے کیا تھا اب یہ سنی تاریخ ہے عتبہ، عتیبہ، ابوالعاص) تو یہ شیعہ ذاکر کی غلط بیانی ہے کیونکہ جس طرح سنیوں نے یہ بات ( نبی نے اپنی تین بیٹیوں کا عقد تین مشرکوں سے کیا تھا) لکھی ہے تو اسی طرح شیعہ نے بھی یہی بات لکھی جیسے کہ ابھی ابھی مامقانی کے حوالے سے گزرا ۔ اب اگر یہ بات کفر ہے تو سب سے پہلے شیعہ کو اپنے رجال کے امام عبداللہ مامقانی کی تکفیر کرنی پڑے گی۔ اگر اس کو کافر نہیں کہہ سکتے ہو تو اہلسنّت پر یہ الزام ([نقل کفر کفر نہ باشد] نبی نے اپنی تین بیٹیوں کا عقد 3 مشرکوں سے کیا تھا) کیوں لگاتے ہو۔
تین بیٹیوں کا انکار سب سے پہلے کس بدبخت نے کیا
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنات رسولﷺ سے انکار کا شوشہ سب سے پہلے کس خبیث نے چھوڑا؟؟؟
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلا رافضی جس نے بنات رسول کے حقیقی ہونے کا انکار کیا وہ ابوالقاسم کوفی تھا جو 352 ہجری میں مرا. اس نے اپنی کتاب
"الاستغاثہ فی بدع الثلاثہ"
میں یہ لغو نظریہ پیش کیا کہ سیدہ زینب ،سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہن حضورﷺ کے حقیقی بیٹیاں نہیں تھیں بلکہ "ربیبہ" تھیں۔
مشہور شیعہ علامہ عبداللہ نے تنقیح المقال صفحہ79 پر ابوالقاسم کوفی کے اس باطل قول کی اچھی طرح تردید کرتے ہوئے لکھا ہے:
ابوالقاسم کوفی نامی رافضی کا "الاستغاثۃ فی بدع الثلاثہ" نامی کتاب میں یہ قول کہ زینب، کلثوم، رقیہ بیٹیاں نہیں تھیں "قول بلا دلیل"ہے محض اپنی اجتہادی رائے ہے جس کی نصوص کے مقابلے میں حیثیت مکڑی کے جالے کے برابر بھی نہیں۔ کتب فریقین میں حضور کی چار بیٹیوں پر نصوص موجود ہیں اور شیعوں کے پاس اپنے ائمہ کے اقوال موجود ہیں کہ رسول خدا کی بیٹیاں چار تھیں
اکثر علمائے شیعہ نے نہ صرف ابوالقاسم کوفی کی "ہفوات" پر تنقید کی ہے بلکہ اسے بے دین قرار دیا ہے۔
نتیجہ:
شیعہ ذاکر کوئی بھی بات کریں تو اس کو بغیر حوالہ درست نہ مانا جائے۔
جیسے اس علمی یتیم ذاکر نے ریاضی کے حساب لگائے مگر اپنے من گھڑت تاریخ پیدائش رکھی اور اپنی من گھڑت نکاح اور طلاق کی سن بتائیں اور پھر اپنی مرضی کے 6 سال نکالے جس میں نبیﷺ کی بیٹیوں کا انکار کر کے نبیﷺ کی توہین کی اور احادیث اور روایات کا انکار کیا۔
جیسا کہ آپ نے دیکھا سیدہ زینبؓ کا نکاح 10 سال کی عمر میں ہوا اور سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ کا نکاح بالترتیب 7 اور 6 سال کی عمر میں ہوا۔
اور اس عمر میں نکاح اس وقت کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی کہ نبی پاکﷺ کا سیدہ عائشہؓ سے نکاح 6 سال کی عمر میں ہوا اور سیدہ عائشہؓ کی رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی۔
نبی پاکﷺ کی عمر جب 30 سال تھی تو پہلی بیٹی پیدا ہوئی۔ سیدہ رقیہؓ اور ام کلثومؓ کی طلاق اعلانِ نبوت کے 3 سال بعد یعنی اعلانیہ تبلیغ شروع کرنے کے بعد ہوئی، جب نبی پاکﷺ کی عمر 43 سال تھی۔
اس طرح سیدہ زینبؓ کی پیدائش سے لے کر رقیہؓ اور ام کلثومؓ کی طلاق تک 13 سال کا عرصہ بنتا ہے۔ 13 کے عرصے میں 3 بچیوں کی پیدائش سے لے کر نکاح تک آرام سے ہو سکتے ہیں۔
ملتِ تشیع کو چیلنج ہے ہم اہلسنّت نے عمریں پوری کر دی ہیں اب اپنے آصف رضا علوی سے کہیں کہ اپنی جہالت کا اقرار کرے اور نبیﷺ کی 4 بیٹیاں مانے۔
ادارہ دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ