رافضی لوگ جہنمی ہیں، ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کرنا درست نہیں ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ رافضی لوگ جہنمی ہیں یا جنتی؟ چونکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ اور ہمارے مسلمان بھائیوں کے اندر اختلافات چل رہے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شیعہ جہنمی ہیں اور کچھ جنتی بتلاتے رہے ہیں۔ لہٰذا آپ ہمیں کتاب و سنت کی روشنی میں مدلل و تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔
جواب: آج کل عموماً جو شیعہ پائے جاتے ہیں: جنہیں شیعہ امامیہ اور اثناء عشریہ کہا جاتا ہے، وہ اپنے غلط عقائد و نظریات کی بنا پر دائرہ اسلام سے خارج ہیں، ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کرنا درست نہیں ہے۔
(1) یہ لوگ اپنے اماموں کو معصوم مان کر انہیں نبی کا درجہ دیتے ہیں ۔
(2) یہ لوگ تحریفِ قرآن کے قائل ہیں۔
(3) یہ لوگ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کافر و مرتد قرار دیتے ہیں (معاذ اللہ)۔
(4) یہ حضرات شیخینؓ پر تبراء بازی کرتے ہیں۔
(5) یہ لوگ متعہ کے نام سے درِ پردہ زنا کاری کو جائز کہتے ہیں۔ الغرض ان کے دین کا شریعتِ محمدیﷺ سے کوئی واسطہ نہیں ہے، ان کی اذان الگ ہے، ان کی نمازا الگ ہے، ان کی عبادت الگ ہے، ان کا حج الگ ہے، ان کی سب چیزیں الگ ہیں، ان کی کتابیں لچر عقائد اور جھوٹی احادیث سے بھری پڑی ہیں۔
(6) ایسے عقائد رکھنے والے فرقے یقیناً کافر ہیں اور جہنم کے مستحق ہیں۔ جیسا کہ حسبِ ذیل نصوص اور دلائل سے ان کے عقائد کی تردید ہوتی ہے۔
(1) الشيعة هم يجمعهم القول بوجوب التعيين والتنصيص وثبوت عصمة الانبياء والأئمة وجوباً عن الكبائر و الصغائر۔
(الملل والنحل: جلد، 2 صفحہ، 191)
الأمامية هم القاتلون بامامة علیؓ بعد النبيﷺ نصا طاهر او تعدنا صادقاً من غير تعريض بالوصف بمل اشارة اليه بالعين وقد عين عليا رضي الله عنه في مواضع تعريضا و في مواضع تصريحا ثم ان الامامية تخطت عن هذه الدرجة الى والوقيعة في كبار الصحابة طعناً وتكفيرا واقله ظلماً وعدواناً.
وقد شهدت النصوص القرآن على عدالتهم والرضاء عن جملتهم قال الله تعالى الترضي الله عن المؤمنين اليبايعونك تحت الشجرة
وقد قال النبيﷺ عشرة من اصحابي في الجنة ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ الخ فليتدبر النقل فان أكاذيب الروافض كثيرة وأحداث المحدثين كثيرة۔
(الملل والنحل: جلد، 2 صفحہ، 192)
(2) قال الله تعالى ذلک الکتب لا رلیب فیہ وقال الله تعالى انه لقول رسول كريم ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ:
عن معاوية بن قرة قال: قال رسول الله احسن ما اثنى علیک ربك )ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ فسا كانت قوتك و ما كانت أمانتك؟ قال وأما امانتى فلم أو مريشي ، فعدوته ألى غيره
(الدر المنثور للسيوطي جلد 6، صحفہ 530)
(3) عن ابي سيعد الخدري قال قال رسول الله لا تسبوا الحدا من اصحابی فان احدكم لو اتفق مثل أحد ذهباً ما ادرك مداحدهم ولا نصيفه:
عقائد اہلِ السنة والجماعة، صحفہ 178)
وقد شهدت المنصوص القرآن على عدالتهم والرضاء عن جملتهم قال الله تعالى لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ:
وقد قال المنبيع عشرة من اصحابي في الجنة ابو بكر و عمر و عثمان وعلى. الخ فليتدبر النقل فان أكاذيب الروافض كثيرة وأحداث المحدثين كثيرة:
(الملل والنحل جلد 2، صفحہ 192)
(4) الرافضي اذا كان يسب الشيخينؓ ويلعنهما ( والعياذ بالله ) فهو كافر:
(هنديه جلد 2، صفحہ 264)
عن حذيفة قال قال رسول الله اني لا ادرى ما بقاني فيكم فاقتدوا با الذين من وبعدى واشار الى ابي بكر و عمر:
(سنن الترمذى جلد 2، صفحہ 207)
قال الله تعالى لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ:
ومن هذه الآية انتزع الامام مالك في رواية عنه بتكفير الروافض الذين يبغضون الصحابة لانهم يبغضونهم ومن غاظ الصحابة فهو كافر لهذه الآية ووافقه طائفة من العلماء ذلك:
(تفسير ابنِ كثير جلد 4، صحفہ 314)
قال مالک بن انس من أصبح وفي قبليه غيظ على اصحاب رسول الله : فتد اصابته هذه الآية:
(تفسیر خازن: جلد 4، صحفہ 162)
(5) قال الله تعالى وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا:
(6) عن على قال قال رسول اللهﷺ و يظهر في آخر الزمان قوم يسمون الرافضة و يرفضون الاسلام
(مسند احمد جلد 1، صفحہ 103)
وهؤلاء القوم خارجون عن ملة الإسلام واحكامهم احكام المرتدين:
(هنديه جلد 2، صفحہ 264)
الرافضمى الكمان يسبب الشيخينؓ ويلعنهما و العياذ بالله فهو كافر ويجب اكفار الروافض بقولهم برجعة الأموات الى الدنيا و يتناسخ الأرواح وبانتقال روح الاله الى والائمة وبقولهم ان جبرئيل عليه السلام غلط في الوحى على محمدﷺ دون علی بن ابی وطالب وهؤلاء القوم خارجون عن ملة الإسلام و أحكامهم أحكام المرتدين:
(عالمگیری جلد 2، صفحہ 284)
(كتاب النوازل جلد 2، صفحہ 53)