Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

جنگ جمل و صفین میں صحابہ کرام کی تعداد

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

جنگ جمل وصفین کے حوالے سے ایک موقف جو مشہور ہوچکا ہے وہ یہ ہے کہ

خلیفہ راشد سیدنا علیؓ کے ساتھ اصحاب رسول کی بہت ہی قلیل تعداد تھی بلکہ دونوں جانب  اصحاب رسول کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔

یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اصحاب رسول کی بڑی تعداد اس معاملے سے لاتعلق رہی ، صحابہ  کی قلت تعداد سے کچھ حضرات نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ خلیفہ راشد اپنے اقدامات میں غلطی پر تھے۔ تعداد سے نتیجہ نکالنا تو یہ الگ بحث ہے لیکن کیا یہ تعداد واقعی اتنی قلیل تھی؟  تو یہ بات بھی خلاف تحقیق معلوم ہوتی ہے ۔

خلیفہ بن خیاط کہتے ہیں :

حدثنا أبو غسان قال : نا عبد السلام بن حرب عن يزيد بن عبد الرحمن عن جعفر أظنه ابن أبي المغيرة ـ عن عبدالله بن عبدالرحمن بن أبزى عن أبيه قال : شهدنا مع علي ثمان مائة ممن بايع بيعة الرضوان ، قتل منا ثلاثة وستون منهم عمار بن ياسر .

عبدالرحمن بن ابزیٰ کہتے ہیں: ہم بیعت رضوان میں شامل ٨٠٠افراد  علیؑ کے ساتھ شریک ہوئے، جن میں سے ٦٣قتل ہوئے انہی میں عمار بن یاسر تھے ۔

(تاریخ خلیفہ بن خیاط ص ١٩٦)

سند کی تحقیق

١-أبو غسان مالک بن اسماعیل

ان کے متعلق علما کے اقوال درج ذیل ہیں:

یعقوب بن شیبہ:كان ثقة متثبتا

یحیی بن معین :ليس بالكوفة أتقن من أبي غسان

نسائی:ثقة

ذہبی :حافظ حجة

(تاریخ ابن معین ص ٥٤٣،تھذیب التھذیب ج ١٠ص٢-٩،سیر أعلام النبلاءج١٠ص٤٤١)

٢-عبدالسلام بن حرب

یحیی بن معین:ثقة

ترمذی :ثقة حافظ

ذهبي:حافظ صدوق... وكان مسندا معمرا حافظا.

(تذكرة الحفاظ ج١ص٢٧١)

٣-یزید بن عبدالرحمن ابو خالد الدالانی

ابو حاتم الرازی :ثقة صدوق

نسائی:لیس به بأس

احمد بن حنبل :لا بأس به

ابن شاھین:لا بأس به

حاكم:الأئمة المتقدمين شهدوا له بالصدق والإتقان

ذھبی:حسن الحدیث

(تاریخ ابن معین روایة ابن محرز ح ٨٨٠، الثقات للعجلی ج٢ص٣٩٨ح ٢١٣٣،ط:الداد ،الثقات لابن شاھین ص٢٥٤ح١٥٥٦، تهذیب التھذیب ج١٢ص٨٢ المغنی فی الضعفاء للذھبی ج٢ص٧٥١ح٧١٢٢)

ان پر ابن حبانؒ کی سخت جرح معدل و متبحر علما کے مقابلے میں غیر مسموع میں ہے البتہ ابو خالد دالانی صدوق درجے کا راوی ہے اس کے اوھام بھی علماء نے ذکر کردیے ہیں۔

٤-جعفر بن ابي المغيرة

یحیی بن معین :لیس به بأس

احمد بن حنبل :ثقة

ابن شاهين : ثقة

(تهذيب التهذيب ج٢ص١٦٥)

٥-عبدالله بن عبدالرحمن بن أبزي

امام مزی کہتے ہیں:

"قال الأثرم: قلت لأحمد: سعيد، وعبد الله أخوان؟ قال: نعم. قلت: فأيهما أحب إليك؟ قال: كلاهما عندى حسن الحديث۔"

(تهذيب التهذيب ج ٥ص٤٩٠)

تحریر تقریب التھذیب کے محققین کہتے ہیں:

"بل: صدوقٌ حسن الحديث، فقد روى عنه جمعٌ، وذكره ابن حبان، وابن خلفون في "الثقات"، وقال أحمد: حسن الحديث."

(  تقریب التھذیب ج٢ ص ٢٣٠)

٦-عبدالرحمن بن أبزیؓ

یہ صحابی رسول ہیں ۔امام ذھبیؒ کہتے ہیں :

"له صحبة ، ورواية ، وفقه ، وعلم"

(سیر أعلام النبلاء ج٣ص٦٠٦)

الغرض اس روایت کا درجہ حسن سے  کم نہیں ہے، اس روایت سے واضح ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ صحابہ کی ایک بڑی جماعت شامل تھی اور یہ روایت امام ابن سیرین کی منقطع  روایت سے اوثق ہے چوں کہ یہ متصل اور جنگ میں شریک ہونے والے کا بیان ہے۔

خلیفة بن خياط  کہتے ہیں :

"قَالَ ونا أَبُو غَسَّان قَالَ نَا يَعْقُوب القمي عَن جَعْفَر أَبِي الْمُغيرَة عَن سعيد بْن جُبَير قَالَ كَانَ مَعَ عَلِيّ يَوْم الْجمل ثَمَان مائَة من الْأَنْصَار وَأَرْبع مائَة مِمَّن شهد بيعَة الرضْوَان."

"جمل کے دن سیدنا علی کے ساتھ آٹھ سو انصاری صحابہ تھے جن میں سے  چار سو بیعت رضوان میں شریک تھے ۔"

( تاریخ خلیفہ بن خیاط ص ١٨٤، وسندہ حسن)

امام سعید بن جبیرؒ جو کہ کبار تابعین میں سے ہیں ، اگرچہ انہوں نے امام محمد بن سیرینؒ(٣٣ھ -١١٠ھ)کی طرح واقعہ کا ادراک نہیں کیا لیکن یہ قول  پہلی روایت کی تائید میں،ذکر کیا گیا ہے ۔

لہذا امام محمد بن سیرینؒ کے قول سے زیادہ اصح قول یہ معلوم ہوتا ہے جن میں اصحاب کی ایک بڑی تعداد بتائی جاتی ہے اس تعداد میں کچھ کمی زیادتی ہوسکتی ہے لیکن صرف تیس تک قید کرنا غلط ھے ۔ ایسا ہی قول امام شعبیؒ (ثقہ تابعی) سے بھی مروی ہے۔ چنانچہ امام ابن ابی شیبہ کہتے ہیں:

"نا ابن علية - ثنا منصور بن عبد الرحمن قال : قال الشعبي : لم يشهد الجمل من أصحاب النبي ، صلى الله عليه وسلم ، غير علي ، وعمار ، وطلحة ، والزبير. "

"جمل میں اصحاب نبیﷺ میں سے کوئی شامل نہ تھا سوائے علیؓ ، عمارؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ کے۔"

(المصنف لابن ابی شیبة ح٣٧٧٨٢،أثر جید)

اس لیے جو لوگ تیس کی تعداد بتاتے ہیں وہ خود امام شعبیؒ کی تعداد سے متفق نہیں ہوسکتے!